پروفیسرامجدعلی شاکرکی شخصی خاکوں پرمبنی چار کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔جن میں ”مسند“،”روایت“،”مکتب“اور”عزیمت“ شامل ہیں۔ ”خوش نفساں“ان کے شخصی خاکوں کاپانچواں مجموعہ ہے۔جسے راشداشرف نے زندہ کتابیں میں شائع کیاہے۔یہ زندہ کتابیں میں پہلی بارشائع ہونے والی چندکتابوں میں شامل ہے۔کتاب میں امجدعلی شاکرکے تحریرکردہ علم وادب کی اکیس نامورشخصیات کے خاکے شامل ہیں۔اس بارے میں راشداشرف ”چندباتیں“ میں کہتے ہیں۔
”پروفیسرامجدعلی شاکرمیرے کرم فرماہیں۔خاکہ نگاری پرگذشتہ برسوں میں ان کی کئی کتابیں آچکی ہیں اورسب ایک سے بڑھ کرایک۔کئی برس پیشترمذکورہ کتابوں ہی کے سبب امجد صاحب سے رابطہ ہواتھاجوآج تک قائم ہے۔2016ء میں ”زندہ کتابیں“ کاسلسلہ شروع ہوا اور اس سلسلے میں مصنفین کے لواحقین کی تلاش،ان تک رسائی اورتحریری اجازت کے مراحل درپیش ہوئے۔کئی معاملات میں،میں امجد صاحب کے بے مثال تعاون کے سبب ہی کئی لوگوں تک پہنچا۔ایسے کئی لکھنے والوں کی تفصیلات بھی امجدصاحب نے فراہم کیں جودنیاسے جا چکے تھے اوردوسرے کسی ذریعے سے ان معلومات کاملناناممکن تھا۔راقم کی خواہش تھی کہ امجدصاحب کی کوئی کتاب ”زندہ کتابیں“ میں شائع ہو۔مجھے بے حد خوشی ہے کہ ہماری درخواست کوانہوں نے قبول کیا۔”خوش نفساں“ کو”زندہ کتابیں“ میں پیش کرناہمارے لیے باعث فخرہے۔“
پروفیسرامجدعلی شاکرنے شخصی خاکوں کے علاوہ بھی کئی اورموضوعات پربہترین کتابیں تحریر کی ہیں۔جن میں ”دوقومی نظریہ“،”اقبالیات کے پوشیدہ گوشے“،”تحقیق وتدوین کے اصول ومبادی“ اور”خلیل الرحمٰن اعظمی احوال وآثار“ کے علاوہ اردوادب پربھی انہوں نے کئی کتب تحریرکیں۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پروفیسرامجدعلی شاکرجیسے کثیرالتحریرمصنف کانام گوگل سرچ انجن پرموجود نہیں اورتلاش پران کی کتابوں کاکوئی حوالہ نہیں ملتا۔
”زندہ کتابیں“ کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹرپرویزحیدر”خوش نفساں“کے بارے میں لکھتے ہیں۔”موجودہ کتاب”خوش نفساں“ میں بھی امجدصاحب نے بہت ہی مشہورہستیوں کاچناؤکیاہے اورانہوں نے ان کے ساتھ وقت بھی گزاراہے اورماشااللہ پروفیسرصاحب کولکھنے میں بھی ملکہ حاصل ہے۔شاکرصاحب دوستوں کی اچھائیوں کے ساتھ ساتھ خوب صورتی سے ان کی خامیوں پربھی رائے زنی ضرور کرتے ہیں۔اس سے یہ خاکے اوردل چسپ لگنے لگتے ہیں۔یہی ایک لکھاری کاکمال ہوتاہے کہ وہ حقیقت پسندی سے پہلوتہی نہ کرے۔