مسجد نبوی کے پہلو میں بازار کی نکڑپہ ہی “صراف” یعنی منی ایکسچینجر کا بوتھ تھا۔ میں نے اسے بھنانے کی غرض سے دو سو ڈالردیے تھے۔ اس نے مجھے ان کے عوض سات سو چھیالیس ریال دے دیے تھے۔ رسید وسید دینے کا تردد نہیں کیا تھا۔ اس کے سامنے ہی بازارکے برآمدے میں ایک عرب نژاد زمین پہ ایک صندوقچی رکھے بیٹھا تھا، جس میں مختلف کمپنیوں کے ٹیلیفون کارڈ تھے۔ میں نے اس سے اردو میں ہی پوچھا تھا کہ پاکستان اورروس کے لیے کون سی کمپنی کی سم بہتررہے گی۔ تمام عربوں کی طرح اردو سمجھ لیتا تھا لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ بہر حال کمپنی “موبیلی” کی سم نکال کردکھائی اور کہا “بہتر”۔ پچاس ریال کی سم خریدنے پہ بیلنس میں اڑتیس ریال جمع ہوتے تھے۔ دے دو بھائی اورڈال بھی دو۔ آدمی دلچسپ تھا، میں نے اسے سو ریال کا نوٹ دیا تھا جو اس نے جیب میں ڈال لیا تھا اوربڑے انہماک سے میرے فون میں سم ڈالنے لگا تھا۔ سم ڈالنے کے بعد بولا “فلوس” لیکن چہرے پہ مذاق کرنے کی مسکراہٹ کا نقطہ جما ہوا رہ گیا تھا۔ میں نے کہا “استاد! ہم پاکستانی تم عربوں کے بھی استاد ہیں، مسخرے مت بنو باقی کے پچاس ریال نکالو”۔ وہ ہنس دیا تھا اورباقی پیسے دے دیے تھے۔
اب ہم نے بلکہ میں نے راہ چلتے لوگوں اوردوکانوں کے باہر کھڑے سیلزمینوں سے پاکستانی ریستوران کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا تھا۔ نزدیک کسی ایسے ریستوران کی شنید نہیں تھی۔ کسی نے ہمیں ایک راستے پہ ڈال دیا تھا۔ پل کے نیچے سے گذرکر سڑک کے دوسری طرف جانا تھا۔ پھرایک مزدور نما شخص سے پوچھا تو اس نے عمارت کے کونے سے اندرجانے کو کہا۔ آگے بڑھے توکئی دکانوں کے بعد ایک ڈھابا ٹائپ تھا اور ایک پنجابی جٹ باہرجھاڑو لگا رہا تھا۔ پوچھا “بھائی کیا پکا ہے؟” “دال ہے، چھولے ہیں اورسادہ گوشت بھی ہے” اس نے جھاڑو لگاتے ہوئے زمین سے نظریں اٹھائے بغیر جواب دیا تھا۔ “مرچیں نہیں” جمشید نے اپنی گلابی اردومیں دریافت کیا تھا۔ “مرچیں تو ہیں” جٹ نے سیدھا ہو کرکہا تھا۔ سامنے سے ہمارے گروپ کا ایک فرد مظفرازبک آ رہا تھا، جس نے صافی کو بتایا تھا کہ آگے جا کرترک ریستوران ہے وہاں “جگر” بہت اچھا بنا ہوا ہے۔ گوشت کا رسیا افغان جگرکھانے کے درپے ہوگیا تھا۔ مجھے بھی کھانے کے لیے یہ ڈھابا کوئی مناسب جگہ نہیں لگی تھی اس لیے آگے بڑھنے لگے تومظفر نے پوچھا کہ کیا آپ لوگ احرام خرید چکے ہیں؟ جمشید تو احرام افغانستان سے منگوا کرہی ساتھ لائے تھے البتہ مجھے خریدنا تھا۔ مظفرنے کہا یہ سامنے ایک ازبک کی دکان ہے ، آؤ لے کردیتا ہوں اورہمیں ازبک لڑکے کے حوالے کرکے آگے نکل گیا تھا۔ میں نے پینتیس ریال کا احرام اوردس دس ریال کے چارمدینہ کے بنے ہوئے جائے نماز لے لیے تھے۔ ابھی ترک ریستوران نہیں پہنچے تھے کہ صافی کو ایک کابلی نان بائی کا تنور دکھائی دے گیا تھا۔ شاید ان کا تاستلجیا ان پرقابو پا چکا تھا، وہ تنور والے سے “تڑا ماشے” کرکے محو گفتگو ہو گئے تھے اورمیں ترک ریستوران میں چلا گیا تھا جوریستوران کم، ایک فاسٹ فوڈ جوائینٹ زیادہ تھا۔ معاملہ ‘زبان یار من ترکی‘ کا تھا۔ صافی بھی پہنچ گئے تھے۔ کھانوں کی تصویریں دیکھ کر پوچھتا رہا “وٹ، کیا، چہ” لیکن کچھ پتہ نہ چلا۔ بہر حال ایک جگر اور ایک گوشت کی فرمائش کردی۔ صافی نے اشارے سے کہا کہ وہ نان خود لائیں گے۔ جوائینٹ سے آگے ایک چبوترے پرکرسیاں میزیں دھری تھیں۔ ہم آخری والی میز کے گرد بیٹھ گئے تھے۔ صافی جا کرایک آدھ نہیں بلکہ تین نان لے آئے تھے۔ جگراورگوشت کی تھالیاں بھی آ گئی تھیں۔ میں نے جگرمیں موجود کولیسٹرول سے بچنے کی خاطرگوشت کی خواہش کی تھی لیکن گوشت پھیکا تھا اورجگرواقعی خوش مزہ۔ یوں ایک نان اورجگر کھا کرہی ہم سیرہوگئے تھے ۔ لیکن جب میں نے گردن گھما کراپنے پیچھے جبوترے کے نیچے نگاہ ڈالی تووہاں ڈرم نما کوڑا ڈالنے کا برتن تھا، یعنی ہم گند کے اوپر بیٹھے ہوئے کھانا کھا رہے تھے ۔ میں نے جمشید کی ناگواری کے باوجود گوشت پیک کروا لیا تھا۔ جب ہم ریستوران میں پہنچے تھے اور کھانے کے بارے میں پوچھ رہے تھے تو وہاں فوج کی یا محافظ کی وردی پہنے ہوئے ایک شخص موجود تھا جو ہنس ہنس کرکچھ کہہ رہا تھا۔ بعد میں بھی وہ کھانا کھانے کے چبوترے کے شروع کی میز کے پاس رکھی کرسی پہ بیٹھ کرکھانا کھاتے ہنستے ہوئے ہمیں کچھ کہتا رہا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ وہ کوئی پنجابی جوان ہے جو مذاقا” عربی بول رہا ہے۔ میں بھی اسے پنچابی میں کہتا رہا ،” تو ہیں تے پنجابی، اینج ای بن رہیا ایں”۔ لیکن وہ بیچارا پنجابی نہیں تھا بلکہ مشابہ تھا۔
واپسی پہ میں نے صافی سے پوچھا تھا کہ کیا سارے عرصے کے لیے ایک احرام کافی رہے گا تو ان کا جواب تھا کہ دو تو ہونے چاہییں۔ صافی ایک اوردکان سے جائے نمازلینے کے لیے رکے تو میں نے ایک اوراحرام خرید لیا تھا۔ دکان پہ کام کرنے والا ادھیڑعمر شخص گورکھپور ہندوستان سے تھا۔ میں نے پیک کیا ہوا گوشت کھانے کے لیے اسے دے دیا تھا۔ ہم ہوٹل واپس آ گئے تھے۔ ابھی صرف ساڑھے گیارہ بجے تھے لیکن نیند کا نام و نشان نہیں تھا۔ تھوڑی دیراستراحت کی تھی پھرظہر کی نماز پڑھنے مسجد نبوی چلے گئے تھے۔
چلچلاتی دھوپ کی سختی کا احساس مسجد نبوی تک ہی ہوتا تھا لیکن مسجد نبوی کے اندر پہنچ کرایرکنڈیشنرز کی وجہ سے اس قدر برودت ہوتی تھی کہ بعض اوقات تو اچھی خاصی خنکی محسوس ہونے لگتی تھی۔ بالخصوص وہ حصہ جو روضہ اقدس کے آگے ہے وہاں اگرچہ دونوں جانب کے بلند دروازے ہمہ وقت کھلے رہتے ہیں لیکن پھر بھی اولیں تین صفوں میں عام کپڑوں میں ٹھنڈ لگتی تھی۔ ظہرکی نمازپڑھنے کے بعد ہوٹل لوٹ آئے تھے۔ شاید یہ ایک ہی بار تھا کہ میں اورجمشید اکٹھے لوٹے تھے کیونکہ اس کے بعد ہم اکثر بچھڑ جاتے تھے جس کی ایک بڑی وجہ جمشید کی حرص عبادت تھی۔ وہ عبادت کے شوق میں ہمرہی کا بھی خیال نہیں کر تے تھے اورلمبے لمبے ڈگ بھرتے آگے نکل جایا کرتے تھے ۔
