ہم نے جو بھلا دیا ،ڈاکٹر فاروق عادل کی تازہ کتاب ہے۔ ڈاکٹر صاحب پندرہ ستمبرانیس سوباسٹھ کولیاقت پور رحیم یارخان میں پیداہوئے۔وہ مصنف ،خاکہ وسفرنامہ نگار،تحقیقی صحافی، محقق اورکالم نگار ہیں۔ابتدائی تعلیم سرگودھا میں حاصل کرنے کے بعدجامعہ کراچی سے بی اے آنرز، ایم اورپی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ان کابہترین تحقیقی کارنامہ ان اسباب کاتعین کرنا ہے کہ کون سے عوامل جمہوریت کاخاتمہ کرکے شخصی آمریت کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ یہ دنیا کی پہلی تحقیق ہے جس میں میڈیا وائس تھیوری میں ترمیم کی گئی اورتیسری دنیاکے جمہوری معاشروں میں جمہوریت کے فروغ کے لیے اسے عالمی سطح پر قدر کی نظرسے دیکھا جاتاہے۔
ان تمام امور کے ساتھ وہ سینتیس برس سے بطور استاد بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تجویز پر اکادمی ادبیات نے ادبیات انٹرنیشنل جاری کیا۔جس کے بانی ایڈیٹر بھی ڈاکٹرفاروق عادل ہی تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سابق صدرممنون حسین نے ڈاکٹر صاحب کوایوان صدر میں نفاذاردو کے لیے مشیرمقررکیا اورانہوں نے ایوان صدرکے اہم مقامات کوانگریزی کے بجائے قومی مشاہرین سے منسوب کرنے کافریضہ بخوبی انجام دیا۔وہ اردوکی معروف ویب سائٹ آوازہ ڈوٹ کام بھی چلارہے ہیں۔ڈاکٹرفاروق عادل سفرنامہ ”ایک آنکھ میں امریکا” اور شخصی خاکوں کی کتاب”جوصورت نظرآئی”شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں۔ان کی تازہ تصنیف”ہم نے جوبھلادیا”تاریخ پاکستان کے گمشدہ اوراق یا چندبھولے بسرے واقعات کی بازیافت کی شاندار کاوش ہے۔اسے بجا طور پرتاریخ پاکستان کی یادداشتوں پر مبنی قراردیاجاسکتاہے۔
”ہم نے جوبھلادیا” انتہائی دلچسپ اورمعلومات افزا تحقیقی کتاب ہے۔ جسے قلم فاؤنڈیشن نے دلکش انداز میں شائع کیاہے اورچار سو چونتیس صفحات کی کتاب کی قیمت سولہ سوروپے ہے۔کتاب کاپہلاایڈیشن ایک ماہ میںختم ہوگیااوردوسراایڈیشن بھی ختم ہونے کوہے۔ کتاب کامعنی خیز انتساب ہے۔”لرزتی ہوئی اک کلی ہے/ جوبرگ وبارلانے کی آرزو میں/ کسی سنگلاخ زمین کی پشت سے سرٹکراتی ہے۔۔۔ اسی پرعزم کلی کے نام۔”
مجیب الرحمٰن شامی کاتحریر کردہ ڈاکٹر فاروق عادل کاتعارف سرورق کے بیک پرشائع ہواہے۔” ڈاکٹر فاروق عادل میں صحافت،ادب اورسیاست کویکجادیکھا جاسکتاہے۔ان کے مشاہدے،مطالعے اورتجزیے نے ان کی تحریرمیں جوگہرائی اور وسعت پیداکی ہے، وہ بہت کم کالم نگاروںکونصیب ہوئی ہے۔ ماناکہ انھوں نے عملی سیاست میں قدم نہیں رکھالیکن صدرممنون حسین مرحوم کے کنسلٹنٹ تو رہے ہیں، شہیدصلاح الدین کے سائے میں پروان چڑھے ہیں اس لیے سیاست کوانھوں نے جس رنگ میں اور جہاں بیٹھ کر دیکھا ہے وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آیا ان کی تحریریں ادبی شہ پارے بھی ہیںکہ ان کی زندگی چند روزہ نہیں۔سیاست،صحافت اور تاریخ کے طالب علم انھیں پڑھتے اورسردھنتے رہیں گے۔وہ اپنے قاری کوتاریخی اورزمینی حقائق سے روشناس کراتے ہیں اوریہ بھی بتاتے ہیں کہ لفظوں کوموتی کیسے بنایاجاسکتاہے،سخت سے سخت بات آسانی سے کیسے کہی جاسکتی ہے،کسی کی توہین وتذلیل کیے بغیراس پر تنقید کیسے کی جاسکتی ہے ۔ وہ فاروق ہیں اور عادل بھی۔ انصاف کے ساتھ سچ اورجھوٹ میں تمیزکرسکتے اورجھوٹ کواس کی اوقات یاد دلا سکتے ہیں۔بلاخوف وتردیداپنی مثال آپ۔”
پروفیسر ڈاکٹر حسن الامین نے پیش لفظ ”تاریخ کی نئی تعبیروتوضیح ” کے عنوان سے لکھاہے۔ جس میں ”ہم نے جوبھلادیا” کے موضوع اور مضامین کا نچوڑ بیان کردیاہے۔ ”تاریخ کا جبریہ ہے کہ ایک بار رونماہوجانے والا واقعہ پتھر پرلکیر بن جاتاہے پھراس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی لیکن یہ بھی تاریخ ہی کا کمال ہے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعدکبھی نہ بدلنے والے حالات پرنظرڈالیںتوان کی کوئی نئی توضیح اورتعبیر سامنے آجاتی ہے۔یہی تعبیر اورتوضیح ہے جومستقبل کے لیے راستوں کاتعین کرتی ہے۔اسی لیے کہاجاتاہے کہ تاریخ پرپلٹ کر نگاہ ڈالنے کاعمل اتناہی ضروری ہے جتنا سانس لینے کے لیے آکسیجن۔زندہ قومیں ہرلحظہ اس عمل میں مصروف رہتی ہیں اوراپنے ماضی سے سبق سیکھ کر اس طرز عمل سے نجات حاصل کرلیتی ہیں جوان کی اونچی اڑان کی راہ میں خلل ڈالتاہے۔ ایسا نہیں کہ پاکستان میں یہ کام ہوانہیں ہے لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ جس پیمانے پرہونا چاہیے تھا،اتنا ہی ہواہے۔ایک صحافی کی حیثیت سے ڈاکٹر فاروق عادل کا اصل میدان توحالات حاضرہ ہی رہاہے لیکن ادھرکچھ عرصے سے انھوں نے ایک محقق کی حیثیت سے تاریخ پربھی نگاہ ڈالی ہے۔سیاسی اورنظریاتی میلانات کس کے نہیں ہوتے ،ڈاکٹر صاحب کے بھی ہوں گے لیکن ان کاامتیاز یہ ہے کہ انھوں نے ایسے تمام علائق سے اوپر اٹھ کرکام کیاہے۔نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہماری قومی زندگی کے ایسے واقعات جن پربیتے ہوئے زمانوں کی گردپڑچکی تھی یا وہ مفادات اورتعصبات کی آندھیوں کی وجہ سے کچھ کا کچھ ہوچکے تھے،کچھ اس طرح سامنے آئے کہ انکشافات کی حیثیت اختیار کرگئے۔