میں لاہور میں رہتاہوں اوران میں سے چندسے میری بھی ملاقات ہے۔تویہ دیکھ کربہت خوشی ہوتی ہے کہ پروفیسرامجدصاحب نے اپنے جاننے والوں کی ذات کا پوری طرح احاطہ کیاہے۔پہلا خاکہ ڈاکٹررشیداحمدجالندھری کے متعلق ایک سیرحاصل تحریرہے۔ڈاکٹررشیدایک انتہائی پڑھے لکھے عظیم انسان تھے۔انہوں نے تعلیم دینی مدرسوں سے شروع کی اورپھربہت پڑھا۔جامعہ الاظہر،یورپ کی یونیورسٹیوں سے بھی تعلیم حاصل کی۔کیمبرج یونیورسٹی سے بھی استفادہ کیا۔پاکستان میں کئی بڑی بڑی ملازمتیں کیں۔لیکن ان کی راست گوئی ان کے آڑے آتی رہی۔خیروہ ایسی عظیم ہستی تھے جوایک چھوٹی سی زندگی میں کئی زندگیوں کاکام کرجاتے ہیں۔عبداللہ ملک سے کون واقف نہیں۔بہت عظیم آدمی تھے۔
پروفیسرامجدسے بہت سینئرلیکن امجدصاحب نے ان سے اچھی خاصی ملاقاتیں کیں۔لکھتے ہیں کہ وہ کتاب سے بہت محبت کرتے تھے اور اپنی کتاب کسی کودینے میں بہت محتاط تھے۔بے شمارکتابیں لکھیں اس کے علاوہ غیرمطبوعہ کام بھی بہت ہے۔ عبداللہ ملک کاتعلق مذہب سے بھی رہااورکمیونسٹ پارٹی سے بھی وابستگی رہی۔روزصبح لمبی سیرکرتے۔تمام راستے کلمہ طیبہ کاوردکرتے رہتے۔ادب لطیف کی آپاصدیقہ بیگم کابہت بہترین مفصل خاکہ شامل ہے۔آپاصدیقہ صاحبہ بہت باہمت خاتون تھیں۔وہ مشکل سے مشکل حالات میں ثابت قدم رہیں۔ شوہرسے علیحدگی بہت ہمت سے برداشت کی۔آپانے ساڑھے تین دہائیوں تک ”ادب لطیف“ کوجاری رکھا۔یہ انہی کی ہمت تھی کہ ”ادب لطیف“ کوشائع ہوتے پچیاسی سال ہوگئے ہیں۔اب تقریباً ایک سال پہلے صدیقہ آپاکاانتقال ہو ا تو بہت دکھ ہوا۔انتہائی صاف گو خاتون تھیں۔یہ چند خاکوں پراجمالی نظرہے۔باقی توآپ خود پڑھ لیں گے۔“
پروفیسرامجدعلی شاکرنے ”خمارِ رسوم وقیود“ کے نام سے دیپاچہ لکھاہے۔”رسم عام ہے کہ مصنف کتاب لکھنے کے بعد مقدمہ یادیباچہ لکھتا ہے۔مجھے عموماً یہ رسم نبھانامشکل محسوس ہوا۔کوشش یہ رہی کہ بغیرمقدمے یادیباچے ہی کے کتاب شائع کردی جائے۔ اگرکتاب لکھ کرکوئی کارنامہ انجام دیاہے تواپنے منہ سے اس کااظہاراچھانہیں لگتااوراگرکوئی خطاسرزدہوئی ہے توعذرپیش کرنے کی ضرورت ہی کیا۔کیونکہ عذر عموماً عذرلنگ ہی ہوتے ہیں،مگراب کے کتاب لکھنے کے بعدایک ڈیڑھ بات ایسی تھی جس کابیان ناخن پرقرض ٹھہراتھا۔اس لیے یہ چند سطورقلم بندکررہاہوں۔میں عموماً دنیاسے جانے والوں کے خاکے لکھتارہاہوں۔اس کایہ مطلب نہیں کہ اس صورت میں کسی بات کی تردیدکا خطرہ نہیں رہتا۔