اساتذہ کے تذکرے پر مشتمل’ زمین کے تارے’ نامی کتاب بہت ذوق و شوق کے ساتھ ہاتھ میں لی، تھوڑی ورق گردانی کی پھر یہ سوچ کر کتاب رکھ دی کہ مزہ نہیں آیا۔
کتاب اور مطالعہ کس لیے ہوتے ہیں، مزہ لینے کے لیے یا ان کا مقصد کچھ اور بھی ہوتا ہے؟ یہ سوال خطر ناک ہو سکتا ہے، اس لیے یہی بتانا مناسب ہو گا کہ مجھے مزہ کیوں نہ آیا؟ مزہ نہ آنے کی خرابی کا ایک سبب ہے۔ اس سبب کا ایک تعلق ایک خاص طرح کے مطالعے کی عادت سے ہے یعنی تحریر لچھے دار ہو، بات سے بات نکلتی جائے اور کسی افسانے کی طرح کسی ایسے انجام تک جا پہنچے جو پڑھنے والے بلکہ لکھنے والے کے ( لکھتے وقت) حاشیہ خیال میں بھی نہ ہو۔ یہ مسئلہ ہر اس پڑھنے والے کا ہو سکتا ہے، مطالعے کے ضمن میں جس کا مزاج غالب جیسا ہو۔ مکتوب نگاری کے ضمن نے غالب نے کہا تھا ؎
خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
لیکن کیا کیا جائے کہ بعض لوگ ایسامزاج نہیں بھی رکھتے جیسے ہمارے عبدالخالق ہمدرد ہیں۔
ان سے ملاقات محض اتفاقی تھی۔ یہ اتفاق بھی غضب ہو گیا جب معلوم ہوا کہ حضرت کم از کم بیس عربی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں۔ زبانیں سیکھنے کا چسکہ ایسا کہ جس زبان کو ذرا نظر بھر کر دیکھ لیا، وہ دل ہار گئی۔ اس لیے انھیں ہفت زبان کہنا چاہئیں تو بھی کوئی ممانعت نہیں۔ ان سے ملاقات والا حادثہ ذرا پہلے کی بات ہے۔ ابھی کچھ روز ہوتےہیں، خود ان ہی کی تحریر سے معلوم ہوا کہ انگریزی سیکھنے کے لیے انھوں کس محنت اور جفا کشی سے کام لیا۔ یہ واقعہ سن کر اس دور کے واقعات ذہن میں گردش کرنے لگے جب ہونہار طلبہ گلی کے کھمبے تلے کتاب لے کر بیٹھ جاتے اور سردی گرمی کی پروا کیے بغیر رات رات بھر جاگ کر امتحان کہ تیاری کیا کرتے۔
بس، یہی واقعہ ان سے دوستی کا ذریعہ بن گیا اور یہ کتاب اس دوستی کے تحفے کے طور پر میری دسترس میں آ گئی۔ کتاب میرے ہاتھ آئی تو اس کے نام کی مناسبت سے اور میری توقع کے مطابق اسے شخصی خاکوں کی کتاب ہونا چاہیے تھا لیکن یہ تو ایک اور ہی چیز نکلی۔
تاریخ میں بڑے سے بڑا اچھا طالب علم ہو گزرا یے۔ ایسے طالب علموں نے اپنے اساتذہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے خاکے لکھے یہاں تک کہ ان پر کتابیں تک تحریر کردیں۔ ہے تو یہ بھی اسی روایت کی کتاب لیکن اپنے مزاج کے اعتبار سے بالکل مختلف۔ یہ ایک طالب علم کا روزنامچہ ہے جس سے اساتذہ کے تذکرے چن کر الگ کر لیے گئے ہیں۔
