ڈاکٹرامجدطفیل اور ریاظ احمدکے ادبی سہ ماہی جریدے”استعارہ“ کاساتواں شمارہ بطور”محمدحسن عسکری نمبر“ شائع ہواہے۔محمدحسن عسکری 5 نومبر1919ء کوپیداہوئے اور18جنوری 1978ء کواس جہانِ فانی سے عالمِ جاودانی کوکوچ کرگئے۔اردوکے سب سے بڑے نقاد، افسانہ نگار،ادیب اورانگریزی ادب کے استادمحمدحسن عسکری کی صدسالہ تقریبات اردودنیامیں بھرپورانداز میں منائی جارہی ہے۔عکس پبلشرز نے گذشتہ سال محمدحسن عسکری صدی کے سلسلے میں ان کے مضامین پرمبنی کتاب اورحسن عسکری کی شخصیت اورفن پرلکھے جانے والے خاکوں کی کتاب”شخص وعکس“ شائع کی تھی۔ ”استعارہ“ کاخصوصی شمارہ بھی اس عظیم نقادکوخراج ِ تحسین پیش کرنے کی ایک عمدہ کاوش ہے۔
اردو ادب کے دوبڑے بھارتی ادیب اورنقادشمس الرحمٰن فاروقی اور شمیم حنفی،محمدحسن عسکری کواردوادب کاسب سے بڑا نقادکہتے اورلکھتے رہے ہیں۔وہ بہت اچھے افسانہ نگاراورانگریزی کے استادبھی تھے۔ان کااصل نام محمداظہارالحق تھا۔ان کے والدمحمدمعین الحق تھے۔ بلند شہر کے کورٹ آف وارڈسے ملازمت کاآغازکیا۔الہ آباد یونیورسٹی سے ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔ان کے اساتذہ میں فراق گھورکھپوری اور پروفیسرکرارحسین جیسے اساتذہ شامل تھے۔شکار پور رگھوراج میں اکاؤنٹنٹ رہے۔آل انڈیا ریڈیوسے بطوراسکرپٹ رائٹر وابستہ رہے۔ان کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”جزیرے“ 1943ء میں شائع ہوا اوردوسرا ”قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے“ تین سال بعد اشاعت پذیر ہوا۔
تقسیم کے بعد حسن عسکری پاکستان آگئے۔ یہاں انہوں نے مکتبہ جدیدسے سعادت حسن منٹوکے ساتھ ”اردوادب“ کااجراء کیا۔جس کے دوشمارے ہی شائع ہوسکے۔ان کاتحریری کام بے شمارہے۔تنقیدی کتب”انسان اورآدمی“،”ستارہ وبادبان“،”وقت کی راگنی“، ”جدیدیت اورمغربی گمراہیوں کی تاریخ“ کے علاوہ تراجم میں ”ستاوال کے ناول”سرخ وسیاہ“،”موبی ڈک“،”مادام بواری“ اور”آخری سلام“ شامل ہیں۔تالیفات میں ”میرابہترین افسانہ“ اور”میری بہترین نظم“ مرتب کیں۔مولانااشرف علی تھانوی کی کتاب کاانگریزی میں ترجمہ کیا۔مفتی محمدشفیع کی تفسیرکاانگریزی ترجمہ کررہے تھے۔لیکن زندگی نے مہلت نہ دی اورایک ہی پارے کاترجمہ کرسکے۔
