پی ڈی ایم کا منگل کا اجلاس ہنگامہ خیز ثابت ہوا جیسا کہ توقع تھی، پیپلز پارٹی نے استعفوں کی انتہا تک جانے سے انکار کر دیا، نتیجتاً لانگ مارچ ملتوی ہو گیا۔ اس کے بعد صحافیوں کی وہ پسندیدہ گردان ایک بار پھر شروع ہو گئی کہ پی ڈی ایم اللہ کو پیاری ہو گئی۔
پی ڈی ایم کا یہ اجلاس اس اعتبار سے مایوس کن تھا کہ کچھ تلخ باتیں مفاہمت کے بادشاہ کہے جانے والے آصف علی زرداری نے کہیں اور کچھ مریم نواز نے ان کے تلخ جوابات دیے۔ یہ تلخی کس درجے کی رہی ہوگی، اس کا اندازہ مولانا فضل الرحمٰن کے طرز عمل سے ہوتا ہے جو پریس کانفرنس ادھوری چھوڑ کر اٹھ گئے۔
پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی سید یوسف رضا گیلانی نے کی، بلاول بھٹو زرداری نے بھی بیٹھنا مناسب نہ جانا، اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے ہوں گے کہ ان سے کچھ ایسے سوالات پوچھے جاسکتے ہیں جن کا جواب ان کے لیے مشکل ہو گا۔
حکومت مخالف اتحاد میں اختلاف کااس سطح پر پہنچ جانا بدقسمتی ہے۔ اختلاف کی ہنڈیا یوں بیچ چوراہے میں نہیں پھوٹنی چاہئے تھے، خیر، اس بدقسمتی کے باوجود جہاں تک پی ڈی ایم کے مستقبل کا سوال ہے، حکومت کی تمام تر خواہش اور تمسخر کے باوجود ایسا نہیں ہونے جا رہا جیسے بیمار کبوتر لوٹ پلٹ کر اچھا ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح آئندہ چند دنوں کے دوران میں پی ڈی ایم اپنی پرانی ڈگر پر اور باہم شیر شکر دکھائی دے گی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اتحاد کی کوئی جماعت، خاص طور پر پیپلز پارٹی اتحاد سے علیحدگی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
اتحاد میں حکمت عملی پر شدید اختلافات کے باوجود اس امر پر مکمل اتفاق موجود ہے کہ حکومت کے خلاف کوئی ایسی مہم جوئی نہ کی جائے جو بعد میں ٹھس ہو جائے، لہٰذا ایک جیتے جاگتے گھر میں کھڑکنے والے برتنوں کی طرح یہ اتحاد بھی حالیہ تلخی پر قابو پا کر اپنی جدوجہد پرواپس جائے گا۔
آنے والے دنوں میں ضمنی انتخابات، بجٹ سیشن اور اگر چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے سلسلے میں پیپلز پارٹی کو عدالت سے ریلیف مل گیا تو مڈٹرم انتخابات کے یقینی انعقاد کے لیے اس کی سرگرمیاں آج کے اجلاس کی تلخی کی یاد کو ایسے محو کردیں گی جیسے ایسا کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔
موجودہ حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہو چکی ہے، حزب اختلاف آنے والے دنوں میں اس کے نتائج کو دیکھتے ہوئے ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترے گی، اس عرصے میں توقع ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا غصہ بھی کم ہو چکا ہوگا۔