Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
پرانے زمانے میں انطاکیہ ۱شہر میں ایک دولت مند تاجر رہتا تھا۔ جب وہ فوت ہوا تو اس کے بیٹے کو بہت سا مال و دولت ورثے میں ملا۔ بیٹے نے بھی باپ کا پیشہ اختیار کیا اور بہت بڑی مقدار میں اشیاءکی خرید و فروخت میں جوش و خروش سے مشغول ہوگیا۔ دلّال، تجربہ کار کارندے اور مرحوم باپ کے احباب اس کے ساتھ کاروبار میں شریک ہوگئے۔ یہ بات مشہور ہوگئی کہ بیٹا اپنے کام میں بہت تیز ہوش اور طاق ہے۔
ایک روز کارندوں نے اسے خبر دی کہ [مشہور] شہر وَینس میں صندل کی لکڑی بڑی مہنگی ہے اور اس کی بہت مانگ ہے اور جب بھی صندل کی لکڑی کی کوئی مقدار اس شہر میں لائی جاتی ہے، سونے چاندی کے بھاؤ بکتی ہے۔ تاجر میاں کو لالچ ہوا اور اس نے اپنے آپ سے کہا: میرے پاس جتنا بھی سرمایہ ہے اسے جمع کرکے صندل کی لکڑی خریدتا ہوں، شہرِ وینس لے جاتا ہوں اور اسے سونے چاندی کے بھاو¿ بیچ آتا ہوں اور اس بے حساب آمدنی سے زندگی کے باقی ایام راحت و آرام سے بسر کرتا ہوں۔ اس نے ایسا ہی کیا۔
اس زمانے میں ٹیلی گراف، وائرلیس، گاڑیاں، ریل گاڑیاں اور جہاز تو ہوتے نہیں تھے، لوگ باگ گھوڑوں، اونٹوں، کجاووں اور پالکیوں کے ذریعے سفر کرتے تھے۔ دور دراز سے خط اور خبر آنے میں کئی ماہ لگ جاتے تھے۔ تاجر بھی جب دوسرے شہروں اور ملکوں میں اپنی اجناس بھیجنے کا ارادہ کرتے تو خود بھی قافلے کے ہمراہ روانہ ہوجاتے، اپنے مالِ تجارت کو منزل تک پہنچاتے اور فروخت کردیتے اور ایسی اجناس خرید لیتے جن کی ان کے اپنے وطن میں مانگ ہوتی اور لَوٹ آتے۔
انطاکیہ کے تاجر نے بھی ہر وہ جنس جو اس کے ذخیرے میں تھی، بیچ کر سرمایہ اکٹھا کیا اور صندل کی لکڑی کے سَو خرمن۱ خریدے، انھیں کئی اونٹوں پر لادا اور تاجروں کے قافلے کے ہمراہ وَینس کا رخ کیا۔ رستے میں کئی ماہ لگ گئے اور جونہی وینس سے چند فرسنگ کا فاصلہ رہ گیا، وہ بڑے قافلے سے الگ ہوگیا اور ایک دریا کے کنارے مقیم ہوگیا تاکہ تھوڑی دیر کے لیے تھکن دور کرلے اور اس کے بعد شہر میں داخل ہو۔ بڑے قافلے نے اپنی راہ پکڑی اور آگے بڑھ گیا۔
تاجر دریا کے کنارے قیام پذیر تھا کہ خبر دینے والوں نے وَینسی تاجروں کو مطّلع کیا کہ ایک تاجر صندل کی لکڑی کے سو خرمن لیے جلد شہر میں وارد ہوگا اور اب شہر سے چند فرسنگ کے فاصلے پر فروکش۲ ہے۔
ایک شخص نے جس نے وینس میں صندل کی لکڑی کی خرید و فروخت میں سرمایہ لگایا ہوا تھا اور بڑا چالاک اور ہوشیار تھا، یہ خبر سنی اور سوچ میں پڑ گیا کہ میرے پاس صندل کی لکڑی کا انبار لگا ہوا ہے۔ اگر یہ پردیسی تاجر اپنا تمام صندل لے کر آگیا تو صندل کی قیمت گر جائے گی اور میرا کاروبار بیٹھ جائے گا۔ مجھے مجبوراً کوئی حیلہ کرنا چاہیے اور تاجر سے اس کی لکڑی سستی قیمت پر خریدلینی چاہیے تاکہ اسے آہستہ آہستہ مہنگے داموں فروخت کرسکوں۔
یہ سوچ کر اس نے اپنے چند ملازموں کو اعلیٰ کپڑے پہنا کر اپنے ہمراہ لیا اور ان لوگوں کی طرح جو سیر و تفریح کے لیے شہر سے روانہ ہوتے ہیں، سامانِ سفر اٹھایا اور صندل کے انبار میں سے لکڑی کی تھوڑی سی مقدار لے کر اسے اونٹ پر لادا اور چل کھڑا ہوا حتّٰی کہ وہ لوگ پردیسی تاجر کی قیام گاہ کے نزدیک جاپہنچے۔
وَینسی تاجر نے بھی دریا کی دوسری طرف منزل کی اور وہاں خیمہ لگالیا۔ چولھا ایک جگہ لگایا اور کھانا پکانے کے لیے ایک دیگ کو اس چولھے پر رکھا اور آگ جلائی اور صندل کی مہنگی لکڑی جو وہ ساتھ لے کر آئے تھے، عام جلائی جانے والی لکڑی کی طرح زمین پر پھینکی اور اسے دیگ کے نیچے ڈال کر جلانا شروع کردیا۔
ابھی چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ صندل کی لکڑی کے جلنے سے صندل کی خوشبو بلند ہوکر ہوا میں گھُل مِل گئی۔ پردیسی تاجر کو شک گزرا کہ شاید اس کے مال تجارت نے آگ پکڑلی۔ وہ اپنے خیمے سے دوڑا اور شتربانوں سے پوچھا: خَیر ہے، انھوں نے کہا، کوئی بات نہیں، دھوا¿ں دریا کی دوسری طرف سے اٹھ رہا ہے۔ چند لوگ وہاں مقیم ہیں اور کھانا پکا رہے ہیں۔
پردیسی تاجر صندل کی خوشبو سے حیران ہوکر فرنگیوں کے پاس آیا اور پوچھا: آپ لوگ کہاں سے آئے؟وہ بولے: وَینس سے۔ ”کہاں جائیں گے آپ“؟، اس نے پوچھا۔ انھوں نے کہا: کہیں بھی نہیں۔ صرف ہوا خوری اور سیر و تفریح کے لیے یہاں چلے آئے ہیں۔ یہاں کا ماحول چونکہ بہت صاف اور پاکیزہ ہے، ہم یہیں فروکش ہوگئے۔ آپ بیٹھیے۔ ہمارے ساتھ خوش وقت۱ اور شریکِ طعام ہوں۔
پردیسی تاجر نے کہا: شکر یہ! مگر یہ تو کہیے کہ آپ عام لکڑی کی جگہ، صندل کی لکڑی کیوں جلا رہے ہیں؟
انھوں نے کہا: تو پھر کیا کریں؟
تاجر بولا: آخر جلانے کو لکڑی، عام درختوں کے کُندے اور کوئی دوسری شے نہیں؟
وہ بولے: کیوں نہیں، ہے، لیکن صندل کی لکڑی زیادہ خوشبو دیتی ہے۔ جب صندل موجود ہو تو کسی دوسری چیز کو کیوں جلائیں؟ پردیسی تاجر یہ سن کر بہت بے چین ہوا اور سوچنے لگا کہ لازماً میرے دشمنوں نے مجھے تکلیف میں مبتلا کیا ہے اور میرے ساتھ ناروا سلوک کیا ہے۔ جب صورتِ حال یہ ہے کہ اس شہر کے لوگ صندل کی لکڑی کو عام لکڑی کی جگہ جلاتے ہیں تو لازماً اس کی اور عام لکڑی کی قیمت میں کوئی فرق نہیں۔ یہ سوچ کر تاجر بڑا آزردہ ہوا اور ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ وہ اس قدر دکھی اور پریشان تھا کہ اس نے ایک بات بھی نہ کی۔
فرنگیوں نے پوچھا: آپ کہاں سے آرہے ہیں۔ یقینا ہمارے شہر میں جا رہے ہیں۔ آپ کا آنا مبارک۔ آپ کے پاس کافی ساز و سامان ہے، آپ کی خیر، یہ تو بتائیے آپ کون سی نئی چیز لائے ہیں؟
پردیسی تاجر بولا: یہ سب سامانِ تجارت صندل کی لکڑی ہے۔
فرنگیوں نے بَیک آواز۱ قہقہے لگانے شروع کردیے اور بولے: یہ امر قابلِ یقین نہیں، کیا آپ ہم سے مذاق کر رہے ہیں۔ شاید ہمارے ہاں اس جنس کا قحط ہے کہ کوئی شخص ہمارے ملک میں صندل لے کر آئے۔ ہمارے شہر میں صندل کا مصرف۲ فقط باورچی خانہ ہے اور ہمارا پورا شہر صندل سے بھرا ہے۔ سچ سچ کہیں کہ یہ سامان کیا ہے؟
تاجر بولا: وہی ہے جو میں نے کہا اور اس کے سوا کُچھ نہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ اپنے کسی کام یا عمل میں مجھ سے غلطی ہوئی ہو لیکن میں نے جو کہا سچ کہا۔ مجھے یوں احساس ہورہا ہے گویا میں کرمان میں زِیرہ۳ لے آیا ہوں۔
وہ بولے: بالکل ایسا ہی ہے اور اس کے سوا کُچھ نہیں۔ ہمیں بھی خاصا افسوس ہے کہ آپ نے خواہ مخواہ بیکار میں زحمت کی اور ہزاروں دوسری چیزوں کی جگہ جن سے فائدہ اور نفع ممکن تھا، ایسی چیز لے کر آئے ہیں جس سے نقصان ہوگا۔
بیچارہ تاجر سوچ بچار کرنے لگا اور اس نے کافی دیر بعد ان سے پوچھا: اچھا، اب آپ کے خیال میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ انھوں نے جواب دیا: کُچھ بھی نہیں۔ یہ ایک لاحاصل۱ کوشش ہوگی۔ ہمیں آس پاس کے کسی ایسے شہر کا علم نہیں کہ اس میں کوئی صندل کا خریدار ہو۔ آپ اپنے وطن سے اس قدر دور ہیں کہ آپ کے لیے اپنے مالِ تجارت کو واپس لے جانا بھی ممکن نہیں۔ آپ نے تو یہ کام بھلائی اور فائدے کے خیال سے کیا۔ اب جب آپ یہ کام کر ہی چکے ہیں بہتر ہے کہ اس مال کو جس قیمت پر بھی بکے، بیچ ڈالیں اور ہمارے شہر سے زیادہ بہتر چیزیں خرید لیں اور اگر خدا نے چاہا آپ کو اِس دفعہ فائدہ ہوگا لیکن یہ لکڑی جو آپ لائے ہیں اس کا ہمارے شہر میں کوئی خریدار نہیں۔ ہم خود بھی لکڑی کا کاروبار کرتے ہیں، اتفاق دیکھیے کہ ہم اس کو انطاکیہ لے جاکر بیچنا چاہتے تھے!
