افغانستان میں طالبان کے دوبارہ غلبے کے بعد دنیا بھر میں جہاں سراسیمگی کی کیفیت ہے، وہیں پاکستان کے کچھ طبقے سرشاری کی کیفیت میں ہیں۔ یہ حضرات اس واقعہ کو فتح مبین قرار دینے کے علاوہ خطے میں مسلم تحریکوں کی فتح بھی قرار دیے رہے ہیں۔ کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے؟ اس سوال کا کوئی واضح جواب تو دستیاب نہیں ہے لیکن فاروق عادل نے اپنے زیر نظر کالم میں ان ہی موضوعات کو قلم اٹھایا یا ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس بار ہم خطے میں طالبان کو ایک نئے کردار میں دیکھیں گے۔ ‘آوازہ’ کو ایک سوال پر انھوں نے بتایا کہ طالبان خطے میں بقول اقبال مشرق سے ابھرتا ہوا ایک نیا سورج تو ہیں لیکن ذرا مختلف نوعیت کا جس کا تعلق علاقائی اور عالمی معیشت سے گہرا ہوگا۔ ان کا یہ کردار عین ممکن ہے کہ بعض جذباتی حلقوں کی توقعات کے مطابق نہ ہو۔ ادارہ
اس وقت ہم دو دنیاؤں کے یرغمالی ہیں۔ ایک دنیا فتح مبین والی اور دوسری اس کے بالکل برعکس، یہ سمجھنے والی کہ مرغابیوں کی پر سکون دنیا میں کچھ خون آشام درندے گھس آئے ہیں، لہٰذا اب کسی خیر کی توقع نہیں۔ ان دو انتہاؤں کے بیچ اوّل تو کوئی بات کرتا نہیں، کوئی ایسی ہمت کرے بھی تو کوئی سننے کو تیار نہیں۔ بہتر ہو گا اس کیفیت کو چند مثالوں کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
عطا محمد تبسم کمال کے آدمی ہیں۔ وہ کئی اعتبار سے ایک مثالی شخصیت ہیں۔ صحافت کے شعبے کو ان سے کیا فیض پہنچا، اس کی وضاحت کے لیے کچھ طویل دفتر رقم کرنے کی ضرورت نہیں ، صرف یہ بتانا کافی ہے کہ اگر آج ہمارے ہاں بیمہ صحافت کا کوئی وجود ہے تو وہ ان ہی دم سے ہے۔ اس شعبے کو خبروں کے ایجنڈے میں انھوں نے جگہ دلائی اور اہل صحافت کو بتایا کہ اس شعبے میں نہ صرف خبریں ہوتی ہیں بلکہ ایسی خبریں ہوتی ہیں جن میں عوام کی گہری دلچسپی بھی ہو سکتی ہے، لہٰذا آج اگر بزنس اور بینکاری کے ساتھ بیمہ انڈسٹری بھی صحافت میں ایک فعال بیٹ کی حیثیت رکھتی ہے تو اس کا کریڈٹ ان ہی کو جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان کے قرب و جوار میں تبدیلیاں رونما ہوئیں تو ان کا جو تبصرہ سامنے آیا، اس کی مدد سے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ ہمارا ایک بہت بڑا طبقۂ خیال موجودہ منظر نامے کو کس انداز میں دیکھ رہا ہے اور اس ضمن میں کس قسم کے خواب اس کی آنکھوں میں بسے ہوئے ہیں۔انھوں نے لکھا:’یہ قوم بت شکن ہے، مجسمہ پوجنے والے جان لیں تو یہ اچھا ہے’۔
اس بلیغ جملے میں بامیان کے تکلیف دہ واقعات کی طرف تو اشارہ ہے ہی، طالبان نے اپنے گزشتہ دور حکومت میں جو طرز عمل اختیار کیا، اس کی تائید اور اس کے احیا کی غیر معمولی آرزو بھی اس میں جھلکتی ہے۔ کوئی شخص یا کوئی گروہ اگر کسی معاملے میں کچھ توقعات وابستہ کر لے تو اس میں ہرج کی کوئی بات نہیں لیکن اگر سیاق و سباق ایسی آرزوں کی تائید نہ کریں تو پھر ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا ہمارے فہم دنیا میں کوئی مسئلہ تو نہیں؟
