اگرچہ مادری زبان کا دن اکیس فروری کے دن عالمی سطح پر منایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ہندوستان سمیت دنیا بھر میں دس جنوری کو ہندی دیوس یعنی یوم ہندی دنیا میں بسے تمام ہندی بولنے سمجھنے اور لکھنے والے لوگ مناتے ہیں ۔ اپنی زبان کا خاص دن منانا دنیا کی اکثر زبانوں سے وابستہ محبانوں کی اس زبان سے عقیدت و محبت کا اظہار ہے۔ اقوام متحدہ میں زبانوں کے حوالے سے خاص عالمی دن کی منظوری خطے کی ثقافت اور عوام کی دلچسپی کے تناظر میں اندراج کی جاتی ہے۔ اس سال ہندوستان کی کئی اردو تنظیموں اور اداروں کی جانب سے اردو کے لیے یوم اقبال یعنی نو نومبر کو اردو زبان کے عالمی دن کے طور پر منانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔اس تجویز کی تائید محبان اردو اور تنظیموں کی جانب سے مسلسل کی جارہی ہے۔ اگرچہ عالمی یوم اردو نو نومبر کو منانے کی تجویز کئی سالوں سے دی جارہی ہے لیکن دنیا بھر میں اردو زبان کے محبان نے اردو کے لیے کئی ایک اور اہم دن اور تاریخ بھی منتخب کر رکھی ہے۔ جیسے کہ پاکستان میں نفاذ اردو تحریک کے نمائندگان آٹھ ستمبر کو اردو کے نفاذ کا دن مانتے ہوئے اسے اردو کا عالمی دن کہتے ہیں۔ کچھ افراد کا کہنا ہے کہ مادری زبان کے حوالے سےاردو کا عالمی دن اکیس فروری ہی بہتر ہے کیونکہ اردو پاکستان کے لیے رابطے کی زبان سے زیادہ قومی و مادری زبان کا درجہ رکھتی ہے اور پاکستانی قوم کی وحدت ظاہر کرتی ہے۔
تحریک نفاذ اردو کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پچیس فروری انیس سو اڑتالیس کو اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا، جسے قانون ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر منظورکیا۔ دستور پاکستان انیس سو تہتر میں اردو کو قومی زبان قرار دیتے ہوئے پندرہ سالوں میں سارے نظام مملکت کو اردو میں منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ پاکستان نےآٹھ ستمبر دوہزار پندرہ کو دستور کے آرٹیکل دو سو اکیاون کے مطابق قومی زبان اردو کو ریاست کے تمام شعبہ جات میں بطور دفتری، سرکاری اور تعلیمی زبان نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس میں سی ایس ایس سمیت تمام سرکاری ملازمتوں کے امتحان اور انٹرویوز بھی اردو میں لینے کا حکم دیا تھا۔سپریم کورٹ نے اسے بنیادی انسانی حق تسلیم کرتے ہوئے فوری نفاذ کا حکم دیا لیکن حکمران اور بیوروکریسی نفاذ اردو کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی ہے۔ تاہم موجودہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان کی قومی زبان کو عزت دی اور اسے ہرشعبہ زندگی میں فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم صادر کیا۔ اس لئے نفاذ اردو تحریک کے مطابق دنیا بھر میں آٹھ ستمبر ہی نفاذ اردو پاکستان اور اردو زبان کا عالمی دن تصور کیا جارہا ہے۔