پردیسی تاجر نے کہا: نہیں، آپ یہ کام نہ کریں اور اگر ایسا کرنا ہی چاہتے ہیں کہ میرے شہر (انطاکیہ) میں کوئی جنس لائیں تو وہ لائیں جس کا مجھے علم ہے کہ وہاں کے لوگوں کو مرغوب۲ ہے۔
وَینسی تاجر بولا: ہم آپ کے شکرگزار ہیں اور چونکہ ہم آئندہ کبھی ہمکاری کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے تو اب جب آپ سے غلطی ہوگئی ہے اگر ممکن ہو تو میں حاضر ہوں کہ آپ کی صندلی لکڑی یک مشت ایک قیمت پر خرید لوں البتہ یہ معاملہ جوئے کا ساہے کہ جس میں ہارجانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے لیکن میں نے اپنے ساتھ ایک عہد کررکھا ہے کہ میں ڈرپوک آدمی سے کبھی معاملہ۳ نہیں کروں گا۔
پردیسی تاجر بولا: آپ کو یہ شبہ ہوا کہ میں ڈرپوک آدمی ہوں؟
وینسی تاجر بولا: میرا مقصد صرف آپ سے نہیں میں تو مجموعی حیثیت سے بات کررہا ہوں۔ ہم مرد ہیں اور جب ہم کوئی بات کہتے ہیں تو نفع و نقصان دونو کو پیشِ نظر رکھ کر بات کرتے ہیں لیکن بہت سے تاجر جب ہمارے شہر آتے ہیں تو معاملہ کرنے سے ڈرتے ہیں یا معاملہ تو کرلیتے ہیں مگر بعد میں عہد کی پاسداری نہیں کرتے۱۔
پردیسی تاجر بولا: نہیں، آپ شاید ابھی مجھے نہیں جانتے ۔ میں جب کوئی بات کہتا ہوں جب تک زندہ ہوں اپنے لفظوں پر قائم رہتا ہوں اگرچہ اس میں تمامتر گھاٹا ہو۔
وَینسی تاجر بولا: اب جب ایسا ہی معاملہ ہے تو بات نفع نقصان کی نہیں۔ آپ نے بے حساب کتاب کام کیا ہے، میں بھی بے حساب کتاب معاملہ کرتا ہوں۔ میں حاضر ہوں کہ یہ تمام لکڑی سونے، چاندی یا جواہر کی ایک طے شدہ مقدار کے عوض جیسے بھی آپ چاہیں، خرید لوں ہم معاہدے کو اب تکمیل کو پہنچاتے ہیں اور لکڑی شہر لے جاتے ہیں اور ایک اسٹور میں بطور امانت رکھ دیتے ہیں اور اس کے عوض سونا، چاندی، جواہر جسے بھی آپ پسند کریں، وہ آپ کے سپرد کردیں گے اور لکڑی اپنی تحویل۲ میں لے لیں گے۔
پردیسی تاجر بھی راضی ہوگیا اور معاہدہ طے پاگیا۔ انھوں نے ایک قرارداد تحریر کی اور حاضرین نے اس پر دستخط کیے اور مال شہر لے گئے اور ایک اسٹور میں بطور امانت رکھ دیا۔ یہ طے پایا کہ پرسوں خریدار اور فروشندہ۳ دونو حاضر ہوں گے اور باہمی رضامندی سے دونو میں سے ایک لکڑی دوسرے کے حوالے کرے گا اور جو لکڑی لے جائے گا قیمت کی ادائیگی اس کے ذمے ہوگی۔
پردیسی تاجر نے شتربانوں کا حساب صاف کیا، انھیں رخصت کیا اور خود مکان کے بندوبست کے لیے شہر کو روانہ ہوگیا۔ ایک کوچے میں اس کی مڈبھیڑ ایک بڑھیا سے ہوئی۔ اُس نے تاجر سے پوچھا: مجھے لگتا ہے تم مسافر ہو۔ کیا گھر کی تلاش میں ہو۔ تاجر نے کہا: بالکل۔ بڑھیا بولی: آو¿ میں تمھیں ایک گھر مہیّا کرتی ہوں اور سستے داموں تمھیں کھانا دیا کروں گی تاکہ اس شہر کی دوسری تمام جگہوں کی نسبت تم زیادہ آرام سے رہو۔ تاجر نے بڑھیا کی پیش کش قبول کی اور اس کے گھر کا ایک کمرہ لیا۔ اس کا کرایہ اور کھانے پینے کی رقم ادا کی اور آرام میں مشغول ہوگیا۔
رات جب بڑھیا اسے کھانا دے چکی تو دونو نے ایک دوسرے کی سرگذشت جاننی چاہی۔ معلوم ہوا کہ بڑھیا کا ایک بیٹا ہے جو ایک نابینا شخص کے گھر اُس کی خدمت پر متعیّن ہے اور بڑھیا بھی ایک دلیر عورت ہے اور محلے کے تمام لوگ اس کی ہوشیاری اور تجربہ کاری کے معترف۱ ہیں۔ اس کا کام یہ ہے کہ وہ مسافروں کو اپنی بڑی حویلی کے کمرے کرایے پر دیتی ہے جس سے اسے آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ تاجر نے بھی اسے اپنے احوال سے آگاہ کیا اور صندل کی لکڑی کے بارے میں معاہدے کی تفصیل بتائی۔
بڑھیا بولی: تم نے عجیب معاہدہ کیا کہ اپنی تمام محنت برباد کرڈالی۔ تم نے جب چھے ماہ سفر کی تکلیف اٹھائی، تو کیا اچھا ہوتا کہ ایک دن اور صبر کرلیتے اور شہر میں صندل کی قیمت معلوم کرلیتے۔ اس شہر کے بعض لوگ بڑے مکّار عیّار ہیں اور ان کا صندل کی لکڑی جلانا اور اس پر کھانا تیار کرنا، جیسا کہ تم نے سب کُچھ بتایا، سوائے مکّاری اور حیلہ بازی کے کُچھ نہیں تاکہ صندل کی یہ لکڑی بس مفت میں خرید لیں۔
تاجر نے پوچھا: اس شہر میں صندل کی لکڑی کی قیمت کیا ہے؟
بڑھیا بولی: یہاں صندل کی لکڑی سونے چاندی کے بھاو¿ بکتی ہے اور ہر چیز سے زیادہ مہنگی ہے۔
تاجر نے فریاد کی: ہائے ظلم، دہائی ہے، میرے ساتھ عجیب فریب ہوگیا۔ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟
بڑھیا بولی: ہر مشکل کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے۔ اب سے کل تک وقت ہے۔ تمھیں احتیاط سے کام لینا ہوگا اور جب کل شہر میں چلنے پھرنے کو نکلو تو کسی سے بھی اس موضوع پر بات نہ کرنا، کسی کے ساتھ لینا دینا نہ کرنا اور اگر کہیں وَینسی تاجر سے بھی مڈبھیڑ ہو جائے تو اپنا نقصان ہونے کے بارے میں اس سے کچھ نہ کہنا۔ تب تک میں سوچ بچار کرتی ہوں اور صندل کے واپس لینے اور تمھارا حق تمھیں دلانے کے لیے کوئی راہ نکالتے ہیں۔
تاجر بولا: اگر ایسا ہو جائے، میں اپنا مال واپس لے سکوں اور اسے اچھی قیمت پر فروخت کرسکوں تو جو تم مانگو گی تمھیں دوں گا اور تمھارے لڑکے کو بھی مالامال کردوں گا۔
بڑھیا بولی: خاطر جمع رکھو۱ لیکن شرط یہ ہے کہ کل کسی سے بھی اس مسئلے پر بات چیت نہ کرنا اور اس شہر کے لوگوں سے لین دین نہ کرنا کیونکہ اس شہر میں بہت سے بے شرم، ڈھیٹ اور چالاک لوگ ہیں اور سب ایک دوسرے کے مددگار اور ہم زبان ہوتے ہیں اور شہر کا مجسٹریٹ بھی جھگڑا ہو جانے کی صورت میں انھی کی طرفداری کرتا ہے۔
تاجر نے وعدہ کیا کہ وہ بڑھیا کی نصیحت پر عمل پیرا ہوگا اور کسی سے یہ ماجرا نہ کہے گا اور کسی کے ساتھ لین دین نہ کرے گا۔ وہ رات اس امید پر سوگیا کہ اس کی [قیمتی] لکڑی اسے واپس مل جائے گی۔ رات اس نے بہت سے بے سروپا خواب۲ دیکھے۔
اگلی صبح پردیسی تاجر شہر میں چہل قدمی کے لیے گھر سے باہر نکلا۔ وہ شہر کے کوچہ و بازار کی سیر کررہا تھا اور شہر کی آبادی اور بازار کی رونق کی تعریف کررہا تھا۔ اس کا گزر ورزش کے ایک میدان سے ہوا کہ وہاں گھڑ سوار، گھڑسواری کے مقابلے میں مشغول تھے۔ چونکہ وہ اس کام کا تجربہ رکھتا تھا لہٰذا یہ منظر دیکھنے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ مقابلے کے اختتام پر اختلاف پیدا ہوا۔ اس نے معاملے کو سلجھانے کے لیے کُچھ اس طرح گفتگو کی کہ سب نے اس سے اتفاق کرلیا۔
تاجر کو یہ دیکھ کر شوق چَرّایا۱۔ اس نے کہا: میں خود بھی تمھارے ساتھ مقابلے کے لیے حاضر ہوں۔ شہر کے گھڑسوار بولے: ہم ڈرپوک شخص کے ساتھ شرط نہیں باندھتے۔ تاجر کو غرور آیا اور اس نے کہا: تمھیں کہاں سے معلوم ہوا کہ میں ڈرپوک ہوں۔ اگر میں ڈرپوک ہوتا تو سمندر اور خشکی پر کبھی قدم نہ دھرتا اور مالِ تجارت کے ساتھ ایک اجنبی شہر میں نہ آتا۔ کتنا اچھا ہو اگر میرا امتحان لے لیا جائے۔
گھڑ سواروں نے جو دراصل رِند اور اَوباش قسم کے لوگ تھے، جب مالِ تجارت کی بات سنی تو انھیں گویا روپے پیسے کی مہک آئی اور بولے: بہت اچھا: اگر مرد ہو اور تم میں مردانگی کی نشانی ہے تو ہم ہر اس چیز پر شرط لگانے کو تیار ہیں جو تم چاہو۔ تاجر بولا: مجھے بھی جو کُچھ تم کہو، منظور ہے۔
وہ بولے: ہم تین لوگ آپس میں شریک ہیں۔ طے یہ کرتے ہیں کہ اگر ہم تینوں میں سے کوئی ایک جیت گیا تو ہم تین کام تجویز کریں گے اور تمھیں ان میں سے کسی ایک پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر تم جیت گئے تو تم بھی تین کام تجویز کرو گے اور ہم ان میں سے کسی ایک پر عمل کریں گے۔ اگر کوئی حریف۲ ان تین میں سے کسی ایک کام کو بھی بجا نہ لانا چاہے تو اسے ایک ہزار دینار نقد ادا کرنا ہوں گے۔
پردیسی تاجر بولا: یہ عجیب شرط باندھی گئی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ درست ہے یا نہیں لیکن یہ سوچ کر کہ کہیں تم مجھے ڈرپوک نہ کہہ دو، میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ انھوں نے باہم قول و قرار کیا اور گواہ مقرر کیے اور مقابلہ شروع کیا۔ لوگوں نے بھی یہ مقابلہ دیکھنا شروع کیا۔ جب مقابلہ اختتام پذیر ہوا، منصفوں اور گواہوں نے کہا: پردیسی تاجر ہار گیا اور شہر کے گھڑسوار جیت گئے۔
پردیسی تاجر نے ناچار کہا: ٹھیک ہے۔ اپنی تین شرائط بیان کرو۔ ان میں سے ایک نے پتھر کا ایک ٹکڑا جیب سے نکالا اور کہا: شرط باندھنا کھیل نہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ تم اس پتھر سے میرے لیے ایک موزوں لباس سی دو۔ اس پر اس کے دوستوں نے بھی ہنسنا شروع کردیا۔
پردیسی تاجر نے کہا: چلیے، ایک تجویز تو یہ ہوئی، باقی کیا ہیں؟
دوسرا بولا: میں چاہتا ہوں کہ ہم ابھی سمندر کے کنارے چلیں اور تم سمندر کا تمام پانی ایک ہی بار پی جاو¿۔ پردیسی یہ سن کر بہت بدمزہ ہوا اور کہنے لگا: میرے خیال میں یہ بے تکی اور غلط باتیں ہیں لیکن خیر، اَب تیسری تجویز سے آگاہ کرو۔
تیسرا بولا: میں چاہتا ہوں کہ تمھارے پاو¿ں کی مچھلی کا تقریباً سوا چھے اونس گوشت کاٹ لوں۔ اگر تمھیں ان تینوں میں سے کوئی شرط قبول نہیں تو پھر معاہدے کے مطابق تم ہزار دینار ہار چکے لہٰذا وہ تمھیں دینا ہوں گے۔
