اس دن کی کانفرنس کا پہلا حصہ ختم ہوتے ہی دوپہر کے کھانے کے لیے تمام معزز مہمانوں اور مندوبین کو جامعہ کے ڈائینگ ہال کی جانب لے جایا گیا۔ محترمہ صدف مرزا ، شفیق کیانی صاحب ، غزل انصاری صاحبہ ،جناب فہیم اختر ، احسان شاہد صاحب اور میں جناب راشد حق صاحب کی رہبری میں ڈائینگ ہال کی جانب بڑھے۔ جامعہ استنبول کے اس کیمپس کا باہر سے جائزہ لیا تو خوبصورت اور آراستہ باغ میں گھری یہ عمارت اور بھی خوبصورت لگی۔ میں اور صدف مرزا کچھ دیر ٹھہر کر باہر تصاویر بناتے رہے۔ صدف اپنے مہمانوں کا انتظار کر رہی تھیں جو کسی بھی لمحے یہاں کیمپس میں اُن سے ملاقات کے لیے آنے والے تھے۔
کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد ہم اس شاہانہ کھانے کے کمرے میں گئے جہاں تمام اعلیٰ سرکاری مہمان اور جامعہ کا اسٹاف ایک جانب بیٹھا تھا اور ہم اردو والوں کے لیے ایک خاص حصہ مخصوص تھا جہاں شعبہ اردو کے کئی اور افراد بیٹھے تھے۔ مختصر شکریہ اور دعا کے بعد اس اجتماعی کھانے کا آغاز تازہ صحت افزا سلاد سے ہوا۔ پھر ترکی کا خاص دال کا سوپ اور تازہ نان پیش کئے گئے اور پھر پلیٹوں میں گوشت و ترکی چاول ایک خاص شور بے کے ساتھ سب کو پیش کئے گئے۔ کھانا سادہ تھا لیکن پیش کش کا انداز نہایت مہذب تھا۔ کچھ دیر بعد ترکی قہوے اور میٹھے کی باری تھی۔ اچانک صدف کے مہمان ان کو تلاش کرتے ہوئے ڈائینگ ہال پہنچ گئے جس کی ضیافت کی اجازت صدف نے کانفرنس کے دوران ہی حلیل طوقار صاحب سے لے لی تھی ۔ مہمانوں کو دیکھ کر صدف نے بھی والہانہ محبت دکھائی اور مہمانوں نے بھی روایتی پاکستانی دوستوں کی محفل میں شرکت کا انداز اپناتے ہوئے سب کو سلام کیا ۔ صدف کے مہمانوں کا کھانا جتنی دیر میں آیا اس وقت تک ہم سب چائے اور میٹھے سے فارغ ہوکر اولڈ کیمپس کی جانب بڑھ گئے ۔ صدف اپنے مہمانوں کو لے کر کچھ دیر میں ہال میں پہنچیں۔ کانفرنس کے دوسرے حصے میں اردو زبان میں مقالے پڑھے گئے ۔ اس سیشن کی صدارت شعبہ فارسی کے سربراہ اور شعبہ ء اردو کے نگراں جناب جلال سوئدان نے کی جب کہ جناب حلیل طوقار صاحب تھکن کی وجہ سے پروگرام کا آغاز کر کے پہلی نشست میں بیٹھ گئے۔ صدف مرزا کے تینوں مہمان بھی پہلی نشست میں کچھ دیر آرام سے بیٹھے اور ستائے لیکن کانفرنس کے موضوع میں شاید عدم دلچسپی کے باعث کچھ دیر بعد چلے گئے۔
راجہ شفیق کیانی صاحب نے اقبال اور مسجد قرطبہ کے حوالے سے اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا جسے حاضرین نے بہت پسند کیا۔ جناب فہیم اختر نے اقبال کی شاعری کا جائزہ رومان سے قرآن تک کے عنوان سے پیش کیا۔احسان شاہد صاحب کا انتظار رہا لیکن وہ اپنے مقالے سمیت اس سیشن میں غیر حاضر تھے۔ صدف مرزا نےاقبال کے خوبصورت اشعار سے مزین پر جوش انداز میں اپنی تحقیق پیش کی، اس کے بعد مجھ کم فہم نے اقبال اور عاکف ارصوئے کے شعری مضامین کے مشترکہ پہلوؤں پہ روشنی ڈالنے کی کوشش کی اور محترمہ غزل انصاری صاحبہ نے بھی اقبال کی شاعری میں جذبہ حریت کا احاطہ اپنے مقالے میں کیا۔
اس کے بعد تمام شرکاء کا جناب جلال سوئدان اور جناب حلیل طوقار صاحب نے شکریہ ادا کیا اور کانفرنس میں شرکت کی اسناد اور ایک یادگار اخبار کی کاپی جو علامہ اقبال کے حوالے سے اس صد سالہ آزادی کی تقریب میں خصوصی طور پر جاری کی گئی تھی ، تمام مندوبین کو پیش کی۔
اگرچہ ہم سب ہی بہت تھک چکے تھے لیکن حلیل طوقار صاحب نے بتایا کہ ملحقہ عمارت میں قائم شعبہ اردو میں کچھ اہم لوگ ہمارے منتظر ہیں اس لیے وہاں چائے بھی پی جائے اور غیر رسمی ماحول میں گفتگو کی جائے۔
تھکن چاہے جتنی بھی تھی لیکن یہ موقع دوبارہ نہیں آنے والا تھا لہٰذا ہم نے فوری حامی بھری اور شعبہ اردو کی عمارت کی جانب چل دیے۔ ایک قدیم لیکن خوبصورت عمارت جو ترکی کے سرخ جھنڈیوں سے سجی ہوئی تھی وہ شعبہ ادبیات تھا ۔ ایک نہایت طویل قامت ترکی کے جھنڈے کو جس طرح فیکلیٹی کی راہدری پہ لگایا گیا تھا وہ اس بات کا بخوبی اظہار کر رہا تھا کہ ترک قوم اپنے وطن ، اپنی زبان ، اپنی ثقافت اور علم سے محبت کرنے والی دنیا کی عظیم اقوام میں سے سر فہرست قوم ہے۔
میرا ذہن پھر ترکی کی تاریخ و جغرافیہ کے در پر دستک دینے لگا۔ جامعہ استنبول اور شعبہ اردو سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے وہاں کئی لوگ تھے خود جناب حلیل طوقار صاحب کا علم و معلومات میرے ذہن میں اٹھنے والے سوالوں کا مفصل جواب دے سکتا تھا لیکن یہ موقع نہیں تھا کہ میں انہیں اپنے نہ ختم ہونے والے سوالوں میں گھیرتی یوں بھی وہ کچھ دفتری کاغذات سنبھالے احسان شاہد صاحب کے سوال و جواب میں مصروف ہو گئےتھے۔
فیکیلٹی میں داخل ہونے کے بعد ڈاکٹر راشد حق نے اپنی کرسی مجھے عنایت کی اور گرما گرم چائے پلا کر تھکن دور کرنے کا بندوبست کردیا۔ کچھ طالبات اور طلبہ وہاں موجود تھے جو ہندوستان ، پاکستان اور خاص طور پر ایران و افغانستان سے بھی تھے، ہمارے منتظر تھے۔ لڑکیوں کے ایک گروپ نے غزل انصاری کو گھیر لیا وہ اپنی مشفقانہ طبیعت کے تحت اُن اردو بولنے والی طالبات میں ایسے گھل مل گئیں کہ جیسے برسوں سے انہیں جانتی ہوں۔