دس اگست دو اکیس کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں وزیر تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ اسلامی یونیورسٹی ان کے ماتحت نہیں ہے جیسے دیگر جماعت ہیں۔ وزیر تعلیم کے اس بیان کی اصل حقیقت کیا ہے، ڈاکٹر محمد مشتاق احمد نے اس حکومت اور جامعہ کے قوانین کی روشنی میں جائزہ لے کر بتایا ہے کہ یونیورسٹی حکومت پاکستان کے ململ طور پر ماتحت ہے لیکن بقول ڈاکٹر مشتاق، وچلی گل کچھ اور ہے جسے شفقت محمود زبان پر لانے سے ڈرتے ہیں۔ ذیل میں ڈاکٹر صاحب کا تجزیہ پڑھئے
کیا اسلامی یونیورسٹی حکومتِ پاکستان کے ماتحت نہیں ہے؟
تحریر: ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
کل سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ میں وفاقی وزیرِ تعلیم جناب شفقت محمود نے اس وقت بہت عجیب بات کہی جب ان سے پوچھا گیا کہ اسلامی یونیورسٹی میں اتنا فساد برپا ہوچکا ہے تو اب تک وزارتِ تعلیم نے اس پر کیا ایکشن لیا؟ انھوں نے تذبذب کے ساتھ اور سوچ سوچ کر الفاظ کا محتاط انتخاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی یونیورسٹی دیگر یونیورسٹیوں کی طرح میری وزارت کے ماتحت نہیں ہے۔ اس پر سب کو حیرت ہوئی کہ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے وضاحت کی کوشش کی کہ میں قائدِ اعظم یونیورسٹی کا پرو چانسلر ہوں اور وہاں بہت سارے امور میں ذاتی طور پر مداخلت کرسکتا ہوں لیکن اسلامی یونیورسٹی میں میرا ایسا کوئی کردار نہیں ہے۔ پھر انھیں خود معلوم ہوا کہ بات بنتی نظر نہیں آتی کیونکہ انھوں نے اس کے بعد اعتراف کیا کہ ان کی سیکرٹری، یعنی وفاقی وزارتِ تعلیم کی سیکرٹری، اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کی رکن ہیں! اس کے باوجود انھوں نے کہا کہ اس یونیورسٹی کا نظام تھوڑا مختلف ہے، اس کا صدر سعودی عرب سے ہے، اور بھی کچھ باتیں ہیں، جن کی بنا پر ہم اس پر اس طرح کا کنٹرول نہیں رکھتے جیسے دیگر یونیورسٹیوں پر رکھتے ہیں۔
جناب شفقت محمود کو پورے طور پر “شک کا فائدہ” دیتے ہوئے ہم مان لیتے ہیں کہ وہ نیک نیتی سے ایسا ہی سمجھتے ہیں جیسا کہ انھوں نے سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کو بتایا لیکن یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کچھ اہم حقائق ان کے سامنے لائے جائیں تاکہ وہ اس غلط فہمی سے نکل آئیں اور اپنی ذمہ داریاں سمجھ کر انھیں نبھانے کی طرف توجہ دیں۔
بورڈ آف گونرز: یونیورسٹی کا اعلی فیصلہ ساز ادارہ
پہلی حقیقت تو خود ان کا یہ اعتراف ہے کہ وفاقی وزارتِ تعلیم کی سیکرٹری اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کی رکن ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، وفاقی وزارتِ تعلیم کی سیکرٹری اس یونیورسٹی کے منتظمین میں سے ہیں، اور یہ حقیقت تو یقیناً شفقت محمود صاحب کے علم میں ہوگی کہ ان کی وزارت کی سیکرٹری خود انھی کی ماتحت ہیں!