پردیسی تاجر یہ سن کر بہت بدمزہ ہوا اور کہنے لگا: ہرگز نہیں۔ مجھے قبول نہیں۔ ان تینوں میں سے کوئی تجویز یا شرط بھی معقول نہیں۔ میں نے خیال کیا کہ ہم تفریح کر رہے ہیں اور اگر میں جیت جاتا تو میں ایسی فضول باتیں نہ کرتا اور وہ باتیں کرتا جو قابلِ عمل ہوتیں۔ اور اگر تم ان کو بجا نہ لاتے تو بھی میں تم لوگوں سے ہزار دینار کا مطالبہ نہ کرتا۔ دنیا میں کہیں بھی یہ رسم نہیں کہ کسی سے زور زبردستی سے شرطیں منوائی جائیں اور تم لوگوں کی باتیں دیوانوں کی سی ہیں۔ میں نہ تو یہ کام انجام دے سکتا ہوں اور نہ میرے پاس دینے کو پیسے ہیں۔
فرنگیوں نے یک زبان ہوکر کہا: تمھاری یہ باتیں ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ہمارے درمیان طے یہ ہوا تھا کہ ہم جو بھی چاہتے ہیں اسے بطور تجویز پیش کریں گے۔ ہم بھی یا تو چاہتے ہیں کہ یہ شرائط پوری ہوں یا ہزار دینار دو۔ چونکہ پردیسی تاجر کے لیے یہ تجویزیں قابلِ قبول نہ تھیں اور اس نے دینار بھی ادا نہ کیے، فرنگیوں نے ہنگامہ برپا کردیا اور پردیسی تاجر کو کھینچتے ہوئے شہر کے حاکم کے پاس لے گئے اور کھیل کی وضاحت کی۔
حاکم نے تاجر سے کہا: کوئی چارہ نہیں۔ اس شہر میں مقابلے اور شرط باندھنے کے مخصوص ضابطے ہیں۔ تم نے خود عہد کیا اور اس سے اتفاق کیا اور سب لوگ اس پر گواہ ہیں۔ یا تو جو وہ کہتے ہیں ان پر عمل کرو یا ہزار دینار ادا کرو وگرنہ تو جو کوئی بھی اس شہر میں انتشار پیدا کرے گا وہ گویا اپنی جان سے کھیل رہا ہے۔ یہ انطاکیہ نہیں، یہ فرنگیوں کا شہر ہے اور ہر کام ایک قانون ضابطے سے ہوتا ہے۔ اگر تمھارے پاس کہنے کو کوئی معقول بات ہے تو کہو ورنہ اپنی شرط پر عمل کرو۔
پردیسی تاجر بولا: محترم حاکم! جو باتیں یہ کہتے ہیں وہ نامعقول ہیں اور جب تک ان کی تجویزیں قابلِ عمل نہ ہوں تو شرط تو وہ ہارے ہیں۔ میں خود آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ میری جگہ ہوں تو کیا آپ پتھر سے لباس سی سکتے ہیں اور ایک ہی بار پورا سمندر پی سکتے ہیں اور اپنے پاو¿ں کو پھیلا کر انھیں موقع دے سکتے ہیں کہ وہ سوا چھے اونس گوشت وہاں سے کاٹ لیں۔
حاکم بولا: فضول باتیں چھوڑو۔ تمھیں یہاں اس لیے نہیں لایا گیا کہ مجھ سے سوال کرو، تمھیں لایا گیا ہے کہ جواب دو ۔ تم نے خود معاہدہ کیا ہے۔ اگر تم یہ کام نہیں کرسکتے تھے تو تمھیں آغاز ہی سے انجام کی فکر کرنی چاہیے تھی اور اَن جانے اور اَن بوجھے کو قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ تم نے خود معاہدہ کیا ہے اور اپنے کیے کا کوئی علاج نہیں۔
پردیسی تاجر کو بالآخر ایک حل سوجھ گیا۔ اس نے دل میں سوچتے ہوئے کہا: اگر میں اس قابل ہو جاو¿ں کہ کل تک اپنی صندلیں لکڑی واپس لے لوں اور اچھی قیمت پر بیچ لوں تو ان میں سے ایک ہزار دینار دے دوں گا اور آئندہ کے لیے توبہ کرلوں گا کہ شرط نہیں لگاو¿ں گا۔ یہ سوچ کر اس نے حاکم سے کہا: میری خواہش ہے کہ مجھے کل تک مہلت دے دیں اگر میں تین تجاویز میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہ کرپایا تو ہزار دینار ادا کردوں گا۔
حاکم نے کہا: تم نے معقول بات کی ہے۔ میں کل تک تمھیں مہلت دیتا ہوں لیکن تمھیں اپنا ضامن دینا ہوگا ورنہ میں تمھیں قید کردوں گا۔
تاجر بولا: اس شہر میں مجھے ایک بڑھیا کے سوا کوئی نہیں جانتا جس کا نام پتا یہ ہے۔ میں اسی کے گھر میں مقیم ہوں۔
حاکم نے حکم دیا کہ بڑھیا کو حاضر کیا جائے۔ بڑھیا نے ضمانت دے دی کہ وہ کل عصر کے وقت پردیسی تاجر کو پیش کردے گی۔ اس پر سب لوگ باہر چلے گئے۔ اس وقت بڑھیا نے تاجر سے کہا: میں نے تمھیں تاکید نہیں کی تھی کہ اس شہر میں کسی سے کوئی لین دین نہ کرنا۔ اب تم نے دیکھا کہ عیّار اور طراّر لوگوں نے تمھارے ساتھ کیا کیا؟
تاجر بولا: آخر وہ جوانمردی، قول و قرار اور انسانیت کی باتیں کررہے تھے۔
بڑھیا نے کہا: یقینا وہ انھی چیزوں کے حوالے سے باتیں کرتے ہیں! لیکن کیا تمھیں توقع تھی کہ وہ کریں گے کیا؟ یہ دنیا کی رسم ہے کہ تمام خیانت کرنے والے باتیں امانت کی کرتے ہیں اور تمام چور ڈاکو انصاف کا دم بھرتے ہیں۔ اگر معاملہ یہ نہ ہو تو کوئی بھی نرم نہ پڑے اور کوئی بھی ان کا فریب نہ کھائے۔ یہ بدجنس۱ بھی پہلے پہل انسانیت اور جوانمردی کی باتیں کرتے ہیں تاکہ دوسرے کو عصبیت۲ اور غیرت کے مرحلے پر لے آئیں اور پھر وہ اپنا اُلّو سیدھا کرتے ہیں۔ اگر پہلے ہی مرحلے پر چور یہ کہے کہ میں تمھاری جیب کاٹوں گا اور خیانت کار۱ یہ کہے کہ میں خیانت کرنے لگا ہوں تو پھر یہ لوگ اپنے منصوبوں کو کیسے عملی جامہ پہنا سکتے ہیں؟
تاجر بولا: تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں ہمیشہ لوگوں کے قول پر نگاہ کرتا ہوں اور احتیاط کا دامن چھوڑ دیتا ہوں، اب کیا کرنا چاہیے؟
بڑھیا بولی: اب چلتے ہیں۔ کل تک سوچ بچار کرتے ہیں اور اگر خدا نے چاہا، بہتری کا کوئی رستہ نکال ہی لیں گے۔
اس رات بڑھیا نے تاجر کی سرگذشت اپنے بیٹے کو سنائی اور کہا: تمھیں چاہیے کہ ذہین نابینا سے مدد لو اور اس پردیسی شخص کو عیّاروں کے شر سے نجات دلاو¿۔
ذہین نابینا ایک بوڑھا شخص تھا جس کے پاس بڑھیا کا بیٹا ملازم تھا۔ وہ ایک نہایت عقل مند شخص تھا اور قبل ازیں شہر کا قاضی رہ چکا تھا۔ پھر جب وہ بوڑھا اور نابینا ہوگیا تو اس نے قاضی کے منصب۲ سے کنارہ کرلیا تھا۳ اور خانہ نشین ہوگیا تھا اور جب کبھی لوگ کسی مشکل میں گرفتار ہوتے تو اس کے پاس آکر اس سے مشورہ کرتے اور چونکہ وہ قانون کی تمام باریکیوں سے واقف تھا اور فیصلہ کرنے کے فن سے آگاہ تھا اس لیے ان کی رہنمائی کرتا اور جب ایسے لوگوں کا مسئلہ حل ہو جاتا، تو وہ اس کو تحفے دیتے اور اس کے لیے دعا کرتے۔ شہر میں اس کا نام ”ذہین نابینا“ پڑ گیا تھا!
بڑھیا کا بیٹا پردیسی تاجر کو اپنے ساتھ ذہین نابینا کے پاس لے گیا اور اس کا تعارف کرایا اور اس کی طرف سے مسئلے کے حل کے لیے درخواست کی۔ ذہین نابینا نے تاجر سے کہا کہ اپنی بیتی شروع سے آخر تک بے کم و کاست۴ بیان کرو۔ پردیسی تاجر نے تمام قصہ کہہ سنایا اور کہا: اب میں عاجز آگیا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ ان عیّاروں کا کیا کروں۔ بڑی مشکل میں ہوں کہ ان کی عیّاریوں کا کیا جواب دوں۔
ذہین نابینا نے کہا:
کوئی مشکل نہیں ایسی کہ جو آساں نہ ہو جائے
مگر لازم ہے انساں پر، سراسیمہ۱ نہ ہو پائے
میں تمھیں ان کے شر سے رہائی دلاو¿ں گا۔ ان کے تمام کرتوت سوائے دھوکہ بازی کے کچھ نہیں اور ان کی تمام باتوں اور دعووں کا جواب موجود ہے۔ پھر اس نے ایک ایک کرکے مشکلات کو حل کیا اور پردیسی تاجر کو ان کے جواب ذہن نشین کرا دیے اور کہا: کل جب تم حاکم کے سامنے حاضر ہوں یہی جواب دینا اور یقین رکھو کہ وہ تمھیں محکوم نہیں کرسکیں گے۔
پردیسی تاجر خوش خوش ہنستا مسکراتا گھر لوٹا اور بڑھیا سے کہنے لگا: اب مجھے معلوم ہے کل مجھے عیّاروں کو کیا جواب دینا ہے۔ سچ کہا گیا ہے کہ خدا درد دیتا ہے تو اس کی دوا بھی دیتا ہے اور ہر مشکل کا ایک حل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے لائحہ عمل کے لیے مشورہ کرے اور اسے یاد رکھے۔
تاجر اگلے دن ٹھیک مقررہ وقت پر حاکم کے سامنے پیش ہوگیا اور کہا: میں حاضر ہوں تاکہ اپنے قول سے وفا کروں۔
حاکم نے مُنشیوں کو حکم دیا کہ وہ مقدمے کی کارروائی لکھتے جائیں۔اس نے گھڑسواروں سے کہا: تمھارا دعویٰ کیا ہے؟ انھوں نے کل کی بازی کی تفصیل بتائی اور کہا: ہم تین لوگ شریک ہیں اور جو معاہدہ طے ہوا تھا اس کی رُو سے ہم نے تین تجاویز دی ہیں اور اگر پردیسی شخص ان میں سے کسی پر عمل نہ کرے تو اسے چاہیے کہ ہزار دینار ادا کرے۔
حاکم نے پردیسی تاجر سے پوچھا: تمھارا جواب کیا ہے؟
پردیسی تاجر نے، جس نے ذہین نابینا سے رہنمائی لے کر جوابات اچھی طرح ذہن نشین کرلیے تھے، کہا: میرا جواب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ دغاباز نہیں اور ان کی باتیں عقل و منطق کے مطابق ہیں تو میں ہر تجویز پر عمل کروں گا اور اگر ان کی باتیں بے تکی اور لغو ہوئیں تو؟
حاکم بولا: تو میں یہاں کس لیے ہوں؟ یہاں جو بھی غیرمنطقی۱ بات کرے گا، اس کی ذمہ داری اسی پر ہے۔ پھر حاکم نے ان تینوں میں سے ایک سے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟
اس نے کہا: وہی جو میں نے کل کہا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ اِس پتھر سے میرے لیے لباس سیے۔
پردیسی تاجر بولا: ٹھیک ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ میں کوئی معجزہ کروں گا۔ میں ایک معمولی آدمی ہوں اور ہر کام کو، اس طرح جیسے پوری دنیا میں چلن ہے، انجام دیتا ہوں۔ میں حاضر ہوں کہ اس پتھر سے اس شخص کے لیے لباس سیوں لیکن دنیا کی رسم یہ ہے کہ لباس کپڑے سے سیتے ہیں۔ کپڑا بھی یا روئی سے یا پشم سے یا ریشم سے یا کئی اور چیزوں سے بنتا ہے۔ لیکن دنیا میں کوئی شخص بھی روئی، پشم یا ریشم سے خود لباس نہیں سیتا۔ اس کے لیے چاہیے کہ پہلے روئی، پشم یا ریشم یا کسی اور چیز کا باریک دھاگا بنایا جائے، پھر اس سے کپڑا تیار کیا جائے اور پھر اس سے لباس سیا جائے۔ یہ شخص بھی مجھ سے لباس کے سینے کا مطالبہ کرتا ہے اور میں بھی درزی ہوں لیکن دھاگا بنانے والا اور کپڑا بُننے والا نہیں۔ آپ جو انصاف کی مسند پر بیٹھے ہیں حکم دیں کہ یہ شخص اس پتھر سے پتھریلا دھاگا تیار کرے اور پتھریلا کپڑا تیار کرے تاکہ میں اس کپڑے سے اس کے لیے لباس سیُوں۔