ڈاکٹر فاروق عادل نے مختلف زمانوں میںرونما ہونے والے واقعات کوتاریخ کے تذکروں سے ڈھونڈ کرانھیں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔اس مقصد کے لیے انھوں نے صرف تاریخ کونہیں کھنگالابلکہ جس حدتک ممکن ہوسکا، اس زمانے کی عینی شہادتیں بھی تلاش کیں اوران واقعات کے کرداروںتک بھی پہنچنے کی کوشش کی۔اس کتاب کا ایک اورامتیازاس کے مصنف کااسلوب ہے۔دیکھاگیاہے کہ جذبات اورجانب داری سے پاک رکھنے کی کوشش میں تحریر جاذبیت سے محروم ہوجاتی ہے لیکن اس کتاب کے مصنف کی ادب سے گہری دلچسپی نے ان تحریروں کواس خوبی کے ساتھ ادب پارے کی صورت دی ہے کہ تاریخ کانازک آبگینہ بھی سلامت رہاہے۔”
یہ بھی پڑھئے:
انتخابات کے التوا کی سازش کے ہیرو اور ولن
ٹک ٹاک ٹیکنالوجی کا کمال یا وبال؟
اس طویل اقتباس سے کتاب کی افادیت کا بخوبی اندازہ ہوجاتاہے۔ ڈاکٹرفاروق عادل ‘ماجرا’کے عنوان سے لکھتے ہیں۔”یہ بس ایک اتفاق ہی تھاکہ یہ مضامین میں نے لکھے۔اصل میں بی بی سی کی خواہش تھی کہ پاکستان کی تاریخ کے کچھ گوشوں کوازسرنوسمجھنے کی کوشش کی جائے ۔میں جب اس میدان میں اتراتوسچ جانیے کہ حیرت کے پہاڑمجھ پر ٹوٹ پڑے۔میں حیرت زدہ ضرور ہوالیکن جیسے جیسے حیرت بڑھتی گئی، قلم محتاط ہوتاگیا۔ادارہ چاہتاتھاکہ کوئی بات بے حوالہ نہ لکھی جائے۔میں نے یہ سوچاکہ اگریہ اصول متاثرہوگیاتوگویامیراعقیدہ میرے ہاتھ سے نکل گیا۔یوں یہ مضامین محض پیشہ ورانہ سرگرمی نہ رہے،واردات قلبی میں بدل گئے۔اس کہانی کی ابتداایک ایسے سوال سے ہوئی تھی جس نے مجھے دہائیوں سے پریشان کیے رکھا۔ان مضامین نے مجھے صرف اس سوال کاجواب نہیں دیا اور بھی بہت سے راز کھول دیے ۔اس دیس کی کہانی صرف کہانی نہ رہی، ماجرابن گئی۔”
”ہم نے جوبھلادیا ” میں کل چونتیس مضامین ہیں۔ جن کے عنوانات سے ہی ان کی وسعت اورہمہ گیری کااندازہ کیاجاسکتاہے۔پہلا مضمون”کشمیرکے وہ چاردن” کے عنوان سے ہے۔ جس کا ڈرامائی آغاز ملاحظہ کریں۔ ”دومیل کی پہاڑیوں کے پیچھے چھپتے ہوئے سورج کا نظارہ دیدنی ہوتاہے لیکن اس سے پہلے جب دھوپ اپنارنگ بدل کرمنظرکاحصہ بنتی ہے تودیکھنے والامبہوت ہوکررہ جاتاہے۔کچھ ایسی ہی کیفیت پرتھوی ناتھ وانچوپرطاری ہوئی۔یہ نوجوان ریاست جموںوکشمیرکی حکومت کاایک اہلکارتھاجومعمول کے دورے پریہاں پہنچاتھااور فطرت کی دل کشی کودل دے بیٹھا۔وہ ابھی اس منظرمیں کھویا ہواہی تھاکہ اسے خوف میں ڈوبی ہوئی ایک چنگھاڑ سنائی دی۔دشمن آگیا،دشمن آگیا۔یہ ڈاک بنگلے کاملازم تھاجوخوف، ہمدردی اورملازمانہ احساس ذمہ داری کی ملی جلی کیفیات میں اس کی طرف بھاگاچلاآرہاتھا۔اس کے شوراورآہ وزاری سے پرتھوی ناتھ وانچوگڑبڑا کررہ گیااوراس نے گھبراکرنلوچی گاؤں کے اس پارکشن گنگاپل پرنگاہ ڈالی جس سے شعلے اٹھ رہے تھے۔معلوم ہواکہ ڈوگرہ گیریژن بے خبری میں پٹ چکاہے اوراس کے فوجی بلند پہاڑیوں کی چوٹیوں پراپنے مورچوں سے محروم ہو کرپسپائی اختیار کررہے ہیں۔شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ دور کے خیبرپختون خواہ) سے متصل اس علاقے میں اسی صوبے سے آنے والامسلح لشکرفاتحانہ انداز میں داخل ہوچکاتھا۔”
