اسلامی نظریاتی کونسل کے پلیٹ فارم سے ایک اور اعلامیہ منظر عام پر آ گیا ہے۔ فرقہ واریت اور انتہاپسندی کے تدارک کے لئے جتنی بھی کوششیں کی جا سکتی ہیں ان کی تحسین کرنی چاہیئے لیکن یہاں ہم یہ ضرور عرض کریں گے کہ آئین پاکستان کے تحت کئی ذمہ داریاں ریاستی اداروں کی ہیں جنہیں شہریوں پر منتقل کرنے سے کام نہیں چلے گا۔ شہری ریاست کے ساتھ وفاداری اور قانون پر عملداری کے پابند ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ ریاستی ادارے بھی اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے پابند ہیں ، وہ اپنی ڈاری کی دوسرے کے سر ڈال کر بی الذمہ نہیں ہوسکتے ۔ محض یکطرفہ چال چلنے سے فرقہ بندی جیسے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
اس اعلامیہ کی شق نمبر 1 اور 2 کو ہی دیکھ لیں کہ شہریوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو تسلیم کرنے اور دستور میں درج بنیادی حقوق کے احترام کو یقینی بنانے کی یاد دہانی کروائی گئی ہے۔ گو کہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے مگر مسئلہ شہریوں کے دستور کو تسلیم کرنے کا تو سرے سے ہے ہی نہیں کہ عوام کو اس بارے میں کوئی اشتباہ نہیں ہے۔ مسئلہ تو دستور کی کئی دفعات کی روگردانی کا ہے اور خاص کر دستور کی اسلامی دفعات کو مسلسل نظر انداز کر کے انہیں علامتی شقوں تک محدود کرنے اور شہری آزادیوں کی پامالی کی بڑھتی ہوئی شکایات کا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دینی قیادت جہاں ریاستی عملداری اور ریاستی اداروں کے استحکام کے بارے میں اپنے کردار کی حساسیت سے وقف ہے وہاں اس بات کی لئے بھی کوششیں کی جائیں گی کہ آئین پاکستان کے تحت جو توازن قائم کیا گیا تھا اور اختیارات کا بندوبست کر دیا گیا تھا اس کے بارے میں بھی کوئی اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