سراج منیرمرحوم نے محمدحسن عسکری کوتنقیدکاقطب ستارہ قراردیا۔عزیزابن الحسن نے لکھا۔”ہم عصرادب کومتاثرکرنے اورجدیداردوزبان میں ہمہ جہت زندگی سے بھرپورنثرلکھنے،ادب کوصدیوں پرمحیط تہذیب کے روحانی تجربے کے طورپرپڑھنے،نشاط ثانیہ کے بعد مغربی ادب پر ناقدانہ نظررکھنے،مشرق ومغرب کے ادب کوآنکھیں چارکرکے اپنی افتادطبع کی روشنی میں پرکھنے، زندگی کے گہرے پیچیدہ اورتقدیری مسائل سے نبردآزماہوکرانہیں پاکستانی ثقافت میں سموتے ہوئے اردوزبان وادب کوایک جمال آفرین تجربہ بنانے کاکاخواب دیکھنے والے اس منفردنقاداورادیب کے کوئی قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔“
ادیب،افسانہ وکالم نگاراوراستادڈاکٹرطاہرمسعود،محمدحسن عسکری کواردوکاسب سے باخبر،بابصیرت اورسب سے متنازع نقاد قرار دیتے ہیں۔ ان کے افسانے ”حرامجادی“،”کالج سے گھرتک“ اور”چائے کی پیالی“ اردوادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
ادبی رسائل میں نامورمصنفین اورشعراء کے نمبرتواکثرشائع ہوتے رہتے ہیں۔لیکن نقادوں پرخصوصی نمبربہت کم شائع ہوئے ہیں۔ الحمد پبلشرزکے زیراہتمام شائع ہونے والے ”استعارہ“ نے ”محمدحسن عسکری نمبر“ شائع کرکے بہت اچھا قدم اٹھایاہے۔جس کے لیے ادارے کے منتظم صفدرحسین اورمدیرانِ کرام ڈاکٹرامجدطفیل اورریاظ احمدمبارک باد کے مستحق ہیں۔انہوں نے محمدحسن عسکری کی صدسالہ تقریبات کے موقع پرانہیں شاندارخراجِ تحسین پیش کیاہے۔
اداریہ میں تحریرہے۔”استعارہ کا پہلاخصوصی نمبراردوکے نہایت ممتاز،نقاد،افسانہ نگار،مترجم اوردانشورمحمدحسن عسکری(5نومبر1919ء تا 15جنوری 1978ء) کے حوالے سے شائع کررہاہے۔یہ دراصل اردوکے اس عظیم لکھنے والے کے پیدائش کے سوسال کی تکمیل پرہدیہ محبت ہے۔محمدعسکری اپنے تنقیدی اورفکری تصورات کے حوالے سے ایک متنازعہ شخصیت رہے ہیں۔ان تنازعات نے عسکری کی اہمیت کو کم کرنے کی بجائے اسے زیادہ اجاگرکیاہے اوربیسوی صدی کی اردوتنقیدمیں اگرکوئی ایک نقاد منتخب کیاجائے و ہ بلاشبہ محمدحسن عسکری ہوگا۔محمد حسن عسکری اردو تنقیدکے ہنداسلامی دبستان کے سب سے بڑے نمائندہ ہیں اورانہوں نے اپنے افکارسے اپنے بعدآنے والے نقادوں اورادیبوں کی کئی ایک نسلوں کومتاثرکیاہے۔
اردوتنقیدکے کئی قدآورمینارمحمدحسن عسکری سے خوشہ چینی کے معترف ہیں۔ان میں سلیم احمد، شمیم احمد،جمال پانی پتی،جاذب قریشی،سجادباقررضوی،فتح محمدملک،سہیل احمدخان،سراج منیر،ڈاکٹرتحسین فراقی،عزیزابن الحسن،مبین مرزا اور امجدطفیل جبکہ بھارت میں شمس الرحمٰن فاروقی،شمیم حنفی اورابوالکلام قاسمی کاذکرخصوصیت سے کیاجاتاہے۔ہم نے کوشش کی ہے کہ اس خصوصی شمارے میں لکھنے والوں سے تازہ مضامین لکھوائے جائیں،مگرمحمدحسن عسکری کی تفہیم کے لیے چندپہلے سے طبع شدہ تحریروں کوبھی شامل اشاعت کیاگیاہے۔