اس تحریرمیں ڈوگروں کے ریاست جموں وکشمیر میں مظالم،ان حالات میں قبائلی لشکرکے داخل ہونے،ڈوگرہ راج کی پسپائی،لارڈماؤنٹ بیٹن اورفیلڈمارشل آکن لیک کے تضادات اورمنفی کردارکواجاگرکیاگیاہے۔”واشنگٹن براستہ ماسکو” میں ڈاکٹرفاروق عادل نے وزیراعظم لیاقت علی خان کوروس اورامریکا سے ملنے والے دعوت ناموں اور اس حوالے سے سات دہائیوں سے جاری جھوٹے پروپیگنڈے کا پرد ہ چاک کرتے ہوئے،اصل حقائق کوپیش کیاگیاہے۔
ایک اوراہم تحریر”سندھی مہاجرکشمکش کی پہلی اینٹ” ہے۔جس میں ڈاکٹر فاروق عادل نے کراچی کے بیک وقت صوبہ سندھ اوروفاقی دارالحکومت ہونے کے اثرات، حکومت سندھ کی وسیع القلبی اوروزیراعظم لیاقت علی خان کی بلاجوازبرہمی کی تفصیلات پیش کی ہیں۔قیام پاکستان کے پانچ ماہ بعدیہ اجلاس کئی ایسی تلخیوںکامظہرتھاجس میں نئے ملک کی نئی حکومت کی کئی اہم بلکہ مرکزی شخصیات کاعمل دخل تھا۔وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا۔” مرکزی حکومت صوبائی حکومت کے سائے تلے اب مزیدگزارا نہیں کرسکتی۔میری حکومت تویہاں ایسے ہے جیسے کوئی اجنبی،اگریہاں کوئی اختیار رکھتا ہے تووہ ایک ہی شخص ہے،یعنی کھوڑو،آپ کومالی چاہیے یالان سینچنے کے لیے پانی، کھوڑوسے دست بستہ درخواست کرنی ہوگی،یہاں کھوڑو ہی سب کچھ ہے اورہم کچھ بھی نہیں۔”
مضمون میں نوزائیدہ ملک کے مرکزی اورصوبائی حکومت کے اختلافات اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کوبیان کیاگیاہے۔ جو آج تک ملک پر کسی نہ کسی انداز سے اثرانداز ہورہے ہیں۔ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو نے ان اختلافات کی تفصیل سے پردہ اٹھایاہے۔ وہ لکھتی ہیں ۔”مرکزی اورصوبائی حکومتوں کے درمیان اختلافات کی ابتداسیکریٹریٹ کے لیے عمارات کے انتخاب کے موقع پرپیداہوئی جوبعدمیں ذاتی نوعیت اختیار کرگئی،یوں تلخیاں بڑھتی گئیں۔”
”آٹے کاگھاٹا” میں بیان کیاگیاہے کہ کس طرح حکومت کی غلط تجارتی پالیسی اورذمہ داران کے نہ مسائل کوسمجھنے اورنہ ان کے حل کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے آٹے کا بحران پیداہوا۔اوروہ آٹا جس کی سرکاری قیمت تیرہ روپے چودہ آنے تھی،پچیس سے تیس روپے میں بھی دستیاب نہیں تھا۔پنجاب کی غلہ منڈیاں جومشرق میں اناج کاگہوارا سمجھی جاتی تھیں،ان میں اناج کی تجارت پرحکومتی کنٹرول کے بعدخاک اڑ رہی تھی اورکاروبارختم ہورہاتھا۔اوریہ ناگوار صورت حال آج تک جوں کی توں ہے۔غلط حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے کبھی اناج کا بحران پیدا ہوتاہے۔کبھی چینی کا اورآئل اور دوسری خوردنی اشیا کا۔یہ پاکستان کاالمیہ ہے۔
