جس طرح عہد حاضر کی بنیاد اپنے ماضی سے پیوستہ رہ کر مستقبل کے خواب بنتی ہے اسی طرح ہر معاشرے کا ادب بھی اپنی بود و باش اور ترقی کے منازل طے کرنے کے لیے اپنے ماضی کے تجربات پر مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے اور اپنی مضبوط بقا کا ڈھانچہ تیار کرکے کھڑا کرتا ہے۔ اگر ہم عہد حاضر میں یورپ اور خاص طور پر نسائی ادب و شاعری کے محرکات کا جائزہ لیں تو شاعری کے حوالے سے عہد گذشتہ کی ایک یورپی شاعرہ “ میرینا تستویا” کی تانیثی شاعری کے بارے میں یہ پیش گوئی کہ “ میری شاعری اپنے آپ کو منوا لے گی” بہت حد تک درست ثابت ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ میرینا تستویا نے اپنی شاعری میں جس موضوع کو بنیادی مرکز بنایا وہ “وطن “ہے۔ یعنی وطن سے محبت، جلا وطنی کی اذیت، دیار غیر کی صعوبتوں کا دکھ اور یاد وطن جیسے موضوعات اُس کی خود کلامی میں ڈھل کر شاعری کے سانچے میں اُترے ہیں۔
دیار غیر یا اردو کی نئی بستیوں میں بسنے والی بیشتر شاعرات کے یہاں اُن کے داخلی جذبات کی شعری ترجمانی کے لیے وطن اور وطن کی یاد کا موضوع بہت عام سی بات ہے۔ شاید یہی وجہ ہے اردو کی جدید بستیوں میں نسائی شعری لہجہ اور شعر کا آہنگ موضوع کے اعتبار سے ایک مختلف زاویہ نگاہ رکھتا ہے۔
اگر عمومی سطح پر ہم بطور خاص اردو شاعری میں عہد گذشتہ کے موضوعات کا جائزہ لیں تو اس عہد میں عورت اپنے نسائی جذبوں کی تفہیم کے لیے اپنی ہی تلاش میں سرگرداں دکھائی دیتی ہے۔ اردو ادب و شاعری میں تانیثیت جب کھل کر سامنے آنا شروع ہوئی وہ سن پچاس ساٹھ کی دہائی تھی اور یہ یہی وقت تھا جب تقسیم ہند و پاک کے بعد ہجرت کے موضوع نے ہمارے اردو ادب و شاعری میں اپنی جگہ بنائی اور ترقی پسند ادب کا سلسلہ مذید مضبوط ہوکر سامنے آیا۔ اس دور میں اردو زبان کی شاعرات نے بھی اپنے وجود کے احساس اور اپنے محسوسات کو شاعری میں پیش کرنا شروع کیا اور رفتہ رفتہ یہ پیش کش اپنے وجود سے آگاہی اور اپنےاحساسات کے اظہار کے ساتھ ساتھ اُن کے اپنے حقوق کی آواز یا عورت پر ہونے والے مظالم کی آہ و فغاں بن کر شاعری کے موضوعات میں ڈھل گئے ۔ آج کی نئی بستیوں میں بسی شاعرات کے کلام کے حوالے سے دیکھا جائے تو تانیثیت میں اردو شاعری کا یہ سفر میرینا تستویا کی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ اُس نے عہد گذشتہ میں اپنی ذات کو علامت بنا کر دنیا کی تمام شاعرات کے فن شاعری کو منوانے کا جو دعویٰ کیا تھا وہ آج کسی حد تک درست ہے۔
تقسیم ہند کے بعد ہجرت کا سلسلہ صرف جنوبی ایشیا کے ممالک ہی میں نہیں بڑھا بلکہ کئی لوگوں نے انگلستان و یورپ کا بھی سفر کیا اور جنوبی افریقہ و عرب ممالک میں بھی روزگار اور بہتر زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہوئے اور وہیں بس گئے۔ جرمنی دوسری جنگ عظیم کے بعد جس طرح کے مسائل اور معاشی و معاشرتی تباہ کاریوں سے نبرد آزما تھا اُن میں روزگار بہت بڑا مسئلہ تھا۔ دوسرا بڑا مسئلہ زبان سے ایشیائی یا ہندوستانی و پاکستانی لوگوں کے لیے جرمن زبان سے ناواقفیت تھی جس کی بنا پر جرمنی کی طرف ہجرت کا دروازہ ساٹھ کی دہائی میں کھلا جس کے لیے جنگ کی تباہ کاریوں اور دیگر سماجی نسل پرست مسائل سے نمٹنے کے لیے جرمنی نے خود ترک معماروں کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دی اور اُن کے لیے باقائدہ کالونیاں اور ایسے رہائشی علاقے بسائے جہاں انہیں جرمن زبان سیکھنے اور جرمن معاشرے میں ضم ہونے کے بجائے ترک زبان و ثقافت کا ماحول زیادہ میسر رہا۔ بعد ازاں یہ سلسلہ ستر اور اسی کی دہائی میں اتنا بڑھا کہ تعلیم و تربیت کی غرض سے آنے والے دیگر نژاد قوموں کے افراد کی تعداد یہاں بڑھنے لگی جس میں امریکی، روسی، ویت نامی، ایرانی اور ہندوستانی اور مختلف عرب ممالک سے تعلق والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا اور زبان کے ساتھ ساتھ متنوع اقسام کے ادب و ثقافت کا سلسلہ بھی دراز ہوا۔ غیر جرمن ادب کے پنپنے اور پھلنے پھولنے کے تاریخی پس منظر میں اگر اردو زبان و ادب کا جائزہ لیں تو ہمیں وہاں بھی نسائی ادب کے بود و باش پانے کے سلسلے بہت دھندلے دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن عہد حاضر کی نسائی غزلیں اور نظمیں اپنے موضوعات کے حوالے سے آج کی جدید تانیثیت کی تفہیم میں بہت مدد کرتی ہیں.
جرمنی میں شعراء کے مقابلے میں شاعرات کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے اور شعری مجموعہ ترتیب دینے والی شاعرات کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ لیکن مجموعی طور پر یورپ میں خواتین کی ایک نمایاں تعداد جو مسلسل شاعری کرکے تانیثی اردو شاعری کا وقار بلند کر رہی ہیں اردو ادب و شاعری کا خزانہ بڑھا رہی ہیں ، مہجری ادب کے منظر نامے پہ نمایاں ہیں وہ صف اوّل پر انگلستان میں بسی ہندوستانی و پاکستانی وہ خواتین ہیں جو اپنی شاعری اور شعری تنظیموں کے حوالے سے اپنی ایک معتبر پہچان بنائے ہوئے ہیں جب کہ فرانس، جرمنی ، ڈنمارک، ناروے، بیلجیم ، سوئزرلینڈ اور ہالینڈ میں بھی شاعرات اپنے فن شاعری کی پہچان سے اردو زبان کی ترویج میں مصروف ہیں۔
اسی طرح اگر نثر میں تانیثیت کے رجحان کا مطالعہ کیا جائے تو یہاں بھی شاعری کی طرح سب سے پہلے خواتین افسانہ نگاروں کے یہاں جو موضوعات وقف ہیں اُن بھی سب سے پہلے عورت کی اپنی ذات کی آگاہی، اپنی شناخت کے حوالاجات و مسائل ، داخلی و خارجی رجحانات کے مابین توازن یا تصادم کا جائزہ ، مساوی حقوق اور پردیس سے جڑے موضوعات اور ہجرت کے بعد کے مسائل کے ساتھ ساتھ دیس کی یاد نمایاں ہیں۔
اگر جرمنی میں اردو شاعری و نثر کے حوالے سے ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے تو مندرجہ ذیل خواتین اپنا بہترین ادب اور شاعری پیش کرکے ایک مستحکم مقام بنا چکی ہیں۔ ان خواتین کے نام اور مجموعہ کلام ذیل میں درج کیے جارہے ہیں ۔
۱-طاہرہ رباب جرمنی کے شہر ہمبرگ میں مقیم ہیں اب تک ان کے چار شعری مجموعے منظر عام پہ آچُکے ہیں،
رب سے رباب لمحہ بہ لمحہ
از مکاں تا لا مکاں رزم گاہ شعور
