کچھ زیادہ برس نہیں بیتے کہ مجھے ہندوستان سے کشمیری لال ذاکر کی کتاب”فیض کی دنیا“ ملی تھی۔انہوں نے بہت محبت سے میرا نام لکھا اور نیچے دستخط کر دیے تھے۔ اسی کتاب کے آغاز میں مصنف کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی کا مضمون تھا جس میں اُن کا کہنا ہے کہ”ذاکر صاحب نے زندگی کی تقریباً ایک صدی کا عرصہ طے کر لیا ہے لیکن پھر بھی ان کا قلم واماندہ نہیں ہوا ہے۔“ زندگی کے آخری دن تک اردو ادب سے وابستہ رہنے والے ذاکر صاحب اگلے سال یعنی ۶۱۰۲ء میں چل بسے تھے اور اب تو فاروقی صاحب بھی نہیں رہے۔ کشمیری لال ذاکر اُردو دنیا کا زرخیز تخلیقی ذہن تھے۔ پروفیسر ارتضی کریم نے ان کی رحلت پر کہا تھا کہ”انہوں نے اپنی کہانیوں میں اپنے وطن مالوف کشمیر کو جاوداں کیا۔“ انہی کشمیری لال ذاکر نے اپنے ناول”انگوٹھے کا نشان“(مطبوعہ 1979) کے دیباچے ”پہلا قدم“ میں لکھا تھا:
”انسانیت کی اس سے زیادہ توہین اورکیا ہو سکتی ہے کہ کچھ صاحبِ اقتدار لوگ اپنی ہوشیاری سے بہت سے لوگوں کو عمر بھر کے لیے غلام بنا لیں اور ان سے عزت و وقار سے رہنے کا حق چھین لیں۔“
تو یوں ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں یہی تو ہورہا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر میں اردو زبان کا رواج تو پہلے سے تھااور یہ زبان اتنی مقبول تھی کہ1889ء میں مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دور میں اسے سرکاری زبان کا درجہ مل گیا۔ تب سے اب تک اس دھرتی کے دکھوں کو سمیٹنے والی یہ زبان بہت کچھ کہہ رہی ہے۔ پریم ناتھ پردیسی کے لفظوں میں:
”کشمیر کا ہر باشندہ بذات خود ایک افسانہ ہے جس کی طرف آج تک کسی نے توجہ نہ دی۔یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ غلامی ہے، افلاس ہے شخصی راج ہے“
پریم ناتھ پردیسی کے بارے میں حامدی کاشمیری نے اپنی کتاب”ریاست جموں و کشمیر میں اردو ادب“ میں ایک پورا باب قائم کیا اور لکھا کہ پردیسی1955ء میں مرنے تک اردو زبان و ادب سے وابستہ رہے افسانوں کے تین مجموعے دیے؛”شام و سحر“،”دنیا ہماری“،”بہتے چراغ“۔ انہوں نے سیاسی اتھل پتھل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آزادی کے جذبوں کو اپنے دل پر محسوس کیا تھا۔ اسی مقام پر حامدی کاشمیری لکھتے ہیں:
”ریاست کے باشندے صدیوں کی محکومی، افلاس اور پس ماندگی سے تنگ آکر آزادی، فارغ البالی اور ترقی کے خواب دیکھنے لگے تھے اور اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے مطلق العنانیت سے ٹکرانے لگے تھے۔ 1939ء میں سنٹرل جیل کے آہنی دروازوں کے باہر لوگوں کاایک مشتعل ہجوم حکام کی بالادستی اور تشدد کے خلاف غم و غصہ اور نفرت کے کھلم کھلااظہار پر اتر آیااور کتنے ہی مجاہدین کے بدن فوجیوں کی گولیوں سے چھلنی ہو گئے اور شہدا کا لہو سرزمین کشمیر کو سیراب کر گیا۔“
