رؤف کلاسرا ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔انہوں نے اپناسفردوردرازبستی جیسل کلاسراکے ٹاٹ اسکول سے شروع کیا۔لیہ سے انگریزی ادب میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔بہاؤالدین ذکریایونیورسٹی ملتان سے ایم اے انگریزی کی سندحاصل کی۔پھرگولڈاسمتھ کالج،لندن یونیورسٹی سے پولیٹکل کمیونیکیشن میں ماسٹرزکیا۔1993ءمیں صحافت کاآغاز”دی فرنٹیئرپوسٹ“ ملتان سے اپرنٹس رپورٹر کے طور پرکیا۔جس کے بعدپاکستان کے صفِ اول کے انگریزی اخبارات ڈان،دی نیوز،ایکسپریس ٹریبیون میں بطور رپورٹر پندرہ برس تک کام کرتے رہے۔اس دوران انہیں اے پی این ایس کی جانب سے بہترین رپورٹرکاایوارڈ مسلسل تین سال تک دیاگیا۔سپریم کورٹ آف پاکستان نے رؤف کلاسراکے فائل کردہ پانچ اسکینڈلز کاازخود نوٹس اورذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا۔دی نیوز کے لیے لندن سے بھی رپورٹنگ کی۔پرنٹ کے بعدٹی وی جرنلزم کارُخ کیا اورجیو،اے آروائی نیوزاورایکسپریس ٹی وی میں کام کرتے رہے۔بانوے نیوز چینل سے عامرمتین کے ہمراہ پروگرام ”مقابل “ شروع کیا،جوبہت مقبول ہوا۔روزنامہ جنگ سے 2007ءمیں کالم نگاری شروع کی، ان کاکالم دنیا اخبارمیں شائع ہورہاہے۔جرنلزم میں ان کے کریڈٹ پرسینکٹروں ایکسکلوسیوخبریں،اسکینڈلز اورسکوپ ہیں جوانہوں نے بریک کیے۔تخلیقی سفر میں ان کی چھ کتابیں چھپ چکی ہیں اورقلم کایہ سفرجاری ہے۔
رؤف کلاسرا کاکالم ”آخرکیوں“اردوقارئین میں بہت زیادہ پڑھاجاتاہے۔ سچ بولنے کی پاداش میں انہیں اورعامرمتین کوکئی چینلزسے آف ایئربھی ہوناپڑا۔رؤف کلاسرا اورعامر متین اب پبلک نیوز کے ساتھ نئی اننگ شروع کررہے ہیں۔ان کی پہلی کتاب ”آخرکیوں“کالموں کا مجموعہ تھی۔جوبہت پسندکی گئی۔اس کے بعدانہوں نے ”ایک سیاست کئی کہانیاں“ اور”ایک قتل جوہونہ سکا“ دوعمدہ اورمنفردکتابیں لکھیں ۔ پہلی سیاست دانوں کے منفردانداز میں انٹرویوزپرمبنی ہے۔جبکہ دوسری میں پیپلزپارٹی دورمیں صدرآصف زرداری اوروزیرِ داخلہ رحمٰن ملک کے خلاف پنجاب حکومت کاایک جھوٹا اسکینڈل شائع کیاگیا۔جس کے مطابق پنجاب کے چیف جسٹس شریف کوقتل کرنے کی سازش کی گئی تھی ۔سازش کامقصد زرداری حکومت گراناتھا۔کتاب چھپنے کے کئی سال بعد بھی شریف فیملی نے اس کی تردید نہیں کی۔جس سے پوری کہانی درست ثابت ہوگئی۔رؤف کلاسرا نے تراجم شروع کیے۔توسب سے پہلے ماریوپوزوکے مشہورزمانہ ناول ”گاڈفادر“ کاترجمہ کیا۔