سجاول خان رانجھا کو میں لگ بھگ گزشتہ سوادو اڑھائی دہائیوں سے جانتا ہوں مگر واقعہ یہ ہے کہ ان کی شخصیت کو ڈھنگ سے نہیں جان پایاتھا کہ وہ چپکے سے چل دیے ۔ کل جب محترم عزیزالرحمن کا فون آیا اور وہ رانجھا صاحب کے چل بسنے کی اطلاع دے رہے تھے تو میری نظروں کے سامنے وہ اپنی پوری قامت سے آ کھڑے ہوئے تھے مگر جوں ہی میں نے انہیں کچھ قریب سے دیکھنا چاہا وہ کنی کاٹ کر کہیں دور نکل گئے ۔ مجھے یاد ہے جب وہ مجھے پہلی بار ملے تھے تووہ ایک ادیب تھے ۔ فکری تحریک کے جلسوں میں ہر ہفتے ملاقات ہوتی ۔ یہ ملاقاتیں بعد میں حلقہ ارباب ذوق کے جلسوں میں بھی ہوتی رہیں ۔ اس زمانے میں انہوں نے ’’گہر کی تلاش‘‘ ،’’کرب کی راہ گزر‘‘ اور ’’اگر صبح طلوع ہوئی‘‘ جیسے لائق توجہ سفر نامے لکھے اور ادبی حلقوں سے خوب خوب داد سمیٹی تھی ۔ پھر وہ گم ہو گئے ۔ ان کی ترجیحات بدل گئیں تو ملنا ملانا بھی موقوف ہو گیا ۔ پھر کئی برس بعدوہ ہماری طرف یوں آئے کہ ان کے ہاتھ میں ایک نئی کتاب کا مسودہ تھا ۔ عجب سے نام والی نئی کتاب:’’کھرپے کی پہلی بیٹھک‘‘ ۔
پنجاب یونیورسٹی لاہور سے صحافت میں ماسٹر کرنے والے سجاول رانجھا نے فرائی یونیورسٹی برلن جرمنی، لونڈ یونیورسٹی سویڈن ، کولمبیا یونیورسٹی نیو یارک اور یونیورسٹی آف ساءودرن مس سسی پی ہیٹز برگ امریکہ جیسے غیر ملکی تعلیمی اداروں میں مختلف کورسسز کرنے اور دنیا کے مختلف شہروں میں زندگی کو قریب سے دیکھنے کے بعد پاکستان میں صحافت شروع کی اور قومی اخبارات میں کالم لکھے مگر یوں لگتا ہے کہ وہ اندر سے مطمئن نہ تھے کہ یہاں جس صحافت کا چلن تھا اس میں کچھ زیادہ پڑھے لکھے اور اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنے والے شخص کی گنجائش کم کم نکلتی تھی ۔ خیر وہ اس شعبے سے وابستہ رہے، اور اپنی شرائط پر وابستہ رہے ۔ قومی اخبارات میں کالم نگاری کی، کئی پرچوں کے مدیر رہے مگر جب ادب کی طرف آئے تو سفر نگاری میں نام کمایا ۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ ادب ان کی ترجیحات میں رہا اور ہے بھی مگر ان کے مزاج کے تلون نے انہیں یہاں ٹکنے نہ دیا اور وہ نوجوان نسل کی ذہن سازی کی طرف نکل لیے ۔ اس باب میں اُنہوں نے دانشوری کا سیدھا راستہ نہیں چنا، اوبڑ کھابڑ گھاٹیوں کی طرف سے ہو کرگزرتے رہے ’’کھرپے کی پہلی بیٹھک ‘‘ بھی ان کے اسی اختراعی ذہن کی کارستانی ہے ۔
صاحب ! یہاں مجھے سجاول خان رانجھا کے اس احسان کا ذکر کرنا ہے جس کی بابت مجھے یوں لگتا ہے، اس کا بار بار ذکر نہ کروں گا تو یہ احسان فراموشی کے مترادف ہوگا ۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب رانجھا صاحب ایک اخبار میں مستقل کالم نگاری کر رہے تھے اورانہیں ادیب ہونے کا چسکا بھی لگ چکا تھا ۔ اسلام آباد کے ایک بڑے ہو ٹل میں ایک خوب صورت شاعرہ کے شعری مجموعے کی تقریب رونمائی میں مجھ سے گفتگو کے لیے رابطہ کیا گیاتھا ۔ کتاب میں جس طرح کی شاعری پڑھنے کو ملی تھی ، اس پر بات کرنا میری ترجیحات میں شامل نہ تھا لہٰذا معذرت کرلی ۔ دوسری جانب سے اصرار بڑھتا گیا مگر میرے مسلسل انکار کو دیکھتے ہوئے آخری حیلے کے طور پر میرے عزیز دوست اور عمدہ شاعر اصغر عابد کو میرے پاس بھیج دیا گیا ۔ اصغر عابد میرے بے تکلف دوستوں میں سے ہیں ۔ میں نے وہ شعری مجموعہ اپنے دوست کے سامنے رکھا اپنی مجبوری بتائی اور کہہ دیا :’’بعض لوگوں کے نزدیک عورتیں وہ جنسی انگیٹھیاں ہیں جن پر مرد اپنی آنکھیں سینکتے اور بدن پگھلاتے ہیں اور یہ شاعری ایسے ہی لوگوں کے لیے ہے، میرے لیے نہیں ۔ ‘‘ مجھے اس تقریب میں جانا تھا نہ گیا مگر وہاں میرا جملہ چل گیا ۔ اگلے روز کے اخبارات میں وہ ہنگامہ برپا ہوا کہ میں سہم سمٹ کر رہ گیا ۔ جس صورت حال سے میں بچ نکلنا چاہتا تھا وہ مجھ ہی پر اوندھا دی گئی تھی ۔ ہوا یوں کہ تقریب میں اپنا مضمون پڑھتے ہوئے اصغر عابد نے میرا جملہ بہ طور اقتباس پڑھ دیا ۔ خیر، اگر وہ جملہ درست درست رپورٹ ہوتا تو کوئی مضائقہ نہ تھا مگر اُن سے سہو یہ ہوا کہ وہ ’’بعض لوگوں کے نزدیک‘‘ کے الفاظ حذف کرگئے اور اسے یوں پڑھا جیسے عورتوں کے بارے میں وہ میرے خیالات مقتبس کر رہے تھے ۔ بس پھر کیا تھا سارا ملبا مجھ پر آن پڑا ۔ اخبارات میں ہر کوئی مجھ پر تھو تھو کر رہا تھا ۔ کسی صحافی نے اصغر عابدسے ان کا مضمون لے لیا تھا ، گویا ثبوت صحافی بھائیوں کے پاس تھا لہذا ایک اخبار نے پہلے صفحے کے چوتھائی حصے پر خوب نمک مرچ لگا کر، اور چیختی چلاتی سرخی کے ساتھ خبر چھاپی ۔ ساتھ ہی ایک مذہبی اور نیم عسکری تنظیم کی طرف سے نہایت گری ہوئی زبان میں میری مذمت کی گئی تھی ۔ کوئی مجھ سے پوچھ نہ رہا تھا کہ میں نے کیا کہا ۔ اخبارات میں میرے خلاف مہم چل نکلی تھی ۔ ایک اخبار نے اداریہ تک لکھ مارا ۔ حتی کہ حسن نثار کا میری مذمت میں چبھتا ہوا کالم بھی آگیا ۔ یہ تھے وہ حالات جن میں سجاول خان رانجھا میری مدد کو آئے ۔ انہوں نے ایک کالم لکھا ’’نشیب میں فراز‘‘ اورصحیح صورت حال واضح کی، وہ بھی یوں کہ سارا ہنگامہ لپیٹ کر رکھ دیا ۔ ذرا ایسے حالات کا تصور باندھیے جب خوب خوب دھول اُڑائی جارہی تھی، ایسی اور اتنی کہ میں خود اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگا تھا ،سجاول رانجھا کا میری مدد کو آنا اور مجھ میں حوصلہ انڈیل دینا، احسان نہیں تواور کیا تھا ۔
مجھے یاد ہے جب سجاول رانجھا کا پہلا سفرنامہ آیا تو میں نے اس کے حوالے سے لکھا تھا:’’گہر کی تلاش‘‘ دراصل عمیق تجربوں کے بیان کا وہ خوشگوار اسلوب ہے جو سحر طاری کر دیتا ہے، چونکاتا ہے، جھنجھوڑتا ہے اور کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔ ‘‘ پہلے سفرنامے اور آخری کتاب (جس کا وہ دیباچہ لکھوانے آئے تھے) کے درمیانی عرصے میں یہ اپنی موج میں چلنے والا اور اپنی شرطوں پر زندگی گزارنے والا یہ شخص جس بھی کام کو لے کر چلا اس سے پورے اخلاص سے وابستہ ہوا ۔ مجھے یاد ہے جب ہم اپنے دوست اعجاز حنیف کی فکری تحریک کے جلسوں میں جایا کرتے تھے تو یہ ان جلسوں کی کارروائی کو ریکارڈ کرنے کے لیے ٹیپ ریکارڈر اٹھالاتے تھے ۔ ایک بیگ ہمیشہ ان کے کندھے سے لٹکتا رہتا ۔ میں نے ایک بار کہا آپ کا بوجھ بڑھ گیا ہے ۔ تو کہنے لگے مجھے یہ گوا را نہیں کہ کسی کی گفتگو میں ، میں اپنی طرف سے ملاوٹ کروں ، اس لیے یہ بوجھ مجھے گوارا ہے ۔ یہی ٹیپ ریکارڈر لے کر ایک زمانے میں وہ پروفیسر رفیق احمد اختر کے ہاں جا پہنچے یہ وہ زمانہ تھا جب پروفیسر صاحب نئے نئے متعارف ہو رہے تھے ، رانجھا نے ان کی شہرت کے اس عمل میں اپنا حصہ ڈالا اور پھر الگ ہو گئے ۔ ان دنوں وہ انسانی نفسیات کی کرشمہ سازیوں کو جانچنے پرکھنے اور انسانی توفیقات کے علاقے کھوجنے میں جتے ہوئے تھے ۔ دانش کی اس ڈگر پر چلتے چلتے انہوں نے ایک مضحک کریکٹر کھرپا تراش لیا ۔ بہ قول ان کے‘‘مزاجا رجعت پسند لیکن روشن خیالی کا دعویٰ رکھنے والا یہ کریکٹر اپنے قارئین سے مکالمہ کرتا ۔ یہ قارئین فرضی نہیں اصلی تھے ، ان کے مسائل اور مشکلات بھی اصلی تھیں مگر کھرپا ان پر کلام کرتے ہوئے لطیف اور شگفتہ اسلوب کو اختیار کرتا ، یوں کہ اپنے قارئین کی ذہن سازی کا فریضہ بھی سرانجام دیے چلا جاتا ۔ ان تحریروں میں ادب کی چاشنی بھی ہے اور عمدہ اشعار بھی ۔ اور اسی پرلطف نثر میں وہ انسان کی اندر سے ایسی سرخوشی کامنبع کھوج نکالتے جو انسان کے بھیتر سے پھوٹ سکتی تھی ۔ وہ اپنے رسالے میں سائنس ، مذہب، انسانی نفسیات ، سب علوم ہنسی ہنسی میں برت لیتے تھے ۔ کئی عقدے حل کرتے اور کئی سوالات اُٹھاتے ۔ ایسے سوالات جو ہماری سوچ کو انگیخت کرتے تھے ۔
صحافی، کالم نگار، مدیر، سفرنامہ نگار سجاول خان رانجھا کی بے چینوں ، بے قراریوں اور خلوص بھری توفیقات نے انہیں زندگی بھر متحرک رکھا ۔ میری آخری ملاقات ان کے گھر میں ہوئی تھی ہم بہت دیر تک باتیں کرتے رہے ۔ وہ اونچا سننے لگے تھے ۔ انہوں نے جو سننے والا قیمتی آلہ لگوایا تھا ، وہ بھی کام کا نہ نکلا تھا ۔ کان میں انفکشن بڑھتی چلی گئی ۔ انہیں ایک عرصے سے دل کا عارضہ لاحق تھا اور پیس میکر کی مدد سے وہ دل کو رام کیے ہوئے تھے ۔ انہیں کرونا ہوا تو پتا چلا کہ پیس میکر بھی کام چھوڑ چکا تھا ۔ وہ کئی دنوں سے ہسپتال میں تھے ۔ میں صدر نشین اکادمی ادبیات پاکستان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس مشکل وقت میں وہ مدد کو آئے ۔ بھابی زاہرہ خان رانجھا کی ہمت کہ ساری عمر اس مشکل اور من موجی آدمی کا ساتھ دیا اور آخری وقت تک ان کی ہمت بندھاتی رہیں ۔ افسوس وہ اولاد کی نعمت سے محروم رہے مگر مجھے یاد ہے آخری ملاقات تک وہ حوصلے میں تھے اور اپنے ایسے مضامین کی بابت گفتگو کر رہے تھے جو نئی نسل کو شعور عطا کرنے والے تھے ۔ سچ پوچھیں تو وہ انسانیت سے جڑے ہوئے تھے اور انسانیت کی خدمت ہی ان کی زندگی کا نصب العین رہا ۔ میں نے اپنے کندھے سے ان کا جنازہ اٹھایا ہے، ان کی نماز جنازہ پڑھی ہے اور یہ سوچ سوچ کر دکھی ہوتا رہا کہ اتنے بے ضرر آدمی کو بھی موت نے نہیں بخشا ۔ جنازے میں بہت سے لوگ پہنچ گئے تھے ۔ میں مرحوم کا چہرہ دیکھ چکا تھا ۔ محبوب ظفر اوراختر رضا سلیمی بھی چہرہ دیکھنے کے لیے لپکے ;234; ایک مطمئن شخص کا چہرہ جس نے زندگی کو ایک مشن جان کر گزارا تھا ۔ وہ زندگی کے سوالوں کے جوابات تلاش کرتے کرتے مر گئے، موت کی بابت کبھی نہ سوچا ۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ اس سوال کا جواب ایک لمبی چپ ہے ۔ امن لکھنوی نے کہا تھا:
زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے
موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کچھ نہیں۔