پھرعصرکی نماز پڑھنے گئے تھے اورمغرب تک مسجد نبوی کے باہرگھومتے رہے تھے لیکن علیحدہ علیحدہ۔ مسجد کے باہرخوانچہ نما دکانوں میں عبادت اورعقیدت سے وابستہ اشیاء بشمول تسبیحوں، ٹوپیوں، رومالوں، کھجوروں، مسواکوں اورچپلوں کی فروخت کا بازارگرم تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ معمول کی بات تھی مگرایک تکلیف دہ چیزجو میں نے اپنے تمام اسفارمیں پہلی باریہیں دیکھی تھی کہ برقعہ پوش سیاہ فام عورتیں جو نہ جانے دیہات کے غرباء میں سے تھیں یا ان کا تعلق غیر قانونی تارکین وطن کے ساتھ تھا، ہاتھ سے کھینچی جانے والی ریڑھیوں میں اشیاء رکھ کرکے بیچ رہی تھیں۔ روس کی اوپن اورکلوزڈ مارکیٹوں میں بھی جارجیا کی عورتیں چائے اورفواکہات ایسی ٹرالیوں میں رکھ کربیچتی ہیں جیسی پرطیارے میں ایرہوسٹسیں ڈیوٹی فری اشیاء رکھ کرمسافروں کو خریدنے کے لیے پیش کرتی ہیں لیکن ان مستورات کی ریڑھیاں بہت ہی دیسی قسم کی تھیں۔ اتنے خوشحال ملک میں عورتوں کو یوں خوار ہوتے دیکھنا اذیت دہ تھا۔
مغرب کی نماز کے بعد میں اور جمشید صافی کھانا کھانے کی غرض سے صبح جس طرف گئے تھے اسی جانب نکل گئے تھے. وہاں ہمیں ایک مناسب پاکستانی ریستوران نظر آ گیا تھا، جہاں ہم نے چکنائی میں ترسالن اور تندورسے اتری ہوئی گرم گرم روٹیاں کھائی تھیں۔ پھرعشاء کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد نبوی جا پہنچے تھے۔ حریص عبادت جمشید کی آج کی خواہش مسجد نبوی کی صف اوّل میں نماز پڑھنا تھی۔ میں نے کسی طرح وہاں جگہ بنا لی تھی اورپھرصافی کو بھی اشارے سے بلا لیا تھا، دونوں کے لیے جگہ بن گئی تھی۔ ایک بوڑھا، ٹھگنا شخص ہمارے نزدیک اپنا رومال رکھ کرشیلفوں میں لگے قرآنی نسخوں کو ترتیب دیتا پھررہا تھا۔ ایک فلسطینی اس کے رومال کو تھوڑا سا سرکا کروہاں بیٹھ گیا۔ پھرکیا تھا، موصوف آئے اور اردو میں اسے بری طرح ڈانٹنے لگے کہ جب رومال پڑا ہوا تھا تو تم یہاں بیٹھے کیوں۔ فلسطینی اسے صبر کرنے کو کہہ رہا تھا لیکن اس کو اگرسمجھ آ بھی رہی تھی تو وہ اس کی نہیں سن رہا تھا۔ مجھے دخل درمعقولات کرنی پڑی تھی اور میں نے ان صاحب کو جو پختون خواہ کے کسی چھوٹے شہر سے تھے بالآخر رام کرلیا تھا۔ یہ صاحب کسی زمانے میں پرائمری سکول ٹیچر تھے۔ ان کے بیٹے مکہ اور ملتان کے دینی مدارس میں پڑھا رہے تھے۔ یہ گذشتہ آٹھ سال سے مدینے میں ہیں۔ اپنے طورپرمسجد نبوی میں دھرے قرآن کے نسخوں کو ترتیب سے رکھتے رہتے ییں۔ مقامی عرب اور پاکستانی ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ ان کا زیادہ وقت مسجد نبوی میں گذرتا ہے اور کھانے مختلف پاکستانی ‘ہوٹلوں‘ پہ بندھے ہوئے ہیں۔ موصوف کے مزاج سے البتہ پرائمری سکول کی استادی نہیں گئی تھی۔ سبھوں کو ڈانٹنا اپنا فرض سمجھتے تھے لیکن بہرحال تھے دلچسپ آدمی اورخیرسے بزلہ سنج بھی ۔ کہنے لگے نماز کے دوران آدمی سب کچھ کر لے، چاہے تو آنکھیں بھی بند کر لے لیکن اللہ سے اپنا چہرہ تو نہ چھپائے۔ میں نے پوچھا خانصاحب، وہ کون ہے جو اللہ سے اپنا چہرہ چھپاتا ہے۔ بولے جیسے اس نے کیا ہوا ہے۔ ایک انڈونیشیائی نے میڈیکل ماسک باندھا ہوا تھا۔ انڈونیشیا سے آنے والے سب کے سب ماسک باندھ کر آئے تھے۔ لگتا تھا کہ وہیں سے کوئی وائرس لے کر نکلے تھے۔ نماز کے دوران نمازیوں کی تین چوتھائی تعداد کھانس رہی ہوتی تھی۔ کچھ تربیت کا فقدان، کچھ عبادت کا پاس، کھانستے ہوئے منہ پہ کوئی ہاتھ نہ رکھتا تھا یوں یہ مرض تیزی سے پھیل رہی تھی۔ میں فلو سے بہت جلدی متاثر ہوتا ہوں۔ مجھے یقین تھا کہ میرا کام ہو گیا ہے۔ ویسے بھی جانے سے پہلے ہماری کوئی ویکسینیشن نہیں ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں بہت ٹھنڈی مسجد نبوی سے براہ راست خاصے گرم صحن میں نکل آتے تھے۔ وائرس اوردرجہ حرارت کی فوری اورمسلسل تبدیلیوں کی وجہ سے عشاء کے بعد مجھے نزلہ ہو چکا تھا اوربدن ٹوٹنے لگا تھا۔ میں کمرے میں آ کر آنکھوں پہ پٹی باندھ کر لیٹ گیا تھا۔ اب میرے نخرے بھلا کون برداشت کرتا۔ میں مکمل اندھیرے اورخاموشی کے بغیرسونہیں سکتا لیکن اس رات گذشتہ رات کے رت جگے کی وجہ سے میں انٹا غفیل ہو گیا تھا۔ صبح انکل داؤد نے نمازفجرکے لیے اٹھایا تھا اورمیں وضو کرکے ان کے ہمراہ مسجد نبوی چلا گیا تھا۔ وہاں اتفاقا” جمشید سے ملاقات ہو گئی تھی۔ مجھ سے بڑے خفا تھے کہ تم رات بھرخراٹے لیتے رہے ہو۔ میں سو نہیں سکا اوررات دو بجے ہی مسجد نبوی میں آ گیا تھا۔ میں نے معذرت کی تھی اور بتایا تھا کہ میں مریض ہوں۔ نماز کے بعد میں نے انہیں اورانکل داؤد کو ناشتہ کرنے کی تجویز دی تھی۔ انکل تو واپس چلے گئے تھے لیکن جمشید میرے ساتھ اسی ہوٹل پہنچا تھا جہاں ہم نے رات کا کھانا کھایا تھا۔ وہاں گرم گرم پراٹھے تلے جا رہے تھے۔ میں نے سبزی کے ساتھ پراٹھا مانگا تھا لیکن جمشید نے چائے کے ساتھ پراٹھے کھائے تھے اور بتایا تھا کہ کابل میں ان کے میڈیسن کے پروفیسر کا کہنا تھا کہ افغانیوں کی بڑی آنت فی الواقعی دوسرے انسانوں سے کم از کم ایک فٹ بڑی ہوتی ہے اس لیے وہ دوسروں کی نسبت دوگنی روٹیاں کھاتے ہیں۔ مجھے یہ بات مذاق لگی تھی لیکن وہ اس کی صداقت پہ مصر تھا۔