حال ہی میں بک کارنرجہلم نے فرنچ ادیب بالزاک کے دوتراجم ”سنہری آنکھوں والی لڑکی“ اور”تاریک راہوں کے مسافر“ شائع کی ہیں۔جن کا ترجمہ رؤف کلاسرانے کیاہے۔بک کارنرجہلم سے معاہدہ کے تحت ادارہ ان کی کتابیں آئندہ بھی شائع کرتارہے گا۔جن میں ان کی کتاب ”ایک سیاست کئی کہانیاں“ کادوسراحصہ اوران کے فائل کردہ اسکینڈلزپرمشتمل کتاب بھی شامل ہے۔
رؤف کلاسراتراجم کے بعدایک نئے رنگ میں قارئین کے سامنے آئے ہیں۔ان کی نئی کتاب”گمنام گاؤں کاآخری مزار“ سچی کہانیوں پر مبنی ہے۔اس طرح افسانوی انداز میں کالم لکھنے والے رؤف کلاسرا بطوراردومصنف ڈیبیوہواہے۔بک کارنرجہلم نے اپنی روایتی سلیقے کے ساتھ اسے شائع کیاہے اورتین سوساٹھ صفحات کی کتاب کی قیمت سات سوروپے بھی موجودہ دورکے لحاظ سے بہت کم ہے۔پیش لفظ میں رؤف کلاسرالکھتے ہیں۔” جواہرلعل نہرونے ایک دفعہ لکھاتھاکہ اپنے بارے میں لکھنادنیاکامشکل ترین کام ہے۔آپ اپنی تعریف کرتے ہیں تولوگوں کادل دُکھتاہ اوراگرآپ اپنی تعریف نہیں کرتے توآپ کااپنادل دُکھتاہے۔میں بھی اس وقت اسی کشمکش کاشکارہوں۔میں اپنی تعریف تونہیں کرناچاہتالیکن میں اپنی کچھ تحریروں پربات ضرورکرناچاہتاہوں۔آپ یقینا سوچیں گے کہ ان تحریروںمیں ایسی کیاخاص بات ہے کہ آپ جیب سے پیسے خرچ کر کے خریدیں اورپڑھیں۔یہ توعام لوگوں کی کہانیاں ہیں،ان میں ایساکیاخاص ہوگا؟ اس کتاب کوپڑھنے کی یہی توبڑی وجہ ہے کیونکہ یہ عام لوگوں کی کہانیاں ہیں جن سے آپ متاثرہوئے بغیرنہیں رہ سکیں گے اوریہی عام لوگ آپ کو خاص لگیں گے۔اس کتاب میں معاشرے کے کچلے ہوئے گمنام سے لوگوں کی کہانیاں ہیں اوریقین جانیے یہ سب سچی ہیں۔میرے لیے بڑا آسان تھامیں بڑے لوگوں کی کہانیاں آپ کو سناتاجوسب لوگ خوشی سے سنتے کیونکہ ہم سب بڑے لوگ بنناچاہتے ہیں۔ہم وہی زندگی گزارناچاہتے ہیں جوامیراوربڑے لوگ گزارتے ہیں۔ان کالائف اسٹائل اپنی طرف کھینچتاہے۔اس لیے دنیابھر میں بڑے لوگوں کی آٹو بائیوگرافیززیادہ فروخت ہوتی ہیں۔لوگ پڑھتے ہیں کہ وہ بڑا آدمی کیسے بناشایدان کتابوں سے انہیں بھی کوئی نسخہ کیمیامل جائے۔اس کتاب میں شامل سب عام کہانیاں ہیں۔اگرآپ بڑے لوگوں کی کہانیاں پڑھناچاہتے ہیں توپھریہ کتاب آپ کے کام کی نہیں۔میں نے اس کتاب میں عام انسانوں کی دکھوں اورغموں کی آوازبننے کی کوشش کی ہے۔اس کتاب کے سب کردارعام لوگ ہیں۔وہ عام لوگ ہی میرے ہیروزہیں۔وہی میرے رول ماڈل ہیں۔ میںنے اپنے ماں باپ کوایک دوردرازگاؤںمیں مشکلات میں گھرے دیکھا۔