کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ساکنان شہر قائد کا مشاعرہ، اسٹیج پر کیفی اعظمی، علی سردار جعفری، احمد فراز جیسے جید شعرا موجود، سنہ تو یاد نہیں میاں نواز شریف کا دوسرا دور تھا، احمد فراز ‘سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں’ سنا کر مشاعرہ لوٹ چکے تھے، اہل ادب بخوبی واقف ہیں کہ جب مشاعرہ عروج پر پہنچ جائے تو آنیوالے شاعروں کیلئے کڑا امتحان ثابت ہوتا ہے، بہرحال ایسے میں پروفیسر عنایت علی خان کو دعوت کلام دی گئی، انہوں نے ایک رباعی نذر کرنے کی اجازت طلب کی
تالا چابی جو کل بناتے تھے
آج مالک ہیں وہ خزانے کے
یہ ہے سب اتفاق کی برکت
اتفاقات ہیں زمانے کے
کراچی کے اہل کا ذوق مجمع جو ابھی تک فراز کے سحر میں تھا، چونک اٹھا، ‘اتفاق’ نے سماں باندھ دیا، نیشنل اسٹیڈیم داد و تحسین سے گونج اٹھا، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، یہ اشعار کم و بیش دس سے پندرہ بار پڑھوائے گئے، خیر یہ بھی ایک دور تھا جب ادبی محافل معاشرے کی جان ہوا کرتی تھیں۔
بات تھی اتفاق کی تو جناب سیاست میں کچھ بھی اتفاقاً نہیں ہوتا، اگر ایسا ہوتا بھی ہے تو منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے، یہ فرمان میرا نہیں بلکہ سابق امریکی صدر اور دانشور فرینکلن ڈی روزویلٹ کا ہے، دل چاہے تو اعتبار کریں ورنہ یہود و ہنود کی سازش جان کر آگے بڑھ جائیں، سانوں کی۔۔۔۔۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ یہ حقیقت بار بار عیاں ہوتی رہتی ہے اور پاکستان میں تو بقول غالبؔ ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے والی سدا بہار کیفیت ہے۔
اتفاق ہے کہ جب سے موصوف کاوے موساوی منصہ شہود پر آئے ہیں جانے کیوں منصور اعجاز بہت یاد آ رہے ہیں۔ ارے کیا بھول گئے بھئی وہی میمو گیٹ والے منصور اعجاز۔ کیا ہنگامہ برپا ہوا تھا۔ سیاستدان، میڈیا بشمول عدلیہ، سب سے بڑی خبر میمو گیٹ تھا۔ قومی سلامتی کے شمشیر بکف ٹھیکیدار، داخلی اور خارجی امور کے شعلہ صفت ماہرین اور فرشتہ سیرت اینکرز، اتفاقاً محترم قائد حزب اِختلاف میاں نواز شریف بھی کالا کوٹ پہن کر عدالت پہنچے۔ اس وقت کے سپہ سالار صدر زرداری سے متعدد ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ حسب روایت غداری کے نعرے ہر سو گونج رہے ہیں۔ گاؤں، دیہات میں عظیم الشان ریلیاں اور قصبات تک میں سنگین غداری کے مقدمات درج، یہ منظر ہے 2011 کا اور لگ بھگ 8 سال بعد یعنی 2019 جب سپریم کورٹ نے کیس نمٹایا تو اس دن چیف جسٹس کا استفسار ریکارڈ پر موجود ہے، انہوں نے پوچھا کہ کوئی بھی پٹیشنر عدالت میں کیوں موجود نہیں؟ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ کیا مملکت خداداد، آئین، افواج پاکستان، جمہوریت اتنی کمزور ہے کہ ایک میمو سے لڑکھڑا جائے؟ عدالت عظمی کے اس ریمارکس کے بعد کیا کسی تبصرے و تجزیے کی گنجائش باقی بچتی ہے؟
اب آپ کو 2017ء کا منظر دکھاتے ہیں، فیض آباد کا دھرنا آج بھی قومی یادداشت کی بھول بھلیوں میں بد روح کی طرح بھٹک رہا ہے۔ یہ مقدس قافلہ کیسے اور کس طرح دارالحکومت جا پہنچا، اتفاقاً کیا سے کیا ہو گیا، سلیم کوثر صاحب کا شعر یاد آ جاتا ہے
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