شہیدوں کے بہتے لہو سے کشمیر کی سرزمین مسلسل سیراب ہو رہی ہے۔ وہ جزوی یا علامتی خود مختیاری جو ہندستانی آئین کی شق370 کے مطابق کشمیریوں کو حاصل تھی، اس کے خاتمے کے بعد تو یوں لگتا کہ وہاں کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی شروع ہو چکی ہے۔ لکھنے والوں کا قلم مودی سرکار کی سفاکی پر خون کے آنسو رو رہا ہے۔
کہتے ہیں یہ خطہ دھرتی کی آنکھ تھا کوئی پانچ ہزار سال قبل مسیح یہاں کشپ رشی نے طویل عرصے کی تپسیا کے بعد دیوتاؤں کی توجہ حاصل کی اور ان کی مدد سے حد نگاہ تک پھیلے پانی کے ذخیرے سُتی سر جھیل کو بارہ مولاکے مقام پر نکاسی دے کر اس سارے علاقے کو انسانی رہائش کے قابل بنایا تھا۔ جب ازل سے رکے پانیوں کا ذخیر ہ وہاں سے بہہ نکلا تو لگتا تھا جیسے دھرتی کی آنکھ رو رہی تھی۔ یہ علاقہ بعد میں کشمیر ہوا۔ یہاں پہلے پہل ناگاؤں اور پشاچوں کے آریائی نسل کے قبیلے آکر بسے پھر وقت نے کئی کروٹیں لیں نویں صدی میں ہندو حکمران ہوئے،چودہویں میں مسلمان پھر سکھوں اور ڈوگروں کے ہاتھ اقتدار کیا آیا وہاں کے ایک ایک باشندے کی آنکھ آنسوؤں سے بھر گئی۔ یہ ایسا سفاک تاریخی عمل تھا کہ کشمیر ی اس میں پستے رہے تاہم وہ جو کہا گیا ہے کہ ماؤں نے انسانوں کو آزاد جنا ہے کوئی انہیں غلام رہنے کا عادی کیسے بنا سکتا ہے، تو یوں ہے کہ غلامی کو برداشت کرلینا کشمیریوں کے خمیر میں بھی نہ تھا۔ میں نے کہیں George Cunninghamسے یہ روایت کیا ہوا پڑھا تھا کہ ”کشمیری ہندوستان کی سب سے لافانی نسل ہے“ یہ کننگھم وہی ہے جس نے ۸۴۹۱ ء میں انڈین آرمی کے کمانڈر انچیف Robert Lockhart کو خبر دی تھی کہ کشمیری اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور قبائلی ان کی مدد کو پہنچ گئے ہیں جنہیں روکنا ان کے بس میں نہیں ہے۔ جب ہندوستان آزادی اور تقسیم کی منزلوں سے گزر رہا تھا تو کشمیری مسلمان جو۷۷ فی صد سے زیادہ اکثریت میں تھے اپنی ریاست کا ادغام پاکستان کے ساتھ چاہتے تھے، جو ہر لحاظ سے تقسیم کے اصول کے مطابق تھا مگر ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ پس و پیش کر رہا تھا۔ مقامی کشمیری آبادی اپنے حق کے حصول کے لیے مہاراجہ کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی تو مہاراجہ نے اس بغاوت کو کچلنے کے لیے ظلم کی انتہا کر دی۔ اس ظلم کی خبر ادھر پختون قبائلیوں تک پہنچی تو وہ مدد کو پہنچے۔ انڈیا سے مددکے حصول کے لیے مہاراجہ نے جموں و کشمیر کے ڈپٹی پرائم منسٹر آر ایل بٹرا کو دہلی بھیج دیا۔ اس نے مہاراجہ اور پرائم منسٹر کی درخواست لارڈ ماونٹ بیٹن کو پہنچائی۔ اس کا جواب تھا کہ جب تک ریاست انڈیا کے ساتھ الحاق کا اعلان نہیں کرتی وہ کچھ نہیں کرپائے گا کہ وہ انڈیا کا گورنر جنرل ہے، متحدہ ہندوستان کا وائسرائے نہیں۔ مہاراجہ کے ہاتھوں سے کشمیر نکل رہا تھا لہٰذا اس نے 26 اکتوبر 1947ء کو انڈیا سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ تاہم یہاں بھی شرط لگائی گئی کہ جونہی حالات معمول پر آئیں گے ریاست کے مقدر کا فیصلہ اس کے عوام کریں گے۔ جنگ بندی ہونے تک کشمیر دو حصوں میں بٹ چکا تھا اور اسی بٹے ہوئے کشمیر کے مقبوضہ حصے کے باسیوں پر زندگی کی ساری راہیں مسدود کی جا چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس قضیے پر قرارداد 13اپریل 1948 کو منظور ہوئی تھی جس میں یہاں کے عوام کا استصواب رائے کا حق تسلیم کیا گیا تھا مگر۳۷واں سال چل رہا ہے اور انڈیا ٹال مٹول کیے جاتا ہے۔ مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے اسٹیٹس کو بدل کر اس راہ میں اور بھی مشکلیں بڑھا دی ہیں۔ اس کا شدید رد عمل ہواتو مقبوضہ کشمیر میں فوج کی تعداد بڑھا کر ریاستی ظلم کو اور بھی تیکھا کر دیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے علاقے پانپور میں 1919ء میں پیدا ہونے والے ایک شاعر غلام محمد میر طاؤس نے بہت پہلے کہا تھا:
گھات میں صیاد، پہلو میں ہے کھٹکا تیر کا
ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تصویر کا
ہویہ رہا ہے کہ انسانیت کے دشمن مودی نے گھات لگا کر بیٹھنے کی بجائے پوری قوت اور سفاکی سے کشمیری عوام کو کچلنا شروع کر دیا ہے۔ایک اور شاعر طالب انصاری جو 1920 میں دلنہ بارہ مولہ میں پیدا ہوا،اس نے کہا تھا:
کہو شبیر سے میدان میں پھر للکارتا نکلے
یزید عصر ہے تیار، خنجر آزمانے کو
دُکھ یہ ہے کہ اب جب مقبوضہ کشمیر میں بہ قول طالب انصاری ”یزید عصر“ پوری سفاکی کے ساتھ”خنجرآزما“ ہے مسلم امہ اپنا کوئی کردار ادا کرنے کی بجائے اپنے اپنے مفادات سے وابستہ دکھائی دیتی ہے۔ یہ صورت حال انتہائی تکلیف دہ ہے۔ لگ بھگ یہی تکلیف اور شکایت ہمیں اپنے ہاں کے مختلف طبقات کے رویوں کے سبب بھی ہوتی ہے۔سیاسی سماجی سطح پر اس ظلم و ستم کے خلاف جس رد عمل، سنجیدگی اور حکمت عملی سے آگے بڑھنے کی ضرورت تھی، اس کا عشر عشیر بھی کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔اقبال نے ملازادہ ضیغم لولابی کا فرضی کردار تراشا اور اس وسیلے بہت تلخ بات کہہ دی تھی۔ یہی کہ ”تمام عارف و عامی خودی سے بیگانہ“۔ اسی نظم میں اقبال نے یہ بھی کہا تھا:
ملا کی نظر نور فراست سے ہے خالی
بے سوز ہے میخانہ صوفی کی مئے ناب
اے وادی لولاب
کشمیر اقبال کا آبائی وطن تھا اور وہ یہاں کے لوگوں کے دکھ درد کو محسوس کرتے تھے۔ غلام نبی خیال نے اپنے ایک مضمون میں ممتاز حسن کے حوالے سے لکھا ہے کہ اقبال نے ایک صحبت میں خود بتایا تھا کہ انہوں نے ۱۲۹۱ء میں سری نگر کے نشاط باغ میں بیٹھ کر لکھا تھا:
کشیری کہ با بندگی خو گرفتہ
بتے می تراشد زسنگ مزارے
ضمیرش تہی از خیال بلندے
خودی ناشنا سے ز خود شرمسارے