انہیں ساری عمرجدوجہداورمحنت کرتے دیکھا۔انہیں تکلیفوں کاشکاردیکھا۔لیکن انہوں نے ایک ہی سبق سکھایاکہ سرنڈر نہیں کرنا۔اس لیے شروع سے ہی میرے ہیرووہی لوگ تھے۔کسی کوبھی دردیا تکلیف میں دیکھاتوبابااوراماں میرے سامنے آن کھڑے ہوئے۔کبھی کسی بڑے آدمی سے متاثرنہ ہوسکا،یایوں کہہ لیں کہ ذلتوں کے مارے لوگ ہی میری انسپائریشن ہیں۔یہی وجہ سے کہ اس کتاب کاانتساب میں گاؤں کے کمہار چاچا میرو کے نام کیاہے جس پرلکھی گئی طویل کہانی”گمنام گاؤں کاآخری مزار“ آپ کوکئی دن سونے نہیں دے گی،اگرآپ کے بدن میں واقعی دل اورآنکھ میں پانی باقی ہے۔اس کتاب میں شامل ہرکہانی سچی ہے۔اپنی جگہ مکمل افسانہ ہے،ناول ہے،دُکھ ہے،انسانی المیہ ہے۔اس کتاب کے سب کرداردُکھی لوگ ہیں اوردُکھی لوگوں کے دُکھ میں نے کہانیوں کی طرح لکھے ہیں۔“
اس طویل پیش لفظ میں رؤف کلاسرا نے کتاب کی تمام کہانیوں کا پس منظربیان کردیاہے۔یہ دل سے لکھی اوردل میں اترجانے والی کہانیاں ہیں۔سچائی نے ان کی دلچسپی کودوآتشہ کردیاہے۔کتاب کے آخر میں ”سیالکوٹ سے ڈاکٹرانواراحمدکاخط“ہے۔جس میں وہ لکھتے ہیں۔جن لوگوں نے سمبڑیال میں ڈرائی پورٹ اورایئرپورٹ بناڈالاہے،ان ’ہمت والوں‘ نے اعتراف کیاکہ علامہ اقبال کی والدہ امام بی بی اس گاؤں کی رہنے والی تھیں،میں نے انہی تین چارخوش نصیبوں سے اپنے کیمپس کے مستحق طالب علموں کے لیے امام بی بی کے نام پرکچھ وضائف مانگے،مگرانہوں نے سنی ان سنی کردی۔سو جیسے اپنی ایک کتاب”اردوافسانہ ایک صدی کاقصہ“کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے ایک دیا ملتان یونیورسٹی میں خلیل صدیقی یادگاری فنڈکا،اورایک دیاگورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں مرزا ابنِ حنیف یادگاری فنڈ کا جلا دیا تھا جس کی چراغی میں تم نے بھی حصہ ڈالاتھا۔”اب یادگارِ زمانہ ہیں جولوگ“ کاتیسراایڈیشن اپنے خرچ سے چھپوارہاہوں،اس کی دو ہزار کاپیوں کی فروخت سے امام بی بی یادگاری فنڈکے لیے دس لاکھ روپے اپنے کیمپس کے مستحق طالب عملوں کے لیے جمع کرنے کا ارادہ ہے۔“
اس خط کے اقتباس سے ظاہرہے کہ ہمارے ملک میں ترجیحات کیاہیں۔تعلیم کے فروغ اورمستحق طالب علموں کی مدد کے لیے ڈاکٹرانواراحمد جیسے اساتذہ کوخود عملی قدم اٹھاناپڑتاہے۔کوئی ان اچھے مقاصدکےلیے آگے نہیں آتا۔رو¿ف کلاسرا کادردِ دل توان کے کالموں سے عیاں ہو تا ہے۔اب اس کتاب کے ذریعے انہوں نے عام لوگوں کی بڑی کہانیاں قارئین کے سامنے پیش کی ہیں۔