ADVERTISEMENT
” اگر تم کلب کی سڑک کے پار نفری سمیت نہیں گئے تو میں ذمے دار نہیں “
یہ تھے عبدالحمید چھاپرا جو ایک میجر سے پریس کلب کے گیٹ پر گفتگو کررہے تھے اور میجر کے ساتھ ایک ٹرک بھر کر فوجی آئے تھے۔اندر کلب میں فرہاد زیدی “میں ادھر تھا نہ ادھر تھا” جھوم جھوم کر پڑھ رہے تھے ۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ملک میں ہوکا عالم تھا کوڑے پڑ رہے تھے لوگ رقص کرتے ہوئے پھانسی کے پھندے پر چوم رہے تھے۔ کسی کو بولنے کی اجازت تھی نہ کچھ شائع کرنے کی ۔ گندا بدبو دار گھٹیا ظالم منافق حکمران تھا اور اس کے کاسہ لیس بھی مسلط تھے مگر اس ماحول میں عبدالحمید چھاپرا، اشرف شاد ، اقبال جعفری ، حبیب خان غوری، اے جی رحمانی نسیم شاد ، احفاظ الرحمن نے پریس کلب کو آزادی اظہار کا مرکز بنایا جو چاہے آکر بات کرے ۔
جس وقت چھاپرا صاحب فوجی افسر کو یہ وارننگ دے رہے تھے۔۔۔میں ایک اپرنٹس رپورٹر ان کے سائے میں کھڑا تھا، فوجی نے نظر بھر کر غصے سے کانپنے والے چھاپرا صاحب کو دیکھا، سر نہیوڑا کر اپنی جیپ کی طرف نظر ڈالی اور یہ کہہ کر چلا گیا۔۔۔۔۔” مگر لاوڈ اسپیکر کی آواز تو کم کرلیں “
کتنے واقعات ہیں جنگ اخبار کا ساتھ الگ ۔۔۔۔آزادی صحافت کے لئے چھاپرا صاحب کہاں کہاں نہیں گئے ۔۔۔ کلب سے چندریگر روڈ ۔۔۔۔۔اخبارات کے ایک ایک دفتر ، مختلف جیلوں شہروں اور مزدور انجمنوں۔۔۔ہر ایک سے ان کا رابطہ تھا،۔۔۔آزادی کے مجاہد عموما جنگلوں میں پیدل چلتے ہیں وہ بھی خیر آباد سے ڈان یا امن کی طرف پیدل جاتے نظر آتے تھے
تو آج آزادی صحافت کا یہ مجاہد بھی گزر گیا۔ اللہ مغفرت کرے ۔۔۔۔
مجھے یقین ہے کہ ہمیشہ کی طرح زبردست بحث کے بعد متفق ہونے والے احفاظ اور چھاپرا پھر کسی بحث میں الجھ جائیں گے اور برنا صاحب مسکراتے ہوئے ایک انگلی سے اپنی خبر ٹائپ کررہے ہونگے۔