حاکم بولا: درست ہے۔ اُسے چاہیے کہ وہ یہی کام کرے یا پھر اپنے الفاظ واپس لے۔
پہلا شخص بولا: نہیں۔ میں پتھر سے باریک دھاگا نہیں بناسکتا۔ میں نے اپنے الفاظ واپس لیے۔ البتہ میرے ان دو ساتھیوں کے پاس دو اور تجویزیں ہیں۔ حاکم نے دوسرے سے پوچھا: تم کیا چاہتے ہو؟
دوسرا شخص بولا: معاہدے کے مطابق میں چاہتا ہوں کہ ہم سمندر کے کنارے پر جائیں اور یہ شخص ایک ہی سانس میں بغیر وقفے کے سمندر کا پانی پی جائے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو ہزار دینار دینے کا پابند ہے۔
پردیسی تاجر نے حاکم کی طرف رُخ کرتے ہوئے کہا: اگرچہ یہ تجویز بھی فریب پر مبنی ہے لیکن چونکہ میں نے قول دے رکھا ہے، میں اس پر عمل کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ لیکن طے یہ ہوا تھا کہ میں سمندر کے پانی کو بغیر وقفے کے ایک ہی سانس میں پی جاو¿ں مگر یہ بات طے نہیں تھی کہ میں ان تمام دریاو¿ں کا پانی بھی پیوں گا جو اس سمندر میں گرتے ہیں۔ ہمارا معاہدہ صرف سمندر کے پانی تک ہے۔ اب آپ حکم دیں کہ یہ شخص دریاو¿ں کے آگے بند باندھے تاکہ ان کا پانی سمندر میں نہ گرے۔ تب میں بھی سمندر کا پانی ایک سانس میں کچھ اس طرح پی جاو¿ں گا کہ آپ کو خالی سمندر دکھا دوں گا۔
حاکم نے کہا: بالکل درست اور عاقلانہ بات ہے۔ اُسے چاہیے کہ وہ دریاو¿ں کے پانی کو قطع کرے تاکہ تم سمندر کا پانی پی سکو۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اپنے دعوے کو نظرانداز کرے اور اس کی تجویز منسوخ۱ ہے۔
دوسرا شخص بولا: میں نے اپنے لفظ واپس لیے۔ اس پر اس کا تیسرا ساتھی بولا: میں چاہتا ہوں کہ میں اس شخص کے پاو¿ں سے کوئی سوا چھے اونس گوشت کاٹ لوں۔ اگر وہ اس پر آمادہ نہیں تو اسے چاہیے کہ ہزار دینار ادا کرے۔
تاجر حاکم کی طرف متوجّہ ہوا اور کہا: بہت خوب، اگرچہ یہ بات بڑی ظالمانہ ہے لیکن چونکہ میں قول دے چکا ہوں کہ تین تجویزوں میں سے کسی ایک پر عمل کروں گا، میں اس تجویز کو بھی قبول کرتا ہوں اور چونکہ میرے پاو¿ں کے گوشت کا کاٹا جانا میری زندگی سے سروکار۲ رکھتا ہے سو یہ شخص سب کی موجودگی میں عہد کرے کہ اپنی تجویز کے عین مطابق عمل کرے گا یعنی اسے چاہیے کہ میرے پاو¿ں سے ٹھیک سوا چھے اونس گوشت کاٹے، نہ کم نہ زیادہ اور میرے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہ گرے کیونکہ خون کا بہنا یا بہانا اس شرط میں شامل نہیں۔
حاکم نے کہا: ٹھیک ہے اور بڑا نپا تُلا جواب ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ سوا چھے اونس گوشت کاٹ لے لیکن اگر اُس نے اِس سے ایک مِثقال۱ بھی کم یا زیادہ کاٹا اور اگر تمھارے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پربہایا تو میں لوگوں کے اس مجمع کی موجودگی میں حکم دوں گا کہ اس کا سر قَلَم کردیں تاکہ آئندہ کوئی بھی کسی کو ڈرائے دھمکائے نہیں اور ہمیں دنیا میں بدنام نہ کرے۔
تیسرے نے کہا: نہیں جنابِ حاکم! مجھے کُچھ نہیں چاہیے۔ میں اپنے حق سے بالکل دستبردار ہوا اور مجھے ہزار دینار بھی نہیں چاہییں۔
حاکم نے کہا: بہت اچھا ہے تم نے اپنے الفاظ واپس لے لیے لیکن قانون اپنے تقاضے پورے کرتا ہے۔ یہ مقدمہ تم تین افراد نے کیا لہٰذا ہر ایک، ایک ایک ہزار دینار جرمانہ ادا کرے تاکہ آج کے بعد تمھارے ہوش ٹھِکانے آجائیں اور تم لوگوں سے لغو باتیں نہ کرو۔
عدالت کے کارندوں نے ہر ایک سے ایک ایک ہزار دینار بطور جرمانہ وصول کیا اور انھیں نکال باہر کیا۔ پھر حاکم نے پردیسی تاجر سے کہا: آپ بھی آزاد ہیں، تشریف لے جائیں۔
پردیسی تاجر ملتجی۱ ہوا: اب جب میں نے مشاہدہ کرلیا کہ آپ ایک منصف حاکم ہیں، مجھے بھی ایک شکایت ہے۔ میں ایک پردیسی ہوں اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ کے شہر میں دھوکہ باز لوگ بڑی تعداد میں ہیں۔ پرسوں آپ کے شہر کے ایک شخص نے تاجر کے بھیس میں مجھے فریب دیا اور حیلے بہانے سے میرا مالِ تجارت ہتھیا لیا۔ میری درخواست ہے کہ مجھے اس فریبی کے شر سے بچا کر انصاف کے تقاضے پورے فرمائیے۔
حاکم نے فرنگی تاجر کا نام پتا پوچھا اور حکم دیا کہ اسے حاضر کیا جائے۔ جب وہ حاضر ہوا، حاکم نے اس سے کہا: تم ہمارے شہر کی آبرو کیوں خاک میں ملا رہے ہو، اور ایسا کیوں کررہے ہو کہ تمھاری وجہ سے ہمارا شہر دنیا بھر میں بدنام ہو جائے اور پھر کوئی شخص دوبارہ مالِ تجارت ہمارے شہر میں لانے کی جرا¿ت نہ کرے؟
تاجر نے کہا: میں نے کوئی برا کام نہیں کیا۔ وہ تاجر ہے، میں بھی تاجر ہوں اور ہم نے باہمی رضامندی سے ایک معاملہ کیا ہے۔ ہم نے ایک تحریری معاہدہ کیا ہے اور گواہوں کی گواہی کا اہتمام بھی کیا ہے۔ پھر بھی میں حاضر ہوں کہ معاہدے اور قرارداد کے مطابق عمل کروں اور یہ ہے معاہدہ۔ حاکم نے معاہدے کی دستاویز پکڑی اور ان کے دستخطوں کو ملاحظہ کیا اور پردیسی تاجر سے کہا: اب تو معاملہ ہاتھ سے نکل چکا اور مجھے کوئی حق نہیں کہ میں لوگوں کے معاملات میں مداخلت کروں۔ اگر تم نے اپنی لکڑی سستی بیچ ڈالی تو بہتر ہوتا کہ سوچ بچار کرلیتے اور نہ بیچتے۔ اگر میں یہ اقدام کروں کہ میں اس معاہدے کو، جو بڑا مضبوط ہے، رد کردوں تو پھر تو حالات بہت خراب ہو جائیں گے اور کل کلاں کو جو شخص بھی کوئی معاہدہ کرے گا اور پھر اس پر پشیمان ہوگا تو کسی بہانے اس کو توڑنا چاہے گا اور ہمیں ہر روز ایک نیا جھگڑا درپیش ہوگا۔ ہمارا ضابطہ¿ اخلاق یہ ہے کہ لوگوں کے باہمی قول و قرار کا احترام کریں اور میں اس معاہدے کو منسوخ نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر ہمارے شہر کا تاجر معاہدے کے مطابق عمل کرنے سے گریزاں ہو تو دوسری بات ہے۔
یہ سن کر فرنگی تاجر کا حوصلہ بڑا بلند ہوا اور اس نے کہا: جی ہاں، ہم نے باقاعدہ معاملہ کیا ہے اور میں نے جو کچھ لکھا ہے، اس پر عمل کروں گا اور اِسی وقت تجھے چاہیے کہ اپنے مال کی قیمت مجھ سے لے اور حاکم کی موجودگی میں یہ لکھ دے کہ صندل کی لکڑی میری تحویل میں دی جائے۔
حاکم بولا: بالکل، اگر خریدار نے جو کُچھ لکھا ہے وہ اس کی قیمت نہیں دیتا تو صندل کی لکڑی بیچنے والے کو واپس مل جائے گی لیکن اگر وہ اس کی قیمت دے دیتا ہے تو پھر لکڑی خریدار کی ملکیت ہوگئی اور اِسی روز مقدمہ ختم ہو جائے گا۔
پردیسی تاجر، جو ذہین نابینا کی باتیں اور مشورے ذہن نشین کرچکا تھا، بولا: میں بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ کے شہر کا تاجر اس معاہدے کے مطابق عمل نہیں کرنا چاہتا اور وہ اس میں حیلہ گری سے کام لینا چاہتا ہے۔
حاکم بولا: تو پھر میں یہاں کس لیے ہوں؟ جو شخص بھی معاملات میں حیلہ گری سے کام لینا چاہتا ہے اور ہمارے شہر کو بدنام کرنا چاہتا ہے، اُس کا خون اُسی کی گردن پر ہے۔ میں یہاں اس لیے بیٹھا ہوں کہ ظلم نہ ہونے دوں۔
پردیسی تاجر بولا: میری آرزو بھی یہی ہے۔ پس آپ حکم دیں کہ معاہدے کی تحریر پڑھی جائے اور جو کُچھ اس میں لکھا گیا ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔
حاکم نے اپنے مُنشی کو حکم دیا کہ وہ معاہدے کو بلند آواز میں پڑھے۔ لکھا تھا: لکڑیوں کی قیمت سونے یا چاندی یا جواہر کی معیّنہ۱ مقداریا ہر اُس چیز کی صورت میںجو بیچنے والا مانگے، خریدار سے وصول کرے گا۔
حاکم نے کہا: بہت خوب! اگر اس معاہدے کی رُو سے عمل کیا جائے تو ہم معاملے کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچائیں گے اور اگر اس کے برعکس ہو تو معاہدہ منسوخ ہو جائے گا۔ پھر اس نے فرنگی تاجر کی طرف رُخ کرتے ہوئے کہا: مال کی قیمت حاضر کرو تاکہ لکڑی تمھاری تحویل میں دی جائے کیونکہ ایک گھنٹے بعد معاہدے کی مدت ختم ہو جائے گی۔
فرنگی تاجر نے کہا: وہ جو کُچھ مانگے، حاضر کردوں گا۔
حاکم نے پردیسی تاجر سے پوچھا: اپنے مال کے عوض کیا چاہتے ہو سونا، چاندی یا جواہر؟
پردیسی تاجر نے کہا: اگر خریدار معاہدے سے متفق ہے تو کیا سونے، چاندی اور جواہر کے سوا کسی اَور چیز کا تقاضا کرسکتاہوں؟
خریدار بولا: وہی ہے جو لکھا ہوا ہے۔ سونا، چاندی، جواہر یا کوئی اور چیز جس کا بیچنے والا مطالبہ کرے۔ میں اس سے متفق ہوں۔ جو مانگنا چاہتے ہو، بتاو¿۔
پردیسی تاجر نے کہا: مجھے سونا، چاندی اور جواہر نہیں چاہییں۔ کیا تمھارے شہر میں مکھیاں، مچھر، جوئیں، کک (چیچڑ) اور کھٹمل اور اسی طرح کی اور چیزیں پیدا ہوتی ہیں؟
حاکم نے کہا: کیوں نہیں، پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اس سے تمھارا مقصد کیا ہے؟
