پی ڈی ایم کی شکست و ریخت کی باتیں اس وقت پاکستان کے میڈیا پر سب سے من پسند موضوع ہیں۔ ابھی چند دن قبل ہی یوسف رضا گیلانی کی بطور سنیٹر منتخب ہونے کے بعد سرگوشیوں اور افواہوں کا رخ حکومت کی طرف ہوگیا تھا۔ سب نے اسٹیبلیشمنٹ کے غیرجانبدار کردار کے ثبوت کے طور پر ڈاکٹر عبدالحفيظ شیخ کی شکست کو پیش کیا اور یہ بات اکثر لوگ فراموش کر گئے کہ پاکستان کی طاقتور اشرافیہ اور اسٹیبلیشمنٹ اتنے سادہ چالیں نہیں چلتیں۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی شکست سے کئی مقاصد پورے کئے گئے اور ملفوف پیغامات طاقت کے مرکز سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو حسب حال پہنچا دیئے گئے ہیں۔ بین الاقوامی قوتوں اور مالیاتی اداروں کو پیغام دیا گیا کہ ضرورت سے زیادہ ٹائٹ کرنے کی ان خواہشات صرف اس صورت میں پوری ہوسکتی ہیں جب مالیاتی ڈسپلن لاگو کرنے کی بات سویلین اداروں تک محدود رہے ورنہ کسی کو بھی اسحاق ڈار بنانے میں کتنی ہی دیر لگتی ہے۔
یوسف رضا گیلانی کی فتح کی سرشاری ابھی جاری ہی تھی کہ پی ڈی ایم کی ٹوٹ پھوٹ کی باتیں چلنا شروع ہوگئیں۔ چئیرمین سینیٹ کے الیکشن میں جس طرح یوسف رضا گیلانی کو پڑنے والے ووٹ مسترد ہوئے اور بعد ازاں نون لیگ کی قیادت کی ایک ویڈیو کال لیک ہونے کی باتوں نے پیپلزپارٹی کی قیادت کو طیش دلایا جس کا اظہار لانگ مارچ کی منسوخی اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے سے انکار کی صورت میں سامنے آگیا۔ اس طرح یوسف رضا گیلانی کی فتح کے شادیانے بجانے والے حلقے محض چند دنوں بعد ہی آپس میں سر پھٹول کا شکار ہوگئے ہیں۔
اس تناظر میں یہ بحث شدومد سے جاری ہے کہ دراصل کس نے کس سے ہاتھ کیا۔ ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ بلند کرنے والے زرداری صاحب کی سیاسی چال کی داد دے رہے ہیں کہ کس طرح انہوں نے میاں صاحب کی واپسی اور اجتماعی جیل بھرو تحریک کی بات کر کے نہ صرف اپنی سندھ حکومت بچا لی بلکہ طاقت ور طبقوں کے نزدیک بھی معتبر ٹھہرے۔ دوسری طرف میاں صاحب کی حامی اس ساری صورتحال کو نون لیگ کی فتح قرار دے رہے ہیں کہ اسٹیبلیشمنٹ اور پیپلزپارٹی کی بڑھتی ہوئی قربتوں کے نتیجے میں جو نقب زرداری صاحب خاموشی سے مرکز اور پنجاب میں لگانا چاہتے تھے اسے نون لیگ نے ناکام بنا دیا۔ وقتی طور پر پی ڈی ایم اس ساری ٹینشن میں عضو معطل بن کر رہ گئی ہے مگر نون لیگ کا خیال ہے کہ اپوزیشن کو بہرحال اس پلیٹ فارم کی ضرورت رہے گی اور سیاسی جماعتیں گھوم کر واپس مولانا فضل الرحمن کے دروازے پر دستک دیں گی۔
سیاسی تبصرے تو اس حوالے سے بہت سے ہو رہے ہیں مگر بین الاقوامی سیاست اور خطے کی صورتحال کے تناظر میں پاکستان میں ہونے والے ان سیاسی فیصلوں کے نتائج و عواقب پر کوئی خاص گفتگو نہیں ہو رہی۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ کے جانے کے بعد نئی انتظامیہ تشکیل پا چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ افغانستان’ انڈیا’ چین اور ایران کے حوالے سے پاکستان کا کردار ایک لازمی طور پر زیربحث آنے والا موضوع ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ اس کے اہم عہدیداروں تک پیپلزپارٹی کی حمایتی لابی کی رسائی ہے۔ میاں نواز شریف بھی ان بدلتے ہوئے حالات کا بغور مطالعہ کرتے ہوئے اپنے راستے کا انتخاب کر رہے ہیں۔ یہ خبر تو اب پرانی ہوچکی ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ میاں صاحب کے تعلقات ایک بار پھر خوشگوار ہوچکے ہیں۔ سعودی عرب نے جس طرح میاں نواز شریف کو پانامہ تحقیقات کے دنوں میں ٹف ٹائم دیا تھا اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کی حکومت بنانے کے لئے جو کردار ادا کیا گیا تھا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ مگر عمران خان کی کچن کیبنٹ اور ایرانی حکومت سے ان کے روابط کے ساتھ ساتھ ترکی’ ملائشیا اور کشمیر کے ایشوز پر سعودی عرب اور عمران خان میں ٹھن گئی ہے جسے دوبارہ سے نارملائز کرنے میں وقت لگے گا۔ عمران خان کی طرف سے پے درپے پے مایوس ہونے کے بعد سعودی پاکستان میں عمران مخالف سیاسی جماعتوں کی طرف نظر التفات کر ہی رہے تھے کہ امریکہ میں صدر ٹرمپ انتخاب ہار گئے۔ یہ سعودی عرب کی جواں سالہ قیادت کے لئے ایک سیٹ بیک تھا۔ ٹرمپ پر سعودی حکومت نے خاطر خواہ سرمایہ کاری کر رکھی تھی اور اس سرمایہ کاری کے ڈوبنے کا تصور بھی سعودی حکومت کے لئے ایک خوش گوار نہیں تھا۔ اس صورتحال میں خطے میں موجود چیلنجز سے نمٹنے کے لئے سعودیوں کو ایک بار پھر اپنے روایتی حلیف یعنی پاکستان کی ضرورت ہے مگر مشکل یہ ہے کہ یہاں اپنی مرضی میں مست و خوش رہنے والے عمران خان صاحب براجمان ہیں۔
عمران خان نے پی ڈی ایم کے ملک بھر میں منعقد ہونے والے جلسوں کے دوران ہی یہ کہہ دیا تھا کہ ان کی حکومت کا غیر مستحکم کرنے کے لئے بعض بیرونی قوتیں بھی سرگرم عمل ہیں۔ واقفان حال یہ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کا اشارہ سعودی عرب اور اس کے حلیف ممالک کی پی ڈی ایم کی قیادت سے قربت کی طرف تھا۔ مولانا فضل الرحمن اس وقت پاکستان میں سعودی سفارتخانے کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ہمنوا ان مشیران و وزراء سے جان چھڑانے کا تیربہدف نسخہ مولانا فضل الرحمن کے پاس ہی ہے جن سے سعودی اب چڑنے لگے ہیں۔ سعودی نائب وزیر دفاع اور ولی عہد محمد بن سلمان کے چھوٹے بھائی کے نواز شریف سے لندن میں رابطوں کی کہانیاں بھی گردش میں ہیں۔ ہوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان بالکل اسی سیاسی پوزیشن پر جا کھڑے ہوئے ہیں جہاں پانامہ اسکینڈل کے دنوں میں میاں صاحب کھڑے تھے۔ سی پیک منصوبے کے نشے میں مست میاں صاحب کو اس وقت ہر طرف چین کا ابھرتا ہوا عالمی کردار نظر آ رہا تھا۔ امریکی ان دنوں ٹرمپ کی وجہ سے منتشر خیالی کا شکار لگتے تھے۔ یمن کے مسئلے پر سعودی پوری طرح میاں صاحب سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ سب نے مل کر زور لگایا اور میاں صاحب کو چلتا کر دیا۔ آج عمران خان کو چین اور سی پیک کی یاد ستانے لگی ہے۔ سعودیوں کے ساتھ خان صاحب الجھ چکے ہیں اور میاں صاحب دوبارہ اپنے تعلقات استوار کرچکے ہیں۔
