استاد کے نام خط
5 فروری 1989
مجھے عملی زندگی بلکہ شعبہ صحافت میں قدم رکھے، آج 31 برس بیت گئے۔ ہم ایک دوسرے کو پکڑنے اور سمجھنے میں لگے رہے، نہ میں اسے جان سکا اور نہ اسے میری سمجھ آسکی۔
وہی دقیانوسی جملہ کاش میں پڑھ لیتا، کیوں اب بھی تو پڑھ سکتا ہوں میرا مزاج ہی نہیں ، کتاب ہو یا چہرہ، حالات ہوں یا انسان، تھوڑی سے بھول ہوجاتی ہے۔
لیکن مجھے جیسے آگے بڑھنے کا جنون تھا منزل معلوم نہیں تھی بس کہیں جانا تھا۔ جب بھی کسی نے پوچھا فرار کا بہانہ تراش ڈالا۔
زندگی کو آسان بنانے کے لیے اس کی دشوار گزار راہوں کو بھِی آسان مان لیا۔ ایسا نہیں تھا، یہی سوچ سارے راستے میں دکھ دیتی رہی اور کبھِی رُلاتی رہی۔
قصور زندگی کا نہیں اپنی سمجھ کا تھا۔ جب بھِی سوچا اگلے چند قدموں کا، کبھِی نگاہ دور تک دڑائی نہیں۔ بہت آگے دیکھنے سے جیسے ڈرتا رہا۔
اپنے اردگرد دوڑنے والوں کو بے وقوف سمجھ کر ایک طرف ہوکر بیٹھنا جیسے مزاج کا حصہ بن گیا۔ اپنے تئیں لگا جیسے کچھ مختلف کررہا ہوں۔ یہ میری غلطی تھِی یا ٹھیک قدم۔
آج تک جواب تلاشنے میں وقت ضائع کیا۔
میں نے کتنے ہی درست اور بروقت فیصلے کئے انہیں کبھِی زیادہ یاد نہیں کیا۔ حالانکہ یہی میری طاقت بن سکتے تھے۔ کسی کی جیت اگرچہ تکلیف نہیں دیتی تھِی مگر اپنی ناکامیوں کو نہ جانے کیوں گلے کا ہار بنائے پھرتا رہا۔
اب حقیقت معلوم ہوگئی کہ ماضی کے مزاروں پر حاضری یا آنے والے دنوں کا خوف کبھی آج میں زندہ رہنے نہیں دیتے۔ اصل خوشی یہ ہے کہ جو میرے پاس ہے وہی میرا ہے۔
یادوں میں زندگی کی آسودگی ڈھونڈنا کوئی حل نہیں مستقبل میں سب اچھا ہوجائے گا، یہ سوچ بری نہیں لیکن آگے کیا ہوگا، یہ خیال سکون چھین لیتا ہے، کیوں نہ اسے جھٹک دیں۔
دوسروں کو خوش رہنے کی دعائیں دیتے ہیں، اپنی خوشی کے لباس کی جیسے سلوٹیں ہی درست کرنے میں دن گزار دیتے ہیں۔ جیسا ہے اسے اوڑھ کیوں نہیں لیتے۔
کسی کا غم اپنے سینے سے لگانا کوئی بُری عادت نہیں لیکن اسے ذات کا حصہ بنانا بہت بُری بات ہے، دوسرے کی ہمت بڑھائیں تشفی کے بول بولیں۔ اسے جینے کا چلن سکھائیں، اور پھر خود بات سمجھ آجائے گی۔
ایسا کرکے دیکھا ہے، کچھ کچھ خوش بھی ہوں، سکون میں اور کسی پریشانی کے بغیر شب وروز بیت رہے ہیں۔ زیادہ پیچھے دیکھنا کم کیا ہے اور آگے کا خوف ایک طرف رکھ چھوڑا ہے۔ صرف آفاقی حقیقتوں سے نہیں بھاگتا وہ کسی کے لیے ممکن نہیں۔
کچھ بہتر کرجاوں دعا کیجئے گا۔
نیاز مند