کلید حجاب اس کے علاوہ اُن کی نثری کتب کے مجموعوں کی تعداد بھی چار ہے جو ادب سے ہٹ کر اُن کے تصوف بیان کا مجموعہ ہیں۔
فہمیدہ مسرت کا تعلق فرینکفرٹ ام مائین سے ہے۔ ان کا بھی ایک شعری مجموعہ “ کربِ نارسائی “کے نام سے دوہزار اٹھارہ میں منظر عام پر آیا ہے۔
مایا حیدر برلن کے جوار نیورو پین میں رہتی ہیں۔ اردو انجمن برلن کی فعال رکن ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست اور ادب میں بھی گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔اُن کا ایک شعری مجموعہ دو ہزار سترہ میں لاہور سے “الہامِ عشق “ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ مایا حیدر بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں اور کلاسیکل تانیثی موضوعات پہ ان کا کلام جرمنی کے مشاعروں میں پزیرائی حاصل کر چکا ہے۔
شازیہ نورین کا تعلق بھی فرینکفرٹ سے ہے اور اِن کا بھی ایک شعری مجموعہ شائع ہوچکا ہے “ فصیل جبر “ کے عنوان سے شائع ہوکر مقبول ہوچکا ہے۔ شازیہ نورین کا شعری لہجہ نہایت پختہ ہے اور وہ جرمنی سمیت یورپ و پاکستان کے مشاعروں میں اپنا کلام پیش کر کے اساتذہ سخن سے داد حاصل کر چکی ہیں۔
محترمہ نعیمہ ضیاء الدین کافی عرصہ جرمنی میں مقیم رہیں لیکن اب اُن کی رہائش کہاں ہے یہ معلوم نہ ہوسکا۔ ایک اطلاع کے مطابق وہ کچھ عرصہ پہلے جرمنی سے انگلستان ہجرت کر گئی تھیں ۔اُن کا کلام باقائدگی سے ادبی رسائل میں شائع ہوتا رہا ہے لیکن باقائدہ طور پر اُن کا کوئی شعری مجموعہ نہیں ہے لیکن افسانوں کے حوالے سے وہ ایک نہایت معتبر پہچان رکھتی ہیں اُن کےنثر کےمجموعے شائع بھی ہوچکے ہیں۔
۶-راقم الحروف عشرت معین سیما برلن کے جوار ٹیلٹو میں مقیم ہیں۔ ان کے دو شعری مجموع” جنگل میں قندیل” اور “ آئینہ مشکل میں ہے” کے عنوان سے دوہزار سولہ اور انیس میں منظر عام پر آچُکے ہیں۔
صائمہ زیدی کا شمار جرمنی کی معتبر شاعرات میں ہوتا ہے ۔ اُن کا بھی ایک شعری مجموعہ شائع ہوچکا ہے جن کا نام “ دھوپ لوں ہتھیلی پر “ ہے اور حالیہ شائع ہونے والی ایک گلزارنظم فہمی پر اُن کی اجتماعی کتاب “ وقت سے پرے “ شائع ہوئی ہے جو ترکی کے جامعہ انقرہ کی سربراہ پروفیسر اوزجان آسمان اور گل شیر بٹ کے تفہیی بیانات کی بہترین عبارات سے مزین ہے۔
اگر افسانے کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو افسانے کی دنیا میں جو نام منظر عام پر ہیں اُن میں مندرجہ ذیل نام اپنی ایک معروف پہچان رکھتے ہیں۔
ہما فلک جرمنی کے شہر اسٹٹگارٹ میں مقیم ہیں ۔ اردو افسانے میں اُن کا نام عالمی شہرت کا حامل ہے اب تک اُن کا ایک مجموعہ “روح دیکھی ہے کبھی” کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے اور دوسرا مجموعہ بہت جلد منظر عام پہ آنے کو تیار ہے۔
افسانے کے حوالے سے بھی راقم الحروف کے دو مجموعے بعنوان “گرداب اور کنارے “ اور “دیوار ہجر کے سائے” دوہزار سولہ اور دوہزار بیس میں شائع ہوچکے ہیں۔ جن میں بیشتر موضوعات پردیس اور انسانی نفسیات و مسائل پر ہیں۔
