ADVERTISEMENT
منزل کی طرف نکلتے ہوئے راستے سے آگاہ ہونا جتنا ضروری ہوتا ہے اتنا ہی ضروری زاد راہ ساتھ لے کر چلنا ہے۔ شہادت حق اور عدل کی شہادت—اور انجام کار غلبہ دین ہماری منزل ہے۔ آئین اور قانون کی پاسداری ہمارا راستہ ہے اور اخلاق ہمارا زاد راہ ہے۔ يَا اَيُُهَا الَّذِيْنَ اَمَنُوْا كُوْنُوْا قَوَّمِيْنَ لِله شُهَدَا ءَ بِالْقِسْطِ وَ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاَننُ قَوْمٍ عَلَى اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا ج اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ ج اِنَّ اللهَ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (المائدہ) انسانی زندگی میں معاشروں کو سب سے وحشت ناک جگہ بنا دینے والے رویوں میں تعصب بدترین رویہ ہے۔ اسی سے نفرت اور عداوت پیدا ہوتی ہے اور یہی عدل و انصاف کو پامال کرتا ہے۔
معاشرہ اگر کلمہ گو مسلمانوں کا ہے تو اس میں نیک بھی ہوتے ہیں اور بد بھی، گناہگار بھی ہوتے ہیں اور پرہیز گار بھی، صادق اور امین بھی ہوتے ہیں اور کاذب اور خائن بھی، سست بھی ہوتے ہیں اور ہوشیار بھی۔ ہم سے اتفاق کرنے والے بھی ہوتے ہیں اور اختلاف کرنے والے بھی۔ ہمارے حلیف بھی ہوتے ہیں اور حریف بھی۔ اندھے تعصب اور گہری نفرت کے ماحول میں اختلاف دشمنی بن جاتا ہے اور گناہگار فاسق اور فاجر تصور ہونے لگتا ہے۔ ایسا جذباتی اور نفسیاتی ماحول عدل کا قاتل ہوتا ہے۔ کئی بار لکھ چکا ہوں کہ عدل صرف کمرہ عدالت میں بیٹھے جج سے وابستہ معاملہ نہیں ہے۔ قانون سے بڑھ کر عدل اخلاق بلکہ ایمان کا معاملہ ہے۔ درج بالا آیت میں یہی بلند ترین اخلاقی ضابطہ بیان ہوا ہے کہ کسی فرد یا گروہ سے تمہاری ذاتی، اعتقادی، سماجی اور سیاسی مخالفت تمہیں نفرت و تعصب میں اتنا اندھا نہ بنا دے کہ تم زبان سے اس کے بارے میں عدل کی بات نکال نہ سکو۔
عدل سے انحراف کے جملہ اسباب میں ایک بڑا سبب کسی شخص یا سیاسی و مذہبی گروہ کا اپنی پارسائی اور صالحيت و تقوى کا زعم ہوتا ہے جس میں مبتلا ہونے والوں کو اپنے سوا ہر مخالف جہنمی نظر آتا ہے۔ ایسے ‘جہنمیوں’ کے بارے میں وہ دائمی بُعد و منافرت اور سخت زہریلا تعصب برتتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر مذہبی اور سیاسی پارٹی میں پانچ دس یا کچھ کم اور کچھ زیادہ افراد ایسے نکل آتے ہیں جو اپنی پارسائی اور صالحیت کے نشے میں مبتلا گروہ سے بڑھ کر نیک اور صالح ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے زعم پارسائی میں مبتلا لوگوں کی اس روش پر گرفت فرماتے ہوئے کہا ہے: فَلَا تُزَكُّوْا اَنْفُسَكُمْ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى یعنی اپنے تزکیہ و پاکیزہ نفسی کے ڈھول نہ پیٹو۔ تقوی اور صالحیت دلوں کا معاملہ ہے اور اللہ تعالی کو خوب معلوم ہے کہ کس کے دل میں تقوی ہے۔ اس آیت کے پہلے حصے میں لفظ لمم آیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت احتیاط اور پرہیز کے باوجود چھوٹے موٹے گناہ سرزد ہو ہی جاتے ہیں۔ جسے ان کا احساس ہو جائے اور وہ اپنے گناہوں پر اللہ سے بخشش طلب کرتا رہے تو اللہ بڑی وسعت اور مغفرت فرمائے والا ہے۔
ویسے گناہ اپنے مخالفوں میں دیکھ کر ان پر فاسق اور فاجر کا ٹیگ نہ چسپاں کر دو۔ ہم داعی ہیں۔ ہمارے دستور میں لکھا ہے اور ہمارے فہم دین نے ہمیں یہ شعور بھی دیا ہے کہ ہماری دعوت الی اللہ ہے۔ یہ شرک ہے اگر ہم کہیں کہ ہمارے قائد کے دامن گرفتہ اور عقیدت کیش ہو جاو تو ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ ہم مکلف ہیں کہ زبان و قلم اور جدید ابلاغی وسائل کے ذریعہ اللہ کا دین بلا کم و کاست لوگوں تک پہنچائیں۔ دین کے فہم اور شعور کی روشنی پھیلائیں۔ شرک و بدعت اور اخلاقی برائیوں کو مٹائیں۔ اشتعال، چیلنج، دعوت مبارزت اور معاشرت و سیاست کے میدان میں اپنے ساتھ اختلاف کرنے والوں سے تعصب برت کر ہم داعی کا کردار ادا نہیں کر سکتے۔
اخلاق ہمارا سب سے بڑا ہتھیار اور ہمارا زاد راہ ہے۔ اسی کے ذریعہ ہم لوگوں کے دل اپنی بات کے لیے نرم کر سکتے ہیں۔ نفرت بہر حال نفرت کو جنم دیتی ہے۔ جن کے بارے میں ہمارے دل عداوت و تعصب کے تنور بنے ہوئے ہوں ان سے ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ ہمیں معقول، مہذب، صالح، متقی اور شریف سمجھیں اور کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ جواب میں وہ ہم سے اتنی ہی نفرت نہیں کریں گے۔ ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم کیا کرنے اٹھے تھے؟ سیاست میں فتح کے جھنڈے گاڑنا اور انتخاب میں زیادہ سیٹیں لینا ہمارے اصل کام کا ایک جز ہے۔
اصل کام دین کی حقیقت سے آگہی و شعور کی آبیاری ہے۔ یہ کام بداخلاقی اور قانون شکنی سے ہونے کا نہیں ہے۔ ہماری حقیقی منزل مکمل اسلامی نظام ہے جس میں اقلیتوں سمیت ملک کے ہر شخص اور گروہ کے حقوق کی ضمانت ہے لیکن اس منزل تک پہنچنے کا محفوظ راستہ آئین کی بالادستی اور قانون کی پابندی ہے۔ یاد رہنا چاہیے کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں شروع سے ہی یہ راستہ بہت ناہموار اور مشکل بنا دیا گیا تھا۔ ہمیں یہ راستہ ہموار کرنا ہے اور ایسا کرنے میں ہمیں کسی مداہنت اور مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس راستے میں کھڑی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی ساخت اور شناخت سیکولر ہے۔ جرنیل اسلام کے کم ہی مخلص پائے گئے۔ اسٹیبلشمنٹ ملکی اشرافیہ کے ساتھ مل کر آئین کو مسلسل پامال کرتی ہے کیوں کہ اسے اپنی بالادستی کے راستے میں آئین رکاوٹ نظر آتا ہے۔ ہمیں آئین کے راستے سے ہی اپنی منزل یعنی غلبہ اسلام تک پہنچنا ہے۔