فیض آباد دھرنا ٹی اے ڈی اے دیکر نمٹایا جا چکا ہے۔ مقدس معاہدے کے تحت وزیر داخلہ زاہد حامد فارغ کیے جا چکے ہیں۔ ابھی مسلم لیگ ن سانس بھی نہیں لینے پائی ہے کہ سرگودھا کے پیر حمید الدین سیالوی کی للکار قومی فضا میں گونج اٹھی۔ میڈیا بتا رہا ہے کہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت اب گئی کہ جب گئی۔ درجن سے زائد استعفے تو پیر صاحب کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ رانا ثنا اللہ کو تجدید ایمان کا فتوی جاری ہو چکا ہے۔ وزرا کو وارننگ دی جا رہی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ دراصل پنجاب تو پیر سیالوی کی مٹھی میں ہے، جب چاہیں حکم کریں اور حکومت کا دھڑن تختہ، ہمارے جیسے جاہل صحافی شرمندہ، یار اتنا تگڑا بندہ اور ہمیں پتہ بھی نہ تھا۔ اب سالوں بعد سوچتا ہوں جانے پیر صاحب کس حال میں ہیں، کوئی خیر خبر لیتا بھی ہے یا نہیں؟ عجیب اتفاق ہے۔
ارے صاحب، ماضی میں کیوں جائیں، سنتھیا رچی اور اپنے رحمان ملک صاحب کا ٹاکرا، موصوفہ نے سابق وزیر داخلہ پر اتفاق سے جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا۔ یہ معاملہ قومی منظر نامے پر آب و تاب کیساتھ ڈولتا، ٹھٹھولتا رہا، پریس کانفرنسز، الزامات در الزامات، رحمان ملک عدالت جا پہنچے، اب دو، چار روز پہلے عدالت سے باہر فریقین میں مصالحت کی خبر آئی، یقین جانیں اب تک کنفیوز ہوں کہ وقوعہ ظہور پذیر ہوا یا نہیں؟ یہ خاتون مملکت خداداد اتفاقاً پہنچیں یا دعوت شیراز پر۔ کیوں پہنچیں اور ابتک کیسے مقیم ہیں، سنتھیا رچی جن سے امریکی سفارتخانہ بھی لاتعلق رہنا پسند کرتا ہے، کیا کرتی ہیں اور کس مشن پر ہیں؟ شاید یہ سارے سنگین سوالات مصالحتی معاہدے میں سنگسار ہو گئے۔
بہت سارے دیگر اتفاق بھی مجھے بہت کنفیوز کرتے ہیں، ابھی چند روز پہلے وزیر اعظم عمران خان کا انٹرویو دیکھ رہا تھا، پر یقین لہجے میں فرما رہے تھے کہ میرے علاوہ سارے لیڈر گیٹ چار کی پیداوار ہیں، اب تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ یہ مدبرانہ بیان، گیٹ چار کو خراج تحسین ہے یا بھیانک الزام؟ یہ الگ بات ہے کہ یہ الزام ان پر بھی لگایا جاتا ہے، ویسے آپس کی بات ہے یہ الزام تو ایسا ہے کہ اگر کسی سیاستدان پر نہیں لگتا تو بیچارہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔
ارے آپ نے ٹوکا بھی نہیں بات جانے کہاں سے کہاں جا پہنچی، تذکرہ تھا کاوے موساوی کا، کیا عجیب اتفاق ہے، موصوف نے ہر کسی کو رگید ڈالا مگر آجکل براڈ شیٹ کھڑکی توڑ رش لے رہی ہے۔ ہر چینل پر بڑے بڑے بقراطی دانشور نت نئے معانی و مفاہیم پیش کر رہے ہیں۔ حکومت ن لیگ کو کوس رہی ہے تو ن لیگ حکومت کو، نیب صفائیاں پیش کر رہی ہے تو حکومت منکر ہے کہ کسی نمائندے نے مبینہ طور پر کمیشن مانگا۔ مشرف دور میں نواز شریف کے پیچھے لگائی جانیوالی براڈ شیٹ نے بزور قانون 4 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکائونٹ سے نکلوا لی، صرف اتنا ہی نہیں نااہلی کے باعث ایک اور کمپنی نے 15 لاکھ ڈالرز اینٹھ لیئے۔ میں اب تک کنفیوز ہوں کہ براڈ شیٹ ہے کیا؟ براڈ شیٹ کے حمام میں سب ننگے ایک دوسرے کو دیکھ کر قہقہے لگا رہے ہیں، سب مطمئن ہیں، سب خوش ہیں، سب مگن ہیں تو پھر نتیجہ کیا نکلا؟
میں نہیں جانتا، منصور اعجاز اور میمو گیٹ کا نتیجہ کیا نکلا، اتفاق سے میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وفاقی دارالحکومت پر لشکر کشی اور سیالیات کس نصاب کا حصہ بنا، مجھے یہ بھی پتہ نہیں کہ سنتھیا رچی بمقابلہ رحمان ملک کے درمیان کیا حسن اتفاق ہوا، مگر یہ ضرور پتہ ہے کہ کاوے موساوی نہایت ذھین کاروباری ہیں، 20 سال پرانے ہمارے ہی مردے ہمیں بیچ کر بائیس کروڑ عوام کی جیب سے 60 ملین ڈالر نکلوا لئے، اتفاقات ہیں زمانے کے۔