اس سے ایک چوتھائی صدی پہلے فروری ۶۹۸۱ میں جب لاہور میں رہائش پذیر کشمیریوں نے انجمن بنائی تو اقبال اس انجمن کشمیری مسلمانان کے سیکرٹری بنائے گئے تھے۔ اقبال نے اسی انجمن کے ایک اجلاس میں کہا تھا:”مل کے دنیا میں رہو مثل حروف کشمیر“۔ اس انجمن کے تحت کشمیریوں کے مسائل کی طرف توجہ دلاتے رہے۔ اقبال سے لے کر آج کے شاعر یامین تک سب کے دلوں میں کشمیریوں کی غلامی کا درد سمایا ہوا ہے۔ صفدر میر نے اپنی نظم ”فائربندی کی رات“ میں اس جانب اشارہ کیا کہ”ڈیڑھ سو سال سے موت کا راگ کشمیر سے اٹھ رہا ہے“ تو احمد ندیم قاسمی کا”مہاراج ادھیراج“ میں کہنا تھا:”حضور آپ نے خون انساں سے اپنے شبستاں کی تاریکیاں دور کی تھیں“ اور ایک اور نظم”کشمیر“ میں یہ بھی کہا:
تاریخ پلٹ رہی ہے اوراق
کشمیر کی برف شعلہ زن ہے
جوش ملیح آبادی نے اپنی نظم ”کمزور کو آسودگئی دل نہیں ملتی“ میں جنت کشمیر کے بیدار جوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:”جو قوم پہ مرتا ہے وہ مرتا نہیں ہے“۔ حفیظ جالندھری نے ”کشمیر کے جانباز“ میں یوں لکھ رکھا ہے:”وہ دیکھو وادی کشمیر کے جانباز جاتے ہیں“۔ جب کہ احمد فراز نے اپنی نظم”نیا کشمیر“ میں کہا تھا:”کب سے ہیں شعلہ بداماں و جہنم بکنار“۔
ہمارے دوست اصغر عابد کے کشمیر کی جد و جہد آزادی سے متعلق ایک شعری مجموعے کا نام ہی ”الم تا علم“ہے جبکہ ان کااسی موضوع پر سرائیکی شاعری کا مجموعہ ”برف دا سیک“ ہے تاہم یہاں مجھے ان کی طویل مثنوی”کشمیرنامہ“ یاد آتی ہے جس میں وہ اس امید کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں:
اب نہ کپواڑے میں ٹپکے گا لہو
ہر کفن بردار ہو گا سرخرو
اور خدا وندکریم کے حضور دعا گو بھی ہیں:
خطہ ءِ محکوم کو آزاد کر
ہر دُکھی دلدار کو دلشاد کر
مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کو بدلنے والے حالیہ بھارتی اقدامات کے بعد شاعروں کے ہاں احتجاج کی نئی لہر اٹھی ہے ہر کہیں تشویش ہے کہ وہاں ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اورریاستی تشدد اور ظلم کی تازہ تازہ باڑھ دیکھ کر انسانیت بھی منہ چھپانے لگی ہے۔اختر عثمان نے لکھا تھا:
یہ سر سناں مرا سر نہیں
یہ گلوب ہے نئے عہد کا
جب کہ پروین طاہر نے دکھ اور صدمے کی کیفیت میں لکھا”کاش میں پستول کی ایک گولی ہوتی /توسیدھے جاکر اس دل میں چھید کرتی/جس پر ظلم کی مہر ثبت ہو چکی ہے“۔ یامین نے اپنی نظم”پلکوں پر جمے آنسو“ میں لکھا ہے ”ہر گلی سے قبرستان جھانکنے لگاہے“ اور ”چندن کی خوشبوسے مہکنے والے گھر/آگ پکڑ کر اپنے ہی دھویں میں ڈوب رہے ہیں“۔ اس سب کے باوجود جلیل عالی کو لکھنے والوں سے شکایت ہے کہ جیسا شدید رد عمل آنا چاہیے تھا وہ نہیں آیا:
”رن پڑا تووفاکے متوالے/توڑ کر کل کی سوچ زنجیریں /پھاند کر ذات کی فصیلوں کو/آگ اور خوں کے سمندر میں /کیسے دیوانہ وار کود گئے/اور ہم کو یہ انتظار کہ کب/معرکہ ختم ہو تو اپنا قلم/فاتحوں کے لیے قصیدے کہے/مرنے والوں کے مرثیے لکھے“
لگ بھگ ایسی ہی شکایت جاوید احمد کو یو این او سے رہی۔ان کا کلام تو ہم ایک مدت سے سنتے آرہے ہیں اور دنیا کے منصفو کو کوستے آئے ہیں۔