”ہم نے جوبھلادیا” کی ایک اہم تحریر”انصاف کاقتل ” ہے۔ جس کے آغاز میں مصنف لکھتاہے۔”وہ ایک ایساشخص تھاجس نے پاکستان کو اس کے ابتدائی دنوں میں ہی سیاسی،سماجی اوراقتصادی اعتبارسے تباہی کی طرف دھکیل دیا۔” یہ تبصرہ ایک ایسی شخصیت کے بارے میں ہے جو قیام پاکستان سے قبل برصغیرکی تقسیم کے لیے قائم کیے جانے والے باؤنڈری کمیشن کارکن تھا۔قیام پاکستان کے بعد یہ شخص پنجاب چیف کورٹ(موجودہ ہائی کورٹ) کا چیف جسٹس بنااور اس کے بعدفیڈرل کورٹ آف پاکستان(موجودہ سپریم کورٹ) کاچیف جسٹس یعنی جسٹس محمدمنیر جوچھبیس جون انیس سواکیاسی کواس دنیا سے کوچ کرگئے۔ممتازقانون داں حامدخان نے پاکستان کی آئینی اورسیاسی تاریخ کے بارے میں اپنی ضخیم کتاب میں لکھاہے۔”بطورجج جسٹس منیرکی قابلیت اور علمی حیثیت شک وشبہ سے بالاہے لیکن کاش ان کے ارادے بھی نیک ہوتے۔”
پاکستان کی قومی تاریخ کے تعلق سے جسٹس منیرکاکردار باؤنڈر کمیشن سے ہی شروع ہوجاتاہے۔ انہوں نے نظریہ ضرورت ایجاد کرکے جس تباہی کی بنیاد رکھی۔اس کے نتائج پے درپے مارشل لاکی صورت میں قوم آج تک بھگت رہی ہے۔جسٹس منیرکا ایک فیصلہ مولوی تمیز الدین کیس میںاکثریتی فیصلے کے تحت گورنرجنرل کے حق میں دیناہے ۔اس فیصلے کے نتیجے میں ناصرف مقننہ بحال نہیں ہوسکی۔ بلکہ چھیالیس قوانین بھی کالعدم ہوگئے، جس کی وجہ سے کارریاست کے روزمرہ امورکی انجام دہی بھی ناممکن ہوگئی اورملک ایک بہت بڑے بحران سے دوچار ہوگیا۔قدرت اللہ شہاب نے اپنی خودنوشت میں لکھاہے۔”ہم ایک خندق کے کنارے آپہنچے ہیں جہاں ہمارے سامنے صرف تین راستے ہیں،جس راہ سے آئے ہیں،اسی راہ پرواپس مڑ جائیں۔ خندق پرایک قانونی پل تعمیرکرکے اسے عبورکرلیں اورخندق سے چھلانگ لگاکرتباہی کاشکار ہوجائیں۔”جسٹس منیر نے واپس مڑنے یاخندق میں گرنے سے بچانے کافریضہ ملک وقوم کے لیے ادا کرنے کے بجائے گورنرجنرل کے مفادات کوپیش نظررکھاورانھیں پار لگانے کے لیے خندق پر پل تعمیرکردیا۔تاریخ نے اسی پل کونظریہ ضرورت کانام دیاہے۔جس نے نہ صرف عین اسی زمانے میں ملک کو ایک پیچیدہ بحران میں مبتلاکردیا بلکہ آنے والے زمانوںکے لیے بھی مشکلات پیداکیں جن کے آثاربعد کے زمانوں میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جسٹس منیر کے سیاسی نوعیت کے دیگرفیصلوں پربھی اسی انداز فکرکاغلبہ دکھائی دیتاہے۔ جسٹس منیرکا تیسرافیصلہ جس نے پاکستان میں جمہوری سیاسی عمل کی راہ میں پہاڑجیسی رکاوٹیںکردیں۔ جوڈوسوکیس کے نتیجے میں سامنے آیا۔ڈوسوکیس میں ایوب خان کے مارشل لاکے نفاذ اوراس کے نتیجے میں منتخب حکومت کے خاتمے کوچیلنج کیاگیاتھا۔جسٹس منیر نے اس مقدمے میں مارشل لاکے نفاذ اوراس کی وجہ سے جائزطور پرایک منتخب آئینی اورقانونی نظام کے خاتمے کوبغاوت قراردینے کے بجائے اسے ایک کامیاب انقلاب قراردینے کے لیے ہینس کیلسن کی معروف تھیوری آف اسٹیٹ کاسہارا لیا۔جبکہ خودہینس کیلسن نے اس فیصلے کواپنی تھیوری کاغلط استعمال قرار دیاتھا۔
مشرقی پاکستان کے صوبائی انتخابات میں مسلم لیگ کے مقابلے میں جب جگتو فرنٹ نے بھاری کامیابی حاصل کرلی تویہ مطالبہ سامنے آیاکہ اب مرکزی آئین سازاسمبلی غیرنمائندہ ہو چکی ہے، اس لیے مرکز میں بھی نئے انتخابات کرائے جائیں۔ لیکن مشرقی پاکستان میں حشر دیکھ کرمسلم لیگ نئے انتخابات سے خوفزدہ تھی۔ اسے ڈر تھاکہ اگرانتخابات کرادیے گئے تواس کے پلے کچھ بھی نہیں رہے گایہ صورت حال آج بھی ہرحکومت کے پیش نظررہتی ہے اور وہ مثبت نتائج کے یقین کے بغیرالیکشن میں جانے سے خوفزدہ رہتی ہیں۔یہ سب ہماری قومی تاریخ کاحصہ ہے۔ جسے آج کے نوجوان کے لیے جانناضروری ہے۔اس کے بغیر مستقبل کوان علتوں سے پاک کرکے روشن نہیں کیاجاسکتا، اور یہ اہم ضرورت ”ہم نے جوبھلادیا” نے بخوبی پوری کی ہے۔
کتاب کی دیگرتحریروں کامختصراًبیان کیاجائے تو”پروازمیں کوتاہی” میں امریکی غذائی امدادسے قبل راتوں رات پاکستان میں حکومت کی تبدیلی اورگندم آنے پرحکومت پاکستان کی غیرمعمولی پذیرائی (جب بندرگاہ پرکھڑے اونٹوں کے گلے میں ”تھینک یوامریکا” کی تختیاں لگائی گئی تھیں)کا ذکرانتہائی دلچسپ ہے۔شکریہ امریکا کی تختیاں لٹکاکرپاکستانی عوام کی ذہن سازی پرتوجہ دی گئی۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی گہرائی میں اترکرپاک امریکاتعلقات کی مختلف جہتوں کوسمجھنے کی کوشش کرنے والوں کوان گھنٹیوں کی آوازضرور سنائی دیتی ہے جوکبھی اہل پاکستان نے عالم حیرت میں سنی تھی۔
”ون یونٹ اوریونٹی” میںبائیس نومبرانیس سوچون کووزیراعظم محمدعلی بوگرا مسودہ قانون کی تیاری کااعلان کیاجوایسے دورکی تمہیدثابت ہوا جسے آگے چل کرایک بڑے بحرا ن کانکتہ آغازبنناتھا۔اعلان کے دس ماہ بعدقومی اسمبلی نے بل کی صورت پیش کیے گئے اس مسودہ قانون کی منظوری دی جس کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں اورعلاقوں کوایک صوبے میںضم کرنے کافیصلہ کیاگیا اورتجویزکیاگیاکہ باہم ضم کیے گئے علاقوں کومغربی پاکستان کانام دیاجائے گا۔بل منظوری کے دوہفتے بعدچودہ اکتوبرانیس سوپچپن کونافذالعمل ہوگیا۔تاریخ اس بل کوون یونٹ منصوبے کانام سے شہرت ملی۔ یہ قابل مطالعہ اورمعلومات افزابحث ہے ۔