مدینہ میں کاروبارحیات نمازفجر کے بعد ہی شروع ہوجاتا ہے۔ اب تو ویسے بھی دن روشن ہو چکا تھا۔ جمشید ایک بار پھرخریداری کے چکر میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مکے میں چیزیں مہنگی ہوتی ہیں، بہتر ہے یہیں سے لے لی جائیں۔ میں کسی قسم کی خریداری نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ حج کوئی شاپنگ ٹورنہیں جیسے لوگوں نے سمجھ لیا ہوا ہے۔ بہر حال صافی نے کوئی دس کلو کھجوریں خرید لی تھیں۔ ہم ہوٹل میں واپس آ گئے تھے۔ میری طبیعت اچھی نہیں تھی۔ لگتا تھا جیسے بخار ہو گیا تھا ۔ پہلے روس فون کیا تھا لیکن معلوم ہوا کہ بہت مہنگا ہے پھرپاکستان فون کیا تھا جو بہت سستا تھا اس لیے اپنی پریشانی اورتاثّرات میں پاکستان میں اپنے بچوں کی ماں اوراچھی دوست ڈاکٹر میمونہ کو فون کرکے بانٹتا رہتا تھا۔ طبیعت کی کسالت کے باوجود میں باقی نمازیں پڑھنے مسجد نبوی بی گیا تھا۔ ظہر کی نماز کے بعد جب میں مسجد کے احاطے سے نکل کر بغلی راستہ عبور کرکے سڑک پہ نکلا تو ایک منظر دیکھ کرطبیعت اوبھ گئی تھی۔ وہی بیچاری عورتیں جو چلچلاتی دھوپ میں ریڑھیاں کھینچ کرمشقت کرتی ہیں ان کی ریڑھیاں نارنجی وردیوں میں ملبوس میونسپل کمیٹی کے بنگلہ دیشی و ہندوستانی اہلکار اٹھا اٹھا کرٹرک میں ڈال رہے تھے۔ ایک سعودی عمّال ہاتھ میں واکی ٹاکی پکڑے ہوئے ان پربری طرح برس رہا تھا۔ جو بیچاریاں ریڑھیاں کھینچتے ہوئے بھاگ کراپنا سامان بچانے کی کوشش کررہی تھیں، سعودی شکرا چیخ کر ماتحتوں کو حکم دیتا ہے کہ دوڑو اوراس کا مال ضبط کرو۔ میری طرح دو ایک اورعازمین جب یہ اذیت ناک تماشا دیکھ کررکے تو وہ عمّال ہم پہ بھی برسنے لگا۔ اس کی معاونت کرنے والے پولیس اہلکار نے “یاحجّی، یاللہ” کہہ کے ہمیں دھتکارکرآنکھیں چرا کر نکل جانے کو کہا تھا۔ اوہ میرے خدا، غریب تیرے نبی کے شہر میں بھی اسی طرح پریشان ہے جس طرح کسی بے برکت شہرمیں۔
طبیعت ویسے ہی خراب تھی۔ برقعہ پوش مسلمان محنت کش خواتین کے ساتھ اسلامی فلاحی ریاست کے اہلکاروں کے اس غیرانسانی رویے کودیکھ کرکسلمندی میں اضافہ ہو چکا تھا۔ ہوٹل میں آ کربستر پہ درازہوگیا تھا، آنکھوں پہ اپنی پسندیدہ سیاہ پٹی باندھ لی تھی۔ سوچتے سوچتے آنکھ لگ گئی تھی۔ انکل داؤد نے بیدارکیا تھا کہ نمازعصر کا وقت ہورہا ہے۔ وضو کیا اورسوئے مسجد چل پڑے تھے۔ حدت کم ہوتی ہوئی دھوپ میں بے چینی کی بجائے سکون مل رہا تھا خاص طورپہ مسجد نبوی کے طویل احاطے کوعبورکرتے ہوئے دل کررہا تھا کہ دھوپ میں ہی کھڑا رہوں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بخار بھی ہو رہا تھا۔ میں نے اورجمشید صافی نے طے کیا تھا کہ عصر کے بعد جنت البقیع جائیں گے۔ جنت البقیع نام کا یہ قبرستان مسجد نبوی کے اس پارتھا۔ نماز ظہرکے بعد واپسی سے پہلے میں اس کے کنارے تک گیا لیکن معلوم ہوا کہ اسے لوگوں کے لیے عصرکے بعد کھولا جاتا ہے۔ جنت البقیع کی اہمیت اپنی جگہ لیکن مجھے وہاں اس لیے بھی جانا تھا کہ میرے ایک بھتیجے کی اہلیہ نے مجھ سے درخواست کی تھی کہ وہاں جا کرحضرت فاطمۃالزہرا رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کا سلام پہنچا دوں۔