دراصل ایسی صورت میں یہ امکان کم ہوتاہے کہ کل کلاں آپ کواپنی رائے تبدیل کرناپڑے گی۔مگراس کتاب میں بعض خاکے ایسے ہیں جوزندہ شخصیات کے بارے میں ہیں۔ان میں سے تین خاکے ناصرزیدی کے بارے میں ہیں اورتب لکھے گئے تھے جب وہ زندہ تھے۔پہلاخاکہ تو”ادب لطیف“ لاہور”انشا“ کراچی میں شائع ہوا۔دوسرا”فانوس“ لاہور کے ناصرزیدی نمبرمیں اورتیسرا”ادب لطیف“ کے لیے پیش کیاگیا۔اس کی کمپوزنگ سے کچھ دن پہلے انہوں نے یہ خاکہ پڑھ بھی لیاتھا،مگراتفاق یہ ہے کہ اب جبکہ یہ کتاب اشاعت کے لیے کمپوزہوچکی ہے،ناصرزیدی ہم میں نہیں ہیں۔مجھ میں ہمت نہیں کہ میں ان کی وفات پرکچھ لکھ سکوں یالکھے ہوئے آخری خاکے میں پھرسے کچھ الفاظ شامل کرسکوں۔دراصل یہ میراذاتی دکھ ہے اوراس کابیان اس وقت میرے لیے بہت مشکل ہے۔“
منورعثمانی نے ”امجدعلی شاکرکی خاکہ نگاری“ کے عنوان سے خاکہ نگاری کاجائزہ لیاہے۔”خاکہ نگاری کاکلاسیکی روپ توآپ نے دیکھا ہوگا، جوحلیہ نگاری اورمزاح نگاری کے تال میل سے پھلتاپھولتا،کچھ حقیقی وفرضی واقعات سے سجتاسنورتااورکسی اعلیٰ وارفع شخصیت سے ملاقاتوں کو کچھ اس طرح پیش کرتاہواسامنے آتاہے کہ وہ شخصیت آخری نتیجہ موصول ہونے پرنہ اعلیٰ رہتی،نہ ارفع! ہوتایہ ہے کہ خاکہ نگارنے اپنے حسب نسب اورمقام ومرتبے کی جے جے کاراوراس کی شوخیوں اورجسارتوں کی ہاہاکارآہستہ آہستہ اتنی بڑھ جاتی ہے کہ موضوعِ بحث شخصیت،عبارت کے کسی مناسب موڑ پردبک کے بیٹھ جاتی ہے۔امجدعلی شاکرکے خاکوں میں آپ کویہ کلاسیکی،روایتی روپ نہیں ملے گا۔ ان خاکوں میں نہ کہیں جے جے کارہے نہ ہاہاکار! ان کے خاکے تقریظ ہیں نہ تنقیص،کوائف نامہ ہیں نہ عقیدت نامہ،نہ کسی کے لیے کٹہرا،نہ کوئی سفارشی رقعہ اورنہ خاکہ نگارکی ذات وصفا کااعلامیہ! امجدعلی شاکرکسی شخصیت پرلکھتے ہوئے اس تناظرکوسامنے لاتے ہیں جوشخصیت کے ظاہروباطن کاخالق بھی ہے اوراس کی شخصیت کے فیض سے وسعت پذیربھی ہے۔سوشخصیت کے اردگردپھیلامنظرنامہ صرف پس منظر نہیں رہتابلکہ شخصیت کاہم زادبن کرایک زندہ کردارکے طور پرکہانی میں شامل ہوجاتاہے،اورکہانی کی روانی میں اپناکردارنہایت غیرمحسوس انداز سے اداکرنے لگتاہے۔امجدعلی شاکرکے خاکوں سے ان کے نظامِ فکرکے بجائے ان کاتصورِ انساں اورتصورِ معاشرہ زیادہ خوبی سے واضح ہورہاہے اوریہ بھی حقیقت ہے کہ کسی کاتصورِ انساں اورتصورِ معاشرت منکشف ہوجائے تواس کے نظامِ فکرتک پہنچناآسان ہوجاتاہے۔