گوادر آج ملک کی اہم بندرگاہ اورتیزی سے ترقی کرتاشہرہے۔ گوادرکے مرکزنگاہ بننے کی تفصیل”تازہ ہواکادرگوادر” میں بیان ہوئی ہے۔ جس میں گوادرکوکب اورکس طرح عمان سے حاصل کیاگیا، اس کی تفصیلات ہیں۔”لہولہان ایوان” مشرقی پاکستان اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر شاہد علی کی ہنگامہ آرائی کے دوران پیپر ویٹ مارے جانے سے زخمی ہونے اوردو روز بعد انتقال کرنے کا واقعہ بیان کیاگیاہے۔ایوان کے اندر”اسپیکر” کاقتل پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ایک عبرت ناک واقعے کے طورپراب بھی یادکیاجاتاہے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے اس واقعے ذمہ داری جنرل امراؤخان نے مجیب الرحمٰن پر ڈالی ہے۔یہ بہت چشم کشاتحریراورحقیقی معنوں میں تاریخ کے گمشدہ ورق کی بازیافت ہے۔
”پہلی جلاوطنی” میں پاکستان کے آخری گورنرجنرل اور پہلے صدر اسکندرمرزاکی ملک کے پہلے مارشل لاکے نفاذکے بعدگن پوائنٹ پر برطرفی اورجلاوطنی کا دلچسپ بیان ہے۔ ایوب خان مارشل لا کے نفاذ سے ٹھیک بیس دن بعدرات گئے اسکندرمرزاکے بیرے نے ان کے کمرے کادروازہ کھٹکھٹایا،وہ گاؤن پہن کرباہرنکلے اوریہ دیکھ کرحیران رہ گئے کہ ایوان صدر کی راہ داریوں اورباغ کی روشوں میں اسٹین گن اور دوسرے اسلحہ سے لیس بڑی تعداد میں فوجی کھڑے تھے۔اسکندرمرزا سیڑھیوں سے اتر کرباہرآئے تو ان کاسامناچارجرنیلوں اے ہوا، جنرل شیخ، جنرل برکی،جنرل اعظم خان اورمیجرجنرل شیربہادر ۔ان میں سے کسی ایک نے ان سے بات کی اورپیغام دیا،انھیں پاکستان چھوڑنا ہوگا۔اسکندرمرزا نے بتایاکہ بندوق کے زورپرمیرا استعفٰی لینے کے بعد تین جرنیل واپس چلے گئے اورشیربہادر کووہیں چھوڑ گئے جس نے ان کے اوران کی اہلیہ ناہیدمرزاکے ساتھ انتہائی بدتمیزی کامظاہرہ کیا۔ایک گھنٹے کے اندرایوان صدر کی مکین اپنا سامان باندھ کرروانگی کے لیے تیار تھے۔انھیں ماڑی پور ایئرپورٹ پہنچادیاگیاجہاں امریکی سفیرانھیں خداحافظ کہنے کے لیے موجود تھے۔ایئرفورس سے سربراہ ایئر مارشل اصغرخان بھی تھے۔ان مسافروں کوباربرداری جہاز میں کوئٹہ پہنچادیاگیا جہاں آئندہ کچھ دن انھیں بلوچستان انتظامیہ کے ایک افسرکے گھرقیام کرنا تھا۔پاکستان کی پہلی جلاوطنی کاذکرالمناک ہے۔