ان میں شمس الرحمٰن فاروقی کاانٹرویو،آفتاب احمدخان،سراج منیراورڈاکٹرتحسین فراقی کے مضامین شامل ہیں۔ محمدحسن عسکری کے بارے میں لکھے مضامین کواشتیاق احمد نے چارجلدوں میں مرتب کیاہے جن میں سے دوپرتبصرہ اس شمارے میں شامل ہے۔ محمدحسن عسکری کی ایک گفتگو کورسالہ”جامعہ“ میں سلسلہ وار شائع کیاگیاتھا۔جس کومرتب شکل میں ”بیسویں صدی کامزاج“کے نام سے شائع کیاگیاہے۔اس پرتبصرہ بھی موجودہ شمارے کاحصہ ہے۔“
اس شمارے میں ایک خصوصی تحریر بھی شامل ہے،اس بارے میں اداریہ میں بتایاگیاہے۔”محمدحسن عسکری نے”تذکرہ اولیا“ کے ایک حصے کاجس میں داراشکوہ کے سوال اوران کے جواب شامل تھے،انگریزی زبان میں ترجمہ کیاتھا۔یہ ہمیں محمدحسن عسکری کے نہایت ہونہار شاگردڈاکٹرظفرحسن سے ملا۔ہم نے اسے محمدسہیل عمرکی خدمت میں پیش کیاکہ وہ اس پرکچھ حواشی تحریرکردیں۔مگراس کے بعد دوتین بار رابطہ کرنے کے باوجود محمدسہیل عمرنے نہ توکوئی جواب دیااورنہ حواشی لکھ کردیے۔سناہے کہ انہیں داراشکوہ کے حوالے سے کوئی بین الاقوامی تحقیقی منصوبہ ملاہواہے۔ہم یہاں محمدحسن عسکری کے ترجمے کاعکس شامل اشاعت کررہے ہیں۔ہماری بہترین معلومات کے مطابق یہ اب تک شائع نہیں ہوا۔“
خصوصی شمارے کی ابتدامحترم شمس الرحمٰن فاروقی کے محمدحسن عسکری کے بارے میں پچاس سے زائد صفحات پرمبنی طویل انٹرویوسے ہوئی ہے۔یہ انتہائی دلچسپ اورمعلومات افزا انٹرویوہے۔جس سے قارئین کوعسکری کے فکروفن اورنظریے سے آگاہی ہوتی ہے۔ایک سوال پر فاروقی صاحب نے کہاکہ ”عسکری صاحب نے تنقیدکوجن بلندیوں پرپہنچادیا،ان پراس کوقائم رکھنا ہی بڑاکارنامہ ہوگا۔چہ جائیکہ ہم اس سے آگے جاسکیں۔بہت سی باتیں انہوں نے صفائی سے بیان کی تھیں اوربہت سے باتوں کے لیے صرف اشارے کیے تھے،توشایدوہ باتیں جومضمر ہیں اوروہ باتیں جوانہوں نے اشارے میں بیان کی تھیں،ان میں سے کچھ کولے کرمیں نے وضاحت سے بیان کیا۔ہر تہذیب کوحق ہے کہ اپنے ادبی اصول اورمعیارخودمتعین کرے،اوریہ نامناسب ہے کہ کسی ادبی تہذیب پرکسی غیرتہذیب کے معیارات مسلط کیے جائیں۔یہ نکتہ میں نے صرف حسن عسکری کے یہاں دیکھا۔اوراس بات سے مجھے بڑی تقویت ملی۔میری بہت ساری گرہیں کھل گئیں۔راستے کھل گئے۔مجھے بھی یہ بڑی پریشانی تھی کہ اگرغزل کے بارے میں کہاجارہاہے کہ یہ انگلش پوئم یاویسٹرن لیرکس کی طرح نہیں ہے، یہ کمزورصنفِ سخن ہے،یاہمارے وہ اصنافِ سخن یاوہ اسالیب ِ تحریرجومغربی تحریرکے اسالیب سے ہم آہنگ نہیں ہیں،کوئی انہیں غیرترقی یافتہ یاکم زورسمجھے تواس کے خلاف دلیل کیاجائی جائے؟ دلیل لانے کی بہت کوشش کی لوگوں نے۔کلیم الدین احمدسے لے کرآلِ احمدسرور، خواجہ منظورحسین اوربہت لوگوں نے کوشش کی۔لیکن کوئی مسکت دلیل اس وقت تک کسی کی سمجھ میں آنہیں رہی تھی۔عسکری صاحب کایہ کہنا کہ ہرتہذیب کویہ حق حاصل ہے کہ اپنے ادبی معیارخودمتعین کرے،میرے لیے ایک بڑی بصیرت اورطاقت کاسبب بن گیا۔میں نے سوچاکہ ہم سانیٹ کے معیارپرغزل کو،رزمیہ کے معیارپرمرثیے کو،اوڈکے معیارپرقصیدے کوپرکھیں ہی کیوں؟عسکری صاحب کے اس نکتے کی روشنی میں اپنے خیالات پرنظرثانی کرتے ہوئے میں نے اپنے ادب کی ایک نئی طرح کی ادبی معیاربندی کے بارے میں سوچا۔“
جس طرح محمدحسن عسکری کے ایک نکتے نے شمس الرحمٰن فاروقی کی گرہیں کھول دیں۔اسی طرح وہ دیگرناقدین کے لیے بھی مشعل راہ ثابت ہوئے۔اس کے بعد مضامین میں بائیس مصنفین کی چوبیس تحریروں کوشامل کیاگیاہے۔جن میں ڈاکٹرعزیزابن الحسن اورمنورعثمانی کے دو،دو مضامین شامل ہیں۔آفتاب احمدخان کامضمون”محمدحسن عسکری،شخص اوردوست“ان کی خاکوں کی یادگارکتاب ”بیادِصحبتِ نازک خیالاں“ سے لیاگیاہے۔جوان کی محمدحسن عسکری کے خطوط کے حوالے سے مرتب کتاب میں بھی شامل ہے۔آفتاب احمدخان لکھتے ہیں۔”عسکری کے متعلق اکثرکہی جانے والی یہ بات درست ہے کہ وہ طبعاً خاموش اورکم آمیزآدمی تھے اوراگروہ کسی محفل میں موجود ہیں توضروری نہیں کہ وہ اس میں شریک بھی رہیں یہ بھی درست ہے کہ دم بھرکی صحبت ناجنس سے ان کووحشت ہونے لگتی تھی اوروہ فوراً بھاگ نکلتے تھے۔مگریہ بھی واقعہ ہے کہ وہ اپنے خاص دوستوں کے حلقے میں پہروں بسرکرسکتے تھے۔ان خطوط میں جوآپ کے پیش نظرہیں سات سات آٹھ آٹھ گھنٹوں کی طویل صحبتوں کاذکر ہے۔ایسی صحبتوں میں وہ خوب باتیں کرتے تھے اوراگرانتظارحسین بھی موجود ہوں توان سے چھیڑچھاڑبھی کرتے تھے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ گفتگوکے میدان کے مردنہیں تھے۔اورمیراخیال ہے کہ انہیں اس کاشدید احساس بھی تھا۔اسی لیے اکثرمحفلوں میں انہوں نے خاموشی کواپناوطیرہ بنالیاتھا۔“
