سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے اجلاس میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں گزشتہ کچھ عرصے سے جاری جرائم، قانون شکنی، خونریزی اور جنسی جرائم کے معاملات پر تفصیل سے غور کیا گیا۔ کمیٹی کی صدارت قائمہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹ عرفان صدیقی نے کی ۔ سینیٹر مشتاق احمد نے تجویز پیش کی کہ یونیورسٹی کے ریکٹر معصوم یٰسین زئی اور نائب صدر نبی بخش جمانی کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا جائے کیونکہ یونیورسٹی ان کی سرپرستی میں جرائم کی آماج گاہ بن گئی ہے اور وہ تحقیقات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی میں جامعہ میں ہونے والے جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذیل میں قائمہ کمیٹی کی آج کی کارروائی کی تفصیلات پیش کی جارہی ہیں (ادارہ)
آج سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی میں کیا ہوا؟
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
سینیٹ آف پاکستان کی سٹینڈنگ کمیٹی براے تعلیم کے آج (10 اگست 2021ء) کے اجلاس کے ایجنڈا پر اسلامی یونیورسٹی کے متعلق دو امور موجود تھے:
ایک 12 دسمبر 2019ء کو طفیل شہید کے قتل کے بارے میں انکوائری رپورٹ؛ اور
دوسرا، 17 جون 2021ء کو ہونے والا ریپ کا واقعہ۔
چونکہ طفیل شہید قتل کی انکوائری کمیٹی میں بھی میں تھا اور ریپ کے متعلق بھی آواز میں نے اٹھائی تھی، بلکہ ان دونوں سنگین جرائم پر قانون کے مطابق کارروائی کرنے کے نتیجے میں ہی تو (بقول آصف محمود بھائی) “بزرگوں” کی طبیعت خراب ہوئی تھی اور وہ غیر قانونی طور پر میری برطرفی کی حد تک چلے گئے تھے، اس لیے میں نے بھی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی صاحب کو درخواست کی کہ مجھے بھی اس میٹنگ میں اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ اس کے بعد میں صبح میٹنگ کےلیے مقررہ مقام پر پہنچ گیا تھا۔
کمیٹی کے ایجنڈا پر دیگر آئٹمز کے بعد جب اسلامی یونیورسٹی کے مسائل کی باری آئی تو سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے، جنھوں نے یہ ایجنڈا آئٹم رکھوایا تھا، تفصیل سے درج ذیل امور پر بات کی:
طفیل شہید کے قتل کی انکوائری رپورٹ اور یونیورسٹی انتظامیہ کا مجرمانہ کردار
انھوں نے طفیل شہید انکوائری کمیٹی کی رپورٹ سے اقتباسات پڑھ کر سنائے اور دکھایا کہ اس کمیٹی کو اختیار دیا گیا تھا کہ یونیورسٹی کے کسی بھی عہدیدار، ملازم یا طالب علم کو طلب کرسکتی ہے لیکن جب کمیٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ ریکٹر سے ملا جائے کیونکہ کھرا ریکٹر کے آفس کی طرف جاتا ہے، تو کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر ضیاء الحق نے انھیں آگاہ کیا صدر جامعہ نے انھیں ریکٹر سے ملنے سے روک لیا ہے۔ چنانچہ کمیٹی ریکٹر کا موقف نہیں لے سکی۔