نعیمہ ضیاء الدین دو سفر نامے اور افسانوں کے مجموعے “ ڈسٹ بن “ اور “ منفرد” کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔جن پر ہندوستان کی جامعہ دہلی کے ایک طالب علم نے تحقیقی مقالہ بھی تحریر کیا ہے۔
ان کے علاوہ جرمنی میں کئی شاعرات ایسی ہیں جو صرف مشاعروں میں کلام پیش کر چکی ہیں یا مقامی رسائل میں ان کے کلام کو جگہ ملی ہے لیکن باقائدہ طور پر اُن کا کوئی شعری مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے ۔ جرمنی کی یہ شاعرات بھی مقامی اخبار و رسائل میں اپنے کلام کی اشاعت کے ساتھ ساتھ مشاعروں میں پیش کردہ اپنی شاعری کے زریعے اپنا شعری و ادبی مقام منوا چکی ہے۔
انگلستان اردو ادب و شاعری کے حوالے سے ایک دبستان کا درجہ رکھتا ہے۔ یہاں پچاس اور ساٹھ کی دہائی سے اب تک بے شمار شاعرات اور افسانہ نگار خواتین نے اپنا مقام بنایا اور منوایا ہے۔ چاہے رسائل و تنظیموں کا اجراء ہو یا مشاعروں و دیگر ادبی محافل کا اہتمام، انگلستان یورپ میں دیگر ممالک کی نسبت ہمیشہ آگے رہا ہے۔ صرف اُن خواتین شعراء و افسانہ نگاروں کے ناموں کی فہرست اوراُن کے فن کا تعارف اتنا طویل ہے کہ اس کے لیے باقاعدہ ایک الگ کتاب ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ معروف افسانہ نگار اور صحافی محترمہ سلطانہ مہر صاحبہ نے گفتنی کے نام سے ایک صغیم کتابی فہرست اس ضمن میں تیار کی ہے جس میں انگلستان کے ادباء اور شعراء کے ساتھ ساتھ خواتین اہل قلم کا بھی بھرپور تعارف معہ کلام و رابطہ موجود ہے۔
ہم اگر انگلستان کے علاوہ دیگر یورپی ممالک کے تانیثی ادب اور شاعری کے حوالے سے شخصیات اور ان کی تخلیقات کا جائزہ لیں تو ہمیں سوئزرلینڈ میں واحد شاعرہ و افسانہ نگار شاہین کاظمی کا نام ہی نمایاں نظر آتا ہے اُن کا اب تک کوئی شعری مجموعہ نہیں شائع ہواہے لیکن دو افسانوں کے مجموعے “ نندنی پور کی رادھا “ اور “برف کی عورت “ شائع ہو کر عالمی سطح پر بے حد پزیرائی پا ہوچکے ہیں۔
اس کے علاوہ بیلجئم (واٹر لو ) سے معروف افسانہ نگار ، فرحین جمال کا نام اہمیت کا حامل ہے ۔ اُن کا ایک افسانوی مجموعہ “ کھڑکی کے اس پار” اپنی شہرت کی منزلوں پر ایک خاص مقام بنا چکا ہے۔
اٹلی سے فاخرہ گل صاحبہ کا نام مشہور ہے لیکن میری ناقص اطلاع کے مطابق ان کا اب تک کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا ہے لیکن متواتر کئی رسائل، ویب پیج اور اخبارات کے ادبی صفحات پر افسانے شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ڈنمارک سے صدف مرزا کا شعری مجموعہ ( آ بجو) ہے ۔ اس کے علاوہ تراجم کے حوالے سے صدف مرزا کی ایک صغیم کتاب “ یار من دانش” اور “ ڈنمارک کی شاعرات کا ترجمہ بعنوان “ ڈینش شاعرات “ شائع ہوکر مقبولیت پا چکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دیگر نثری کتب میں “ نیل بوہر “ سوانح حیات “ برگد “ اور دیگر کئی اردو زبان کی درسی کتب شامل ہیں۔ صدف مرزا کا نام یورپی لٹریری سرکل کی سربراہ کی حیثیت سے بھی یورپ میں بہت مقبول ہے۔ اُن کی تنظیم کا بنیادی مقصد یورپی اور اردو زبانوں کی ادبی و علمی ترجمہ نگاری کا فروغ ہے۔ وہ گذشتہ دس بارہ سالوں سے اردو زبان اور یورپی زبانوں کے مابین تراجم کے پُل بنانے کا کامیاب تجربہ کر رہی ہیں اور کئی بین الیورپ اور بین القوامی سیمینار اور کانفرنسز میں شرکت کر کے اور یورپ میں منعقد کروا کے اپنے مشن کی کامیابی کے لیے متحرک ہیں۔