بتیس صفحات کے اس طویل مضمون میں آفتاب احمدخان نے عسکری صاحب کی زندگی کے کئی اہم پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے۔بھارت کے معروف نقاداورخاکہ نگارشمیم حنفی نے ”عسکری صاحب اورالہ آباد“ کاتذکرہ کرتے ہوئے بتایا۔”ہربستی کاایک خاص مہک،ایک اپناچہرہ اورحلیہ ہوتاہے۔الہ آباد شہر،جہاں عسکری صاحب نے اپنی طالب علمی کازمانہ گزاراہندوستان کے تمام شہروں سے الگ تھا۔ہندوؤں کااتنا بڑاتیرتھ اوردنیابھرمیں جاناگیاالہ آبادکے نام سے۔الہ آبادکی سماجی وثقافتی اورذہنی زندگی بھی الہ آبادسے مخصوص تھی۔تین مقدس ندیوں، گنگا،جمنااورسرسوتی کاسنگم،کئی تہذیبوں کاسنگم بھی بن گیا۔الہ آبادیونیورسٹی ’آکسفورڈآف ایسٹ‘کہلاتی تھی۔یہ شہرہندی اردوادیبوں، صحافیوں اورملک کے سب سے ناموروکیلوں کامرکزبھی تھا۔
ہرابھرا،شاداب اورکھلاہوا بنگلوں کاشہر،انگریزی کے بین الاقوامی شہرت رکھنے والے شاعر،اروِندکرشن ملہوترانے اپنی ایک کتاب کاعنوان بھی یہی قائم کیاہے۔الہ آبادمنشی پریم چند،اصغرگونڈوی اوراردوہندی کے کئی بڑے ادیبوں کاشہرتھا۔یہاں کسی طرح لسانی اورتہذیبی تعصب کاگزرنہیں تھا۔عسکری صاحب کاذہن جوہرطرح کے مذہبی،فکری اورفرقہ وارانہ تنگ نظری سے آزاد رہاتواس کی کچھ نہ کچھ وجہ شہرالہ آباداورالہ آبادیونیورسٹی سے ان کی مناسبت اورنسبت بھی رہی ہوگی۔“
بزرگ ادیب اوردانشورفتح محمدملک نے”محمدحسن عسکری کاقومی وملی طرزِ احساس“ کے عنوان سے لکھاہے۔”محمدحسن عسکری نے اپنی ادبی زندگی کاآغازافسانہ نگاری سے کیاتھامگربہت جلد وہ انتہائی اہم عصری،ادبی اورتہذیبی موضوعات پردادِ تنقیددینے لگے۔ہرچندان کے فقط دو افسانوی مجموعے ”جزیرے“ اور”قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے“ شائع ہوئے تاہم وہ اب تک ایک نئے طرزِ احساس کے منفردافسانہ نگارسمجھے جاتے ہیں اوراردوفکشن کی تاریخ میں انہیں ہمیشہ یہ مقام حاصل رہے گا۔مجھے یوں محسوس ہوتاہے کہ ایک بھرپورتخلیقی زندگی سے تنقید نگاری کی جانب ان کی پیش قدمی کااولین محرک قومی زندگی کونئے فکرواحساس سے ثروت مندبنانے کی آرزوتھی۔یہ وہ زمانہ ہے جب تحریک پاکستان زوروں پرتھی مگرمسلمان ادیب قومی سیاست سے اپنی بیگانگی پرنازاں تھے۔مسلمان عوام تحریکِ پاکستان میں سرگرمِ عمل تھے مگر مسلمان ادیب جدیدیت اورمارکسیت کے حجابات میں گم مسلمان عوام کی جستجووآرزوسے ناآشنائے محض تھے۔ہماری ادبی دنیامیں قومی و ملی طرزِفکرواحساس،بڑی حدتک،غائب ہوکررہ گیاتھا۔ایسے میں محمدحسن عسکری کے ہاں افسانہ نگاری سے تنقیدنگاری کی جانب پیش قدمی عمل میں آئی اوروہ اس میدان میں یوں سرگرمِ عمل ہوئے کہ پیچھے مڑکردیکھنے کی نوبت ہی نہ آئی۔لکھنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی عملی زندگی میں بھی تحریکِ پاکستان کے خواب وخیال کی تہذیبی معنویت اجاگرکرنے کی خاطرمسلم کلچرل کانفرنس کے انعقادکے سے پروگراموں کوعملی جامہ پہنانے میں منہمک ہوگئے تھے۔اس زمانے میں عسکری صاحب ماہ نامہ ’ساقی‘ میں ’جھلکیاں‘ کے عنوان سے باقاعدگی کے ساتھ ایک کالم لکھتے تھے۔اس کالم میں بھی انہوں نے تصورِ پاکستان اورتحریکِ پاکستان کی حمایت میں خوب دادِ تحسین دی۔“