پردیسی تاجر نے کہا: میرا مقصد یہ ہے کہ قرارداد کے مطابق میں مذکورہ اجناس میں سے کسی ایک کا انتخاب کروں سو میں ایک پیمانہ۱ کھٹمل چاہتا ہوں جس کا آدھا حصّہ نر اور آدھا حصّہ مادہ پر مشتمل ہو۔ میں اپنی صندل کی لکڑی کسی اور شے کے عوض فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
فرنگی تاجر نے کہا: یہ غلط بات ہے۔ میں نر اور مادہ کھٹمل کہاں سے لاو¿ں۔ دنیا میں کہاں ایسی رسم ہے کہ صندل کی لکڑی کے بدلے میں کھٹمل بطور قیمت مانگے جائیں؟
حاکم نے کہا: میرے خیال میں یہ ایک عجیب بات ہے لیکن درست ہے۔ جو درست نہیں وہ تمھارا معاہدہ ہے جس میں تم نے مکّاری سے کام لیا ہے اور چاہا ہے کہ پردیسی تاجر کا مال سستا خرید لو۔ دنیا میںکہاں ایسی رسم ہے کہ معاملہ کرنے کا معاہدہ تو لکھا جائے مگر اس میں مال کی قیمتِ خرید درج نہ کی جائے اور کہا جائے کہ جو بیچنے والا مانگے۔ اب بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ صندل کی لکڑی بیچنے والے نے اپنے مال کے بیچنے میں غلطی کی اور خریدار نے معاہدہ لکھنے میں اور اس کا نتیجہ یہی ہے۔ یا تو کام کے آغاز ہی سے کام کے آخر اور انجام کو نگاہ میں رکھنا چاہیے یا پھر آخرِکار اپنی حماقت اور بے پروائی کا تاوان دینا چاہیے۔ اب حاکم کا فیصلہ تمھارے معاہدے اور تحریر کے مطابق ہے یا آدھے نر، آدھے مادہ کھٹملوں کی مقررّہ مقدار حاضر کی جائے یا صندل کی لکڑی اُس کے بیچنے والے کو واپس کی جائے۔
فرنگی تاجر بولا: ہم اس معاملے سے صرفِ نظر۱ کرتے ہیں۔
حاکم نے بھی حکم دیا کہ صندل کی لکڑی، بیچنے والے کو واپس کی جائے۔ پردیسی تاجر نے اپنا مال اچھی قیمت پر بیچا اور بڑھیا، اس کے بیٹے اور ذہین نابینا کو بڑے عمدہ تحائف دیے اور خوش خوش اپنے شہر کو لَوٹ گیا۔
پرانے زمانے میں انطاکیہ ۱شہر میں ایک دولت مند تاجر رہتا تھا۔ جب وہ فوت ہوا تو اس کے بیٹے کو بہت سا مال و دولت ورثے میں ملا۔ بیٹے نے بھی باپ کا پیشہ اختیار کیا اور بہت بڑی مقدار میں اشیاءکی خرید و فروخت میں جوش و خروش سے مشغول ہوگیا۔ دلّال، تجربہ کار کارندے اور مرحوم باپ کے احباب اس کے ساتھ کاروبار میں شریک ہوگئے۔ یہ بات مشہور ہوگئی کہ بیٹا اپنے کام میں بہت تیز ہوش اور طاق ہے۔
ایک روز کارندوں نے اسے خبر دی کہ [مشہور] شہر وَینس میں صندل کی لکڑی بڑی مہنگی ہے اور اس کی بہت مانگ ہے اور جب بھی صندل کی لکڑی کی کوئی مقدار اس شہر میں لائی جاتی ہے، سونے چاندی کے بھاؤ بکتی ہے۔ تاجر میاں کو لالچ ہوا اور اس نے اپنے آپ سے کہا: میرے پاس جتنا بھی سرمایہ ہے اسے جمع کرکے صندل کی لکڑی خریدتا ہوں، شہرِ وینس لے جاتا ہوں اور اسے سونے چاندی کے بھاو¿ بیچ آتا ہوں اور اس بے حساب آمدنی سے زندگی کے باقی ایام راحت و آرام سے بسر کرتا ہوں۔ اس نے ایسا ہی کیا۔
اس زمانے میں ٹیلی گراف، وائرلیس، گاڑیاں، ریل گاڑیاں اور جہاز تو ہوتے نہیں تھے، لوگ باگ گھوڑوں، اونٹوں، کجاووں اور پالکیوں کے ذریعے سفر کرتے تھے۔ دور دراز سے خط اور خبر آنے میں کئی ماہ لگ جاتے تھے۔ تاجر بھی جب دوسرے شہروں اور ملکوں میں اپنی اجناس بھیجنے کا ارادہ کرتے تو خود بھی قافلے کے ہمراہ روانہ ہوجاتے، اپنے مالِ تجارت کو منزل تک پہنچاتے اور فروخت کردیتے اور ایسی اجناس خرید لیتے جن کی ان کے اپنے وطن میں مانگ ہوتی اور لَوٹ آتے۔
انطاکیہ کے تاجر نے بھی ہر وہ جنس جو اس کے ذخیرے میں تھی، بیچ کر سرمایہ اکٹھا کیا اور صندل کی لکڑی کے سَو خرمن۱ خریدے، انھیں کئی اونٹوں پر لادا اور تاجروں کے قافلے کے ہمراہ وَینس کا رخ کیا۔ رستے میں کئی ماہ لگ گئے اور جونہی وینس سے چند فرسنگ کا فاصلہ رہ گیا، وہ بڑے قافلے سے الگ ہوگیا اور ایک دریا کے کنارے مقیم ہوگیا تاکہ تھوڑی دیر کے لیے تھکن دور کرلے اور اس کے بعد شہر میں داخل ہو۔ بڑے قافلے نے اپنی راہ پکڑی اور آگے بڑھ گیا۔
تاجر دریا کے کنارے قیام پذیر تھا کہ خبر دینے والوں نے وَینسی تاجروں کو مطّلع کیا کہ ایک تاجر صندل کی لکڑی کے سو خرمن لیے جلد شہر میں وارد ہوگا اور اب شہر سے چند فرسنگ کے فاصلے پر فروکش۲ ہے۔
ایک شخص نے جس نے وینس میں صندل کی لکڑی کی خرید و فروخت میں سرمایہ لگایا ہوا تھا اور بڑا چالاک اور ہوشیار تھا، یہ خبر سنی اور سوچ میں پڑ گیا کہ میرے پاس صندل کی لکڑی کا انبار لگا ہوا ہے۔ اگر یہ پردیسی تاجر اپنا تمام صندل لے کر آگیا تو صندل کی قیمت گر جائے گی اور میرا کاروبار بیٹھ جائے گا۔ مجھے مجبوراً کوئی حیلہ کرنا چاہیے اور تاجر سے اس کی لکڑی سستی قیمت پر خریدلینی چاہیے تاکہ اسے آہستہ آہستہ مہنگے داموں فروخت کرسکوں۔
یہ سوچ کر اس نے اپنے چند ملازموں کو اعلیٰ کپڑے پہنا کر اپنے ہمراہ لیا اور ان لوگوں کی طرح جو سیر و تفریح کے لیے شہر سے روانہ ہوتے ہیں، سامانِ سفر اٹھایا اور صندل کے انبار میں سے لکڑی کی تھوڑی سی مقدار لے کر اسے اونٹ پر لادا اور چل کھڑا ہوا حتّٰی کہ وہ لوگ پردیسی تاجر کی قیام گاہ کے نزدیک جاپہنچے۔
وَینسی تاجر نے بھی دریا کی دوسری طرف منزل کی اور وہاں خیمہ لگالیا۔ چولھا ایک جگہ لگایا اور کھانا پکانے کے لیے ایک دیگ کو اس چولھے پر رکھا اور آگ جلائی اور صندل کی مہنگی لکڑی جو وہ ساتھ لے کر آئے تھے، عام جلائی جانے والی لکڑی کی طرح زمین پر پھینکی اور اسے دیگ کے نیچے ڈال کر جلانا شروع کردیا۔
ابھی چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ صندل کی لکڑی کے جلنے سے صندل کی خوشبو بلند ہوکر ہوا میں گھُل مِل گئی۔ پردیسی تاجر کو شک گزرا کہ شاید اس کے مال تجارت نے آگ پکڑلی۔ وہ اپنے خیمے سے دوڑا اور شتربانوں سے پوچھا: خَیر ہے، انھوں نے کہا، کوئی بات نہیں، دھوا¿ں دریا کی دوسری طرف سے اٹھ رہا ہے۔ چند لوگ وہاں مقیم ہیں اور کھانا پکا رہے ہیں۔
پردیسی تاجر صندل کی خوشبو سے حیران ہوکر فرنگیوں کے پاس آیا اور پوچھا: آپ لوگ کہاں سے آئے؟وہ بولے: وَینس سے۔ ”کہاں جائیں گے آپ“؟، اس نے پوچھا۔ انھوں نے کہا: کہیں بھی نہیں۔ صرف ہوا خوری اور سیر و تفریح کے لیے یہاں چلے آئے ہیں۔ یہاں کا ماحول چونکہ بہت صاف اور پاکیزہ ہے، ہم یہیں فروکش ہوگئے۔ آپ بیٹھیے۔ ہمارے ساتھ خوش وقت۱ اور شریکِ طعام ہوں۔
پردیسی تاجر نے کہا: شکر یہ! مگر یہ تو کہیے کہ آپ عام لکڑی کی جگہ، صندل کی لکڑی کیوں جلا رہے ہیں؟
انھوں نے کہا: تو پھر کیا کریں؟
تاجر بولا: آخر جلانے کو لکڑی، عام درختوں کے کُندے اور کوئی دوسری شے نہیں؟
وہ بولے: کیوں نہیں، ہے، لیکن صندل کی لکڑی زیادہ خوشبو دیتی ہے۔ جب صندل موجود ہو تو کسی دوسری چیز کو کیوں جلائیں؟ پردیسی تاجر یہ سن کر بہت بے چین ہوا اور سوچنے لگا کہ لازماً میرے دشمنوں نے مجھے تکلیف میں مبتلا کیا ہے اور میرے ساتھ ناروا سلوک کیا ہے۔ جب صورتِ حال یہ ہے کہ اس شہر کے لوگ صندل کی لکڑی کو عام لکڑی کی جگہ جلاتے ہیں تو لازماً اس کی اور عام لکڑی کی قیمت میں کوئی فرق نہیں۔ یہ سوچ کر تاجر بڑا آزردہ ہوا اور ان کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ وہ اس قدر دکھی اور پریشان تھا کہ اس نے ایک بات بھی نہ کی۔
فرنگیوں نے پوچھا: آپ کہاں سے آرہے ہیں۔ یقینا ہمارے شہر میں جا رہے ہیں۔ آپ کا آنا مبارک۔ آپ کے پاس کافی ساز و سامان ہے، آپ کی خیر، یہ تو بتائیے آپ کون سی نئی چیز لائے ہیں؟
پردیسی تاجر بولا: یہ سب سامانِ تجارت صندل کی لکڑی ہے۔
فرنگیوں نے بَیک آواز۱ قہقہے لگانے شروع کردیے اور بولے: یہ امر قابلِ یقین نہیں، کیا آپ ہم سے مذاق کر رہے ہیں۔ شاید ہمارے ہاں اس جنس کا قحط ہے کہ کوئی شخص ہمارے ملک میں صندل لے کر آئے۔ ہمارے شہر میں صندل کا مصرف۲ فقط باورچی خانہ ہے اور ہمارا پورا شہر صندل سے بھرا ہے۔ سچ سچ کہیں کہ یہ سامان کیا ہے؟
تاجر بولا: وہی ہے جو میں نے کہا اور اس کے سوا کُچھ نہیں۔ یہ تو ممکن ہے کہ اپنے کسی کام یا عمل میں مجھ سے غلطی ہوئی ہو لیکن میں نے جو کہا سچ کہا۔ مجھے یوں احساس ہورہا ہے گویا میں کرمان میں زِیرہ۳ لے آیا ہوں۔
وہ بولے: بالکل ایسا ہی ہے اور اس کے سوا کُچھ نہیں۔ ہمیں بھی خاصا افسوس ہے کہ آپ نے خواہ مخواہ بیکار میں زحمت کی اور ہزاروں دوسری چیزوں کی جگہ جن سے فائدہ اور نفع ممکن تھا، ایسی چیز لے کر آئے ہیں جس سے نقصان ہوگا۔
بیچارہ تاجر سوچ بچار کرنے لگا اور اس نے کافی دیر بعد ان سے پوچھا: اچھا، اب آپ کے خیال میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ انھوں نے جواب دیا: کُچھ بھی نہیں۔ یہ ایک لاحاصل۱ کوشش ہوگی۔ ہمیں آس پاس کے کسی ایسے شہر کا علم نہیں کہ اس میں کوئی صندل کا خریدار ہو۔ آپ اپنے وطن سے اس قدر دور ہیں کہ آپ کے لیے اپنے مالِ تجارت کو واپس لے جانا بھی ممکن نہیں۔ آپ نے تو یہ کام بھلائی اور فائدے کے خیال سے کیا۔ اب جب آپ یہ کام کر ہی چکے ہیں بہتر ہے کہ اس مال کو جس قیمت پر بھی بکے، بیچ ڈالیں اور ہمارے شہر سے زیادہ بہتر چیزیں خرید لیں اور اگر خدا نے چاہا آپ کو اِس دفعہ فائدہ ہوگا لیکن یہ لکڑی جو آپ لائے ہیں اس کا ہمارے شہر میں کوئی خریدار نہیں۔ ہم خود بھی لکڑی کا کاروبار کرتے ہیں، اتفاق دیکھیے کہ ہم اس کو انطاکیہ لے جاکر بیچنا چاہتے تھے!