روزنامچہ انسان کب لکھتا ہے، اس سوال کا جواب مختلف ہو سکتا ہے لیکن کم ہی کوئی ہو گا جسے اپنے ابتدائی درجے کے اساتذہ کے نام ہی نہیں، ان کے انداز تدریس اور ذاتی عادات کی تفصیلات اس قدر درستگی کے ساتھ یاد ہوں۔ ہمارے اس دوست کے پہلے اساتذہ کون تھے، اس باب میں انھوں نے اہل ذوق کو ایک نئی راہ دکھائی ہے ۔ انھوں نے بالکل ابتدائی زندگی کے حالات کو کریدتے ہوئے آزاد کشمیر میں اپنے آبائی گاؤں کا دل کش نقشہ کھینچ کر یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ان کی آموزش کا عمل کیسے شروع ہوا اور جب یہ عمل شروع ہوا تو وہ کون ہستیاں تھیں جو ان کی اولیں استاد بنیں؟ عبدالخالق ہمدرد لکھتے ہیں کہ ان کی والدہ ماجدہ اور اور والد گرامی۔ پھر ان دونوں بزرگوں کے مزاج اور طبیعت کا بیان شروع ہو جاتا ہے۔
گھر کے اساتذہ اور والدین کے مزاج کے بارے میں انسان جتنی چاہے تفصیل لکھ لے لیکن انھوں نے پرائمری اور ہائی درجوں کے اساتذہ کاتذکرہ بھی اس تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ یہ تذکرے پڑھتے ہوئے میں نے اپنا امتحان لینے کی کوشش کی تو صرف تین نام ذہن میں روشن ہوئے اور ان کے تعلق سے تھوڑی سی یادیں۔ ہمارے اس بھائی نے اپنے اساتذہ کی جتنی تفصیل اور درج کر دی ہے ، وہ حیرت انگیز ہے۔
گزشثہ بیس پچیس برس میں تو خیر تعلیم کی ثقافت کم و بیش پوری کی پوری بدل گئی ہے لیکن اس سے پہلے ہر جگہ کے اسکول ایک جیسے ہی ہوا کرتے تھے۔ اس لیے ان یادوں کو پڑھتے ہوئےپڑھنے والے کی یادیں سر اٹھانے لگتی ہیں۔ یوں گویا اس کتاب کاقاری اپنے بچپن اور زمانہ طالب علمی کی کھوج میں جا نکلتا ہے۔ یہ بڑے کمال کی بات ہے لیکن اس کتاب میں تو اس سے بڑھ کر بھی ایک کمال ہے ، اس کمال کا تعلق دینی مدارس کی تعلیم سے ہے۔
ہمارے یہاں دینی مدارس کے ماحول کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں سننے کو ملتی ہیں لیکن یہ کتاب تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتی ہے۔
اس کتاب کے مطالعے سے صرف یہ معلوم نہیں ہوتا ہے علوم دینیہ کا طالب علم کیا کچھ پڑھتا ہے اور کیسے پاکیزہ ماحول میں پڑھتا ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ استاد اپنے طالب علموں کی عزت نفس کو بلند رکھنے کے لیے کیسے کیسے جتن کرتے ہیں۔ ان میں مطالعے کا ذوق پیدا کرنے کے لیے کیسی انوکھی تراکیب سوچتے ہیں۔ یہ سب باتیں ہمیں ایک مختلف دنیا کی خبر دیتی ہیں۔ اس پر مستزاد ان کی درد مندی۔
ہمارے اس دوست کو ڈائری لکھنے کی عادت نہ ہوتی اور ان کی یاداشت ایسی غضب کی نہ ہوتی تو سچی بات یہ ہے کہ ہم اس عجائب خانے کی زیارت سے محروم ہو جاتے۔
عبد العزیز خالد مرحوم کی ایک مختصر مگر نہایت دلچسپ نظم کی دو سطریں ہیں:
ہے ذوق اگر شہ سواری کا
تو ایڑ بھی دو لگام بھی کھینچو
ان کے تتبع میں میں کہوں گا کہ اگر اپنے سماج کی اوجھل حقیقتوں کو جاننے کاذوق ہے تو یہ کتاب پڑھئے اور سر دھنئے۔