لیکن پاکستان و ہندوستان اور اردو کی نئی بستیوں میں پاکستان میں آٹھ ستمبر کو سرکاری سطح پر نفاذ اردو تحریک کا دن تو مانا جاتا ہے لیکن عالمی یوم اردو نہیں ۔ کیونکہ بہت سے ہندوستانی محبان اردو اس دن کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں اسی لیے انہوں نے نو نومبر کو ہی علامہ محمد اقبال کے جنم دن کے حوالے سے اسے اردو کا عالمی دن قرار دینے کی تحریک چلائی ہوئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اکیس فروری کو ہی اردو کا مادری زبان کے عالمی دن کے ساتھ رابطہ کیوں نہیں جوڑا جا سکتا۔ اس سوال کے جواب کے میں جو تحقیقات سامنے آئی ہیں اس کے مطابق اکیس فروری تو دنیا کی تمام ہی قوموں کی مادری زبانوں کا عالمی دن ہے۔ لیکن جو قومیں کسی خاص زبان کو اپنی مادری زبان کہتی ہیں وہ بھی اپنی زبان کا ایک عالمی دن دنیا بھر میں بسے اپنے قوم و خطے کے لوگوں کے ساتھ مناتی ہیں ۔ جیسا کہ تئیس اپریل انگریزی اورہسپانوی کا عالمی دن ہے، بیس اپریل کو چائنیز اپنی مادری زبان کا دن مناتے ہیں اسی طرح اٹھارہ دسمبر کو عربی زبان کا عالمی دن یو این او کی جانب سے قرار دیا گیا ہے جو کہ قطر کے قومی دن کے موقع پر دوہری شان سے منایا جاتا ہے۔
اردو پاکستان کی قومی زبان لیکن حقیقتاً سرکاری سطح پر اب بھی انگریزی کا ہی راج ہے۔ اگرچہ قائد اعظم علیہ الرحمہ نے قیام پاکستان کے بعد ڈھاکا یونیورسٹی میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ :
“ جہاں تک زبان کا معاملہ ہے تو میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی “سٹیٹ لینگوایج” اردو ہوگی۔
ریاست کی تمام اکائیوں اور صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ اردو ہی ہو سکتی ہے۔
آپ کو اختیار ہے کہ آپ اپنے صوبوں کے لیے، اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے، اپنی خواہشات کے مطابق، مناسب وقت پر، اپنی زبان کا انتخاب کر سکتے ہیں “
قائد اعظم رحمت اللہ علیہ کا یہ بیان اردو زبان اور پاکستان کی قومی زبان کے حوالے سے ایک اہم بیان تھا لیکن افسوس کہ اردو زبان پاکستان کے قیام کے بعد ہی سے تنازعے کا شکار رہی۔مغربی اور مشرقی پاکستان میں بسنے والی قوموں کی مجموعی طور پر مرکزی زبان اردو اور بنگلہ ہی تھی لیکن مغربی پاکستان میں پنجابی زبان کو کسی طور پر بھی اکثریت پاکستانیوں کی مادری زبان کہلوانے سے انکار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ یعنی بنگلہ زبان کے بعد قوم و خطے کے حوالے سے دوسری طاقتور مادری زبان پنجابی تھی۔ اردو زبان پاکستان کے مشرقی سے مغربی حصے تک قومی رابطے کی زبان تھی۔ جس کی صحیح معنوں میں بود و باش کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں بسنے والے اُن پاکستانی شہریت کے حامل افراد نے کی تھی جو ہندوستان میں لکھنو، دہلی، حیدرآباد ، بہار اور دیگر مسلم آبادی سے ہجرت کرکے آئے تھے اور کراچی و سندھ میں نمایاں اور ثانوی طور پر پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں بسے تھے۔
تاریخی دستاویزات کے مطابق اکیس فروری انیس سو باون کو بھاشہ اندولون ڈھاکہ یونیورسٹی کی طلبہ تحریک پر پولیس نے فائرنگ کرکے بنگالی طلبہ کو شہید کردیا گیا یہ ہی وہ دن ہے جس نے بنگالیوں کو قوم پرستی کی طرف دھکیلنے میں بڑا کردار ادا کیا جو آگے چل کر شیخ مجیب کے چھ نکات کی صورت میں سامنے تحریک آئی۔یوں بھی اس سے قبل ہی زبان کے حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے فوری بعد ہی اردو کو قومی و سرکاری زبان کا اعلان کیا تھا جس پر بنگالیوں کو مایوسی ہوگئی تھی۔ مغربی پاکستان میں جب اردو کو واحد سرکاری زبان اس لیے قرار دیا گیا تھا کہ پاکستانی افسر شاہی حکومت،سول سروس اور فوج میں مغربی حصے کے لوگوں کی زیادہ اکثریت تھی ۔ سیاسی اور سرکاری سطح پر بنگلہ زبان کی تعلیم اور کرنسی نوٹوں سے جب بنگلہ رفتہ رفتہ غائب ہونے لگی تو ردعمل کے طور پر اس وقت کے ساڑھے چار کروڑ زبان رکھنے والے بنگالیوں نے احتجاجی تحریک شروع کردی۔ اکیس مارچ انیس سو اڑتالیس کو ڈھاکہ میں عوامی جلسے سے خطاب میں قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا کہ اس لسانی مسئلے کو پانچواں فریق پاکستان کو تقسیم کرنے کے لیے ابھار رہا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے “اردو اور صرف اردو” کو ہی ریاست کی واحد سرکاری زبان قرار دیا جس کے ساتھ مسلمانان ہند کے دلی جذبات وابستہ ہیں اور اس سے رد کرنے والوں کو پاکستان کا دشمن قرار دیا ۔اس وقت جو بنگالی اپنی مادری زبان جو مشرقی پاکستان کی سرکاری زبان تھی اس کے حیثیت کی واپس بحالی کے لیے متحرک ہوکر ڈیمانڈ کر رہے تھے ۔وہ لوگ زبان و قوم کی تقسیم کے آلہ کار بن کر ملک و قوم کے غداروں میں شمار کئے گئے۔ انہوں نے پھر بعد میں اس حوالے سے ایک میٹنگ بلائی جس میں خواجہ ناظم الدین کی جانب سے طلبہ سے کیے گئے معاہدے کو ختم کیا گیا۔ ڈھاکہ چھوڑنے سے قبل اٹھائس مارچ کو ریڈیو سے خطاب میں “صرف اردو” کی پالیسی کا اعلان کردیا گیا تھا۔
قائداعظم نے ریاستی زبان کے لیے اردو تجویز کی تھی، جو تاریخی اور منطقی اعتبار سے بالکل درست فیصلہ تھا کیوں کہ اردو ہی ایک ایسی زبان تھی جو ریاست کے سب نہ سہی زیادہ بڑے حصے کے لیے آسان تھی۔ اس وقت بنگالی یا اور کوئی زبان اس کی جگہ نہیں لے سکتی تھی۔ اگرچہ بنگلہ اور اردو دونوں ہی انیس سو چھپن سے انیس سو باسٹھ تک پاکستان کی مرکزی و قومی زبانیں تسلیم کی گئیں۔ لیکن جب سن انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان الگ ہوا اور وہاں کی قومی زبان بنگلہ قرار پائی تو مغربی پاکستان یا موجودہ پاکستان سے بنگلہ زبان کو مکمل طور پر قومی و علاقائی زبان کی مد سےخارج کردیا گیا۔ یہاں میرا مقصد فی الوقت اردو بنگالی تنازع پیش نظر نہیں مگر ایک اصولی طور پر یہ وضاحت پیش کرنا ضروری ہے کہ قومی زبان کے معاملے میں قابل عمل بات یہی ہے کہ کسی ملک کی ایک ہی زبان کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہو.
جذبات کی حد تک تو یہ درست ہے کہ فلاں زبان یا فلاں زبان بھی قومی زبان ہو. مگر قومی زبان دراصل رابطہ زبان ہوتی ہے لہذا یہ وہی زبان ہو سکتی جو سب سمجھ بھی سکتے ہوں اور بول بھی سکتے ہوں. وگرنہ متعدد قومی و سرکاری زبانوں کی صورت میں رابطے کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے جو قوم کی وحدانیت کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے ملک میں بسنے والا ہر طبقہ اردو کو رابطے کی زبان سے بڑھ کر سرکاری زبان تک پہنچانے کی عملی کوشش کرئے اس حوالے سے وہ صرف اپنی ہی مادری زبان کے فروغ کی کوشش نہ کرئے بلکہ مقامی زبان بھی سیکھے اور بولے اور نصاب کے ساتھ بھی جوڑے۔ اس طرح دوسرے طبقے یا علاقے کے لوگوں کے مابین باہم رابطے کا فقدان نہیں ہو گا. بلکہ مقامی زبانوں کو صوبائی سطح پر ترجیع دی جا سکے گی۔
بنگالی زبان اردو کے مد مقابل محدود قومیت کی زبان تھی اسلیے کہ مشرقی پالستان یا قبل از تقسیم برصغیر میں اردو سے سب شناسا تھے اور بنگالی بنگال تک محدود تھی بلکہ اردو خود بنگال میں بھی رائج تھی.