فرانس سے محترمہ سمن شاہ کا نام پیرس ادبی فورم تنظیم کی بانی و صدر ہیں ۔ اس تنظیم کے حوالے سے وہ یورپ میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں ۔ وہ بذات خود شاعرہ ہیں اور اب تک اُن کے دو شعری مجموعے منظر عام پر آچُکے ہیں۔ جن کے نام “ تم سے تمہی تک “ اور “ ہمیشہ تم کو چاہیں گے “ ہیں سمن شاہ شاعری کے ساتھ ساتھ مضامین اور کالم بھی باقائدگی سے لکھتی ہیں ان کی شاعری کے مو ضوعات میں عورت کے داخلی جذبات اور معاشرے کی ناہمواری کا دکھ نمایاں ہے۔
سوئڈن سے محترمہ حنا خراسانی رضوی کا نام بطور شاعرہ، صحافی اور افسانہ نگار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ حنا خراسانی کے ادبی موضوعات بھی بیرون پاکستان و ہندوستان کا معاشرہ اور وطن سے دوری کا احساس ہے۔ حنا خراسانی کا اب تک کوئی شعری یا افسانوی مجموعہ منظر عام پر نہیں آیا ہے لیکن وہ نہایت کامیابی کے ساتھ ایک سماجی و ادبی ویب سائیٹ “ اردو قاصد “ کے نام سے چلا رہی ہیں۔ حنا خراسانی اپنے انفرادی طرز پر لکھے گئے فلیش فکشن اور مائیکرو فکشن کی تحریر کے لیے معتبر پہچان رکھتی ہیں۔
اسپین سے بھی ایک ڈاکٹر ارم بتول نامی شاعرہ نہایت لطیف اور پختہ رنگ میں شاعری کرتی ہیں ۔ ارم بتول جرمنی سے اسپین جاکر اردو اکیڈمی کی بنیاد رکھ چکی ہیں جس کے تحت انہوں نے کئی کامیاب ادبی و لسانی پروگرام منعقد کیے ہیں ۔ اس سے قبل وہ ایک ریڈیو پروگرام نہایت کامیابی کے ساتھ کرتی رہی ہیں۔ اُن کا مجموعہ کلام زیر ترتیب ہے ۔
یورپ کی خواتین کا اردو ادب و شاعری میں حصہ بہت اہم اور مستند ہے۔ اُن کے یہاں بھی زیادہ تر شاعری براہ راست عورت کے ساتھ استحصال و زیادتی کا اظہاریہ ہے اور یہی شاعری اُن کے یہاں تانیثی تحریک کے اغراض و مقاصد کا بیان بھی معلوم ہوتی ہیں۔ جہاں اردو شاعری میں جدید سماجیات کے اہم مضامین یعنی فکر اور فلسفے کے نظریات سامنے آتے ہیں اور تانیثیت کی تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ یعنی مرد و عورت کے درمیان سماجی ، سیاسی اور معاشی برابری کو قائم کرنے کے لیے مرد اور عورت کے رشتے کی خامیوں کو دور کرنے کے لیے کچھ ایسے موضوعات کی تلاش آج کی نسائی شاعری میں شامل ہوئی ہیں جو عہد گذشتہ میں موجود نہیں تھیں اور یقیناً یہ وہ موضوعات ہیں جن پر اردو شاعری کا تابناک مستقبل ہمیں دیگر زبانوں کی شاعری کے ساتھ پاؤں جمائے کھڑا نظر آتا ہے ۔
یورپ کا اردو تانیثی ادب اور شاعری یقینی طور پر آنے والے دنوں میں اردو زبان و ادب کا خزانہ وسیع کرے گا اور جدید موضوعات اور طرز فکر اور تحریر کے ساتھ اُن تمام خواتین شاعرات و نثر نگاروں کے نام زندہ جاوید رکھے گا جو آج اپنے قلم اور فکر سے اردو کی نئی بستیاں سجانے میں اور مہجری ادب کے فروغ میں کوشاں ہیں۔