یوں میں اورجمشید طے کردہ مقام پرملے تھے اورجا کرجنت البقیع میں داخل ہوگئے تھے۔ یہ ایک وسیع وعریض میدان تھا جس کے بیچ میں سیمنٹ سے گذرگاہیں بنی ہوئی تھیں۔ زمین کے مختلف سپاٹ قطعات میں بے نام پتھردھرے تھے جو قبروں کی نشاندہی کرتے تھے۔ کچھ معلوم نہیں تھا کہ صحابہ کرام یا تابعین عظام کی قبریں کہاں تھیں۔ کچھ قبریں پرانی تھیں، ان کے پاس سعودی دینی مدرسے کے طلباء یہ کہنے کے لیے کھڑے تھے کہ کسی کو بھی معلوم نہیں کہ یہ قبرکس کی ہے لیکن چونکہ پرانی قبر ہے اس لیے بہت پہلے کے کسی شخص کی ہوگی۔ میں نے ایک ہی جگہ کھڑے ہوکرسب کے لیے بشمول صحابہ کرام واہلبیت کے لیے فاتحہ پڑھ دی تھی اورتھوڑی سی بلند آوازمیں بی بی فاطمہ کو شبنم کا سلام پہنچا دیا تھا۔
سعودی حکام نے یہ خوب کیا ہوا ہے ورنہ لاکھوں عقیدت مند مسلمان نہ جانے کہاں کہاں دھجیاں نہ باندھ دیتے، نامے نہ آڑس دیتے، دانے نہ بکھیردیتے اوربس چلتا تو دھمال ڈالنے سے بھی باز نہ آتے۔ ان حرکتوں کا ایک نمونہ مجھے اگلے روز فجر کی نماز سے پہلے دکھائی دیا تھا۔ جنت البقیع کو چند سالوں کے بعد تازہ کردیا جاتا ہے اوراس میں نئے لوگ دفن ہوتے رہتے ہیں۔
کھانا کھانے وہیں گئے تھے۔ میں نے تو پاکستانی کھانا کھا لیا تھا لیکن جمشید مزید “مرچین” کھانے سے انکاری تھے۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ “کے ایف سی” (کینٹکی فرائیڈ چکن) کا جوائینٹ کہاں ہے۔ مجھے ایک نوجوان پہلے ہی بتا چکا تھا کہ وہ خاصا دورہے۔ البتہ جب وہاں سے واپس جا رہے تھے تو مجھے کے ایف سی ٹائپ ایک دکان دکھائی دے گئی تھی اوروہاں جمشید کوبھی پیٹ بھرنے کا موقع مل گیا تھا۔ بھاگم بھاگ مغرب کی نماز پڑھنے پہنچے تھے۔ عبادت کی حرص میں مبتلا جمشید لمبے لمبے ڈگ بھرتے مسجد کے اندرونی حصے میں جا داخل ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسجد کے اندر ایک ہزار نمازوں کے برابر ثواب ملے گا۔ وہ احاطے کو مسجد تسلیم نہیں کرتے تھے کیونکہ وہاں ہم جوتے پہن کرچل سکتے تھے۔ میں نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ بھائی وہ مسجد جو حضور صلعم کے زمانے میں تھی وہ توبہت چھوٹی تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ اب جومسجد ہے وہیں ثواب زیادہ ہے۔ میں نے کم ثواب پہ تکیہ کرکے بھاپ کی مانند پانی کی پھوارپھینکتے ہوئے پنکھوں کی ہوا میں بیٹھ کراحاطے میں ہی نماز پڑھ لی تھی۔ مسجد نبوی کے احاطے میں دن کو کھلنے اورسورج ڈھلنے کے بعد بند ہونے والے آٹومیٹک چھتراوریہ منفرد پنکھے “کفارجرمنی” کی دین تھے۔