پردیسی تاجر نے کہا: نہیں، آپ یہ کام نہ کریں اور اگر ایسا کرنا ہی چاہتے ہیں کہ میرے شہر (انطاکیہ) میں کوئی جنس لائیں تو وہ لائیں جس کا مجھے علم ہے کہ وہاں کے لوگوں کو مرغوب۲ ہے۔
وَینسی تاجر بولا: ہم آپ کے شکرگزار ہیں اور چونکہ ہم آئندہ کبھی ہمکاری کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے تو اب جب آپ سے غلطی ہوگئی ہے اگر ممکن ہو تو میں حاضر ہوں کہ آپ کی صندلی لکڑی یک مشت ایک قیمت پر خرید لوں البتہ یہ معاملہ جوئے کا ساہے کہ جس میں ہارجانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے لیکن میں نے اپنے ساتھ ایک عہد کررکھا ہے کہ میں ڈرپوک آدمی سے کبھی معاملہ۳ نہیں کروں گا۔
پردیسی تاجر بولا: آپ کو یہ شبہ ہوا کہ میں ڈرپوک آدمی ہوں؟
وینسی تاجر بولا: میرا مقصد صرف آپ سے نہیں میں تو مجموعی حیثیت سے بات کررہا ہوں۔ ہم مرد ہیں اور جب ہم کوئی بات کہتے ہیں تو نفع و نقصان دونو کو پیشِ نظر رکھ کر بات کرتے ہیں لیکن بہت سے تاجر جب ہمارے شہر آتے ہیں تو معاملہ کرنے سے ڈرتے ہیں یا معاملہ تو کرلیتے ہیں مگر بعد میں عہد کی پاسداری نہیں کرتے۱۔
پردیسی تاجر بولا: نہیں، آپ شاید ابھی مجھے نہیں جانتے ۔ میں جب کوئی بات کہتا ہوں جب تک زندہ ہوں اپنے لفظوں پر قائم رہتا ہوں اگرچہ اس میں تمامتر گھاٹا ہو۔
وَینسی تاجر بولا: اب جب ایسا ہی معاملہ ہے تو بات نفع نقصان کی نہیں۔ آپ نے بے حساب کتاب کام کیا ہے، میں بھی بے حساب کتاب معاملہ کرتا ہوں۔ میں حاضر ہوں کہ یہ تمام لکڑی سونے، چاندی یا جواہر کی ایک طے شدہ مقدار کے عوض جیسے بھی آپ چاہیں، خرید لوں ہم معاہدے کو اب تکمیل کو پہنچاتے ہیں اور لکڑی شہر لے جاتے ہیں اور ایک اسٹور میں بطور امانت رکھ دیتے ہیں اور اس کے عوض سونا، چاندی، جواہر جسے بھی آپ پسند کریں، وہ آپ کے سپرد کردیں گے اور لکڑی اپنی تحویل۲ میں لے لیں گے۔
پردیسی تاجر بھی راضی ہوگیا اور معاہدہ طے پاگیا۔ انھوں نے ایک قرارداد تحریر کی اور حاضرین نے اس پر دستخط کیے اور مال شہر لے گئے اور ایک اسٹور میں بطور امانت رکھ دیا۔ یہ طے پایا کہ پرسوں خریدار اور فروشندہ۳ دونو حاضر ہوں گے اور باہمی رضامندی سے دونو میں سے ایک لکڑی دوسرے کے حوالے کرے گا اور جو لکڑی لے جائے گا قیمت کی ادائیگی اس کے ذمے ہوگی۔
پردیسی تاجر نے شتربانوں کا حساب صاف کیا، انھیں رخصت کیا اور خود مکان کے بندوبست کے لیے شہر کو روانہ ہوگیا۔ ایک کوچے میں اس کی مڈبھیڑ ایک بڑھیا سے ہوئی۔ اُس نے تاجر سے پوچھا: مجھے لگتا ہے تم مسافر ہو۔ کیا گھر کی تلاش میں ہو۔ تاجر نے کہا: بالکل۔ بڑھیا بولی: آو¿ میں تمھیں ایک گھر مہیّا کرتی ہوں اور سستے داموں تمھیں کھانا دیا کروں گی تاکہ اس شہر کی دوسری تمام جگہوں کی نسبت تم زیادہ آرام سے رہو۔ تاجر نے بڑھیا کی پیش کش قبول کی اور اس کے گھر کا ایک کمرہ لیا۔ اس کا کرایہ اور کھانے پینے کی رقم ادا کی اور آرام میں مشغول ہوگیا۔
رات جب بڑھیا اسے کھانا دے چکی تو دونو نے ایک دوسرے کی سرگذشت جاننی چاہی۔ معلوم ہوا کہ بڑھیا کا ایک بیٹا ہے جو ایک نابینا شخص کے گھر اُس کی خدمت پر متعیّن ہے اور بڑھیا بھی ایک دلیر عورت ہے اور محلے کے تمام لوگ اس کی ہوشیاری اور تجربہ کاری کے معترف۱ ہیں۔ اس کا کام یہ ہے کہ وہ مسافروں کو اپنی بڑی حویلی کے کمرے کرایے پر دیتی ہے جس سے اسے آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ تاجر نے بھی اسے اپنے احوال سے آگاہ کیا اور صندل کی لکڑی کے بارے میں معاہدے کی تفصیل بتائی۔
بڑھیا بولی: تم نے عجیب معاہدہ کیا کہ اپنی تمام محنت برباد کرڈالی۔ تم نے جب چھے ماہ سفر کی تکلیف اٹھائی، تو کیا اچھا ہوتا کہ ایک دن اور صبر کرلیتے اور شہر میں صندل کی قیمت معلوم کرلیتے۔ اس شہر کے بعض لوگ بڑے مکّار عیّار ہیں اور ان کا صندل کی لکڑی جلانا اور اس پر کھانا تیار کرنا، جیسا کہ تم نے سب کُچھ بتایا، سوائے مکّاری اور حیلہ بازی کے کُچھ نہیں تاکہ صندل کی یہ لکڑی بس مفت میں خرید لیں۔
تاجر نے پوچھا: اس شہر میں صندل کی لکڑی کی قیمت کیا ہے؟
بڑھیا بولی: یہاں صندل کی لکڑی سونے چاندی کے بھاو¿ بکتی ہے اور ہر چیز سے زیادہ مہنگی ہے۔
تاجر نے فریاد کی: ہائے ظلم، دہائی ہے، میرے ساتھ عجیب فریب ہوگیا۔ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟
بڑھیا بولی: ہر مشکل کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے۔ اب سے کل تک وقت ہے۔ تمھیں احتیاط سے کام لینا ہوگا اور جب کل شہر میں چلنے پھرنے کو نکلو تو کسی سے بھی اس موضوع پر بات نہ کرنا، کسی کے ساتھ لینا دینا نہ کرنا اور اگر کہیں وَینسی تاجر سے بھی مڈبھیڑ ہو جائے تو اپنا نقصان ہونے کے بارے میں اس سے کچھ نہ کہنا۔ تب تک میں سوچ بچار کرتی ہوں اور صندل کے واپس لینے اور تمھارا حق تمھیں دلانے کے لیے کوئی راہ نکالتے ہیں۔
تاجر بولا: اگر ایسا ہو جائے، میں اپنا مال واپس لے سکوں اور اسے اچھی قیمت پر فروخت کرسکوں تو جو تم مانگو گی تمھیں دوں گا اور تمھارے لڑکے کو بھی مالامال کردوں گا۔
بڑھیا بولی: خاطر جمع رکھو۱ لیکن شرط یہ ہے کہ کل کسی سے بھی اس مسئلے پر بات چیت نہ کرنا اور اس شہر کے لوگوں سے لین دین نہ کرنا کیونکہ اس شہر میں بہت سے بے شرم، ڈھیٹ اور چالاک لوگ ہیں اور سب ایک دوسرے کے مددگار اور ہم زبان ہوتے ہیں اور شہر کا مجسٹریٹ بھی جھگڑا ہو جانے کی صورت میں انھی کی طرفداری کرتا ہے۔
تاجر نے وعدہ کیا کہ وہ بڑھیا کی نصیحت پر عمل پیرا ہوگا اور کسی سے یہ ماجرا نہ کہے گا اور کسی کے ساتھ لین دین نہ کرے گا۔ وہ رات اس امید پر سوگیا کہ اس کی [قیمتی] لکڑی اسے واپس مل جائے گی۔ رات اس نے بہت سے بے سروپا خواب۲ دیکھے۔
اگلی صبح پردیسی تاجر شہر میں چہل قدمی کے لیے گھر سے باہر نکلا۔ وہ شہر کے کوچہ و بازار کی سیر کررہا تھا اور شہر کی آبادی اور بازار کی رونق کی تعریف کررہا تھا۔ اس کا گزر ورزش کے ایک میدان سے ہوا کہ وہاں گھڑ سوار، گھڑسواری کے مقابلے میں مشغول تھے۔ چونکہ وہ اس کام کا تجربہ رکھتا تھا لہٰذا یہ منظر دیکھنے کے لیے کھڑا ہوگیا۔ مقابلے کے اختتام پر اختلاف پیدا ہوا۔ اس نے معاملے کو سلجھانے کے لیے کُچھ اس طرح گفتگو کی کہ سب نے اس سے اتفاق کرلیا۔
تاجر کو یہ دیکھ کر شوق چَرّایا۱۔ اس نے کہا: میں خود بھی تمھارے ساتھ مقابلے کے لیے حاضر ہوں۔ شہر کے گھڑسوار بولے: ہم ڈرپوک شخص کے ساتھ شرط نہیں باندھتے۔ تاجر کو غرور آیا اور اس نے کہا: تمھیں کہاں سے معلوم ہوا کہ میں ڈرپوک ہوں۔ اگر میں ڈرپوک ہوتا تو سمندر اور خشکی پر کبھی قدم نہ دھرتا اور مالِ تجارت کے ساتھ ایک اجنبی شہر میں نہ آتا۔ کتنا اچھا ہو اگر میرا امتحان لے لیا جائے۔
گھڑ سواروں نے جو دراصل رِند اور اَوباش قسم کے لوگ تھے، جب مالِ تجارت کی بات سنی تو انھیں گویا روپے پیسے کی مہک آئی اور بولے: بہت اچھا: اگر مرد ہو اور تم میں مردانگی کی نشانی ہے تو ہم ہر اس چیز پر شرط لگانے کو تیار ہیں جو تم چاہو۔ تاجر بولا: مجھے بھی جو کُچھ تم کہو، منظور ہے۔
وہ بولے: ہم تین لوگ آپس میں شریک ہیں۔ طے یہ کرتے ہیں کہ اگر ہم تینوں میں سے کوئی ایک جیت گیا تو ہم تین کام تجویز کریں گے اور تمھیں ان میں سے کسی ایک پر عمل کرنا ہوگا۔ اگر تم جیت گئے تو تم بھی تین کام تجویز کرو گے اور ہم ان میں سے کسی ایک پر عمل کریں گے۔ اگر کوئی حریف۲ ان تین میں سے کسی ایک کام کو بھی بجا نہ لانا چاہے تو اسے ایک ہزار دینار نقد ادا کرنا ہوں گے۔
پردیسی تاجر بولا: یہ عجیب شرط باندھی گئی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ درست ہے یا نہیں لیکن یہ سوچ کر کہ کہیں تم مجھے ڈرپوک نہ کہہ دو، میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ انھوں نے باہم قول و قرار کیا اور گواہ مقرر کیے اور مقابلہ شروع کیا۔ لوگوں نے بھی یہ مقابلہ دیکھنا شروع کیا۔ جب مقابلہ اختتام پذیر ہوا، منصفوں اور گواہوں نے کہا: پردیسی تاجر ہار گیا اور شہر کے گھڑسوار جیت گئے۔
پردیسی تاجر نے ناچار کہا: ٹھیک ہے۔ اپنی تین شرائط بیان کرو۔ ان میں سے ایک نے پتھر کا ایک ٹکڑا جیب سے نکالا اور کہا: شرط باندھنا کھیل نہیں۔ میری تجویز یہ ہے کہ تم اس پتھر سے میرے لیے ایک موزوں لباس سی دو۔ اس پر اس کے دوستوں نے بھی ہنسنا شروع کردیا۔
پردیسی تاجر نے کہا: چلیے، ایک تجویز تو یہ ہوئی، باقی کیا ہیں؟
دوسرا بولا: میں چاہتا ہوں کہ ہم ابھی سمندر کے کنارے چلیں اور تم سمندر کا تمام پانی ایک ہی بار پی جاو¿۔ پردیسی یہ سن کر بہت بدمزہ ہوا اور کہنے لگا: میرے خیال میں یہ بے تکی اور غلط باتیں ہیں لیکن خیر، اَب تیسری تجویز سے آگاہ کرو۔
تیسرا بولا: میں چاہتا ہوں کہ تمھارے پاو¿ں کی مچھلی کا تقریباً سوا چھے اونس گوشت کاٹ لوں۔ اگر تمھیں ان تینوں میں سے کوئی شرط قبول نہیں تو پھر معاہدے کے مطابق تم ہزار دینار ہار چکے لہٰذا وہ تمھیں دینا ہوں گے۔
پردیسی تاجر یہ سن کر بہت بدمزہ ہوا اور کہنے لگا: ہرگز نہیں۔ مجھے قبول نہیں۔ ان تینوں میں سے کوئی تجویز یا شرط بھی معقول نہیں۔ میں نے خیال کیا کہ ہم تفریح کر رہے ہیں اور اگر میں جیت جاتا تو میں ایسی فضول باتیں نہ کرتا اور وہ باتیں کرتا جو قابلِ عمل ہوتیں۔ اور اگر تم ان کو بجا نہ لاتے تو بھی میں تم لوگوں سے ہزار دینار کا مطالبہ نہ کرتا۔ دنیا میں کہیں بھی یہ رسم نہیں کہ کسی سے زور زبردستی سے شرطیں منوائی جائیں اور تم لوگوں کی باتیں دیوانوں کی سی ہیں۔ میں نہ تو یہ کام انجام دے سکتا ہوں اور نہ میرے پاس دینے کو پیسے ہیں۔
