شعور کی آنکھ کھلی تو ریڈیو اور اخبار کو اپنے اردگرد پایا۔ ٹیلی ویژن تو گھر میں ایک دن کے لیے کبھی جگہ نہیں پاسکا البتہ انٹرنیٹ آنے سے پہلے تک ریڈیو اور اخبار کو ہم گھریلو اشیا کا حصہ ہی سمجھتے تھے۔ رات کھانے کے بعد کی ایک نمایاں سرگرمی ابوجی کے ساتھ بیٹھ کر بی بی سی کا مقبول پروگرام جہاں نما سننا ہوا کرتی۔ بی بی سی کے پروگراموں، ریڈیو پاکستان کے خبرنامے اور اخبار کی تصویروں نے حالات حاضرہ کے ساتھ دلچسپی بچپن ہی میں پیدا کر دی تھی۔
پرویز مشرف دور کے ابتدائی سالوں میں پاکستان بھارت کی سرحدی کشمکش کے ہنگام ریڈیو پر ایک نام جو اکثر سننے کو ملتا تھا وہ جسونت سنگھ کا تھا۔ یہ اس دور میں اٹل بہاری واجپائی کی کابینہ کے وزیرخارجہ تھے۔ 2004 میں کانگریس کی حکومت آئی، منموہن سنگھ جس کے “حادثاتی وزیراعظم” بنے۔ اگلے پانچ سال کے لیے جسونت سنگھ کا نام ہمارے ذہن سے محو ہوگیا۔
2009 میں ایک بار پھر جسونت سنگھ کا نام ہمارے کانوں میں پڑا جب پتا چلا کہ انھوں نے “Jinnah” نامی ایک کتاب لکھی ہے جس میں قائداعظم کی بڑی تعریف کی گئی ہے۔ بی جے پی سے یہ تعریف برداشت نہیں ہوئی اور پارٹی قیادت اب جسونت سنگھ سے ناراض ہے۔ اس وقت تو نہ انگریزی کتابیں پڑھنے کا ذوق تھا اور نہ جناح صاحب یا تقسیم ہند سے کوئی خاص دلچسپی تھی، لہذا یہ بات ایک بار پھر ذہن کے تہہ خانوں میں کہیں جا چھپی۔
نمل میں بین الاقوامی سیاست پڑھتے ہوئے اس کتاب کا تذکرہ کئی بار سننے کو ملتا رہا۔ آج فاروق عادل صاحب کے ساتھ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز لائبریری کی الماریاں جھانکتے ہوئے اس کتاب پر نظر پڑی۔ جھٹ سے ایشو کروائی اور بیگ میں ڈال لی۔ اب تک اس کا Fareword ہی پڑھا ہے تاہم کتاب اپنے آپ کو خود پڑھوا رہی ہے۔ امید ہے اگلا ایک ہفتہ اسی کے ساتھ گزرے گا۔
بیاسی سالہ جسونت سنگھ کے بارے میں ابتدائی معلومات یہ ہیں کہ ہندوستانی فوج کے سابق افسر، بی جے پی کے بانی رہنماوں میں سے تھے۔ پانچ بار راجیہ سبھا اور چار بار لوک سبھا کے ممبر رہے۔ غالبا 1980 سے 2014 تک مسلسل پارلیمنٹ کا حصہ رہے۔ 2009 میں جناح لکھنے کی پاداش میں پارٹی نے ان کے ساتھ وہی کیا جو ن لیگ نے جاوید ہاشمی، تحریک انصاف نے حامد خان، پیپلز پارٹی نے مخدوم امین فہیم اور مولانا فضل الرحمن نے حافظ حسین احمد کے ساتھ کر رکھا ہے۔ 2014 میں انھیں پارٹی ٹکٹ نہیں ملا تو دلبرداشتہ ہوکر آزاد کھڑے ہوئے، پارٹی سے اخراج ہوا اور الیکشن بھی ہار گئے۔ اس کے دو ہی ماہ بعد اپنے گھر کے غسل خانے میں گرنے سے سر پر چوٹ آئی۔ چھے سال سے کوما کی حالت میں ہیں۔
دلچسپ کتاب ہے۔ کوشش رہے گی کہ تبصرہ ساتھ ساتھ آوازہ کی زینت بنتا رہے۔