سید علی گیلانی جن کی پکار سے بھارتی ایوانوں کے در دیوار ہل جاتے تھے، 92 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد اس جہان فانی سے رخصت ہوکر اپنے اخروی سفر کی طرف روانہ ہوگئے۔
سید علی گیلانی 1929 کو زوری منز میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم سوپور میں حاصل کی۔اس کے بعد اورئینٹل کالج میں داخلہ لے لیا اور وہاں سے ادیب عالم کی ڈگری حاصل ہے پھر کشمیر یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور منشی فاضل کی ڈگریاں حاصل کیں۔بعد میں آپ نے استاد مقرر ہوئے اور تقریبا 12 برس تک اسی پیشے سے منسلک رہے۔آپ تقریبا 15 سال ممبر اسمبلی بھی رہے ہیں لیکن 1989 میں آپ نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دے دیا۔ آپ حریت کانفرنس کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔
سید علی گیلانی محض ایک نام نہیں تھا بلکہ آپ استعارہ تھے آزادی کا،مثال تھے ہمت و جرات کی۔آپ نے اپنی پوری زندگی بھارتی تسلط سے آزادی حاصل کرنے لیے وقف کردی۔اسی وجہ سے تقریبا 20 سال آپ نے بھارتی جیل میں گزار،ظلم و ستم برداشت کیا لیکن آفرین ہے آپ پر،آپ کے جذبہ حریت میں کوئی کمی نہیں آئی۔انھوں نے بھارت کے آگے سر نہیں جھکایا، غلامی سے سمجھوتہ نہیں کیا، ظلم و ستم کے نظام سے لڑتے لڑتے انھوں نے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ دیا،بالوں میں چاندنی اتر آئی،کینسر کا مرض لاحق ہوگیا،ان کا دل پیس میکر کی مدد سے چلتا تھا لیکن اس حالت میں بھی ان کا جوش اور ولولہ بھارتی قیادت کو ہلا دیتا تھا۔جب پوری دنیا مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم کے جواب خاموشی کا لبادہ اوڑھے بیٹھی تھی تب سید علی گیلانی وہ شخص تھے جو ہزاروں کشمیریوں کی مضبوط آواز بن کر ابھرے۔
جب بھارت نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے تو کشمیری عوام میں مایوسی پھیلنے لگی تو سید علی گیلانی وہ شخص تھے جنھوں نے کشمیری مسلمانوں کے اندر امید کا دیا بجھنے نہیں دیا انھوں نے کشمیری مسلمانوں کو اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا حکم دیا انہوں نے واشگاف الفاظ میں بھارت پر یہ واضح کردیا کہ وہ کبھی بھی سرنڈر نہیں کریں گے ان کے ایک موقعہ پر بولے گئے الفاظ کہ
“اسلام کی نسبت سے
اسلام کی محبت سے
ہم پاکستانی ہیں اور
پاکستان ہمارا ہے،
ان کی آواز نے اگرچہ بھارتی ایوانوں کی درو دیوار کو ہلا کر رکھ دیا تو دوسری جانب کشمیری مسلمانوں کے اندر ایک نئے ولولہ کو بھر دیا۔ان کے یہ الفاظ آج بھی مقبوضہ کشمیر کی فضاوں میں گونج رہے ہیں۔
“دل سے نکلے گی نہ
مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی
خوشبوئے وفا آئے گی”۔۔
کل جب سید علی گیلانی نے اس دنیا کو الوداع کہا تو ہر کشمیری کی آنکھ نم تھی اور دل اداس تھا۔
“جنگل میں اس طرح کی
اداسی کبھی نہ تھی
اے کارواں ٹہر کوئی
ساتھ بچھڑ گیا”۔
آپ کی وصیت تھی کہ آپ کو سری شہدائے قبرستان میں دفن کیا جائے لیکن بھارتی فوج نے اندھیرے میں ان کے گھر داخل ہوئی اور ان کا جسد خاکی جو پاکستانی پرچم میں لپٹا ہوا تھا،(کہا جاتا ہے کہ انھوں نے پاکستانی پرچم اسی لیے سنبھال کر رکھا ہوا تھا کہ ان کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفنایا جائے) چھین کر لے گئی اور انتہائی سیکیورٹی میں حیدر پورہ قبرستام میں ان کی تدفین کردی۔پورے علاقے کو سیل کردیا،کرفیو نافذ کردیا، انٹرنیٹ کی سروس بند کردی اور کشمیری عوام کو ان کے جنازے میں شریک نہیں ہونے دیا۔ لیکن کشمیری عوام پھر بھی باہر نکلی۔۔۔شاید قابض بھارتی فوج کو یہ نہیں پتہ تھا کہ کشمیریوں کے دل میں سید علی گیلانی کے لیے جو محبت ہے جو عزت ہے وہ ایسے ہتھکنڈوں سے کسی صورت بھی ختم نہیں ہوسکتی۔
“ہمیں چراغ سمجھ کر
بجھا نہیں پاو گے
ہم اپنے گھر میں
کئی آفتاب رکھتے ہیں
ہم نے سوئی ہوئی
قوموں کو بیدار کیا
اپنے خون سے صحراوں
کو گلزار کیا”۔۔۔
سید علی گیلانی وہ شخص تھے کہ جن کی پاکستان سے محبت پر کوئی شک نہیں کرسکتا ان کی پاکستان سے محبت دین اسلام کی وجہ سے تھی۔۔سید علی گیلانی ہزاروں کشمیری مسلمانوں کے اندر جو جوش و ولولہ پیدا کرگئے ہیں وہ کشمیری مسلمانوں کو کسی صورت بھی بھارت کے جابرانہ نظام کے آگے سرنڈر کرنے نہیں دے گا۔
سید علی گیلانی کشمیری مسلمانوں کو ان کی زندگی کا مقصد دے گئے ہیں۔ان کو ایک نظریہ حیات دے گئے ہیں۔ ہر ہر گھر سے ایک گیلانی نکلے گا لہذا انڈیا کتنے گیلانیوں کو نظربند کرے گا؟کتنے گیلانیوں کے جسد خاکی کو چھینے گا؟
سید علی گیلانی کا شمار ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔یہ اپنے آپ میں ایک مکمل تاریخ تھے۔بلاشبہ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے شاید کوئی پر نہ کرسکے۔۔
“جیو تو اس طرح کہ
زندگی کو رشک آئے
مرو تو موت پوچھے
کون مرگیا یارب”۔
“چراغ زندگی ہوگا
فروزاں ہم نہیں ہونگے
چمن میں آئے گی فصل بہاراں
ہم نہیں ہونگے”۔