یہ ایک انتہا تھی، دوسری انتہا ایک بین الاقوامی خبری ادارے کی اس رپورٹ میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا کہ طالبان کے کابل کا انتظام سنبھالنے کے بعد برطانوی سفارت خانے اور بعض افغان خاندانوں نے ایک برطانوی لیبر کونسلر پیمانہ اسد کو کس طرح خوفزدہ کر کے افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا۔ خوف و ہراس کے ایسے واقعات کی جتنی داستانیں آپ تلاش کرنا چاہیں، آپ کو ملتی چلی جائیں گی۔اس قسم کے تبصروں اور واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ آج کے افغانستان کو اپنے نظریات، خواہشات اور ماضی کے تجربات کی روشنی میں توخوب دیکھا جا رہا ہے لیکن اس ملک میں آج جو کچھ ہو رہا ہے، اسے معروضی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔
کوئی زمانہ تھا جب طالبان جن کے لٹھ بردار دستے شہر میں نکلتے اور بدقسمتی سے کوئی خاتون ان کی نگاہ میں آجاتی تو وہ اس کے ٹخنوں پر ڈنڈے مار مار اسے چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتے۔ وہ عہد صرف خواتین کے لیے ہی ایک تکلیف دہ یاد کی حیثیت نہیں رکھتا تھا بلکہ سیاسی مخالفین کے لیے بھی ان کے ہاں کوئی گنجائش نہ تھی لیکن اگر صرف ان ہی دو حوالوں سے دیکھا جائے تو ایک بالکل مختلف منظر دکھائی دیتا ہے۔افغان ٹیلی ویژن پر طالبان کے ترجمان ایک خاتون صحافی کے روبرو نہ صرف بیٹھے بلکہ اسے انٹرویو بھی دیا۔ صرف اسی ایک واقعہ کو دیکھا جائے تو اس میں ان گنت پیغامات پوشیدہ ہیں۔ یعنی تصویر کو گناہ سمجھنے والوں نے صرف تصویر کو جائز قرار نہیں دیا بلکہ متحرک تصویر سے بھی استفادہ کیا اور اس سے بڑھ کر ایک ایسی مخلوق کے برابر بیٹھ کر اس کے سوالوں کے جواب دیے، ماضی میں جسے وہ کبھی اپنے برابر کا نہ سمجھتے تھے۔
ٹیلی ویژن اسٹوڈیو میں دکھائی دینے والے اس واقعے سے بڑھ کر بھی ایک واقعہ ہے۔ اس واقعے میں دوپٹہ اوڑھے ایک خاتون رپورٹر کابل کی سڑکوں پر رپورٹنگ کرتی دیکھی گئی۔ طالبان نے کابل کا انتظام سنبھالتے ہی جب شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے زندگی کے مختلف شعبوں میں خواتین کا کردار تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ ہی حجاب کے الفاظ بھی سنے گئے۔ موجودہ زمانے میں جب حجاب کاذکر ہوتا ہے تو اس کا ایرانی تصور ہی ذہن میں آتا ہے جس میں خواتین ایک خاص انداز میں منھ سر لپیٹ لیتی ہیں۔
اس کے برعکس حجاب کا ایک پاکستانی اندازہے جس میں خواتین ایک سادہ دوپٹے سے سر کو ڈھانپتی ہیں۔ یہ انداز حجاب کے ایرانی تصور کے مقابلے میں زیادہ معتدل اور فطرت سے قریب ہی نہیں بلکہ قرآنی تصور سے بھی قریب ہے جس میں خواتین سے کہا گیا کہ پلو لے لیا کرو۔ آج کے کابل میں ذرائع ابلاغ کے توسط سے جو خواتین سامنے آئی ہیں، اسی ‘ پاکستانی’حجاب میں دیکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بچیوں کے اسکول کھلنے کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں جو ایک مختلف افغانستان کی خبر دیتی ہیں۔
