ایک زمانہ تھا، مرغیاں پالنے والے گھروں کے لڑکے بڑی مشکل میں ہوا کرتے تھے جیسے ہی سورج ڈھلتا، مرغیوں کو گھیر گھار کر گھر لانے کے لیے انھیں دوڑنا پڑتا۔ ہمارے لڑکپن میں تو ایسا ہی ہوا، اب ہوتا ہے یا نہیں، خبر نہیں کیوں کہ معیشت کی زبوں حالی اپنی جگہ لیکن ہمارا معیار زندگی بہت بدل چکا ہے۔ گھر کے صحن یا چھت پر اب مرغیوں کے ڈربے نہیں ہوتے، کچھ دیگر ایسی ویسی چیزیں ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت اپنی جگہ لیکن مجھے یقین ہے کہ اس زمانے میں ہم نام نہاد مڈل کلاس گھرانوں کے چونچلے ایسے ہی ہوا کرتے تھے، اپنے اسی پیارے، تھوڑے سے قسمت والے اور تھوڑے سے بدقسمت دیس کے کچھ قریوں میں موجودہ زمانے میں بھی ایسا ہی ہوا کرتا ہو گا اور وہ لڑکے جن کی گھنڈی پھوٹ چکی ہو یا پھوٹنے والی ہو، دن ڈھلتے ہی ان کاتمام تر Swag دھرے کا دھرا رہ جاتا ہو گا اور وہ چھڑی پکڑ کر مرغیوں کے پیچھے بھاگ نکلتے ہوں گے۔ تو واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں ہمارے ہاں مرغیاں بہت تھیں اور وہ جو کہاوت ہے، دن دونی،رات چوگنی ترقی، ان میں بھی ایسی ہی ترقی ہوا کرتی تھی۔ ہر ماہ ان میں کچھ ایسی ترقی ہوتی کہ ہر شام گنتی بھول جاتی لیکن گنتی کا بھولنا نہ بھولنا کوئی معنی نہ رکھتا تھا، یہ کام میرے ذمے تھا اور فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا۔
کتابیں وغیرہ پڑھنے کا لپکا اگرچہ اسی زمانے کی بات ہے لیکن جھوٹ میں کیا رکھا ہے، سچ یہ ہے وہ راتیں ابن صفی کے ساتھ گزرتیں یا پھر محی الدین نواب کی ٹیلی پیتھی اور اس کے شہ سوار فرہاد علی تیمور کے ساتھ۔ اس مرحلے سے گزر کر جب اشفاق صاحب کے جادو کا شکار ہوئے اور خبر ہوئی کہ بکریوں کا چرانا، انھیں جمع رکھنا اور ہنکا کر باڑے کی طرف لے جانا پیغمبرانہ سرگرمی ہے، یہی سبب ہے کہ اہل طریقت کے ہاں اس مبارک کام کو تربیت کا پہلا مرحلہ قرار دیا گیا ہے۔ اب یہ کوئی بڑائی کا اظہار نہیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ میں اگر کوئی دعویٰ کر ہی بیٹھوں تو کوئی مہربان آنکھ نچا کر خاص انداز میں میری طرف نہ دیکھے اور نہ اسے جہالت جان کر میرے ساتھ اظہار ہم دردی کرے۔
اشفاق صاحب کی مہربانی سے جب بکریاں چرانے کی عظمت سمجھ میں آگئی تو ایک اضافی بات یہ بھی سمجھ میں آئی کہ بکریوں اور مرغیوں میں بس جنس کا ہی فرق ہے، ورنہ ہر دو مخلوقات سے نمٹنا جان جوکھوں کا کام ہے بلکہ تزکیہ قلب کے ضمن میں مرغیاں کچھ زیادہ ہی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ یہ بات ان دنوں ایمان کی طرح قلب و روح پر نقش ہو چکی تھی اور یہ خاکسار خود کو اچھا خاصا پہنچا ہوا درویش یا صوفی خیال کرتا تھا۔
مجھے اپنی اس درویشی کی یہ لذیذ حکایت ابھی بیان کرنی ہے لیکن بیچ میں ہمارے برادر محترم پروفیسر سلمان باسط آگئے ہیں جن کی سرگزشت ناسٹلجیا نے ان دنوں دھوم مچا رکھی ہے۔ اس سرگزشت سے زیادہ ان کی باس نما محبوبہ کے چرچے ہیں جن سے یہ بھاگے پھرتے تھے۔ ایک جوان جہان باس ایک جوان جہان پردیسی استاد کے لیے گھر سمیت اپنے دل کے دروازے کھول دے، اس سے زیادہ کیا چاہئے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے اس بھائی نے جانے کس کس جتن سے رسے تڑا کر فرار کا راستہ اختیار کیا، اس پر سوائے افسوس اور رحم کھانے کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ دل کا دروازہ کھلا ہو اور دل والی دل دینے کو تیار ہو اس پر بھی ہمارا چھیل چھبیلا فقط نظریں نہ چرائے، دل توڑ کر رات کے اندھیرے میں بھاگ نکلے، یہ کارنامہ بھی قسمت والوں کے حصے میں آتا ہے۔