اب ذرا اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز کے دیگر ارکان پر بھی ایک نظر ڈال لیں تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ اس یونیورسٹی پر حکومتِ پاکستان کا انتظامی کنٹرول کس حد تک ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی آرڈی نینس، 1985ء، کی دفعہ 19 (1) کی رو سے بورڈ آف گورنرز کے ارکان یہ ہیں:
1۔ ریکٹر اس بورڈ کا چیئرمین ہوتا ہے اور وہ حکومتِ پاکستان کے سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے والا ملازم ہے جو براہِ راست صدرِ پاکستان کو جواب دہ ہوتا ہے اور آرڈی نینس کی دفعہ 12 (3) کے تحت جس کی ذمہ داری ہے کہ وہ یونیورسٹی میں پاکستان کے قانون کی تنفیذ یقینی بنائے۔
2۔ صدرِ جامعہ، جو ملکی بھی ہوسکتا ہے (جیسے ڈاکٹر محمود احمد غازی یا ڈاکٹر انوار صدیقی تھے) اور غیر ملکی بھی (جیسے اس وقت ہیں)، لیکن اگر صدرِ جامعہ غیرملکی بھی ہوں، تب بھی ان پر ملکی قانون کا اطلاق لازم ہے اور انھیں کسی ریاست کے سفیر یا سربراہِ ریاست کی طرح ملکی قانون سے استثنا حاصل نہیں ہے۔ مزید یہ کہ موجودہ صدر کو تنخواہ بھی حکومتِ پاکستان سرکاری خزانے سے دیتی ہے۔ (ان کی تنخواہ اور مراعات کی تفصیل الگ سے دوں گا، ان شاء اللہ۔)
3۔ وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس یا ان کے نمائندہ کے طور پر اسی عدالت کے جج۔ اب یہ واضح کرنے کی تو ضرورت ہی نہیں کہ یہ چیف جسٹس یا جج ریاستِ پاکستان کے قانون اور نظام کا حصہ ہیں۔
4۔ سیکرٹری، وزارتِ تعلیم۔ محترمہ فرح حمید خان اس حیثیت سے رکن ہیں اور اس کا علم تو خود جناب شفقت محمود کو بھی ہے۔
5۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن، جسے اب ہائر ایجوکیشن کمیشن کہا جاتا ہے، کے چیئرمین، یا اس کی نمائندگی کےلیے اس کمیشن کے رکن۔ یہ بھی حکومتِ پاکستان کے ملازم ہیں۔
6۔ کسی پاکستانی یونیورسٹی کےوائس چانسلر۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ حکومتِ پاکستان کے ملازم ہی ہوتے ہیں۔ اس وقت لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر بشریٰ مرزا اس سیٹ پر ہیں۔
7، 8 اور 9۔ ریکٹر کی مشاورت سے پرو چانسلر کے تین نمائندے۔ اس حیثیت سے اس وقت پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز (چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل)، ڈاکٹر عامر طاسین اور مولانا سعید یوسف اس وقت رکن ہیں اور ان تینوں کا پاکستانی قانون کا پابند ہونا واضح ہے۔
10، 11 اور 12۔ بورڈ آف ٹرسٹیز کے تین نمائندے۔ یہ سیٹیں کافی عرصے سے خالی ہیں۔
اس کے علاوہ ایک نائب صدر کو سیکرٹری، نہ کہ رکن، کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس وقت (وڈیو فیم) ڈاکٹر جمانی اس سیٹ پر براجمان ہیں اور وہ بھی حکومتِ پاکستان ماتحت اور پاکستان کے قانون کی پابندی پر مجبور ہیں۔
تو خلاصہ یہ ہوا کہ بورڈ آف گورنرز، جو یونیورسٹی کا اعلی پالیسی ساز اور فیصلہ ساز ادارہ ہے، کے 9 میں سے 8 ارکان پاکستانی ہیں اور ان 8 میں سے 7 یا کم از کم 6 ایسے ہیں جو حکومتِ پاکستان کے سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے والے ملازم ہیں۔ مزید یہ کہ جو نویں رکن ہیں، صدرِ جامعہ، وہ اگرچہ سعودی باشندے ہیں لیکن انھیں سفارتی استثنا حاصل نہیں ہے اور وہ بھی تنخواہ حکومتِ پاکستان کے سرکاری خزانے سے لیتے ہیں۔