جمشید ثواب کے لالچ میں پھرغائب ہوچکے تھے۔ کہیں بیٹھ کرقرآن یا نفلیں پڑھ رہے ہوں گے کیونکہ ان کا بھی عام ملاؤں کی طرح یہی خیال تھا کہ کراما” کاتبین نے کیلکولیٹر پکڑے ہوئے ہیں اوروہ مسجد نبوی میں کی گئی عبادات کو ضربیں دیتے ہوئے درج کرتے جا رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایسی باتیں عبادت کی جانب رغبت دلانے کی خاطر کی گئی ہونگی۔ چونکہ عرب ہمیشہ سے ہی منفعت پر زیادہ توجہ دیا کرتے تھے چنانچہ انہیں سمجھانے کی خاطر مخصوص مقامات پرعبادت کی عظمت، اہمیت اوراجرکواجاگر کرنے کے لیے ہزار، لاکھ بولا گیا ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ ہزاروں یا لاکھوں کہنا بہت زیادہ کو ظاہر کرتا ہے۔ عبادت کے اجر کا انحصار آپ کی نیت اورخلوص پرہوتا ہے۔ بہرحال ہرایک کی اپنی اپنی سوچ ہے۔ میں تو حضرت رابعہ بصری کی اس بات کو کہیں زیادہ اہم سمجھتا ہوں جب وہ ایک ہاتھ میں پکڑی آگ سے بہشت کو جلانے جا رہی تھیں اوردوسرے ہاتھ میں پکڑے پانی سے جہنم کو بجھانے جا رہی تھیں۔
آج رات عشاء کی نماز کے بعد سکت نہ رہی تھی کہ مزید عبادت کے لیے مسجد نبوی میں ٹھہرا جا سکتا۔ میں واپس ہوٹل چلا گیا تھا اورجاتے ہی ڈوکسی سائیکلین کے دو کیپسول اورپیراسیٹامول کی دوگولیاں معدے میں انڈیل لی تھیں۔ یہ احتیاطی تدبیر تھی کہ کہیں طبیعت کی خرابی سے حج ہی خراب نہ ہوجائے لیکن اللہ تعالٰی نے بخوبی حج کروانا تھا اس لیے راستے بھی دکھا رہا تھا۔ میں سو گیا تھا۔ کہیں تین بجے انکل داؤد نے باتھ روم جانے کی خاطراپنی چھوٹی سی ٹارچ جلائی تواس کی روشنی سیدھی میری آنکھوں کولگی تھی۔ آنکھ کھل گئی تھی۔ جمشید کا بستر اسی طرح بنا ہوا تھا جیسا دن میں دیکھا تھا۔ کیا وہ مسجد سے واپس ہی نہیں آیا تھا؟ انکل تو واپس آ کر لیٹے اورسو گئے تھے۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ آدھے پونے گھنٹے بعد میں اٹھا تھا۔ وضو کیا تھا اورمسجد نبوی کی جانب چل پڑا تھا۔ گلیاں بالکل ویران تھیں لیکن سارا علاقہ روشن تھا۔ میں مسجد کے گیٹ نمرایک سے داخل ہو کر امام کی دائیں جانب دوسری قطارمیں جا کرنفلیں پڑھنے لگا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جمشید میرے آگے ہی پہلی صف میں ایک چادر لپیٹے قرآن کریم پڑھنے میں مگن تھے۔ جب میں نفلیں پڑھ چکا تو ذکرکرنے بیٹھ گیا تھا۔
میرے ساتھ ہی میرے بائیں جانب ایک پنجابی نوجوان بیٹھا تھا جس کے ہاتھ میں پاکستان کا طبع شدہ کوئی دعا نامہ تھا۔ اس کے بائیں جانب ڈوری سے کچھ حصہ محدود کیا ہوا تھا، جہاں نائب آئمہ اور دینی طالب علم سروں پہ مخصوص سعودی رومال اوڑھے بیٹھے تھے۔ ڈورکے اس طرف بیٹھا ایک نوجوان طالبعلم کوشش کررہا تھا کہ پنجابی نوجوان کے گھٹنوں پردھرے دعا نامے کو پڑھ کرکچھ اخذ کرسکے لیکن وہ بھلا کیسے کرسکتا تھا یہ دعا نامہ دراصل پنجابی زبان میں تھا۔ میں نے جودیکھا تو س پرپتہ نہیں کن کن گمنام پیروں، خلیفوں اوربڑے مر یدوں کے نام لکھ لکھ کران کے ساتھ عربی دعائیں جوڑی ہوئی تھیں۔ مطلب یہ کہ خالصتا” بدعتی کتاب تھی۔ اگرایسے لوگوں کوموقع دے دیا جائے تووہ جنت البقیع میں صحابہ کرام کے مرقدوں کے ساتھ کیا کیا سلوک نہیں کریں گے۔ یہ تھا وہ نمونہ جس کا میں نے اس سے پیشتر ذکرکیا تھا۔ اس عجیب وغریب دعا نامے کووہ نوجوان مسجد نبوی میں بیٹھا پوری عقیدت سے پڑھ رہا تھا۔
نمازپڑھانے کی خاطر جب مخصوص دروازے سے امام صاحب داخل ہوئے توان کے ساتھ آٹھ وردی پوش پولیس والے بھی داخل ہوگئے تھے۔ نماز کے دوران چھ تونمازیوں کی جانب منہ کرکے اوردوامام صاحب کی پشت کی جانب منہ کیے مختلف پوزیشنوں میں کھڑے ان کی حفاظت کرتے رہے تھے۔ ایسا کیا جانا بہت عجیب لگا تھا۔ نمازختم ہونے کے بعد میں نے جمشید کو سلام کیا تھا۔ وہ مجھ سے کچھ کھنچے کھنچے سے لگتے تھے۔ میں نے ناشتہ کھانے چلنے کو کہا تو انکارکردیا۔ مسجد نبوی سے نکلتے ہی ایک نوجوان چائے بیچ رہا تھا۔ ہم دونوں نے چائے لی تھی, انہوں نے کچھ مفن وغیرہ کھا کرپیٹ بھرلیا تھا۔ میں نے پراٹھوں والی دکان کی راہ لی تھی۔ جب ہوٹل لوٹا توجمشید نہیں تھے۔ میں نقاہت محسوس کررہا تھا۔ نیند آ گئی تھی۔ کوئی گیارہ بجے کے قریب آنکھ کھلی توکمرے میں کھڑے، جمشید نے مجھ پرروسی زبان میں تابڑتوڑحملہ کردیا تھا کہ خود سوجاتے ہو۔ کھانستے ہو، خراٹے بھرتے ہو۔ مجھے نیند نہیں آتی۔ میں رات ایک بجے ہی تنگ آ کر مسجد چلا گیا تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ کہہ دوں، “بھائی اس طرح تو تمہیں مزید ثواب کمانے کا موقع میسّرآ جاتا ہے” لیکن میں نے معذرت کی تھی اوراسے سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ میں بیمارہوں۔ نزلہ کے ساتھ نیند میں میں خراٹوں پہ بھلا کیسے قابو پا سکتا ہوں لیکن وہ رنجیدہ ہوئے ہی چلے جا رہے تھے۔ میں نے اکتا کرکہہ دیا تھا کہ ایک ہی حل ہے آئندہ میرے ہمراہ کمرہ نہ لیجیے گا۔ اب جمشید صاحب درازہوکرانٹا غفیل ہو گئے تھے۔ ظہرکے وقت انہیں جگایا تھا اوراکٹھے مسجد گئے تھے۔
ظہرکی نمازکے بعد جب میں مسجد کے ایک اندرونی گیٹ سے نکلا توایک اورمنظر دیکھنے کوملا تھا۔ مسجد کے احاطے میں چلتی ہوئی ایک الیکٹرک موبائل پہ کوئی سرکاری شخصیت سوارتھی جس کے ساتھ اورپیچھے تین پولیس والے بیٹھے تھے۔ موبائل کے ساتھ ساتھ دونوں جانب تین تین سپاہی بھاگ رہے تھے۔ اس موبائل کے آگے پولیس والوں کی دو ایسی ہی موبائل تھیں اورپیچھے پولیس اورعمال سے بھری آٹھ دس مزید ایسی الیکٹرک کاریں تھیں۔ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کا یہ نمونہ تھا کہ حاکم شہر اس کے احاطے میں پیدل نہیں چل سکتا تھا۔ حکام کے اپنے ہی انداز ہوتے ہیں چاہے وہ کہیں کے ہی کیوں نہ ہوں۔