سینیٹر مشتاق نے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ سے مزید پڑھ کر سنایا کہ ریکٹر کے پرسنل سیکرٹری قوی شاہ نے کمیٹی کے سامنے زبانی بھی اور تحریرا بھی اعتراف کیا کہ انھوں نے طفیل شہید کے قتل کے مرکزی ملزم کی فیسیں بھی اپنی جیب سے ادا کی ہیں۔
انھوں نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا کہ یونیورسٹی نے سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کو صرف 28 صفحات کی رپورٹ دی ہے اور ساتھ میں جو ضمیمے تھے، جن میں متعلقہ دستاویزات اور کمیٹی کے سامنے پیش ہونے والے لوگوں کے بیانات ہیں، وہ ضمیمے نہیں دیے۔ چنانچہ یونیورسٹی کو کہا گیا کہ یہ ضمیمے بھی فراہم کیے جائیں۔
اس کے بعد سینیٹر مشتاق نے طفیل شہید انکوائری رپورٹ سے مزید اقتباسات پڑھے جن سے معلوم ہوا کہ اس قتل اور فساد میں ملوث افراد کے داخلوں سے لے کر ہاسٹل الاٹمنٹ، سکالرشپس، ڈسپلن کمیٹی کے کیسز، فیل ہونے پر خصوصی مداخلت کے ذریعے واپس داخلے کی بحالی، غرض ہر ہر قدم پر ریکٹر کے آفس سے ان کو مدد فراہم کی گئی، یہاں تک کہ جب آئی ایس آئی کی جانب سے ریکٹر کو لکھا گیا کہ یہ لوگ ریاست کے خلاف اقدامات میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف فوجداری کارروائی تو اپنی جگہ ہوگی لیکن ان کے خلاف یونیورسٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر بھی کارروائی کرے، تو ریکٹر نے الٹا ان کے خلاف ڈسپلن کمیٹی کے کیسز ہی ختم کردیے۔
پھر سینیٹر مشتاق نے مزید اقتباسات پڑھ کر سناتے ہوئے سیکیورٹی انچارج اسماعیل بروہی کے بارے میں بتایا کہ اس نے جائے وقوعہ کو خراب کرکے جرم کا ارتکاب کیا اور واقعے میں ملوث بعض مجرموں کو پولیس کی مدد سے فرار کروایا۔ ایسے بندے کے خلاف تو ڈسپلن کی کارروائی کے علاوہ ایف آئی آر بھی ہونی چاہیے تھی لیکن کیا ریکٹر صاحب یہ بتانا پسند کریں گے کہ اسماعیل کو گریڈ 16 سے 17 میں ترقی دے دی گئی ہے؟
ریکٹر نے کہا کہ وہ تو صرف عمومی نگرانی کےلیے ہیں اور انھیں نہیں معلوم کہ کس کو ترقی دی گئی اور کس کو نہیں!
اس پر کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی برہمی کا اظہار کیا اور سینیٹر مشتاق نے بھی کہا کہ آپ ذمہ داری ہی قبول نہیں کررہے تو پھر کس لیے آئے ہیں۔
اس موقع پر سینیٹر عرفان صدیقی نے ریکٹر سے پوچھا کہ یہ انکوائری رپورٹ کب آئی تھی؟ ریکٹر نے کہا کہ پچھلے سال۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے پوچھا کہ ایک سال میں آپ نے اس رپورٹ کی تنفیذ کےلیے کیا اقدامات کیے؟ ریکٹر نے ادھر ادھر کی کہانیاں پیش کرنے کی کوشش کی تو چیئرمین نے انھیں سختی سے ٹوکتے ہوئے کہا کہ صرف یہ بتائیں کہ جن لوگوں کے خلاف انکوائری کمیٹی نے اتنا کچھ لکھا تھا، ان کے خلاف آپ نے کیا کیا؟ ریکٹر نے کہا کہ جن طلبہ کا نام تھا، ان سب کو یونیورسٹی سے نکال لیا گیا، تو سینیٹر مشتاق نے کہا کہ بات طلبہ کی نہیں افسران اور ملازمین کی ہورہی ہے۔ اس پر ریکٹر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
ڈاکٹر نبی بخش جمانی کی ننگی وڈیوز کا مسئلہ