فرنگیوں نے یک زبان ہوکر کہا: تمھاری یہ باتیں ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ہمارے درمیان طے یہ ہوا تھا کہ ہم جو بھی چاہتے ہیں اسے بطور تجویز پیش کریں گے۔ ہم بھی یا تو چاہتے ہیں کہ یہ شرائط پوری ہوں یا ہزار دینار دو۔ چونکہ پردیسی تاجر کے لیے یہ تجویزیں قابلِ قبول نہ تھیں اور اس نے دینار بھی ادا نہ کیے، فرنگیوں نے ہنگامہ برپا کردیا اور پردیسی تاجر کو کھینچتے ہوئے شہر کے حاکم کے پاس لے گئے اور کھیل کی وضاحت کی۔
حاکم نے تاجر سے کہا: کوئی چارہ نہیں۔ اس شہر میں مقابلے اور شرط باندھنے کے مخصوص ضابطے ہیں۔ تم نے خود عہد کیا اور اس سے اتفاق کیا اور سب لوگ اس پر گواہ ہیں۔ یا تو جو وہ کہتے ہیں ان پر عمل کرو یا ہزار دینار ادا کرو وگرنہ تو جو کوئی بھی اس شہر میں انتشار پیدا کرے گا وہ گویا اپنی جان سے کھیل رہا ہے۔ یہ انطاکیہ نہیں، یہ فرنگیوں کا شہر ہے اور ہر کام ایک قانون ضابطے سے ہوتا ہے۔ اگر تمھارے پاس کہنے کو کوئی معقول بات ہے تو کہو ورنہ اپنی شرط پر عمل کرو۔
پردیسی تاجر بولا: محترم حاکم! جو باتیں یہ کہتے ہیں وہ نامعقول ہیں اور جب تک ان کی تجویزیں قابلِ عمل نہ ہوں تو شرط تو وہ ہارے ہیں۔ میں خود آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ میری جگہ ہوں تو کیا آپ پتھر سے لباس سی سکتے ہیں اور ایک ہی بار پورا سمندر پی سکتے ہیں اور اپنے پاو¿ں کو پھیلا کر انھیں موقع دے سکتے ہیں کہ وہ سوا چھے اونس گوشت وہاں سے کاٹ لیں۔
حاکم بولا: فضول باتیں چھوڑو۔ تمھیں یہاں اس لیے نہیں لایا گیا کہ مجھ سے سوال کرو، تمھیں لایا گیا ہے کہ جواب دو ۔ تم نے خود معاہدہ کیا ہے۔ اگر تم یہ کام نہیں کرسکتے تھے تو تمھیں آغاز ہی سے انجام کی فکر کرنی چاہیے تھی اور اَن جانے اور اَن بوجھے کو قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ تم نے خود معاہدہ کیا ہے اور اپنے کیے کا کوئی علاج نہیں۔
پردیسی تاجر کو بالآخر ایک حل سوجھ گیا۔ اس نے دل میں سوچتے ہوئے کہا: اگر میں اس قابل ہو جاو¿ں کہ کل تک اپنی صندلیں لکڑی واپس لے لوں اور اچھی قیمت پر بیچ لوں تو ان میں سے ایک ہزار دینار دے دوں گا اور آئندہ کے لیے توبہ کرلوں گا کہ شرط نہیں لگاو¿ں گا۔ یہ سوچ کر اس نے حاکم سے کہا: میری خواہش ہے کہ مجھے کل تک مہلت دے دیں اگر میں تین تجاویز میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہ کرپایا تو ہزار دینار ادا کردوں گا۔
حاکم نے کہا: تم نے معقول بات کی ہے۔ میں کل تک تمھیں مہلت دیتا ہوں لیکن تمھیں اپنا ضامن دینا ہوگا ورنہ میں تمھیں قید کردوں گا۔
تاجر بولا: اس شہر میں مجھے ایک بڑھیا کے سوا کوئی نہیں جانتا جس کا نام پتا یہ ہے۔ میں اسی کے گھر میں مقیم ہوں۔
حاکم نے حکم دیا کہ بڑھیا کو حاضر کیا جائے۔ بڑھیا نے ضمانت دے دی کہ وہ کل عصر کے وقت پردیسی تاجر کو پیش کردے گی۔ اس پر سب لوگ باہر چلے گئے۔ اس وقت بڑھیا نے تاجر سے کہا: میں نے تمھیں تاکید نہیں کی تھی کہ اس شہر میں کسی سے کوئی لین دین نہ کرنا۔ اب تم نے دیکھا کہ عیّار اور طراّر لوگوں نے تمھارے ساتھ کیا کیا؟
تاجر بولا: آخر وہ جوانمردی، قول و قرار اور انسانیت کی باتیں کررہے تھے۔
بڑھیا نے کہا: یقینا وہ انھی چیزوں کے حوالے سے باتیں کرتے ہیں! لیکن کیا تمھیں توقع تھی کہ وہ کریں گے کیا؟ یہ دنیا کی رسم ہے کہ تمام خیانت کرنے والے باتیں امانت کی کرتے ہیں اور تمام چور ڈاکو انصاف کا دم بھرتے ہیں۔ اگر معاملہ یہ نہ ہو تو کوئی بھی نرم نہ پڑے اور کوئی بھی ان کا فریب نہ کھائے۔ یہ بدجنس۱ بھی پہلے پہل انسانیت اور جوانمردی کی باتیں کرتے ہیں تاکہ دوسرے کو عصبیت۲ اور غیرت کے مرحلے پر لے آئیں اور پھر وہ اپنا اُلّو سیدھا کرتے ہیں۔ اگر پہلے ہی مرحلے پر چور یہ کہے کہ میں تمھاری جیب کاٹوں گا اور خیانت کار۱ یہ کہے کہ میں خیانت کرنے لگا ہوں تو پھر یہ لوگ اپنے منصوبوں کو کیسے عملی جامہ پہنا سکتے ہیں؟
تاجر بولا: تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں ہمیشہ لوگوں کے قول پر نگاہ کرتا ہوں اور احتیاط کا دامن چھوڑ دیتا ہوں، اب کیا کرنا چاہیے؟
بڑھیا بولی: اب چلتے ہیں۔ کل تک سوچ بچار کرتے ہیں اور اگر خدا نے چاہا، بہتری کا کوئی رستہ نکال ہی لیں گے۔
اس رات بڑھیا نے تاجر کی سرگذشت اپنے بیٹے کو سنائی اور کہا: تمھیں چاہیے کہ ذہین نابینا سے مدد لو اور اس پردیسی شخص کو عیّاروں کے شر سے نجات دلاو¿۔
ذہین نابینا ایک بوڑھا شخص تھا جس کے پاس بڑھیا کا بیٹا ملازم تھا۔ وہ ایک نہایت عقل مند شخص تھا اور قبل ازیں شہر کا قاضی رہ چکا تھا۔ پھر جب وہ بوڑھا اور نابینا ہوگیا تو اس نے قاضی کے منصب۲ سے کنارہ کرلیا تھا۳ اور خانہ نشین ہوگیا تھا اور جب کبھی لوگ کسی مشکل میں گرفتار ہوتے تو اس کے پاس آکر اس سے مشورہ کرتے اور چونکہ وہ قانون کی تمام باریکیوں سے واقف تھا اور فیصلہ کرنے کے فن سے آگاہ تھا اس لیے ان کی رہنمائی کرتا اور جب ایسے لوگوں کا مسئلہ حل ہو جاتا، تو وہ اس کو تحفے دیتے اور اس کے لیے دعا کرتے۔ شہر میں اس کا نام ”ذہین نابینا“ پڑ گیا تھا!
بڑھیا کا بیٹا پردیسی تاجر کو اپنے ساتھ ذہین نابینا کے پاس لے گیا اور اس کا تعارف کرایا اور اس کی طرف سے مسئلے کے حل کے لیے درخواست کی۔ ذہین نابینا نے تاجر سے کہا کہ اپنی بیتی شروع سے آخر تک بے کم و کاست۴ بیان کرو۔ پردیسی تاجر نے تمام قصہ کہہ سنایا اور کہا: اب میں عاجز آگیا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ ان عیّاروں کا کیا کروں۔ بڑی مشکل میں ہوں کہ ان کی عیّاریوں کا کیا جواب دوں۔
ذہین نابینا نے کہا:
کوئی مشکل نہیں ایسی کہ جو آساں نہ ہو جائے
مگر لازم ہے انساں پر، سراسیمہ۱ نہ ہو پائے
میں تمھیں ان کے شر سے رہائی دلاو¿ں گا۔ ان کے تمام کرتوت سوائے دھوکہ بازی کے کچھ نہیں اور ان کی تمام باتوں اور دعووں کا جواب موجود ہے۔ پھر اس نے ایک ایک کرکے مشکلات کو حل کیا اور پردیسی تاجر کو ان کے جواب ذہن نشین کرا دیے اور کہا: کل جب تم حاکم کے سامنے حاضر ہوں یہی جواب دینا اور یقین رکھو کہ وہ تمھیں محکوم نہیں کرسکیں گے۔
پردیسی تاجر خوش خوش ہنستا مسکراتا گھر لوٹا اور بڑھیا سے کہنے لگا: اب مجھے معلوم ہے کل مجھے عیّاروں کو کیا جواب دینا ہے۔ سچ کہا گیا ہے کہ خدا درد دیتا ہے تو اس کی دوا بھی دیتا ہے اور ہر مشکل کا ایک حل ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے لائحہ عمل کے لیے مشورہ کرے اور اسے یاد رکھے۔
تاجر اگلے دن ٹھیک مقررہ وقت پر حاکم کے سامنے پیش ہوگیا اور کہا: میں حاضر ہوں تاکہ اپنے قول سے وفا کروں۔
حاکم نے مُنشیوں کو حکم دیا کہ وہ مقدمے کی کارروائی لکھتے جائیں۔اس نے گھڑسواروں سے کہا: تمھارا دعویٰ کیا ہے؟ انھوں نے کل کی بازی کی تفصیل بتائی اور کہا: ہم تین لوگ شریک ہیں اور جو معاہدہ طے ہوا تھا اس کی رُو سے ہم نے تین تجاویز دی ہیں اور اگر پردیسی شخص ان میں سے کسی پر عمل نہ کرے تو اسے چاہیے کہ ہزار دینار ادا کرے۔
حاکم نے پردیسی تاجر سے پوچھا: تمھارا جواب کیا ہے؟
پردیسی تاجر نے، جس نے ذہین نابینا سے رہنمائی لے کر جوابات اچھی طرح ذہن نشین کرلیے تھے، کہا: میرا جواب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ دغاباز نہیں اور ان کی باتیں عقل و منطق کے مطابق ہیں تو میں ہر تجویز پر عمل کروں گا اور اگر ان کی باتیں بے تکی اور لغو ہوئیں تو؟
حاکم بولا: تو میں یہاں کس لیے ہوں؟ یہاں جو بھی غیرمنطقی۱ بات کرے گا، اس کی ذمہ داری اسی پر ہے۔ پھر حاکم نے ان تینوں میں سے ایک سے کہا: تم کیا چاہتے ہو؟
اس نے کہا: وہی جو میں نے کل کہا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ اِس پتھر سے میرے لیے لباس سیے۔
پردیسی تاجر بولا: ٹھیک ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ میں کوئی معجزہ کروں گا۔ میں ایک معمولی آدمی ہوں اور ہر کام کو، اس طرح جیسے پوری دنیا میں چلن ہے، انجام دیتا ہوں۔ میں حاضر ہوں کہ اس پتھر سے اس شخص کے لیے لباس سیوں لیکن دنیا کی رسم یہ ہے کہ لباس کپڑے سے سیتے ہیں۔ کپڑا بھی یا روئی سے یا پشم سے یا ریشم سے یا کئی اور چیزوں سے بنتا ہے۔ لیکن دنیا میں کوئی شخص بھی روئی، پشم یا ریشم سے خود لباس نہیں سیتا۔ اس کے لیے چاہیے کہ پہلے روئی، پشم یا ریشم یا کسی اور چیز کا باریک دھاگا بنایا جائے، پھر اس سے کپڑا تیار کیا جائے اور پھر اس سے لباس سیا جائے۔ یہ شخص بھی مجھ سے لباس کے سینے کا مطالبہ کرتا ہے اور میں بھی درزی ہوں لیکن دھاگا بنانے والا اور کپڑا بُننے والا نہیں۔ آپ جو انصاف کی مسند پر بیٹھے ہیں حکم دیں کہ یہ شخص اس پتھر سے پتھریلا دھاگا تیار کرے اور پتھریلا کپڑا تیار کرے تاکہ میں اس کپڑے سے اس کے لیے لباس سیُوں۔
حاکم بولا: درست ہے۔ اُسے چاہیے کہ وہ یہی کام کرے یا پھر اپنے الفاظ واپس لے۔
پہلا شخص بولا: نہیں۔ میں پتھر سے باریک دھاگا نہیں بناسکتا۔ میں نے اپنے الفاظ واپس لیے۔ البتہ میرے ان دو ساتھیوں کے پاس دو اور تجویزیں ہیں۔ حاکم نے دوسرے سے پوچھا: تم کیا چاہتے ہو؟
دوسرا شخص بولا: معاہدے کے مطابق میں چاہتا ہوں کہ ہم سمندر کے کنارے پر جائیں اور یہ شخص ایک ہی سانس میں بغیر وقفے کے سمندر کا پانی پی جائے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو ہزار دینار دینے کا پابند ہے۔