ان اقتباسات سے محمدحسن عسکری کی فکراورنظریات واضح ہوجاتے ہیں۔دیگرمضامین میں بھی ان کی شخصیت اورفکرکے مختلف زاویے اجاگر کیے گئے ہیں۔جن میں ڈاکٹرظفرحسن”استادمحترم عسکری صاحب مرحوم“ ڈاکٹرسعادت سعید”محمدحسن عسکری:روایت آشنائی اوردورِ حاضر“ سراج منیر”محمدحسن عسکری:دینی روایت کامفکر“ ڈاکٹرتحسین فراقی”محمدحسن عسکری اورجدیدیت“ عتیق اللہ”محمدحسن عسکری شناسی کی دقتیں“سرورالہدیٰ ”محمدحسن عسکری کی غالب پرتنقید“ ندیم احمد”محمدحسن عسکری“ امجدعلی شاکر”محمدحسن عسکری کاکارِتجدید“ ڈاکٹرعزیزابن الحسن ”محمدحسن عسکری:اردوتنقید کاقطبی ستارہ“ اورمحمدحسن عسکری کے خطوط کی زمانی ترتیب“محمدحمیدشاہد”تنقید،افسانہ،فارن ایڈاورعسکری صاحب‘‘ محموداحمدقاضی ”عسکری کاافسانہ حرامجادی۔ایک تجزیہ“ مبین مرزا”تنقیداتِ عسکری کی فکری جہت“ ڈاکٹرعزیزاحسن””محسن کاکوروی کی نعتیہ کائنات اورمحمدحسن عسکری“ ڈاکٹرقدیرانجم باجوہ”محمدحسن عسکری ایک تعارف“ ڈاکٹرمنورعثمانی ”اسالیب نثرکے مسائل،محمدحسن عسکری کی نظرمیں“ اور”محمدحسن عسکری کی تنقیدی کتب کی توضیحی فہرست“ اشتیاق احمد”محمدحسن عسکری اورجدیدیت“ ایم خالدفیاض”حرام جادی کا تجزیاتی مطالعہ“ اظہرحسین”محمدحسن عسکری کی تنقید کے اچھے برے پہلو“ اورڈاکٹرامجدطفیل کامضمون”محمدحسن عسکری کے ہاں روایت اور جدیدیت“ جیسے عمدہ مضامین شامل ہیں۔جن سے عسکری صاحب کے فکروفن کی ہرزاویے اور ہرپہلوکوزیربحث لایاگیاہے۔
مطالعہ کتب کے سلسلے میں ڈاکٹرعزیزابن الحسن نے ”عسکری پرآنے والی ایک عمدہ انگریزی کتاب“ اور”محمدحسن عسکری تنقیدی مطالعہ“ عقیل اخترنے ”اشتیاق احمدکی دوکتابیں“ اورامجدطفیل نے ”بیسویں صدی کامزاج“ کابھرپورجائزہ لیاہے۔آخر میں محمدحسن عسکری کے خطوط ڈاکٹرظفرحسن اورمحمدحسن مثنیٰ کے نام شامل کیے گئے ہیں۔
مجموعی طور پر”استعارہ کامحمدحسن عسکری نمبر“ بہت بھرپوراورعمدہ ہے۔لیکن اس میں عسکری صاحب کے ایک دوافسانے اورکالم اورمضامین کو بھی شامل کیاجاناچاہیے تھا۔تاہم اس نمبرکی اشاعت پرالحمدپبلشرز اوراستعارہ کی پوری ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