شاعروں کی طرح عین آغاز سے فکشن لکھنے والوں نے بھی کشمیر ی مسلمانوں کے مصائب اور تحریک آزادی کو موضوع بنایا ہے۔ کہیں سطروں کے درمیان اور کہیں صاف صاف۔ منٹو کا افسانہ ”ٹیٹوال کا کتا“اور”آخری سیلوٹ“ اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔یوں تو کرشن چندر کا ناول ”شکست“ ہو یا ان کے کئی افسانے، ان میں وہ لوکیل کشمیر کو بناتے نظر آتے ہیں۔ کہیں کشمیر کی جھیلیں ہیں اور کہیں اس کے پہاڑ اور وادیاں کہیں دھان کے کھیت ہیں اور کہیں زغفران کی خوشبو، وہاں گھٹائیں عورت کی آنکھوں کی طرح برستی ہیں۔ جنت اور جہنم، کفارہ، کشمیر کو سلام، لاہور سے بہرام گلہ تک،آپ افسانے پڑھتے ہیں اور یوں محسوس کرتے ہیں جیسے آپ کشمیر جنت نظیر میں ہیں۔ یہی کیفیت قدرت اللہ شہاب ”پکے پکے آم“ اور”پھوڑے والی ٹانگ“ میں بھی ہوتی ہے۔”نندہ بس سروس“ میں قدرت اللہ شہاب نے کشمیری مسلمانوں،ڈوگرہ شاہی میں کیسا کیسا ظلم سہہ رہے تھے، اس کا زائچہ بہت عمدگی سے کھینچا گیا ہے۔ میلے پرانے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس کشمیری مسلمان ہاتو دو دو تین تین من کا وزن اٹھائے رینگ رینگ کر پہاڑ چڑھنے پر مجبور تھے۔ اسی تحریر میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت کشمیری مسلمان کی زندگی کی قیمت صرف دو روپے تھے۔ فتح محمد ملک نے اپنی کتاب ”تحریک آزادی کشمیر:اردو ادب کے آئینے میں“ کے اندر بہت ساری ایسی تحریروں کو مجتمع کر دیا ہے جنہیں پڑھ کر اصل صورت حال واضح ہوتی ہے۔ اسی کتاب میں اشفاق احمد کے ایک افسانے کی جانب توجہ دلائی گئی ہے جس میں ظلم سہنے والی کشمیری لڑکی ایک ایک کے پاس جاکر اپنے زخم دکھاتی ہے اور چاہتی ہے کہ وہ شاعر ہوں یا ادیب، دانشور ہوں یا فن کے کسی بھی شعبے سے متعلق وہ اس ظلم پر اپنا رد عمل دیں۔ منٹو کے افسانے ”ٹیٹوال کا کتا“ میں دونوں جانب کی بے حسی کو موضوع بنایا گیا تھا جس میں جنگ طویل ہوتی جا رہی ہے، جنگ جو محض ایک دکھاوا ہے جنگ بھی نہیں ہے۔ طرفین اپنے اپنے مورچوں میں جمے بیٹھے ہیں۔ کبھی کبھار ادھر ادھر سے فائر ہو جاتے ہیں اور بس۔ایک طرف اپنی فوج کے ساتھ صوبیدار ہرنام سنگھ اور بنتا سنگھ ہیں اور دوسری طرف اپنی فوج میں صوبیدار ہمت خان اور بشیرا اور درمیان میں ایک کتا جسے چپڑ جھن جھن کے نام سے پکارا جاتا ہے اوروہ کتے کی موت مارا جاتا ہے۔ منٹو کے افسانے”آخری سیلوٹ“ بھی ٹیٹوال کے مقام پر ہونے والی جنگ سے پھوٹنے والا افسانہ ہے اور اس کا آغاز ہی یہاں سے ہوتا ہے:
”یہ کشمیر کی لڑائی بھی عجیب و غریب تھی۔صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑا خراب ہو گیا ہو۔“
اس میں بھی ایک طرف رام سنگھ ہے”خنزیر کی دم“ اور دوسری طرف راب نواز ہے ”کمہار کا کھوتا“۔اس میں بھی تفریح کے لیے دونوں طرف سے گولیا ں چلتی ہیں اور کشمیر کا اپنا دُکھ کہیں اوجھل رہ جاتا ہے۔ تاہم پھر اچانک اس سوال کی صورت سامنے آتا ہے جو زخمی رام سنگھ نے اپنے پرانے دوست اور اب پاکستانی فوج کے صوبیدار رب نواز سے پوچھا تھا؛ یہی کہ:
”یارا سچو سچ بتاؤ، کیا تم لوگوں کو واقعی کشمیر چاہیے!“
