ہمارے دین نے بچوں کی تربیت کی مکمل ذمہ داری ماں پر عائد کی ھے جبکہ مالی ذمہ داریاں باپ کے سپرد کی ہیں۔
ماں کی بہترین تربیت ہی کے نتیجے میں بچہ کسی بھی اعلیٰ عہدے پر فائز ھو سکتا ھے اور اگر ماں نے اپنے بچے کی تربیت میں کوتاہی کی تو بچہ مسقبل میں مزدوری کرنے پر مجبور ھو گا۔
مشاہدے میں یہ بات آئی ھے کہ ہمارے یہاں کے کئی گھرانوں میں باپ تو روزی کمانے نکل جاتا ھے اور ماں موبائل کی ذمہ داری سنبھال لیتی ھے۔وہ اپنے بچوں کی بالکل بھی پرواہ نہیں کرتی۔ بس وہ ھوتی ھے اور اس کا موبائل فون❗
وہ گھنٹوں موبائل پر گیم کھیلتی رہتی ھے۔ یا کال کے پیکیج کروا کروا کے اپنی دوستوں سے گپ شپ کرتی ہے ۔ یا پھر موبائل پر ٹی وی ڈراموں کی کئ قسطیں بیک وقت دیکھ کر اپنا قیمتی وقت برباد کرتی ھے۔ یا فلمیں دیکھ کر اپنا ٹائم پاس کرتی ھے۔
ماں موبائل میں اتنا مصروف ھوتی ھے کہ اسے کسی بات کا ھوش نہیں رہتا۔ ایسی ماں کی زندگی میں نظم وضبط نام کی کوئ چیز نہیں ھوتی۔ وہ اپنے بچے پالتی نہیں، اس کے بچے بس پل رہے ھوتے ہیں۔
اس کے نزدیک تربیت کا مطلب بچوں کو کھانا دینا ، انھیں کپڑے پہنانا ، انھیں ٹیوشن یا مدرسے بھیجنا ھوتا ھے۔
ایسی خواتین کے بچوں کے لیے ماں کے ھونے یا نہ ھونے سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ ماں اپنی زندگی گزار رہی ھوتی ھے اور اس کے بچے اپنی زندگی۔
ماں جو ایک بنیادی اور ابتدائی تربیت گاہ کا درجہ رکھتی ھے، بچے اس کی تربیت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وہ جو کچھ بھی اچھا یا برا سیکھتے ہیں اپنے ماحول سے سیکھتے ہیں۔ ایسی ماؤں کےبچے نہ صرف پڑھائ میں پیچھے رہ جاتے ہیں بلکہ کافی حد تک بد تمیز بھی ھو جاتے ہیں۔
یہ بچے نہ صرف اپنے گھر کو بلکہ جس گھر بھی جاتے ہیں اسے چڑیا گھر میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
میزبان ان بچوں کی حرکتیں دیکھ کر دانت پیستے رہ جاتے ہیں۔وہ ایسے بچوں سے پناہ مانگتے ہیں۔اور دل میں سوچتے ہیں کہ کب یہ لوگ اپنے گھر جائیں گے اور ہمیں ان سے نجات ملے گی۔
اپنے بچوں کے تابناک مستقبل کے لیے ماں کو موبائل فون کی قربانی دینا ھو گی۔ موبائل پر وقت ضایع کرنے کی بجاۓ اپنے بچوں کی تربیت پر سو فیصد توجہ دینا ھو گی تا کہ وہ ایک کامیاب انسان بن کر ملک اور معاشرہ کی ترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کر سکیں۔