اس کے بعد سینیٹر مشتاق نے یونیورسٹی کے نائب صدر ڈاکٹر نبی بخش جمانی کی ننگی وڈیو کا ذکر کیا اور اس امر پر انتہائی سخت افسوس کا اظہار کیا کہ ایسا شخص اسلامی یونیورسٹی کے نائب صدر کے عہدے پر کیسے براجمان ہوسکتا ہے؟ انھوں نے مزید کہا کہ اس وڈیو کی فارنسک رپورٹ کے مطابق یہ وڈیو جینوئن ہے اور فیک نہیں ہے۔ مزید یہ کہ خود ڈاکٹر جمانی ایف آئی کے سامنے اپنےبیان میں مان چکے ہیں کہ یہ انھی کی وڈیو ہے اور اس کے علاوہ بھی کئی وڈیوز ہیں۔ پھر جب یونیورسٹی کے اساتذہ کے صدر کی جانب سے اس معاملے پر انکوائری کےلیے یونیورسٹی کے صدر کو خط لکھا گیا اور اس پر عمل درآمد نہیں ہوا تو ڈاکٹر مشتاق نے بھی خط لکھا اور اس کے نتیجے میں ڈاکٹر مشتاق کو ایک بے بنیاد الزام پر قطعی غیر قانونی طریقے سے برطرف کردیا گیا۔ ریکٹر کے پاس یہاں بھی بولنے کو کچھ نہیں تھا!
اس موقع پر کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نےکہا کہ ڈاکٹر مشتاق کی درخواست ہمارے پاس آچکی ہے اور ان کو ہم اگلی میٹنگ میں تفصیل سے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیں گے، ان شاء اللہ۔
لڑکے کے ریپ کا مسئلہ
پھر سینیٹر مشتاق نے ریپ والے مسئلے پر بات کی اور ایک دفعہ پھر یونیورسٹی کی انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا کہ اس نے نہ صرف یہ کہ حقائق چھپانے کی کوشش کی بلکہ ریپ کے شکار لڑکے کی خفیہ وڈیو بنا کر اسے وائرل بھی کردیا جو بذاتِ خود ایک جرم ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اس واقعے میں ہاسٹل انتظامیہ اور پرووسٹ ملوث ہے کیونکہ جو کمرہ ان لڑکوں کو دیا گیا تھا وہ صرف وارڈن کے پاس ہی ہوسکتا ہے اور جس شخص کو وارڈن کے طور پر رکھا گیا وہ پہلے بھی ایک دفعہ برطرف کیا گیا تھا اور پھر اسے نوکری دی گئی، پھر اسے وارڈن کے طور پر ہاسٹل میں پورا اختیار دیا گیا، پھر اس کے بھائی اور اس کے دوست اس کام میں ملوث پائے گئے۔ انھوں نے اس پر حیرت اور افسوس کا اظہار کیا کہ اتنا کچھ ہوچکنے کے بعد بھی ابھی تک یونیورسٹی نے پرووسٹ اور سیکیورٹی والوں کے خلاف کچھ نہیں کیا، بلکہ ان کو بچانے کی کوشش کررہی ہے! انھوں نے خصوصاً اس بات پر بھی سخت تنقید کی کہ اس واقعے کی ایف آئی آر پانچ دن کی تاخیر سے کی گئی اور وہ بھی تب جب اس معاملے پر سوشل میڈیا پر شور اٹھا۔ انھوں نے بتایا کہ اس طرح کے کیس میں ایف آئی آر میں تاخیر کا فائدہ مجرموں کو ہی ہوتا ہے۔ مزید انھوں نے کہا کہ متاثرہ لڑکے کا میڈیکل بھی نہیں کیا گیا اور ایک سادہ کاغذ پر اس سے دستخط لے کر بعد میں اس پر لکھا گیا کہ میں میڈیکل بھی نہیں کرانا چاہتا اور مجرموں کے خلاف کارروائی بھی نہیں چاہتا۔ انھوں نے واضح کیا کہ یہ سارے کام جرائم ہیں لیکن یونیورسٹی نے ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کچھ نہیں کیا، بلکہ الٹا اس کے خلاف بولنے والوں کو غیرقانونی طور پر برطرف کیا۔
یونیورسٹی کیا کرے؟
کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا تجویز کرتے ہیں کہ یونیورسٹی کیا کرے؟ سینیٹر مشتاق نے کہا کہ میری ایک تجویز یہ ہے کہ طفیل شہید کے قتل کے معاملے میں جو کچھ معلوم کرنا تھا وہ انکوائری کمیٹی معلوم کرچکی ہے، اب صرف یہ دیکھنا ہے کہ اب تک اس انکوائری رپورٹ پر عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ اس بات سے عرفان صدیقی اور دیگر سینیٹرز نے بھی اتفاق کیا کہ فوکس اس بات پر ہونا چاہیے کہ اس انکوائری رپورٹ پر ابھی تک عمل درآمد کیوں نہیں ہوسکا؟ سینیٹر مشتاق نے کہا کہ ہم اس مقصد کےلیے ایک سب کمیٹی تشکیل دیتے ہیں جو اس بات کا اور اسی طرح ڈاکٹر جمانی کی وڈیو، ریپ کے واقعے اور ڈاکٹر مشتاق کی برطرفی کا جائزہ لے اور پھر ہمیں رپورٹ کرے کہ ان معاملات میں کیا کچھ غلط ہوا ہے اور ان کےلیے کون ذمہ دار ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب تک ان امور کا فیصلہ نہیں ہوجاتا، ریکٹر، ڈاکٹر جمانی، پرووسٹ اور سیکیورٹی انچارج کو ان کے عہدوں سے ہٹادیا جائے کیونکہ یہ تحقیق اور تفتیش کے عمل پر اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی تجویز دی کہ یونیورسٹی ڈاکٹر مشتاق کی غیرقانونی برطرفی کا نوٹی فیکیشن واپس لے کر ان کو انکوائری کمیٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع فراہم کرے۔
سب کمیٹی کی تشکیل
اس موقع پر وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود نے کہا کہ کمیٹی کے پاس یہ اختیار تو ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو طلب کرسکتی ہے اور ریکارڈ بھی منگواسکتی ہے لیکن وہ یونیورسٹی کو براہِ راست حکم نہیں دے سکتی بلکہ اسے اپنی سفارشات سینیٹ میں پیش کرنی ہوں گی اور پھر سینیٹ مناسب حکم جاری کرسکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ چونکہ اس معاملے پر پہلے ہی قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی نے ایک سب کمیٹی تشکیل دی ہوئی ہے، اس لیے کسی نئی کمیٹی کی تشکیل کی ضرورت نہیں ہے۔ سینیٹر مشتاق نے اصرار کیا کہ ہمیں اپنی کمیٹی بنانی چاہیے۔ سینیٹر اعجاز چودھری نے کہا کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم دونوں ایوانوں کی مشترکہ کمیٹی بنائیں۔ اس بات پر مختصر بحث ہوئی لیکن پھر شفقت محمود نے کہا کہ انھیں ایڈیشنل سیکرٹری نے بتایا ہے کہ قومی اسمبلی کی کمیٹی سرکاری ملازمین کے امور پر ہے، نہ کہ یونیورسٹیوں کے مسائل پر۔ وزارتِ قانون کے نمائندہ نے کہا کہ قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی نے جو سب کمیٹی بنائی ہے اس میں اسلامی یونیورسٹی میں ہونے والے ریپ کے واقعے پر بات ہورہی ہے۔ سینیٹر مشتاق نے پھر تجویز کیا کہ ہم اپنی کمیٹی بناتے ہیں۔ اس بار چیئرمین اور دیگر ارکان نے بھی تائید کی اور طے پایا کہ سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی اپنے تین ارکان پر مشتمل ایک سب کمیٹی بنائے گی جو درج ذیل چار امور کا جائزہ لے کر اپنی رپورٹ سٹینڈنگ کمیٹی کو پیش کرے گی:
