پیش بینی کے بارے میں مولانا روم لکھتے ہیں کہ ایک بوڑھا رعشہ کا مریض شخص سنار کے پاس گیا اس سے کہا مجھے ترازو ادھار دو، میں نے سونے کے زرات تولنے ہیں۔ سنار نے کہا میرے پاس جھاڑو نہیں۔ اس نے دوبارہ ترازو ،مانگا سنار نے کہا میرے پاس چھلنی نہی ہے۔ وہ سایل ناراض ہوا اور کہنے لگا تم بہرے ہو، میں ترازو طلب کر رہا ہوں، تم کیا جواب دے رہے ہو۔ سنار نے کہا میں سنتا ہوں، دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں۔۔سنار بولا کہ تمہیں رعشہ ہے جب تم سونے کے ذرات ترازو میں ڈالو گے، یہ گر جائیں گے تم مجھ سے جھاڑو مانگو گے پھر مٹی سے ذرات علیحدہ کرنے کے لیے چھلنی مانگو گے۔ میں اپ کی حالت دیکھ رہا ہوں۔ اس لیے پیش بینی کے طور پر یہ سب کر رہا ہوں۔
مرشد یہ کہتے ہین عقل کسی چیز کو پہچاننا ہی نہی ہے ۔بلکہ عقل اور بصیرت اس چیز کا نام ہے کہ تم جان جاؤ میرے اس عمل سے کیا ہو گا اور آنے والے حالات کو تصور کر کے اپنا فیصلہ کرو یہ حکمت ہوتی ہے۔
روم شہر کے باہر راستہ مین ایک فلسفی بیٹھا سوچ رہاتھا ایک پیدل مسافر ایا اور پوچھا روم کتنی دیر کا سفر ہے؟ فلسفی نے کہا چلتا جا ۔ وہ پریشان ہو گیا عجیب بد خلاق آدمی ہے وہ کچھ دور گیا فلسفی نے اواز دی سنو تم اتنی دیر میں روم پہنچ جاؤ گے ۔اس مسافر نے کہا کہ پہلے بدتمیزی اب پیچھے سے آوازیں کیا ماجرا ہے؟ اس حکمت والے فلسفی نے کہا جب تک تیری رفتار اور چال نہ دیکھ لیتا، میں تمہیں کیسے وقت بتا دیتا ۔ مرشد یہ کہتے ہیں کہ حالات واقعات اور معاملات کا پورا جایزہ لے کر حکم لگانے والے ہی عقل والے ہوتے ہیں اور جو وقت اور حالات کو مدنظر رکھے بغیر ایک ہی پیمانے سے حکم لگاتے ہین ان کا حکم غلط ہوتا ہے اور وہ پچھتاتے ہیں۔