لیہ کی حسینہ بی بی ہو، ڈرائیور الطا ف ہو،یاپھراسکول ماسٹراسلم کی بیٹی کاالمیہ،ان معصوم لوگوں کی کہانیاں لکھتے ہوئے انہیں احساس ہواکہ ادیب بھی کسی ٹریجڈی سے اتناہی متاثرہوتاہے جتناعام پڑھنے والا۔رؤف کہتے ہیں۔”اگرآپ اپنی کسی تحریرکولکھتے وقت نہیں روئے توآپ کاقاری کیسے روئے گا۔جب تک آپ دوسروں کے دکھوں پروہی تکلیف یادردمحسوس نہیں کرتے جوآپ اپنے کسی قریبی کودیکھ کرمحسوس کرتے ہیں توپھرآپ نہ اچھے انسان بن سکتے ہیں نہ ادیب۔“
بک کارنرجہلم کے دونوں بھائیوں گگن شاہد اورامرشاہد کے بارے میں رؤف کلاسرانے بالکل درست لکھاہے۔”وہ دراصل کتاب نہیں چھا پتے بلکہ لگتاہے دونوں بھائی پہلے کتاب کومعشوق کادرجہ دیتے ہیں،پھراس کی ایک ایک ادامحبت سے،توجہ کے ساتھ پرکھتے ہیں۔ایک محبوبہ کی طرح اس کے نخرے اٹھاتے ہیں،بناؤ سنگھارسے سنوارتے ہیں،پھرکتابی موادکومدنظررکھ کرایسا پُرکشش سرورق بناتے ہیں جسے دیکھ کر کتاب کانفسِ مضمون صاف جھلکتانظرآتاہے۔آخر میں دل کش اوردل رباکتاب کوخوب صورت گیٹ اپ کے ساتھ قارئین کے سپرد کردیتے ہیں ایسی کتابیں اگرعشق اورجنون میں لکھی جاتی ہیں تویقین کریں چھاپی بھی اسی محبت اورجنون کے ساتھ جاتی ہیں۔“
رؤف کلاسرا چالیس برس بعداپنے آبائی گاؤں گئے توانہیں چاچا میرو کمہاریاد آیا۔”گمنام گاؤں آخری مزار“کااقتباس دیکھیں۔”میں افسردگی کے عالم میں ایک ٹوٹے پھوٹے کچے مکان کودیکھ کررک گیا۔یہ چاچا میرو کمہارکا کچا گھر تھا جو تقریباً گرنے کے قریب تھا، مجھے یاد آیا چالیس پچاس برس قبل یہاں سے گزرنے ہوئے گاؤں کاہربندہ اس کچے گھرکی گلی میں باہرنکلے لکڑی کے مخصوص حصے کوبجانافرض سمجھتاتھا۔ بوڑھا چاچا میرو اندر سے گالیاں دیتا اور سب لطف اندوزہوتے ۔چاچا میرو جتنا چڑتا گیا، اتنا ہی نوجوانوں شغل لگا لیا۔پہلے وہ گالیاں دیتا پھر بھی ٹھک ٹھک جاری رہتی توہ بھاگ کرباہرنکلتا لیکن اتنی دیرمیں جوان بھاگ جاتے ۔چاچامیروکویہ حسرت ہی رہی کہ وہ کسی کورنگے ہاتھو ں پکڑے۔چاچامیروجس کانِک نیم اب ٹھک ٹھک پرچکاتھا،زمینداروں کے گھرگھرجاکرشکایت کرتا۔گھرکے بڑے بچوں کی ٹھکائی کا وعدہ کرتے لیکن اس کے جاتے ہی سب ہنس ہنس کرلوٹ پوٹ ہوجاتے کیونکہ ان میں سے کچھ باقاعدہ اس ٹھک ٹھک میں شریک تھے۔ گاؤں کے زمینداروں کے لیے برتن بنانے کے لیے کچی مٹی،آگ اورآسمان سے لڑتایہ اکیلابوڑھا انسان جب تھکاہارا رات کوچارپائی پر گرتاتوپورے گاؤں کوشرات سوجھتی کہ چلوچلیں چاچامیرو کی ٹھک ٹھک کرتے ہیں۔ اس کچے گھرکی بربادی دیکھ کر،جہاں پورے گاؤں کی تاریخ دفن تھی،مجھے یوں لگاجیسے چاچامیروابھی بھی کہیں سے نمودارہوگا اورہم سب کووہا ں رکتے دیکھ کربرابھلاکہے گا۔’بدبختو مرنے کے بعد بھی سکون نہیں لینے دیا۔تم لوگ پھرٹھک ٹھک کرنے آگئے ہو۔اب توگھرکی دیواربھی گرچکی ۔اب تولکڑی بھی باہرنہیں نکلی ہوئی جسے سب آتے جاتے بجایاکرتے تھے۔مجھے پہلی بارچاچامیروکے دکھ کااحساس ہوا۔“
اس طویل کہانی ہم سب کے لیے سبق ہے ۔کیاہم اپنے اردگردکسی مجبوربے بس کامذاق بناتے ہیں تواس پرکیاگزرتی ہوگی۔”دلی سے دھرتی “ میں کیاسچ لکھاہے۔”ملاواحدی کی کتاب ’میرے زمانے کی دلی‘پڑھیں،غالب کے دورکی دلی پڑھیں یاپھرمیں نے عبادت بریلوی کی ’میرتقی میر‘ پرلکھی گئی بائیوگرافی پڑھی ہے،تویہ جان کرحیرت ہوتی ہے کہ یہ خطہ کیساہوتاتھا؟ میرکے حالات پڑھ کرمیرے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ ہندوستان میں اتنی قتل وغارت ،جنگ وجدل اورلوٹ مارہورہی تھی کہ جس کے پاس چند ہزارلوگوں کاجتھاہوتا، جن کے پاس کچھ تلوا ریں ،کچھ گھوڑے یابندوقیں یاپھرتوپ خانہ ہوتا،وہ کہیں بھی جاگھستے۔انسانوں کومارتے،عورتوں،بچوں کوقتل کرتے،سب کچھ لوٹ لیتے، شہروں کوآگ لگاکرکسی اورانسانی بستی کارُخ کرلیتے اوربے چارے لٹے پٹے لوگ بچوں سمیت پورے ہندوستان میں پناہ لینے کے لیے در بدرہوجاتے۔آپ اس دورکے ادیبوں یاشاعروں کوبھی الزام نہیں دے سکتے کیوں کہ اگرآپ نے زندہ رہنتاہے،گھرچلاناہے،معاشرے میں کچھ مقام حاصل کرناہے توپھرآپ کوہردورکے دربار،دیوان یاجنگجوسے جڑاہوناچاہیے،جوآپ کوہرروزبخشش کے نام پردان کرسکے۔ اس دورمیں اگرکہیں مزاحمت ہوتی تھی تووہ کچھ صوفی بزرگ کرتے تھے،جنہیں سزائیں بھی ملتیں اوربڑی خوف ناک۔سلطنتِ دلی کے ایک ظالم بادشاہ نے ایک صوفی بزرگ کی صرف اس لیے کھال کھنچواکراس میں بھوسابھرواکرقاضی کی عدالت کے باہرلٹکادیاتھا کہ اس نے یہ کہنے کی جرا¿ت کی تھی کہ بادشاہ اکیلے ملزم کوسزانہیں دیتا،بلکہ اس کے بیوی بچوں تک کوبھی مارڈالتاہے۔“
کیایہ تلخ حقیقت نہیں ہے ۔ لوٹ مارتوآج بھی جاری ہے۔بس شکلیں بدل گئی ہیں۔انگریزسمجھ دارتھے۔اونٹ ہاتھی مال لے کرنہیں جاسکتے تھے ،راستے میں سات سمندرپڑتے تھے،لہٰذا انہوں نے ریلوے،بندرگاہیں اوربحری جہازاستعمال کیے،جب کہ ہمارے آج کے پاکستان کے بادشاہ اورلٹیرے ان سب سے ایک قدم آگے نکل گئے ہیں۔اب لٹیرے بادشاہ اس کام کے لیے منی لانڈرنگ اوربینک استعمال کرتے ہیں یاپھرایان علی کو۔لوٹ مار کاپیسہ پہلے بھی باہرجاتاتھا،اب بھی باہرجارہاہے۔