پھر کیسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی یونیورسٹی دیگر یونیورسٹیوں کی طرح آپ کے ماتحت نہیں ہے؟
بورڈ آف گونرز کے اختیارات
بورڈ آف گورنرز کے پاس وہ اختیارات ہیں جو یونیورسٹی کے ریکٹر یا صدر کے پاس نہیں ہیں۔ ان اختیارات کی تفصیل آرڈی نینس کی دفعہ 21 میں دی گئی ہے۔ ریکٹر یا صدر کےاختیارات (دفعہ 12 اور 13) میں بار بار تصریح کی گئی ہے کہ وہ ان امور پر بورڈ آف گورنرز سے منظوری لیں گے۔ آرڈی نینس کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انتظامی سربراہ کی حیثیت صدر کو حاصل ہے ، ریکٹر کو عمومی نگرانی کی ذمہ داری دی گئی ہے، لیکن اصل فیصلہ ساز ادارہ بورڈ آف گورنرز ہے اور صدر اور ریکٹر دونوں بورڈ کو جواب دہ ہیں اور بورڈ ان کے کسی بھی فیصلے میں ترمیم کرسکتا، بلکہ انھیں منسوخ کرسکتا ہے۔
صدرِ پاکستان کے اختیارات
صدرِ پاکستان اس یونیورسٹی کے چانسلر ہیں اور اس حیثیت سے انھیں بہت وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ ان میں بعض وہ اختیارات بھی ہیں جو جناب شفقت محمود کو قائدِ اعظم یونیورسٹی کے پرو چانسلر کی حیثیت سے حاصل نہیں ہیں! مثلاً آرڈی نینس کی دفعہ 10 کے تحت صدرِ پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ صدرِ جامعہ، ریکٹر، یہاں تک کہ بورڈ آف گورنرز کے کسی فیصلے کو روک کر اس پر اپنی جانب سے کمیٹی بنائے، معائنہ کروائے، ریکارڈ منگوائے، اپنا فیصلہ دے اور ریکٹر اس کا پابند ہوگا کہ وہ فیصلہ نافذ کرے۔ اس دفعہ کی رو سے بورڈ آف گورنرز بھی صدرِ پاکستان کے ماتحت اور اس کو جواب دہ ہے۔
پھر یہی صدرِ پاکستان بورڈ آف ٹرسٹیز کے بھی سربراہ ہیں اور چونکہ اس بورڈ کی میٹنگ پانچ سال میں کہیں جا کر ایک دفعہ ہوتی ہے، تو اس وجہ سے اس بورڈ نے اپنے بہت سے اختیارات (جو آرڈی نینس کی دفعہ 17(7) میں مذکور ہیں) چانسلر، یعنی صدرِ پاکستان، کو تفویض کیے ہوئے ہیں اور وہ اختیارات بھی اب صدرِ پاکستان ہی استعمال کرتے ہیں۔ شاید ہی پاکستان میں کسی اور یونیورسٹی کے سینیٹ نے اپنے اختیارات یوں چانسلر کو تفویض کیے ہوئے ہوں!
سرکاری خزانے سے دی گئی گرانٹ
حکومتِ پاکستان سرکاری خزانے سے، یعنی میرے اور آپ کے ٹیکس سے وصول شدہ رقم سے، ہر سال اسلامی یونیورسٹی کو کروڑوں روپے کی گرانٹ دیتی ہے۔ اس سال وفاقی یونیورسٹیوں میں سب سے زیادہ، یہاں تک کہ قائدِ اعظم یونیورسٹی سے بھی زیادہ، ری کرنگ گرانٹ اسلامی یونیورسٹی کو دی گئی ہے جو 1 ارب 62 کروڑ روپے سے زیادہ ہے! سرکاری خزانے سے اتنی بڑی رقم دینے کے بعد بھی کیسے وفاقی وزیرِ تعلیم اتنے “معصوم بن کر” کہہ سکتے ہیں کہ یہ یونیورسٹی ہمارے ماتحت اس طرح نہیں ہے جیسے دیگر یونیورسٹیاں ہیں؟
اس کے بعد یہ بھی دیکھیے کہ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اس یونیورسٹی کے حسابات کا باقاعدہ احتساب کرتی ہے، یونیورسٹی کا باقاعدہ حکومتی آڈٹ کیا جاتا ہے، تعمیراتی یا کسی بھی پروجیکٹ کےلیے ٹینڈر وغیرہ کے قوانین اور پیپرا کے تمام اصول اور قواعد کی پابندی کی جاتی ہے، عدالتیں یونیورسٹی کے مختلف اقدامات کا قانون کی روشنی میں جائزہ لے کر ان پر فیصلہ کرتی ہیں اور کئی دفعہ یونیورسٹی کے اقدامات کو غیرقانونی قرار دے کر انھیں کالعدم کرچکی ہیں۔ پھر بھی آپ کہتے ہیں کہ یہ یونیورسٹی دیگر یونیورسٹیوں کی طرح ہمارے ماتحت نہیں ہے؟
نہیں، سر! گل وچوں ہور اے!