دوسروں پر انگلی اٹھانے عیب نکالنے اور بہت زیادہ تنقیدی سوچ اور رویے نے ہماری سماجی و تہذیبی کج روی کو ننگا کرنا شروع کردیا۔ موبائل فون نے الیکٹرونک میڈیا کی جگہ لے لی۔ اب ہر کوئی اس کا اچھا برا استعمال کرے گا۔ اس آزادی کے نتائج ثمرات منفی بھی ہیں۔ انہیں کنٹرول کرنا مشکل ہوگا۔ اب یہ ذریع آمدن بنتا جاراہے کیسے روک پائیں گے درست اور غلط کی تفریق پہلے ہی ختم ہوتی جارہی ہے مزید کوئی سماجی تربیت کے ادارے نہیں علم ودانش سے وابستہ افراد پہلے ہی بہت کج بحثیوں کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ صحت مند اور قابل فہم مکالمے کی فضا مفقود ہوتی جارہی ہے۔
کون کس کو کیا بتائے یا سمجھائے ایسے میں جب کجھ سوجھ بھی نہ رہا ہو۔معاشرے کا دکھڑا رونے کے سوا کچھ باقی نہیں۔
عورت کی عزت نہیں انسان کی بے قدری اس شدت سے ہورہی ہے کہ سب کچھ دیکھتے بھی آنکھ کچھ نہیں دیکھ پارہی۔
ہم اس آنکھ کے غلام بن گئے جس نے ذہن سازی میں مدد کرنا ہے وہ انکھ جسے موبائل فون کا کیمرا کے ذریعے نہ جانے کون کون سی خواہشات کی تسکین میں استعمال کرتے ہیں۔
غلطیاں دیکھنے والی آنکھ اچھا اور درست نگاہ میں آنے ہی نہیں دیتی۔ ہم صحیح چلنے والے کی تلاش اور پھر اس تقلید کے عادی نہیں۔ سب ناقد بن چکے ہیں۔ مقابلے کی خود ساختہ فضا قائم کرکے دوسرے کو شکست دینے کی دوڑ لگی ہے۔ کسی اچھے انسان سے شکت کھاکے دیکھیں صالح شخص کے پیچھے لگ کر قدم بڑھائیں۔ شاید انسان اب ذہنی طور پر ازاد اور خودمختار ہوگیا ہے اسے اپنی سوچ درست سمت میں جاتی اور فریق ثانی غلطی پر نظر اتا ہے۔
بےشمار پہلو ہیں مگر ہم زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ ہم نے کون سا معاشرے کا ٹھیکہ لے رکھا ہماری معاش کی کتنی پریشانیاں وہی ختم ہونے کا نام نہیں لے پاتی۔ کہ کچھ اور کی فکر کریں۔ کاش ہم کچھ وقت انسان سازی کے لیے نکال سکیں۔ پھر شاید تکلیف دہ لمحات ہماری زندگیوں میں کچھ کم پڑجائیں۔ اور ہماری قومی سانحات پر اس قدر زودرنجی میں بھی کمی آجائے۔
اللہ ہمارے حال پر ضرور رحم فرمائے گا۔