”خدابخش قصائی کادکھ“بھی ایسا ہی قصہ ہے۔بچپن میں باباکھیتوں پرجاتے ہوئے رو¿ف کوخدابخش کے گھرچھوڑ دیتے،جہاں وہ ان کے بچوں کے ساتھ کھیلتے رہتے۔1984ءمیں باباکے انتقال کے بعداماں نے زمینیں سنبھالی تب بھی چچاخدابخش ان کے ساتھ کام کرتے رہے ۔برسوں بعد چچاخدابخش کی بیوی کوانہیں پہچاننے میں دشواری ہوئی۔پہچاناتولپٹ کررونے لگی۔ان کاجوان بیٹاکچھ دن پہلے فوت ہوا تھا۔اس کاگردہ تبدیل ہوناتھا۔لاہورلایاگیا،پتہ چلاجلدی باری نہیں آئے گی۔پھروہ فوت ہوگیا۔دوچھوٹی بچیاں تھیں۔بوڑھی دادی کہنے لگی۔اب بیٹے سے بڑاصدمہ یہ ہے کہ بہوکاباپ اپنی بیٹی اوراس کی بچیاں واپس اپنے گھرلے جانے کاسوچ رہاہے۔اب رو¿ف تم بتاو¿ہم کیسے رہیں گے؟ پہلے بیٹاگیا،اب بہواورہماری پوتیاںبھی چلی جائیں گی۔میں اورتمہارابوڑھا چچااپنے بیٹے کے بغیرتورہ لیں گے لیکن ان پوتیوں کے بغیرہم سے کیسے جیاجائے گا۔
یہ انسانی المیہ ہے۔1981ءمیں آسٹریلیااورانگلینڈ کے درمیان ون ڈے میچ ہورہاتھا۔آخری گیند پرنیوزی لینڈ کوفتح کے لیے چھ رنزدرکار تھے۔کپتان گریگ چیپل نے چھوٹے بھائی ٹریورچیپل جواوورکرارہے تھے،نارمل گیند کرانے کے بجائے انڈرآرم بال پھینکے کوکہا۔جواس وقت غیرقانونی نہیں تھا۔ٹی وی پرمیچ لائیوچل رہاتھا۔انڈرآرم گیند پربیٹسمین چھکانہ لگاسکا۔آسٹریلیامیچ جیت گیا،لیکن اس بعد جوکچھ ہواوہ ٹریورچیپل اب تک بھگت رہے ہیں۔میچ توآسٹریلیاجیت گیالیکن اخلاقی طور پراسے شکست ہوئی۔آسٹریلوی عوام کوبھی خوشی کے بجائے شرمندگی ہوئی۔سب سے بڑاردِعمل ٹریورکواس کی بیوی کی طرف سے ملا،اس نے کہاتم نے محض میچ جیتنے کے لیے ہم سب کوشرمندہ کیا۔تم نے کھیل اورخاندان کوبدنام کردیا۔اختلافات کے بعددونوں میں علیحدگی ہوگئی۔سینتیس سال بعدآسٹریلیاکے کپتان اسٹیواسمتھ اوردو ساتھی پلیئرزپربال ٹیمپرنگ کی وجہ سے پابندی عائد کردی گئی۔سینتیس سال بعدٹریورچیپل کواپنے دکھ یادآگئے۔وہ کہتے ہیں کہ انڈرآرم گیند کے بعدآج تک وہ نارمل زندگی نہیں گزارسکے،ایک ایک لمحہ اس اسکینڈل کے ساتھ گزرا اوراسے محسوس ہواکہ پوری دنیااس سے نفرت کرتی ہے۔اس نے بڑے بھائی کے کہنے پرجوکیااس کی سزاوہ آج تک بھگت رہاہے۔سینتیس سال بعداسمتھ اوروارنرکے ساتھ بھی یہی کچھ ہوگا وہ جہاں جائیں گے،دھوکے بازکی حیثیت سے جانے جائیں گے۔
