آج استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، وائس چانسلر رفاہ یونیورسٹی، کی دعوت پر رفاہ انسٹی ٹیوٹ آف پبلک پالیسی کے زیر اہتمام پالیسی ڈائیلاگ میں اس سوال کے مختلف اطراف پر گفتگو کی جس کا خلاصہ یہ ہے:
1۔ خودکشی کی کوشش پر سزا کے خاتمے کےلیے جس طرح کا استدلال پیش کیا جاتا ہے وہ ایک ایسی ڈھلوان ہے جس پر چلتے ہوئے پھسلنا لازمی ہے اور ایک دفعہ پھسل گئے تو پھر لڑھکنیاں کھاتے ہوئے کہاں تک گریں گے، اس کا اندازہ مشکل نہیں ہے۔
2۔ چنانچہ اگر اس استدلال کو مانتے ہوئے خودکشی کی کوشش کو جرائم کی فہرست سے خارج کیا گیا، تو اگلا قدم یہ ہوگا کہ خودکشی میں معاونت/ترغیب کو بھی جرم نہ کہا جائے۔
3۔ اس مقصد کےلیے بہت سب سے زیادہ مفیدِ مطلب مثال “طبی مدد سے خودکشی” (Medically Assisted Suicide) کی سامنے آئے گی جس کےلیے انسانی ہمدردی کے جذبات ابھارنے والے “دلائل” بڑی آسانی سے فراہم ہوسکتے ہیں۔
4۔ پھر اس کے بعد “ہمدردانہ قتل” (euthanasia) کے جواز کی طرف لڑھکنا کیا مشکل ہوگا؟ چنانچہ ابتدا میں رضامندی پر مبنی ہمدردانہ قتل (voluntary euthanasia) کےلیے استدلال کیا جائے گا کہ جب بندہ تکلیف میں ہے اور اپنی رضامندی سے مرنا چاہتا ہے تو اسے اذیت سے نجات دلانے میں کیا برا ہے؟ پھر بات بغیر رضا کے ہمدردانہ قتل (non-voluntary euthanasia) کی طرف بڑھے گی جس کےلیے استدلال کےلیے بس ایک چھوٹی سی لڑھکنی کی ضرورت ہوگی کہ مقصود تو مریض کو اذیت سے نجات دلانا ہی ہے، خواہ وہ اس وقت خود مرضی دینے کا اہل نہ ہو۔ پھر ایک اور لڑھکنی سے بات مرضی کے خلاف ہمدردانہ قتل (involuntary euthanasia) تک پہنچ جائے گی۔ ابتدا میں بات صرف سلبی پہلو سے ہمدردانہ قتل (passive euthanasia) کی ہوگی کہ مریض اذیت میں ہے اور اسے اذیت سے نجات دلانے کےلیے صرف زندگی بچانے والی ٹریٹمنٹ کو روکنا ہی تو ہے۔ اس کے بعد ایجابی پہلو سے ہمدردانہ قتل (active euthanasia) تک پہنچنا کیا مشکل ہوگا کہ جب ٹریٹمنٹ روکی جاسکتی ہے تو انجکشن لگا کر اذیت کا خاتمہ کیوں نہیں کیا جاسکتا؟
5۔ پھر جب ہمدردانہ قتل کا جواز بھی تسلیم کروالیا جائے، تو اس کے بعد ایک اور لڑھکنی کھا کر “میری زندگی، میری مرضی” کے اصول پر “خودکشی کے حق” کےلیے استدلال سے کیسے بچا سکتا ہے؟
یہاں تک پہنچ کر میں نے مابعد جدیدیت دنیا میں خودکشی کے حق کےلیے استدلال واضح کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ جب زندگی بے معنی ہوگئی ہو، مقاصد عالیہ اور اخلاقی اقدار محض ڈھکوسلے قرار پائے ہوں، زندگی کے آغاز، کائنات میں انسان کی موجودگی اور اس طرح کے دیگر مابعد الطبیعیاتی سوالات کا ہر جواب، بلکہ یہ سارے سوالات ہی لایعنی سمجھے جاتے ہوں، تو ایسے میں خودکشی پر کسی مذہبی یا اخلاقی قدغن کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے؟
پھر میں نے خود کشی پر ڈیود ہیوم کے مضمون سے کچھ اقتباسات پڑھے اور دکھایا کہ ہمارے “سوشل سائنٹسٹس”، ماہرین نفسیات اور ماہرین اخلاقیات آج خودکشی پر جس طرح بحث کررہے ہیں، اس کی جڑیں ڈھائی سو سال قبل ہیوم کے ہاں کیسے ملتی ہیں اور کیسے اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ خودکشی کرنے والا نہ خدا کے خلاف، نہ ہی معاشرے کے خلاف، نہ اپنے خلاف کچھ برا کرتا ہے۔ خدا کو اس کی موت سے کیا فرق پڑنا ہے؟ معاشرے کو وہ اگر کچھ دے نہیں سکتا، تو ریٹائر ہونے، مستعفی ہونے اور خود کو ختم کرنے کے آپشن اس کے پاس کیوں نہ ہوں؟ اور خود کو کوئی کیوں مارنا چاہے گا اگر زندگی جینے کے لائق ہو؟
اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ سب کیوں غلط ہے؟ خدا نے اپنی شریعت کے ذریعے ہمیں بتادیا ہے کہ خودکشی حرام ہے۔ اس لیے ہمارے لیے اس کے جواز پر بحث کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ پھر جب یہ طے پایا کہ یہ حرام ہے، تو حرام کے ارتکاب کی کوشش کو قانون کے ذریعے روکنے کی کوشش کا اختیار بھی حکومت کے پاس ہے، بلکہ اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد کی گئی ہے۔ چنانچہ اس کوشش کو قابلِ سزا جرم کے طور پر قانون میں شامل کیے رکھنا ضروری ہے۔
امام سرخسی نے اسلامی قانون کا یہ قاعدہ ذکر کیا ہے جسے قانون سازی اور پالیسی سازی میں ایک رہنما اصول کے طور پر حکمرانوں کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیے کہ: الامور بعواقبھا (کاموں کے جواز کا انحصار ان کے نتائج پر ہوتا ہے۔) کسی بھی فعل کو فوجداری قانون سے نکالنے سے قبل حکمرانوں کو لازما یہ دیکھنا چاہیے کہ ایسا کرنے سے کیا نتائج سامنے آئیں گے اور کیا وہ نتائج ہمارے لیے قابلِ قبول ہوں گے؟
باقی رہی یہ دلیل کہ خودکشی کرنے والا ذہنی مسائل کا شکار ہوتا ہے، اس کے حالات، اس کی مجبوریاں، اس کے مسائل کی بنا پر وہ ہمدردی کے لائق ہوتا ہے، تو یہ دلیل کسی بھی دوسرے جرم کےلیے گھڑی جاسکتی ہے۔ اگر خودکشی کی کوشش کرنے والا اس ہمدردی کا مستحق ہے، تو ریپ کرنے والا اس ہمدردی سے کیوں محروم ہو؟ آخر اس کے بچپن کے حالات، اس پر گزری ہوئی بپتا، اس پر آئی ہوئی مصیبتیں کیوں ہمیں اس کا قائل نہیں کرتیں کہ اسے سزا کے بجاے محبت کی، پیار کی، علاج کی ضرورت ہے؟ ذہنی مسائل تو اسے بھی ہوتے ہیں؟
بلکہ میں تو ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ ہوسکتا ہےکہ خودکشی صرف ایک ذہنی یا نفسیاتی مسئلہ نہ ہو، بلکہ کوئی ایسا جسمانی مسئلہ ہو جو وراثت میں اسے جینز کے ذریعے منتقل ہوا ہو، لیکن ایسے جینز تو ریپ اور دیگر جرائم کےلیے بھی ہوسکتے ہیں۔ (Genetic Determinism کے نام سے استدلال اب کوئی انوکھی چیز نہیں ہے۔) تو کیا جرم و سزا کے سارے نظام کو لپیٹ لیں؟
ہاں، یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ کسی کو جرم کی سزا صرف اسی وقت دی جاسکتی ہے جب اس نے جرم کا ارتکاب بقائمیِ ہوش و حواس کیا ہو۔ اس لیے اگر یہ ثابت ہوجائے کہ خودکشی کی کوشش کرنے والا ایسی ذہنی حالت میں تھا کہ اس کی سوچنے سمجھنے کی حالت سلب ہوگئی تھی اور وہ وقتی طور پر جنون کے اثر میں آگیا تھا، تو یہ عذر سزا کے خلاف ڈھال بن سکتا ہے۔ اس مقصد کےلیے فوجداری قانون میں پہلے ہی “عمومی اعذار” (General Exceptions) کا باب موجود ہے۔ تاہم عذر ثابت کرنا اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے جو یہ دعوی کرتا ہے کہ جرم کرتے وقت اسے وہ عذر لاحق تھا۔
البتہ یہ امر نگاہوں سے اوجھل نہ رہے کہ فقہاے کرام نے جنون، عتہ (وقتی جنون)، سفہ (بے وقوفی) اور غفلت/لاپروائی کے مختلف مدارج اور احکام ذکر کیے ہیں۔ انھیں باہم مختلط نہیں کرنا چاہیے۔ فوجداری ذمہ داری سے براءت صرف جنون یا وقتی جنون کی صورت میں ہی مل سکتی ہے لیکن اس کا بارِ ثبوت اسی پر ہوگا جو اس عذر کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔
ھذا ما عندی، والعلم عند اللہ۔