ثفافتی تاریخ سے دلچسپی کایہ عالم ہے کہ محسوس ہوتاہے،ان کی خاکہ نگاری کابڑامقصدفقط اپنے اردگردکی ثقافتی تاریخ مرتب کرناہے۔ناصر زیدی کے خاکے میں زیدی صاحب کے وسیع حلقہ احباب کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگروہ اپنی دوستیوں کی کہانیاں لکھ دیں تولاہور اور راولپنڈی کی کلچرل تاریخ مرتب ہوجائے۔ایساتاسف ان کے نئے پرانے اکثرخاکوں میں ہے کہ لوگ اپنے ذہن میں کسی نہ کسی علاقے کی پوری تہذیبی تاریخ لیے پھررہے ہیں اورقلم بندکرنے سے گریزاں یاقاصر ہیں۔خاکہ نگاری معاشرے میں بکھری ایک ہی طرح کی شخصی نقول کومختلف ناموں اورنت نئے پیرایوں میں پیش کرنے کانام نہیں ہے۔شاکرصاحب اس راز کوسمجھتے ہیں،سوان کے یہاں یک رنگی نہیں، رنگارنگی ہے۔مثلاً ایک طرف یوسف حسن ہیں۔’وہ ایساپروفیسرتھاجواپنامطالعے اوراپنے نقطہ نظردونوں کوپیش کرتاتھا۔‘دوسری طرف پروفیسر سرمدجاویدہیں۔’وہ کاغذپرلکھی ہربات پرایمان لے آتے تھے،چاہے وہ طلبہ کی گائیڈکے اوراق ہوں یانسیم حجازی کے ناول۔‘ ان سے بالکل الگ افتخارمجاز ہیں جوصاحبِ مطالعہ اورصاحب الرائے ہیں لیکن پی ٹی وی پرسرکاری بیانیے کوسچ بناکرپیش کرنے کاعزم وحوصلہ رکھتے ہیں۔عبداللہ ملک ایسی شخصیت ہیں جن کے ہاں مختلف رویوں کی تالیف ہے،نفی نہیں۔داداامیرحیدرہیں جن کافکروعمل انقلابی اور ادائیں درویشانہ ہیں۔ناصر زیدی نے تقریبِ بہترملاقات کے لیے کئی متشاعرات کوشاعرات بنایا اوراحسان دانش کے شاگردہونے کاحق ادا کیا۔سلیم آغاقزلباش ہیں کہ جن کاظاہرسنجیدہ اوررسمی،جبکہ باطن شگفتہ،غیررسمی اورنکتہ آفریں ہے۔“
منورعثمانی نے بہت بھرپوراندازمیں خاکہ نگاری کی خامیوں اورخوبیوں اورامجدعلی شاکرکے اندازِبیان کوپیش کیااورمثالوں سے اسے واضح کیاہے۔
”خوش نفساں“ کا پہلاخاکہ پاکستان کے بہت بڑے عالم ڈاکٹررشیداحمدجالندھری کاہے۔جنہیں فضل الرحمٰن کی مانند وہ مقام اورپذیرائی نہیں ملی۔جس کے وہ حقدارتھے۔اسی بات کومدنظررکھتے ہوئے خاکے کے قدرے طویل اقتباسات پیش ہیں۔جن سے حقیقی علماء کے خلاف ہمارے رویوں کابھی اندازہ کیاجاسکتاہے۔