منٹو کو کشمیری ہونے پر فخر تھا یہی سبب ہے کہ وہ وقفے وقفے سے اُدھر دیکھتے تھے۔چچا سام کے نام ایک خط سے مقتبس ہے:
”پنڈت جواہر لال نہرو کشمیری ہیں۔ان کو تحفے میں ایک ایسی بندوق ضرور بھیجئے گا جو دھوپ میں رکھنے سے ٹھس کرے۔ کشمیری میں بھی ہوں مگر مسلمان۔میں نے اپنے لیے آپ سے ننھا منا ایٹم بم مانگ لیا ہے۔“
راجندر سنگھ بیدی کے افسانہ”تعطل“ کے ذریعے بھی ہمیں وادی کے عام لوگوں کے دلوں میں جھانکنے کا موقع ملتا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل میں تعطل کی وجوہ سمجھنے کی طرف دھیان جاتا ہے۔ جن دنوں بیدی کشمیر میں ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر بن کر مقیم تھے تب بھی اپنے سیاسی خیالات کی وجہ سے تب کی کشمیری حکومت سے بھڑ جاتے تھے۔ ڈپٹی پرائم منسٹر سے جھگڑے میں تو وہ قید ہونے سے بال بال بچے تھے۔ اس گھٹن والے ماحول کو وہ محسوس کر رہے تھے جو وہاں کے عام آدمی کے لیے تھا اور جب تک مادھو پور کا پل نہیں پھاندا تھا وہ خود بھی اپنے آپ کو حراست میں سمجھ رہے تھے۔
محمود ہاشمی کا”پیر پنجال کے قیدی“ ہو یا رشید امجد کا سبز پھول ہم کشمیر کو اس رخ سے دیکھتے ہیں جو اس دنیا سے اور میڈیا سے بالعموم اوجھل رہتا ہے۔
حامدی کاشمیری کا تعلق سری نگر سے تھا۔وہ بہت عمدہ فکشن نگار اور نقاد تھے۔ ان کی کہانیوں میں کشمیر کے منظر نامے سے اپنی کہانیوں کا مواد اٹھاتے رہے اور ان لکھنے والوں کے کام کو بھی نمایاں کیا جن کا تعلق اس مقبوضہ وادی سے تھا۔ ان کی طرح دوسروں ادیبوں نے بھی اس باب میں بہت تفصیل سے لکھا ہے جس سے وہاں کی صورت حال کی ایک متوازی تاریخ مرتب ہو گئی ہے۔ جب بھی وہاں کے فکشن لکھنے والوں کی بات ہو گی محمد دین فوق،پریم ناتھ پردیسی پریم ناتھ در،تیرتھ کاشمیری،سوم ناتھ زتشی،علی محمد لون،ٹھاکر پونچھی،پشکر ناتھ،نور شاہ، حامدی کاشمیری،وریندر پٹھواری،آنند لہر،دیپک بد کی، وحشی سعید،غلام نبی شاہد،منصور احمد منصور، ترنم ریاض،ریاض تو حیدی جیسے فکشن لکھنے والوں کا ذکر ضرور ہوگا۔ یہیں ۳۱۰۲ میں پہلی بار چھپنے والے کشمیری افسانہ نگار غلام نبی شاہد کے مجموعے”اعلان جاری ہے“ کا ذکر ضرور ہونا چاہیے۔ اس میں ایک افسانہ ہے ”مداوا“اس افسانے میں مقبوضہ کشمیر میں سرسراتی دہشت کو تصویر کیا گیا ہے۔ کہانی بتاتی ہے کہ ماں باپ کے اکلوتے بیٹے کا دھماکے میں ایک بازو کٹ کر دور جا گرتا ہے۔ باقی اعضا اکٹھے کیے اور دفنائے جاتے ہیں لیکن بازو نہیں مل رہا۔ یہی کٹا ہوا بازو افسانے کا مرکزی کردار ہو جاتا ہے جسے ماں باپ ڈھونڈتے پھرتے تھے۔ ایک اور افسانہ ”آجادی“یعنی آزادی بھی پڑھے جانے کے لائق ہے۔ اس افسانے کے اس ایک اقتباس سے ہی آپ جان جائیں گے کہ کشمیر کا بچہ بچہ کیا چاہتا ہے۔