ایک یہ کہ طفیل شہید کے قتل کی انکوائری رپورٹ پر اب تک عمل درآمد کیوں نہیں ہوسکا؟
دوسرا یہ کہ ڈاکٹر جمانی کی وڈیو ز کی حقیقت کیا ہے اور اس پر کیا کارروائی کی جائے؟
تیسرا یہ کہ ریپ والے واقعے کےلیے یونیورسٹی کی انتظامیہ میں کون ذمہ دار ہیں؟ اور
چوتھا یہ کہ ڈاکٹر مشتاق کی غیرقانونی برطرفی کیوں کی گئی اور اس کےلیے ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
اس موقع پر سینیٹر رخسانہ زبیری نے بھی بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ جب پچھلی دفعہ اس سٹینڈنگ کمیٹی کی میٹنگ ہوئی تھی تو اس کے اختتام پر ہم نے یونیورسٹی سے یہ طفیل شہید انکوائری والی رپورٹ منگوائی تھی اور جب میں نے وہ رپورٹ پڑھی تو معلوم ہوا کہ اس میں بہت ہی سنگین امور کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انھوں نے بھی اس بات پر زور دیا کہ اس رپورٹ پر عمل درآمد نہ ہوسکنے کی وجوہات معلوم کرکے اس کے ذمہ داران کا تعین کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر مشتاق کو سنا جائے گا۔
آخر میں چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ وہ جلد ہی تین رکنی کمیٹی تشکیل دیں گے ۔ جب سینیٹر مشتاق نے پھر مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر مشتاق کی غیرقانونی برطرفی کا نوٹی فیکیشن واپس لیا جائے تو سینیٹر عرفان صدیقی نے پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ ڈاکٹر مشتاق کو اگلی میٹنگ میں بلائیں گے، اور ان کا معاملہ باقاعدہ ایجنڈا آئٹم کے طور پر ہوگا اور ان کو اپنا موقف پیش کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا جائے گا۔
اگلی میٹنگ کےلیے پہلے تو 17 کی تاریخ چنی گئی لیکن شفقت محمود نے کہا کہ وہ اس دن کابینہ کی میٹنگ میں ہوں گے، تو پھر 18 یا 19 کی بات کی گئی لیکن معلوم ہوا کہ ان دنوں تو محرم کی چھٹیاں ہوں گی۔ اس لیے طے پایا کہ محرم کی چھٹیوں کے بعد اگست میں ہی اگلی میٹنگ کریں گے، ان شاء اللہ۔
میٹنگ کے اختتام پر میں نے چیئرمین سینیٹر عرفان صدیقی کا شکریہ ادا کیا تو انھوں نے پھر مجھے کہا کہ آپ کو ہم اگلی دفعہ تفصیل سے سنیں گے۔ میں نے کہا کہ میری ایک گزارش ہے۔ انھوں نے پوچھا: کیا؟ تو میں نے عرض کیا کہ جیسے مجھے بغیر سنے سزا دی گئی ہے، میری درخواست یہ ہے کہ ریکٹر کو سنے بغیر فیصلہ نہ کریں، بلکہ ان کو بھی بلائیں، انھیں میرے بارے میں سب کچھ کہنے کا موقع دیں، پھر مجھے سنیں، اس کے بعد فیصلہ کریں۔ انھوں نے داد بھی دی اور یقین بھی دلایا کہ حق و انصاف کےلیے وہ ہر ممکن کوشش کریں گے، ان شاء اللہ۔
یہ رہی آج کی کارروائی۔ اب اگلے مرحلے کی تیاری پکڑیں۔
پس نوشت:
اور ہاں، کوئی کہہ رہا تھا کہ ریکٹر کے چیلے چانٹے آج بتارہے تھے کہ کمیٹی میں تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ میں نے کہا: جی ہاں، بے عزتی اتنی ہی ہوتی ہے، جتنی بندہ محسوس کرتا ہے!