’بہت پرانی بات ہے۔میں تب کالج کاطالب علم تھا۔کسی رسالے میں ایک تحریرپڑھی۔یہ شامِ ہمدردمیں کی گئی ایک تقریرتھی۔عنوان کچھ ایساتھاکہ مذہب بہترین کردارکی تشکیل کرتاہے۔مقرر نے مثال میں مہاتماگاندھی کاذکرکیاتھااوربتایاتھاکہ گاندھی کے کردارکی تشکیل میں مذہب کوبنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔گاندھی جی کواس جرم کی پاداش میں قتل کردیاگیاکہ وہ مسلمانوں کی حفاظت چاہتے تھے اورانہوں نے پاکستان کواس کے حصے کی رقم دلوانے کے لیے مرن برت رکھاتھا۔مقررنے اس خواہش کااظہارکیاتھاکہ کاش کوئی مسلمان غیرمسلموں کی حفاظت کرتاہوا،جان دے کرمسلمانوں کوسربلندکردے۔مقررکانام تھا ڈاکٹررشیداحمدجالندھری۔ یہ تقریراورمقررکانام میرے حافظے میں نقش ہوگیا۔بعد میں پتہ چلاکہ موصوف محکمہ اوقاف پنجاب میں ملازم تھے اوراس تقریرکی پاداش میں انہیں ملازمت سے سبکدوش کردیا گیا۔دلیل وہیں رہی اوران کی بات آج تک غلط ثابت نہ ہوسکی۔کچھ سال میں ڈاکٹررشیدکاذکرسنتارہا،ملاقات کاموقع نہ ملا۔وہ کوئٹہ یونی ورسٹی میں صدرشعبہ اسلامیات تھے۔ایک دن اخبارمیں خبرپڑھی۔ایک مذہبی سیاسی جماعت کے لیڈر نے ان کے ایمان پرسوال اٹھایاتھا۔
ڈاکٹررشیدکوسیاسی ضرورت کے تحت ان صاحب نے امتِ مسلمہ سے خارج کردیاتھا۔یہ ضیاء الحق کادورتھااورلوگوں کودائرہ اسلام سے خارج کرنے کارواج عام تھا۔کیاکیالوگ تھے جودل وجان سے مسلمان تھے مگرافغان جہادکی مخالفت میں دائرہ اسلام سے نکالے جارہے تھے۔ڈاکٹررشید بھی ان کی زدپرآگئے۔
پھرڈاکٹررشید احمدجالندھری لاہورادارہ ثقافتِ اسلامیہ کے ڈائریکٹرہوکرآگئے۔میں ایک دن حافظ عبدالرشیدارشدکے مکتبہ رشیدیہ جانکلا۔ ایک صاحب میرمجلس تھے۔موضوع گفتگومولاناابوالکلام آزادتھے اوربات ہورہی تھی مصر میں مولاناپر ہونے والی علمی تحقیقات پر۔اس موضوع پرپورے شہرمیں ایک ہی شخص بات کرسکتاتھا۔میں نے فرض کرلیایہ ڈاکٹررشیداحمدہیں۔مجلس برخاست ہوئی توافضل حق قریشی نے میرے مفروضے کی تصدیق کردی۔ڈاکٹرصاحب اکثرلمبی بات کرتے تھے۔ان کی بات سن کربہت سے سوالوں کے جواب بھی مل جاتے تھے اوربعض اوقات ان کی گفتگوتفصیلی مطالعے سے بے نیازکردیتی تھی۔کبھی ایسی مختصربات کرتے کہ لاجواب کردیتی۔ایک دفعہ سعوی حکومت کی تاریخی آثارکومٹانے کی بات ہوئی۔کہ وہ شایدہرشے میں شرک ڈھونڈلیتے ہیں۔ڈاکٹرصاحب نے ایک فقرہ کہااورساری بحث ہی نمٹادی۔”دراصل انہیں توحیدکاہیضہ ہوگیاہے۔“
ڈاکٹررشیداحمدفکری حوالے سے ڈاکٹرفضل الرحمٰن اورپروفیسرمحمدسرورسے ذہنی قرب رکھتے تھے۔ڈاکٹرفضل الرحمٰن اورپروفیسرمحمدسروردونو ں مولاناعبیداللہ سندھی سے مستفیداورمستفیض تھے۔مولاناسندھی مغرب سے ڈرنے کے بجائے مغرب سے سیکھنے کی دعوت دیتے تھے۔ مولاناجدیدیت سے خوفزدہ نہیں تھے،روایت کوہمارے آج تک لانے کے داعی اورعلم بردارتھے۔ڈاکٹررشید یہ سوال اٹھاتے ہیں۔”کیا آج ہم مغرب کی سائنسی تعلیم سے تغافل برت سکتے ہیں؟“