ہمارا یہ ہیرو جب اُس کافر ادا باس یا محبوبہ سے پہلی بار بھاگا تو اس کی بز دلی پر آوازہ کسنے والوں میں ان سطور کا لکھنے والا بھی شامل تھا۔ سلمان بھائی طرح دار آدمی ہیں، میری بدتمیزی کو چھوٹے بھائی کی شوخی سمجھ کر پی گئے اور اتنا ہی کہا کہ اس کیفیت میں اگر تم ہوتے تو کیا کرتے؟ اس وقت تو میں نے ہمت کر کے کہہ دیا کہ میں تو سیاح ہوں، جیسا بھی ہوتا، تجربے سے ضرور گزرتا لیکن اسی لمحے مرغیوں والا زمانہ آنکھوں میں گھوم گیا۔
میرے بزرگوں نے سرگودھا کے جس کوچے میں گھر بنایا تھا، اس کا نام بڑا شاعرانہ ہے، ہم سمجھتے تھے کہ چوں کہ سردار شوکت حیات نے انگریزوں سے ملی ہوئی زمین کو کالونی بنا کر فروخت کیا تھا، اس لیے اپنے نام کی مناسبت سے اس کا نام مقام حیات رکھ دیا ہو گا لیکن کچھ دن پہلے کلیات اقبال کی ورق گردانی کرتے ہوئے اپنی بدگمانی پر افسوس ہوا۔
ہمارے مرشدوں کے مرشد نے کہہ رکھا ہے
خودی ہے زندہ تو ہے موت اک مقامِ حیات
کہ عشق موت سے کرتا ہے امتحانِ ثبات
اقبال کی برکت سے یہ بات خودی سے ہوتی ہوئی عشق اور امتحان ثبات تک جا پہنچی ہے لیکن مجھے تو ذکر اپنے محلے کا کرنا ہے۔ ہمارے گھر سے چار گھر چھوڑ کر ایک گلی آتی تھی اور اس گلی کے بعد ایک بڑا سا خالی پلاٹ ہوا کرتا تھا جس میں جھاڑ جھنکار اور بہت سی گھاس اگا کرتی تھی۔ ہماری مرغیاں اس اونچی نیچی گھاس میں چھپ جاتیں یا پھر کڑکڑا کر بھاگتے بھاگتے اڈاری مار کر درویش کا امتحان لیا کرتیں۔ ایسے ہی کسی امتحان کی بات ہے، میں ایک چھوٹی سی قمچی ہاتھ لیے بھاگ رہا تھا کہ میری آنکھ سڑک کے پار آٹھ گئی۔ خالی پلاٹ کے بالکل سامنے مولوی ابراہیم کا گھر تھا۔ مولوی صاحب شاید دائمی نزلے کے مریض تھے، تھوڑی تھوڑی دیر بعد انھیں بلغم آتی تھی۔ اس تکلیف سے نمٹنے کے لیے وہ بائیں کاندھے پر رکھے بڑے سے چار خانے کے رومال کو کام میں لاتے۔ بلغم بڑی ظالم تھی، نماز یا خطبے کے دوران بھی ان کے صبر کا امتحان لیتی اور وہ بڑی بے تکلفی کے ساتھ اس ستار العیوب یعنی رومال کی مدد سے اس تکلیف سے نجات پا لیتے۔
اس گھر میں مولوی صاحب رہتے تھے، ہر ہفتے سر گھٹانے والے ان کے دو یا تین بیٹے رہتے تھے، اس کے علاوہ اور کون رہتا تھا، یہ خبر نہ تھی۔ اس روز معلوم ہوا کہ یہ گھر اتنا بھی غیر دل کش نہیں۔ اس روز جو نظر اٹھی تو اٹھی ہی رہ گئی، نک سک سے درست ایک حسینہ دروازے پر کھڑی تھی جس کی چوڑیوں کی کھنک تک میرے کانوں میں پہنچ رہی تھی۔ کیسی قسمت کی بات تھی کہ جسے میں دیکھ رہا تھا، اس کی نگاہوں کے تیر بھی سیدھے میری طرف تھے۔ عین اس وقت جب نگاہیں چار ہوئیں، اس نے اشارہ کر کے مجھے دعوت محبت دی۔ اس سے پہلے کہ دل بلیوں اچھلنے لگتا، ساری چونچالی ہری ہو گئی، قمچی کہیں خود بہ خود نیچے گر گئی، مرغیوں نے بھی اس لمحے کچھ شرافت دکھائی اور پریشان کیے بغیر گھر کی راہ لی، ان کے پیچھے پیچھے میں نے بھی۔
میں نے اس حسینہ کی دعوت قبول کیوں نہیں کی، یہ حسرت دل میں ہی رہ گئی، میرا کیا بگڑ جاتا اگر میں ذرا کی ذرا ایک حسینہ کی بات سن لیتا، شاید اسے کچھ کام ہی ہوتا، کوئی مجبوری ہی ہوتی۔ میں اکثر سوچتا اور سچ پوچھیں تو اب بھی کبھی تنہائی میں، شام کے کسی دھندلکے میں، کڑکڑاتی ہوئی مرغیوں کی کوئی ڈار دیکھ کر اس کی یاد آ جاتی ہے، اس کے ساتھ ہی ایک ہوک سی دل میں اٹھتی ہے اور میں سوچتا ہوں کہ یہ سارا کیا دھرا ان نٹ کھٹ مرغیوں کا ہی ہوگا جن کے پیچھے بھاگنے دوڑنے کی محنت نے ان جانے میں ہی کچھ ایسی تربیت کر دی ہوگی کہ حسن یار کی طرف آنکھ اٹھانے جرات ہی نہ ہوسکی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے سلمان بھائی نے ضرور بکریاں چرا رکھی ہوں گی، یہ تجربہ اگر انھیں حاصل نہیں تو مرغیوں کی تربیت میں تو وہ ضرور رہے ہوں گے ورنہ کسی حسینہ کی نگاہ التفات کو یوں ٹھکرا دینا معمولی بات نہیں۔