”بس اتنی سی بدعنوانی؟” کا آغاز ملاحظہ کریں۔”بس اتناکچھ ہی ہے؟ پاکستان کے پہلے فوجی حکمران ایوب خان نے فائل کوالٹ پلٹ کر دیکھا اورحیرت سے سوال کیا۔انھوں نے اپنے سیکریٹری کوحکم دیاتھاکہ وہ انھیں ان کے نافذ کردہ قانون ایبڈوکی زد میں آکرنااہل ہوجانے والے سیاست دانوں کی بداعمالیوں وربدعنوانیوں کاخلاصہ بناکرپیش کریں۔قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ ایبڈوکے ان باسٹھ بلندوبالا پہاڑوںکوکھودکردیکھاتو ان میں سے بداعمالیوں اوربدعنوانیوںکی چھوٹی چھوٹی چوہیاں برآمد ہوئیں۔” ایوب خان ان چوہیوں کودیکھ کر مایوس ہوئے اورکہا۔اگرایسی بات ہے تویہ سب دم دبا کربھاگ کیوں گئے۔مردانگی سے کام لے کرایبڈوکامقدمہ کیوں نہ لڑے؟”
یہ بھی پاکستان کی تاریخ کاعبرت ناک واقعہ ہے کہ معمولی الزامات میں ایبڈوقانون کی زد میں آنے والے سیاست دانوں نے اس کادلیری سے سامنا نہ کیا۔ جبکہ آج کرپشن کے پہاڑکھڑے ہونے کے باوجودہرسیاست داںخود کودودھ کادھلا ثابت کرتاہے۔کرپشن سے ملک کی معیشت ڈوب گئی ،لیکن یہ کسی کوعلم نہیں کہ پاکستان کی معیشت کیوںزبوں حالی کاشکارہوئی۔
”جوہم نے بھلادیا”کے دیگرمضامین کے چندعنوانات ہی دیکھ لیجئے ۔”کیایہ کشمیرکادردتھا”،”تاشقندکی بلی”،” پہلایوم دفاع”،”عشرہ ترقی سے چینی چوری تک”،”بے گناہ خون کاانتقام”،” ان کہی ہی رہ گئی جوبات”،”جب ٹوٹ گیاسلسلہ تکلم کا”،” تحریک آزادی یابغاوت؟ ”،”حیدرآباد کے اسیر”،”لٹناسجی سجائی دکان کا”،” انتشارمیںمخفی پھندا”،”فوج آتی ہے توآنے دو”،” تلاوت ہوئی یانہیں”،” ناکام تحریک کیکامیابی”،” اعتما د کاووٹ”،” تنہاسپاہی کی جنگ”،”ایوان اقتدارمیں لینڈنگ”،” ضلعی انتظامیہ کاقتل”،” مہنگائی کاراز”،” 22نہیں31 خاندان” اور” یہ توہم کاکارخانہ ہے”۔ ان عنوانات سے کتاب کی ہمہ گیری کابخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے۔
”ہم نے جوبھلادیا” انتہائی دلچسپ اورمعلومات سے بھرپور کتاب ہے۔پاکستان اورپاکستان کی تاریخ کوجاننے کے خواہش مندوں کویہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ ایسی کتب کی ہمارے نوجوانوں کواشد ضرورت ہے ، جوملک کی تاریخ سے ناآشناہیں اورکسی بھی سیاست داں کے جھوٹے نعروں سے متاثر ہوکر اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں ۔ حکومت پاکستان کویہ کتاب یونیورسٹی اورکالجز میں لازمی کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر فاروق عادل نے ہرمضمون میں مختلف مصنفین اورمحققین کی کتب کے حوالہ جات اوراقتباسات درج کرکے اپنی تحقیق کومستندبنایاہے۔ جس کے لیے وہ قارئین کی بھرپور داد اور پذیرائی کے مستحق ہیں۔اللہ کرے زورقلم اور زیادہ۔ڈاکٹرصاحب کی مزیدکتب کی جستجو میں اضافہ ہوا ہے۔قلم فاؤنڈیشن کے عبدالستارعاصم کوبھی ایسی بے مثال کتاب شائع کرنے پرمبارک باد پیش ہے۔