بارش کا برسنا پکوڑوں کی خوشبو بچوں کی گلیوں میں کھیلتے ہوئے خوشیوں بھری آوازیں نوجوانوں کی موٹر سائیکل پر مستیاں، یہ سب کچھ ہوتا تھا مگر اب بارش کے چند چھینٹے پڑتے ہیں اور چہروں پر ہوائیاں اڑنا شروع ہو جاتی ہیں، دفاتر میں بیٹھے لوگ گھر بھاگنے کی کرتے ہیں فون پر فون شروع ہو جاتے ہیں کہ فلاں کہاں ہے وہ خیریت سے ہے خواتین گھروں سے پانی باہر نکالنے کی تدبیریں کرتی ہیں غرض یہ کہ بارش ہوتے ہی پورا کراچی بد حواس ہو جاتا ہے اور کیوں نہ ہو اس پر حکمرانی کرنے والوں نے اسکا بدترین حال کیا ہے اس کو ہر طرف سے نوچا ہے اور اب اسکی بحالی کے لئے ان کو اربوں ڈالر چاہیے، ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہوئے یہ لوگ اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ عوام نقل مکانی کر رہے ہیں اور یہ ڈھٹائی کے ساتھ بیان دیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے افسوس تو یہ ہے کہ میڈیا بھی ان کا یہ بیان نشر کر دیتا ہے اب سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ حل کیسے ہو مگر اس سے پہلے مجھے طارق عزیز مرحوم کے یہ الفاظ یاد آرہے ہیں
کراچی پاکستان کا دل نہ سہی مگر اسکی کھنکتی ہوئ جیب ضرور ہے کراچی میں ایک طرف پیسہ ہواوں میں اڑتا ہے اور دوسری طرف لوگ بھوک سے دم توڑ دیتے ہیں کراچی میں اونچی عمارتیں ہیں اور یہاں پر لوگ فٹ پاتھ پر سونے کے لئے مجبور ہیں یہاں علاج معالجہ کی بہترین سہولیات ہیں اور یہاں لوگ دوائ کے لیے ترستے ہیں کراچی میں بہت روشنی ہے اور کراچی میں بہت اندھیرا ہے، اس کھنکتی ہوئ جیب کی وجہ سے میرے دیس کے قریہ قریہ اپنے چہرے کی آسودگی میں اضافہ کرتا ہے
تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پورے پاکستان کو خوشحال بنانے والا یہ شہر بد حال کیوں ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ کہ اس شہر کو صرف وہ own کرتے ہیں جو یہاں مستقل بنیادوں پر رہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی صوبے سے ہو. مگر جو اس شہر میں روز گار کے لیے آتے ہیں ہیں وہ اسے عارضی ٹھکانے کے طور لیتے ہیں اور ویسا ہی سلوک کرتے ہیں جو جس پوزیشن پر ہے وہاں سے زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کر کے جانے کی فکر میں ہے تمیز تہزیب ثقافت سب کچھ کہیں کھو گیا رکشہ سے لیکر جہاز چلانے والے سب قانون توڑ رہے ہیں اور قانون کے محافظ ان کو یہ سب کچھ کرنے دیتے ہیں کیونکہ اسکے لئیے وہ بھاری رقم لیتے ہیں، پانی اس لئیے جمع ہے کہ نالے بند ہیں نالے اس لئیے بند ہیں کہ وہاں ناجائز طور پر گھر قائم کر لئیے گئے ہیں اور گھر والوں کو اس لئیے کچھ نہیں کہہ سکتے انہوں نے رقم دے کر گھر بنایا تھا اور جس نے رقم لی تھی وہ تو رٹائرڈ ہو گیا اس شہر کو سب سے پہلے انوسمنٹ کمپنیوں نے لوٹا اور پھر ہاوسنگ سوسائیٹی کا کام کرنے والوں نے لوٹا اور اب پنگ پانگ کی گیند بنے یہ عوام سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں کبھی تعصب کے نعرے تو کبھی روزگار کے وعدے اتنے بھولے عوام ہیں کراچی کے، اپنی آنکھوں سے دو جماعتوں کو لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں پھر ان ہی کو حکومت اختیار اور اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے دیکھتے ہیں اور پھر اگلے الیکشن میں ایک بار پھر ان کو لڑتے ہوئے دیکھتے ہیں اور پھر وہ ہی عمل بار بار نتیجہ یہ ہے کہ کراچی کو اس حال تک پہچانے والے آدھے سے زیادہ زمہ دار لوگ اس شہر میں ہیں ہی نہیں بلکہ اس ملک سے بھی غائب ہیں، اب ایک بار پھر ووٹ دینے کا وقت آنے والا ہے اور کراچی والو تم کو کرنٹ لگنے سے مرجانے والے بچوں کی چیخوں کا واسطہ تم کو ان کی ماوں کی سسکیوں کا واسطہ تم کو نالوں میں ڈوب کر مرجانے والے کے غمگیں اہل خانہ کے دکھ کا واسطہ تم کو نہ کہ صرف بارشوں بلکہ عام حالات میں بھی کبھی کچرا کبھی ٹرانسپورٹ کبھی ٹریفک جام کبھی نوکری نہ ملنے پر آپ جو غمگین ہو جاتے ہیں اس غم کا واسطہ اب ووٹ ان لوگوں کو بالکل مت دینا جنہوں نے آپ کو بیچ دیا جنہوں نے آپ کو لوٹ لیا جو آپ کو نوچ کر کھا گئے کیونکہ ایسے لوگوں کو ووٹ دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ ان کے ظلم میں اور جرم میں برابر کے شریک ہیں خدا کے واسطے کراچی پر رحم کریں یہ مزید زخم نہیں سہہ سکتا کراچی آج پاکستان میں بسنے والے لوگوں سے فریاد کر رہا ہے
زخم کھا کر مسکراؤں شرط ہے صیاد کی
تھک چکا ہوں میں یہ نذرانہ ادا کرتے ہوئے
اے میرے آزاد بھائی بن گیا ہوں میں غلام
تیری آزادی کا جرمانہ ادا کرتے ہوئے