چئیرمین سینیٹ کے انتخابات کے دنوں میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر حلیف جماعت جمیعیت اھل حدیث کے سنیٹر حافظ عبد الکریم کی پریس کانفرنس بھی بہت معنی خیز ڈیویلپمنٹ تھی۔ حافظ عبد الکریم سعودی عرب سے پڑھے ہوئے ہیں اور سعودی حکومت کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے ذاتی اور جماعتی مفادات بہت حد تک سعودی عرب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں ان کے بیٹے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ کے بجائے جیپ کے نشان پر الیکشن لڑے تھے۔ حافظ عبد الکریم کو نون لیگ نے اقتدار کے آخری دنوں میں نہ صرف وزیر بنوایا تھا بلکہ انہیں قومی اسمبلی کا ممبر ہوتے ہوئے سنیٹر بھی منتخب کروایا گیا تھا۔ اس سب کے باوجود انہوں نے عام انتخابات میں نون لیگ کے ٹکٹ کے بجائے چیپ کے نشان پر الیکشن لڑنے کو ترجیح دی۔ اس دوران ان کے خلاف نیب کے مقدمات بنائے گئے جن سے بچنے کے لئے بادی النظر میں حافظ عبد الکریم کی مدد ان کے سعودی دوستوں نے بھی کی۔ اس سارے عمل کے دوران حافظ عبدالكريم کئی ماہ کے لئے سعودی عرب میں ہی مقیم رہے اور جب واپس آئے تو ان کے کئی مسائل سلجھ چکے تھے۔
اپنی جماعت کے امیر اور نون لیگ کے ٹکٹ پر حالیہ دنوں میں پانچویں مرتبہ سنیٹر منتخب ہونے والے پروفیسر ساجد میر کے برعکس حافظ عبدالكريم اسٹیبلیشمنٹ مخالف شہرت کے حامل نہیں ہیں۔ وہ صلح کل طبیعت کے ساتھ پاور کے تمام مراکز کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اسی لئے چئیرمین سینیٹ کے الیکشن سے قبل نواز لیگ کی قیادت کے ساتھ ان کی پریس کانفرنس کو ایک غیر معمولی قدم کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس پریس کانفرنس میں حافظ عبدالكريم نے الزام لگایا کہ صادق سنجرانی کو ووٹ دینے کے لئے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ حافظ صاحب کے مزاج سے واقف دوست یہ جانتے ہیں کہ کسی اشیر آباد کے بغیر ان کا اس طرح سامنے آ کر پریس کانفرنس کر دینا بظاہر ایک ناممکن سی بات ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ کھڑا ہے کہ آشیرباد کہاں سے اور کس نے فراہم کی۔ اس کے ساتھ ساتھ حافظ عبدالکریم کا ایک ایکٹو رول پی ڈی ایم کی سیاست میں بھی نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ واقفان حال یہ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن اور حافظ عبدالكريم دونوں ہی اس وقت اسلام آباد کے ڈپلومیٹک انکلیو میں قائم ایک دوست ملک کے سفارتخانے کی گڈ بکس میں اونچے مقام پر فائز ہیں۔ خاص طور پر حافظ عبدالكريم کا کوئی بھی سیاسی قدم ان کے سرپرستوں کی مرضی کے بغیر اٹھنا ناممکن ہے۔اس سارے پزل کو اگر جوڑا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ نون لیگ’ مولانا فضل الرحمان اور پی ڈی ایم کی چھوٹی جماعتیں پوری یکسوئی سے عمران خان کے خلاف اس پلان کا حصہ ہیں جسے سعودی عرب و حلیف ممالک کی تائید حاصل ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ سیاسی بساط پر اگلی چال کون چلتا ہے۔