یہ زندہ قوموں کاطرزِ عمل ہے۔وہ اپنی غلط حرکت کوتسلیم کرتے اوراس پرشرمندہ ہوتے ہیں۔اس کے برعکس ہمارے ہاں میچ فکسنگ کرنے والے اعتراف بھی سزابھگتنے کے بعد کرتے ہیں اورانہیں کوئی ندامت بھی نہیں ہوتی۔آسٹریلوی کھلاڑیوں نے پاکستانی جواری کھلاڑیوں کی طرح وضاحتیں اورجھوٹ گھڑنے کے بجائے اپنی غلطیاں تسلیم کیں،کیمرے کے سامنے روپڑے،اپنی قوم اورملک سے معافیاں مانگیں۔ جب 2010ءمیں پاکستانی کرکٹرزلاکھوں پاو¿نڈز لے کرجواکھیلتے پکڑے گئے تھے اورچندلوگوں نے شرم دلوانے کی کوشش کی تھی توعوام اورمیڈیاکاایک بڑاحصہ ان کی حمایت میں نکل آیاتھا،نت نئی سازشی تھیوریز پیش کی گئیں،کھلاڑی آج تک شرمندہ نہیں۔
رؤف کلاسرانے ڈاکٹرحسن راناکاسنایاقصہ بتاتے ہوئے کہا۔ڈاکٹرراناکی بطوراسسٹنٹ کمشنرجڑانوالہ تعیناتی ہوئی توانہیں ڈپٹی کمشنرکافون آیاتمہارے دفترمیں ایک چپڑاسی ہے اسے ٹرانسفرکرتے میرے پاس بھیج دو۔اگلے ایک دوروز میں ایسے کئی اورفون بھی آئے۔رانا صاحب نے اپنے پی اے سے کہافلاں بندے کوٹرانسفرکردیں۔وہ بولا۔’سرکارجسے سب اپنے پاس رکھناچاہتے ہیں آپ اسے خود ٹرانسفرکر رہے ہیں۔‘ ڈاکٹررانابولے۔’میں نے کیاکرناہے۔ہم کوئی اوربندہ رکھ لیں گے۔دفترکاایک چپراسی ہی توہے۔پی اے نے کہا ۔سرایک دو روز رک جائیں۔دودن بعد ڈاکٹرصاحب نے پی اے کوچپراسی کے ٹرانسفرسے روک دیا۔وجہ تھی کہ ان کے دفترپہنچنے سے پہلے پورادفتر آراستہ ہوتا،میزصاف ہوتی،اخبارجیسے استری کرکے رکھے گئے ہوںچائے کاگرم کپ،پانی کے گلاس سائیڈ پر۔فائلیں صاف ستھری ،اورکمرے کی غیرمعمولی صفائی۔اسے کچھ بتانانہیں پڑتاتھا۔ایک دن میں نے اس سے پوچھا۔یہ سب کچھ اس نے کیسے سیکھا۔وہ بولا۔صاحب ایک دن میں نے خود سے پوچھا،کیاتم چپڑاسی سے ترقی کرکے ڈپٹی کمشنرلگ سکتے ہو۔تم نے ترقی کرکے چالیس سال میں کلرک ہی لگناہے۔پھرمیں نے سوچا،اگرساری عمرچپڑاسی ہی رہناہے تومجھے ایک عام چپڑاسی نہیں بننا،میں ایساچپڑاسی بنوں گاکہ ہر صاحب میری خواہش کرے۔
کیابے مثال سبق ہے۔اگرہرانسان اپنی جگہ اوراپنے شعبے میں اسی سوچ پرعمل کرے تومعاشہرہ کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا۔یہ اورایسی بے شمارکہانیاں،”گمنام گاؤں کاآخری مزار“ میں موجود ہیں جوکتاب کوایک بارشروع کرنے کے بعد ہاتھ سے رکھنے نہیں دیتیں اورکتاب ختم ہونے کے بعد رؤف کلاسرا کی ایسی ہی اگلی کتاب”شاہ جمال کامجاور“کاانتظارشروع ہوجاتاہے۔رؤف کلاسرا نے صحافت ،رپورٹنگ، تراجم کے بعد سچی کہانہوں کی پہلی ہی کتاب سے دھاک بٹھادی ہے۔