‘پورے تیقن اور کمٹمنٹ کے ساتھ اپنے موقف اور نظریے پر کھڑے ہونے کو پوسٹ ماڈرن ازم نے ایک عیب بنا دیا ہے۔ نتیجہ فکری انتشار’ گول مول نظریات اور اگر مگر پر مشتمل طرز فکر کی صورت میں جابجا بکھرا پڑا ہے۔ رضوی صاحب اس مخمصے سے کوسوں دور تھے۔ جو سیکھا’ مانا اور قبول کیا اس پر ڈٹ گئے۔ ان کی فرقہ وارانہ تقاریر حوصلہ شکنی کا باعث بنتی رہیں مگر ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے باب میں جس والہانہ پن سے وہ لپک کر آتے تھے اس میں کچھ خاص ضرور تھا۔ اس ضمن میں وہ مجھے ہمیشہ دلگیر اور کھرے لگے۔ انا لله وانا اليه راجعون”۔
یہ الفاظ ممتاز دانش ور پروفیسر ڈاکٹر عزیز الرحمن کے ہیں جنھوں نے نظریاتی اختلاف کے باوجود علامہ خادم رضوی صاحب کو یاد کیا ہے۔ یہی ہماری تہذیبی روایت اور اس کی خوبصورتی ہے۔
محبت رسول صلی اللہ علیہ ایمان کا تقاضا ہے۔ مرحوم کی تمام تر جدوجہد اسی پاکیزہ جذبے کے گرد گھومتی ہے۔ اب وہ اپنا نامہ اعمال لے کر اپنے رب کے حضور پیش ہو چکے ہیں تو اب ہمارے پاس ان کے لیے صرف دعائیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خطائیں معاف کر کے انھیں اپنے نیک بندوں میں جگہ عطا فرمائے، امین۔
دین کا بنیادی اصول یہ ہے کہ لوگوں کے اعمال کا دار و مدار ان کی نیت پر ہے، ختم نبوت اور شان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے انھوں نے جو قدم بھی اٹھایا، اسی اصول پر اللہ تعالیٰ ان سے معاملہ فرمائے گا اور ہماری خواہش اور دعا یہی ہے کہ یہ معاملہ در گزر، عفو و رحمت اور بخشش والا ہی ہو۔
علامہ خادم رضوی کے لیے ان پرخلوص دعاؤں کے ساتھ ہمیں ان گزشتہ ان چند برسوں کا جائزہ ضرور لینا چاہئے جنھیں بے پناہ جذباتی کیفیات کے تعلق سے قومی تاریخ میں شاید ہمیشہ یاد رکھا جائے۔ اس مرحلے پر ذرا ٹھنڈے دل کے ساتھ یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ غیرت دینی کے تعلق سے ان برسوں کے دوران جو جذباتی طرز عمل اختیار کیا گیا، کیا وہ کامیابی پر منتج ہوا یا اس کے نتیجے میں قومی سطح پر افراط و تفریط میں اضافہ ہوا یا ان کے پردے میں فائدہ اٹھانے والا کوئی اور تھا۔ ہمیں اس عہد کے سیاسی اور اقتصادی زندگی پر مرتب ہوئے والے اثرات کا جائزہ بھی لینا ہے تاکہ ہمارا حال اور مستقبل ماضی سے بہتر ہو سکے۔
علامہ رضوی ہمارے درمیان اللہ کی امانت تھے، اس امانت کو اپنے خالق کی طرف لوٹاتے ہوئے ہمیں یہ عہد کرنا ہے کہ امور دینیہ ہوں یا قومی، ان سب کی انجام دہی کے دوران فراست کادامن ہاتھ سے کبھی چھوڑا نہ جائے گا کہ فراست مومن کی گم شدہ میراث ہے۔