وہ مغرب کی تردید کولایعنی خیال کرتے تھے اوراس دورمیں زندہ تھے جس میں مغرب کی تردیدکوفکرونظرکامنتہاخیال کیاجاتاتھا اورایسی فکرکو سرکاری سطح پراسپانسراورعام کیاجاتاتھا۔ڈاکٹررشیداورڈاکٹرفضل الرحمٰن میں ذہنی قربت تھی۔دونوں قدیم طرزکی تعلیم پائے ہوئے تھے اوردونوں نے مغرب کی جدیدترین جامعات میں بھی تعلیم پائی تھی۔ایوب خان ان دونوں کومغرب سے لے کرآئے تھے۔ڈاکٹرفضل الرحمٰن کے خلاف ہنگامے ذرازیادہ ہی ہوئے تھے تھے،سوایک صاحبِ علم شخص جہالت مآب رویوں کے سامنے ٹھہرنہ سکا اورشرافت سے کنارہ کش ہوگیا۔وہ شرافت کواہلِ علم کاخاصہ ہے۔ڈاکٹررشیداحمدجالندھری کویحیٰی خان کے دور میں نوکری سے نکال دیاگیا اوروہ امریکا چلے گئے۔وہاں ہارورڈاورشکاگومیں پڑھاتے رہے۔کوئٹہ یونیورسٹی آئے وہاں سے بھی انہیں نکلناپڑا۔ڈاکٹرصاحب کی عاشق بٹالوی سے خاصی شناسائی رہی۔عاشق بٹالوی بات بے بات مولاناابوالکلام آزاد پرنقدکرتے تھے،نقدکی،تہمت دھرتے تھے،مگرڈاکٹرصاحب مولانا سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ایک وقت آیاکہ عاشق بٹالوی ذہنی اورفکری طورپرایک سواسی کے زاویے پرمڑگئے۔عاشق بٹالوی کی کتاب ”اقبال کے آخری دوسال“ پڑھتے ہوئے اکثرخیال آتاکہ اس میں ابوالکلام آزادکاذکربے سبب ہے۔ڈاکٹرصاحب نے اس رازسے پردہ اٹھایااوربتایا۔’ایک سرکاری آدمی نے عاشق بٹالوی کوکتاب لکھنے کوکہا۔عاشق بٹالوی نے حیران ہوکرکہا،ان کاموضوع اقبالیات تو نہیں ہے۔وہ صاحب کہنے لگے،کچھ بھی لکھ دو،بس اس میں کہیں کہیں اقبال کاذکرآجائیاورایک آدھ جگہ ابوالکلام آزادکی مذمت آجائے۔‘ یہ بات ذہن میں رکھ کرعاشق بٹالوی نے کتاب لکھ دی اوروہ ماہرین اقبالیات میں شامل ہوگئے۔ایسادلچسپ انکشاف کہیں اورنہیں ملے گا۔ ایک روزپتہ چلاڈاکٹرصاحب امریکاسے آگئے ہیں مگروہاں چلے گئے ہیں،جہاں سے کوئی لوٹ کرنہیں آتا۔میں نے جنازے پرمحسوس کیا کہ جب وہ دنیاسے گئے تواکیلے تھے۔یہ جہالت مآب معاشرے کاخراجِ تحسین تھااس شخص کے لیے جودنیاکی دوبڑی یونیورسٹیوں جامعہ ازہر اورکیمبرج میں طالب علم اوردوبڑی یونیورسٹیوں شکاگواورہاورڈمیں استاد رہا،یہ وہ شخص تھاجوجامعہ رشیدیہ،دارالعلوم دیوبنداور بہاول پور کے جامعہ عباسیہ کاطالبِ علم رہاتھا۔ہم بھی کیابے نیازلوگ ہیں،بڑے بڑوں کونظراندازکردیتے ہیں۔