”وہ آگے بڑھا اور جیب سے دس روپیہ کا نوٹ نکال کر محی الدین کے ہاتھ میں تھما دیا اور سامنے سے ایک چپس کا پیکٹ اٹھاکر بچے کے قریب آگیا۔ چپس کا پیکٹ بچے کے ہاتھوں میں تھماتے ہوئے بولا۔یہ لو اب تو چپ ہو جاؤ۔۔۔چپس کا پیکٹ لے کر بچہ فوراً چپ ہو گیا۔سریندر بچے کو خاموشی سے دیکھتا رہا پھر قدرے اطمینان سے پوچھا۔”شاباش۔۔۔اب بو لو اورکیاچاہیے؟“بچے نے چپس کے پیکٹ سے کھیلتے ہوئے اسی اطمینان سے جواب دیا:”آجادی“۔
ترنم ریاض کے کئی افسانے میری نظر سے گزرے ہیں اور ان کا ناول ”برف آشنا پرندے“بھی جس میں وہ غیر منقسم کشمیر کے واقعات کو اپنی والدہ محترمہ کی یادداشت کے وسیلے سے متن کا حصہ بنا دیتی ہے۔ نہ صرف والدہ کے آنکھوں دیکھے واقعات، وہ ریاستی تاریخ کا ورق ورق کھنگالتی ہیں اور اسے ناول کے بہاؤ میں رکھ کر اسے تخلیقی دستاویز بنا دیتی ہیں۔ انہوں نے جموں میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی کی بابت لکھا ہے اور بتایا ہے کہ ایک لاکھ کے قریب مسلمان شہید کر دیے گئے اور اس سے دگنا پاکستانی علاقے کی طرف دھکیل دیے گئے تھے۔ترنم ریاض کا تعلق سری نگر سے ہے۔اُدھر ہی کے ایک اور افسانہ نگار ہیں ڈاکٹر ریاض توحیدی جو بہ قول حامدی کاشمیری نئی نسل کے نکتہ رس ناقد بھی ہیں۔کالے دیووں کا سایہ، مصلوب دھڑکنیں، خوف، تیسری جنگ عظیم سے قبل اور کچھ اور افسانے پڑھنے کے بعد میں نے انہیں لائق توجہ افسانہ نگار پایا ہے۔ اپنے افسانے ”کالے دیووں کا سایہ“ میں وہ چھر چھر بہتی آبشاروں کی بستی کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک مقام پراس کا المیہ یوں بیان کرتے ہیں:
”سالے!۔۔پیچھے کیوں ہٹے؟۔۔ ان کتوں کو جلدی جلدی یہاں سے ہٹاؤ۔ہوا میں بدبو پھیل رہی ہے۔۔۔
ان میں ایک انسانی لاش بھی ہے۔۔ایک نوجوان لرزتی آواز میں بولا
اس کو بھی یہاں سے دفع کرو اور ان کتوں کے ساتھ کسی نالے میں ڈال دو“کالی غار سے ایک طنز آمیز آواز آئی۔“
ہندستانی فوج کے جبر و تشدد کویہاں کالے دیووں کی صورت علامت کیا گیا ہے اور انسانی لاش کی بے حرمتی سے اسی فوج کی اس بربریت کی جانب اشارہ ہو تا ہے جو وہ وادی میں روا رکھے ہوئے ہے۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ ایک بار پھر لکھنے والوں کا دھیان مقبوضہ کشمیر کے ستم رسیدہ عوام کی طرف پہلے سے کہیں زیادہ ہونے لگا ہے۔ ہندوستانی حکومت کے تازہ جابرانہ اقدامات اور وہاں ہونے والی شدید مزاحمت نے دنیا بھر کے انسان دوست لکھنے والوں کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ خود ہندوستان کے اندر سے بھی اپنی حکومت کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ ایسے میں اردو ادیب قلم ایک طرف رکھ کر اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر کیسے بیٹھ سکتا ہے۔ وہ زندہ ہے اور زندگی پر مارے جانے والے شب خون کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور اس ظلم کی شدت کو محسوس کر رہا ہے جو وہاں عورتوں، بچوں، بزرگوں اور نوجوانوں پر روا رکھا جا رہا ہے لہٰذا تحریک آزادی کشمیر ایک بار پھر ہماری شاعری اور فکشن کا موضوع ہو رہا ہے۔
۔۔۔۔۔