پاکستان کی تاریخ میں اس وقت اردو اور بنگالی زبان کا تنازعہ میں یقینا افہام و تفہیم سے حل کیا جا سکتا تھا لیکن مشرقی پاکستان کی عدم دلچسپی غیر سنجیدگی اور ہندنواز بنگالی لیڈران کے غلطیوں کے باعث تنازع سنگین صورتحال اختیار کر گیا اور سیاسی سطح پر بھی پاکستان کے دولخت ہونے میں اس نے مرکزی کردار ادا کیا۔
ہندوستان بھی ایک کثیر القومیتی ریاست ہے۔ یہاں کا آئین اس سلسلے میں کہتا ہے کہ
آئین کے آرٹیکل تین سو تینتالیس کی شق نمبر ایک کے تحت:
بھارتی یونین کی سرکاری زبان دیوناگری رسم الخط میں ہندی ہوگی۔ اعداد کی بین الاقوامی صورت استعمال کی جائے گی ۔
شق نمبر دو کے تحت اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ آئین کے نفاذ کے پندرہ برس تک انگریزی بطور دفتری زبان رائج رکھی جائے گی جس کے بعد صدارتی حکم کے ذریعے دیوناگری رسم الخط میں ہندی رائج کر دی جائے گی۔
شق نمبر تین یہ کہتی ہے کہ اس عرصے کے بعد پارلمنٹ قانون سازی کے ذریعے انگریزی جاری رکھنے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔
آئین کا آرٹیکل تین سو چوالیس کہتا ہے کہ ایک کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی جو ہندی کو ملک بھر رائج کرنے کے سفارشات مرتب کر کے صدر جمہوریہ کو پیش کرے گی۔ کمیشن کے ارکان بھارت کی ثقافتی، صنعتی اور سائنسی ترقی کے پیش نظر ہندی نہ بولنے والے علاقوں کے لوگوں کی آراء کا خیال بھی رکھیں گے۔
آرٹیکل تین سو پینتالیس کے تحت ریاستوں کو اپنی مقامی اایک یا ایک زائد اور ہندی کو بطور سرکاری زبان اختیار کرنے کا حق دیا گیا ہے۔
آرٹیکل تین سو چھیالیس کے مطابق ریاستیں آپس میں اور وفاق سے رابطے کے لیے وقتی طور پر انگریزی اور بعد ازاں ہندی کا استعمال کریں گی یا اس زبان کا جس پر ریاستیں اور وفاق باہم متفق ہوں۔
آرٹیکل تین سو سینتالیس کے تحت صدر جمہوریہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی علاقے کے لوگوں (کثیر تعداد) کی خواہش پر کسی زبان کو شیڈولڈ زبانوں شامل کر سکتے ہیں۔
آرٹیکل تین سو اڑتالیس میں پارلیمانی کارروائی اور سپریم کورٹ و ہائیکورٹس کی عدالتی کارروائی انگریزی میں رکھنے کی ہدایت جب تک کہ پارلیمنٹ اس کے مخالف قانون منظور نہ کر لے۔
آرٹیکل تین سو اننچاس میں آئین کے نفاذ کے پندرہ برس کے دوران زبان کے متعلق بنائے کمیشن کی قانونی کارروائی کی وضاحت ہے۔
آرٹیکل تین سو پچاس کے تحت تنازعات کی صورت میں کوئی بھی شخص ریاستی یا وفاقی افسر یا ادارے کے خلاف شکایت وفاق یا ریاست کے زیر استعمال کسی زبان میں بھی دائر کر سکتا ہے۔
آرٹیکل تین سو اکیاون زبان کے معاملے کو مکمل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ وفاقی حکومت کا فرض ہوگا کہ وہ ہندی زبان کی ترویج، ترقی اور حفاظت کے لیے اقدامات کو یقینی بنائے تاکہ پورے بھارت میں یہ زبان رابطے کے لیے ایک موثر کردار ادا کر سکے۔
اس آئین کے آرٹیکل تین سو پینتالیس کے تحت بھارت میں بائیس زبانیں شیڈولڈ لینگوایجز قرار دی گئی ہیں جو مختلف ریاستوں میں دفتری زبانوں کے طور بھی رائج ہیں۔
ہندوستان کے اس آئین میں بھی وہی باتیں کی گئی ہیں جو اس وقت قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنے تین نکات میں بتائی تھیں۔ پاکستان میں دو جمہوری اور ایک جمہوری آئین بنے ہیں اور ان آئین میں ترمیم و تبدیلی کی بھی گنجائش ہے لیکن افسوس ہے کہ اردو زبان کو قومی یا مادری زبان کا درجہ دینے کے لیے ہم ابھی تک اُلجھن کا شکار ہیں۔ یاد رکھئے کہ یہ اُلجھنیں ہمیں اپنا قومی تشخص عالمی سطح پر منوانے میں اور اپنی زبان اور اس کے ورثے کو عالمی طور پر منانے کے لیے عالمی سطح پر ہی رکاوٹ ڈالتی رہیں گی۔ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے تو عالمی سطح پر یوم اردو منانے کا متفقہ فیصلہ محبانِ اردو کو عالمی سطح پر اردو کی قدیم ، حالیہ اور جدید بستیوں کے ساتھ مل کر کرنا ہوگا۔