وہ لوگ تم نے ایک ہی شوخی میں کھودیے
ڈھونڈا تھا آسماں نے جنہیں خاک چھان کر“
ڈاکٹررشیداحمدجالندھری کے خاکے میں امجدعلی شاکرنے ایک بڑے عالم کی فکراوربطورقوم ہماری بے نیازی کاالمناک نقشہ کھینچاہے۔اس طویل اقتباس کے بعد مزیداقتباس کی گنجائش نہیں۔ڈاکٹرابوسلمان شاہجہان پوری کاخاکہ بے مثال ہے،جس میں ان کے بے شمارتحریری کارناموں کابھرپورذکر اورخراجِ تحسین پیش کیاگیاہے۔حیرت ہوتی ہے کہ ایک انسان اتناوسیع اورمختلف نوعیت کاکام تن تنہاکس طرح کر سکتاہے۔بھارت کے بہترین اردوادبی جریدے”عالمی اردوادب“ کے مدیراعلیٰ نندکشوروکرم کاخاکہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتاہے۔لکھتے ہیں۔”وکرم جی کارسالہ خاصاضخیم بھی ہوتاتھااوراہم بھی،مگروہ خود خاصے پاکٹ سائزکے نظرآئے۔وکرم جی نے ایک کتاب اٹھارکھی تھی۔ یہ کتاب مختلف شخصیات پرتھی اس میں پاک وہندکے لوگ تھے۔کہنے لگے میں نے اس کتاب میں پاکستان کے بہت سے لوگوں کوشامل کیا ہے۔وہ عمرکی نودہائیاں گزارچکے تھے۔میں نے انہیں دیکھاتونوے بہاروں کاتصورخیال میں آیا۔خزائیں دوردورتک تصور میں نہ آئیں۔ اس عمر میں مسکراتاچہرہ! انہوں نے ان نودہائیوں میں کیاکیاخزائیں دیکھی ہوں گی۔1947ء کی نقل مکانی کاذکرمزے سے کررہے تھے۔ فساد ہواتوآس پاس کے دیہات سے ہندوسکھ اٹھ کرراولپنڈی آگئے۔یہ بھی ان کے ساتھ پنڈی آپہنچے،حالانکہ یہ نہ ہندوتھے نہ سکھ۔یہ بیچارے توحسینی برہمن تھے۔ان کے والد کانام رام لال دت تھا۔سانحہ کربلامیں جان دینے والوں میں ایک دت تھے جن کے ساتھ ان کے چھ بیٹے جان سے گزرکرتاریخ کاحصہ ہوگئے۔یہ دت لوگ اب بھی خود کوحسینی برہمن کہتے ہیں،مگرانہیں برہمن ہونے کے ناطے ہندوسمجھاگیا اورہندوستان بھیج دیاگیا۔کچھ عرصے بعد اچانک خبرملی کہ وکرم جی کی بھی سناؤنی آگئی۔سوچتاہوں کیالکھوں۔ان کادیہانت ہوگیایاوہ انتقال فرماگئے۔پتانہیں وہ مرنے کے بعدجنت میں جاناپسندکریں گے یاسورگ میں،آخروہ حسینی برہمن تھے،یہ الجھن توان کے ساتھ رہے گی۔“
”خو ش نفساں“ میں عبداللہ ملک،ڈاکٹرسلیم اختر،زاہدڈار،سنجیدہ سلیم، آپاصدیقہ بیگم،ناصرزیدی،افتخارمجاز،ڈاکٹرمقصودحسنی،یوسف حسن، ثناورچدھڑ،ناصربلوچ،ڈاکٹراعجازبھٹہ،فرخ ملک،خالدہمایوں صداقت صاحب کے خاکوں کے علاوہ بھوت لکھاری،بٹ وبٹ اور پاسنگ شوبھی دلچسپ تحریریں ہیں۔مجموعی طور پر”خوش نفساں“شخصی خاکوں کی ایک بہترین کتاب ہے اورامجدعلی شاکر نے اپنی بہترین روایات کواس میں قائم رکھاہے۔