افغانستان کے زمینی حقائق اپنی جگہ لیکن اس کے باوجود اس تاثر کو گہرا کرنے والے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں کہ یہ تو وہی طالبان ہیں، بیس برس پہلے جن کی خون آشامی کے چرچے تھے۔آج کے افغانستان کی ایک تصویر یہ ہے، دوسری تصویر وہ ہے جس کی ایک جھلک عطا محمد تبسم کے کمنٹ میں دکھائی دیتی ہے (اور ایک طرح سے اسی طالبان مخالف تصور کو مضبوط کرتی ہے)۔ حقیقت تو یہ ہے آج کا افغانستان ان دونوں تصاویر سے مختلف ہے اور اس کے اقتدار پر قابض ہو جانے والے کچھ نئے تصورات کے ساتھ میدان عمل میں اترے ہیں۔ وہ کیا نئے تصورات ہیں جو افغانستان کے آج کے حکمرانوں کے ذہن میں ہوں گے؟
افغانستان کے حالات میں جس تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ایسی کیفیت میں کوئی حتمی رائے دینا تو جلد بازی ہوگی لیکن اس صورت حال کو دستیاب حالات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن ہے۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں صرف کابل ائیرپورٹ کی مثال ہی پیش نظر رکھ لی جائے تو بہت کچھ سمجھ میں آ جاتا ہے۔
کیا پورے افغانستان پر چشم زدن میں قابض ہو جانے والے اتنی اہلیت نہیں رکھتے کہ وہ کابل ائیرپورٹ بھی سنبھال لیں۔ انھوں نے ایسا نہیں کیا تو اس میں سمجھنے والوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ اسی طرح انھوں نے اپنی سیاسی کونسل میں شیعہ اور اسماعیلی عقیدہ رکھنے والے لوگوں کو شامل نہیں کیا بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی جگہ بنائی ہے۔ یہ بدلے ہوئے افغانستان کے چند مناظر ہیں۔
حال ہی میں کابل اور اسد آباد میں افغانستان کا روایتی تین رنگوں کا پرچم کے کر نکلنے والوں پر تشدد کی خبریں آئی ہیں۔ ان خبروں سے مایوسی ہوئی، لگا کہ یہ تو پھر وہی پرانا ظالمانہ طرز عمل ہے۔ یہ تاثر درست ہے لیکن اگر طالبان تبدیل بھی ہوئے ہیں تو اس قدر ہیجان خیز افغانستان سے ایسے حادثات کی خبریں کچھ عرصے تک آتی رہیں گی،بدلے ہوئے افغانستان میں جیسے پرانے پرچم کے تعلق سے حادثات کی خبریں سامنے آئی ہیں، بالکل اسی طرح آنے والے دنوں میں ہمارے ان دوستوں کو بھی کچھ مایوسی ہو سکتی ہے جو آج کے طالبان میں ماضی کے بت شکن دیکھ رہے ہیں یا کچھ ایسے مجاہدین جو نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے مفادات کے تحفظ کرتے ہوئے دکھائی دیں۔
مجھے ڈر ہے کہ اس طرح سوچنے والے دوستوں کو بھی مایوسی ہوگی۔ دکھائی یہ دیتا ہے کہ مستقبل کے افغانستان میں ہمیں کچھ ایسے قوم پرست دکھائی دیں گے، بعض عالمی قوتوں کے ساتھ جن کے گہرے مراسم ہوں گے اور وہ خطے میں کچھ ایسی تبدیلیوں کے محرک ہوں گے جن تبدیلیوں کے بارے میں ہم لوگ ابھی تک شاید غور نہیں کر سکے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پڑوس کے واقعات کو اپنی اپنی عینک سے دیکھنے کے بجائے زمینی حقائق کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