پردیسی تاجر نے حاکم کی طرف رُخ کرتے ہوئے کہا: اگرچہ یہ تجویز بھی فریب پر مبنی ہے لیکن چونکہ میں نے قول دے رکھا ہے، میں اس پر عمل کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ لیکن طے یہ ہوا تھا کہ میں سمندر کے پانی کو بغیر وقفے کے ایک ہی سانس میں پی جاو¿ں مگر یہ بات طے نہیں تھی کہ میں ان تمام دریاو¿ں کا پانی بھی پیوں گا جو اس سمندر میں گرتے ہیں۔ ہمارا معاہدہ صرف سمندر کے پانی تک ہے۔ اب آپ حکم دیں کہ یہ شخص دریاو¿ں کے آگے بند باندھے تاکہ ان کا پانی سمندر میں نہ گرے۔ تب میں بھی سمندر کا پانی ایک سانس میں کچھ اس طرح پی جاو¿ں گا کہ آپ کو خالی سمندر دکھا دوں گا۔
حاکم نے کہا: بالکل درست اور عاقلانہ بات ہے۔ اُسے چاہیے کہ وہ دریاو¿ں کے پانی کو قطع کرے تاکہ تم سمندر کا پانی پی سکو۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اپنے دعوے کو نظرانداز کرے اور اس کی تجویز منسوخ۱ ہے۔
دوسرا شخص بولا: میں نے اپنے لفظ واپس لیے۔ اس پر اس کا تیسرا ساتھی بولا: میں چاہتا ہوں کہ میں اس شخص کے پاو¿ں سے کوئی سوا چھے اونس گوشت کاٹ لوں۔ اگر وہ اس پر آمادہ نہیں تو اسے چاہیے کہ ہزار دینار ادا کرے۔
تاجر حاکم کی طرف متوجّہ ہوا اور کہا: بہت خوب، اگرچہ یہ بات بڑی ظالمانہ ہے لیکن چونکہ میں قول دے چکا ہوں کہ تین تجویزوں میں سے کسی ایک پر عمل کروں گا، میں اس تجویز کو بھی قبول کرتا ہوں اور چونکہ میرے پاو¿ں کے گوشت کا کاٹا جانا میری زندگی سے سروکار۲ رکھتا ہے سو یہ شخص سب کی موجودگی میں عہد کرے کہ اپنی تجویز کے عین مطابق عمل کرے گا یعنی اسے چاہیے کہ میرے پاو¿ں سے ٹھیک سوا چھے اونس گوشت کاٹے، نہ کم نہ زیادہ اور میرے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر نہ گرے کیونکہ خون کا بہنا یا بہانا اس شرط میں شامل نہیں۔
حاکم نے کہا: ٹھیک ہے اور بڑا نپا تُلا جواب ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ سوا چھے اونس گوشت کاٹ لے لیکن اگر اُس نے اِس سے ایک مِثقال۱ بھی کم یا زیادہ کاٹا اور اگر تمھارے خون کا ایک قطرہ بھی زمین پربہایا تو میں لوگوں کے اس مجمع کی موجودگی میں حکم دوں گا کہ اس کا سر قَلَم کردیں تاکہ آئندہ کوئی بھی کسی کو ڈرائے دھمکائے نہیں اور ہمیں دنیا میں بدنام نہ کرے۔
تیسرے نے کہا: نہیں جنابِ حاکم! مجھے کُچھ نہیں چاہیے۔ میں اپنے حق سے بالکل دستبردار ہوا اور مجھے ہزار دینار بھی نہیں چاہییں۔
حاکم نے کہا: بہت اچھا ہے تم نے اپنے الفاظ واپس لے لیے لیکن قانون اپنے تقاضے پورے کرتا ہے۔ یہ مقدمہ تم تین افراد نے کیا لہٰذا ہر ایک، ایک ایک ہزار دینار جرمانہ ادا کرے تاکہ آج کے بعد تمھارے ہوش ٹھِکانے آجائیں اور تم لوگوں سے لغو باتیں نہ کرو۔
عدالت کے کارندوں نے ہر ایک سے ایک ایک ہزار دینار بطور جرمانہ وصول کیا اور انھیں نکال باہر کیا۔ پھر حاکم نے پردیسی تاجر سے کہا: آپ بھی آزاد ہیں، تشریف لے جائیں۔
پردیسی تاجر ملتجی۱ ہوا: اب جب میں نے مشاہدہ کرلیا کہ آپ ایک منصف حاکم ہیں، مجھے بھی ایک شکایت ہے۔ میں ایک پردیسی ہوں اور مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ کے شہر میں دھوکہ باز لوگ بڑی تعداد میں ہیں۔ پرسوں آپ کے شہر کے ایک شخص نے تاجر کے بھیس میں مجھے فریب دیا اور حیلے بہانے سے میرا مالِ تجارت ہتھیا لیا۔ میری درخواست ہے کہ مجھے اس فریبی کے شر سے بچا کر انصاف کے تقاضے پورے فرمائیے۔
حاکم نے فرنگی تاجر کا نام پتا پوچھا اور حکم دیا کہ اسے حاضر کیا جائے۔ جب وہ حاضر ہوا، حاکم نے اس سے کہا: تم ہمارے شہر کی آبرو کیوں خاک میں ملا رہے ہو، اور ایسا کیوں کررہے ہو کہ تمھاری وجہ سے ہمارا شہر دنیا بھر میں بدنام ہو جائے اور پھر کوئی شخص دوبارہ مالِ تجارت ہمارے شہر میں لانے کی جرا¿ت نہ کرے؟
تاجر نے کہا: میں نے کوئی برا کام نہیں کیا۔ وہ تاجر ہے، میں بھی تاجر ہوں اور ہم نے باہمی رضامندی سے ایک معاملہ کیا ہے۔ ہم نے ایک تحریری معاہدہ کیا ہے اور گواہوں کی گواہی کا اہتمام بھی کیا ہے۔ پھر بھی میں حاضر ہوں کہ معاہدے اور قرارداد کے مطابق عمل کروں اور یہ ہے معاہدہ۔ حاکم نے معاہدے کی دستاویز پکڑی اور ان کے دستخطوں کو ملاحظہ کیا اور پردیسی تاجر سے کہا: اب تو معاملہ ہاتھ سے نکل چکا اور مجھے کوئی حق نہیں کہ میں لوگوں کے معاملات میں مداخلت کروں۔ اگر تم نے اپنی لکڑی سستی بیچ ڈالی تو بہتر ہوتا کہ سوچ بچار کرلیتے اور نہ بیچتے۔ اگر میں یہ اقدام کروں کہ میں اس معاہدے کو، جو بڑا مضبوط ہے، رد کردوں تو پھر تو حالات بہت خراب ہو جائیں گے اور کل کلاں کو جو شخص بھی کوئی معاہدہ کرے گا اور پھر اس پر پشیمان ہوگا تو کسی بہانے اس کو توڑنا چاہے گا اور ہمیں ہر روز ایک نیا جھگڑا درپیش ہوگا۔ ہمارا ضابطہ¿ اخلاق یہ ہے کہ لوگوں کے باہمی قول و قرار کا احترام کریں اور میں اس معاہدے کو منسوخ نہیں کرسکتا۔ البتہ اگر ہمارے شہر کا تاجر معاہدے کے مطابق عمل کرنے سے گریزاں ہو تو دوسری بات ہے۔
یہ سن کر فرنگی تاجر کا حوصلہ بڑا بلند ہوا اور اس نے کہا: جی ہاں، ہم نے باقاعدہ معاملہ کیا ہے اور میں نے جو کچھ لکھا ہے، اس پر عمل کروں گا اور اِسی وقت تجھے چاہیے کہ اپنے مال کی قیمت مجھ سے لے اور حاکم کی موجودگی میں یہ لکھ دے کہ صندل کی لکڑی میری تحویل میں دی جائے۔
حاکم بولا: بالکل، اگر خریدار نے جو کُچھ لکھا ہے وہ اس کی قیمت نہیں دیتا تو صندل کی لکڑی بیچنے والے کو واپس مل جائے گی لیکن اگر وہ اس کی قیمت دے دیتا ہے تو پھر لکڑی خریدار کی ملکیت ہوگئی اور اِسی روز مقدمہ ختم ہو جائے گا۔
پردیسی تاجر، جو ذہین نابینا کی باتیں اور مشورے ذہن نشین کرچکا تھا، بولا: میں بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ کے شہر کا تاجر اس معاہدے کے مطابق عمل نہیں کرنا چاہتا اور وہ اس میں حیلہ گری سے کام لینا چاہتا ہے۔
حاکم بولا: تو پھر میں یہاں کس لیے ہوں؟ جو شخص بھی معاملات میں حیلہ گری سے کام لینا چاہتا ہے اور ہمارے شہر کو بدنام کرنا چاہتا ہے، اُس کا خون اُسی کی گردن پر ہے۔ میں یہاں اس لیے بیٹھا ہوں کہ ظلم نہ ہونے دوں۔
پردیسی تاجر بولا: میری آرزو بھی یہی ہے۔ پس آپ حکم دیں کہ معاہدے کی تحریر پڑھی جائے اور جو کُچھ اس میں لکھا گیا ہے اس کے مطابق عمل کیا جائے۔
حاکم نے اپنے مُنشی کو حکم دیا کہ وہ معاہدے کو بلند آواز میں پڑھے۔ لکھا تھا: لکڑیوں کی قیمت سونے یا چاندی یا جواہر کی معیّنہ۱ مقداریا ہر اُس چیز کی صورت میںجو بیچنے والا مانگے، خریدار سے وصول کرے گا۔
حاکم نے کہا: بہت خوب! اگر اس معاہدے کی رُو سے عمل کیا جائے تو ہم معاملے کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچائیں گے اور اگر اس کے برعکس ہو تو معاہدہ منسوخ ہو جائے گا۔ پھر اس نے فرنگی تاجر کی طرف رُخ کرتے ہوئے کہا: مال کی قیمت حاضر کرو تاکہ لکڑی تمھاری تحویل میں دی جائے کیونکہ ایک گھنٹے بعد معاہدے کی مدت ختم ہو جائے گی۔
فرنگی تاجر نے کہا: وہ جو کُچھ مانگے، حاضر کردوں گا۔
حاکم نے پردیسی تاجر سے پوچھا: اپنے مال کے عوض کیا چاہتے ہو سونا، چاندی یا جواہر؟
پردیسی تاجر نے کہا: اگر خریدار معاہدے سے متفق ہے تو کیا سونے، چاندی اور جواہر کے سوا کسی اَور چیز کا تقاضا کرسکتاہوں؟
خریدار بولا: وہی ہے جو لکھا ہوا ہے۔ سونا، چاندی، جواہر یا کوئی اور چیز جس کا بیچنے والا مطالبہ کرے۔ میں اس سے متفق ہوں۔ جو مانگنا چاہتے ہو، بتاو¿۔
پردیسی تاجر نے کہا: مجھے سونا، چاندی اور جواہر نہیں چاہییں۔ کیا تمھارے شہر میں مکھیاں، مچھر، جوئیں، کک (چیچڑ) اور کھٹمل اور اسی طرح کی اور چیزیں پیدا ہوتی ہیں؟
حاکم نے کہا: کیوں نہیں، پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اس سے تمھارا مقصد کیا ہے؟
پردیسی تاجر نے کہا: میرا مقصد یہ ہے کہ قرارداد کے مطابق میں مذکورہ اجناس میں سے کسی ایک کا انتخاب کروں سو میں ایک پیمانہ۱ کھٹمل چاہتا ہوں جس کا آدھا حصّہ نر اور آدھا حصّہ مادہ پر مشتمل ہو۔ میں اپنی صندل کی لکڑی کسی اور شے کے عوض فروخت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔
فرنگی تاجر نے کہا: یہ غلط بات ہے۔ میں نر اور مادہ کھٹمل کہاں سے لاو¿ں۔ دنیا میں کہاں ایسی رسم ہے کہ صندل کی لکڑی کے بدلے میں کھٹمل بطور قیمت مانگے جائیں؟
حاکم نے کہا: میرے خیال میں یہ ایک عجیب بات ہے لیکن درست ہے۔ جو درست نہیں وہ تمھارا معاہدہ ہے جس میں تم نے مکّاری سے کام لیا ہے اور چاہا ہے کہ پردیسی تاجر کا مال سستا خرید لو۔ دنیا میںکہاں ایسی رسم ہے کہ معاملہ کرنے کا معاہدہ تو لکھا جائے مگر اس میں مال کی قیمتِ خرید درج نہ کی جائے اور کہا جائے کہ جو بیچنے والا مانگے۔ اب بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ صندل کی لکڑی بیچنے والے نے اپنے مال کے بیچنے میں غلطی کی اور خریدار نے معاہدہ لکھنے میں اور اس کا نتیجہ یہی ہے۔ یا تو کام کے آغاز ہی سے کام کے آخر اور انجام کو نگاہ میں رکھنا چاہیے یا پھر آخرِکار اپنی حماقت اور بے پروائی کا تاوان دینا چاہیے۔ اب حاکم کا فیصلہ تمھارے معاہدے اور تحریر کے مطابق ہے یا آدھے نر، آدھے مادہ کھٹملوں کی مقررّہ مقدار حاضر کی جائے یا صندل کی لکڑی اُس کے بیچنے والے کو واپس کی جائے۔
فرنگی تاجر بولا: ہم اس معاملے سے صرفِ نظر۱ کرتے ہیں۔
حاکم نے بھی حکم دیا کہ صندل کی لکڑی، بیچنے والے کو واپس کی جائے۔ پردیسی تاجر نے اپنا مال اچھی قیمت پر بیچا اور بڑھیا، اس کے بیٹے اور ذہین نابینا کو بڑے عمدہ تحائف دیے اور خوش خوش اپنے شہر کو لَوٹ گیا۔