شاعر ماں بولی کے بیٹے ہوتے ہیں، اور وہ ماں کے جذبات اور احساسات کو جس طرح سے سمجھتے ہیں اپنے کلام میں ان احساسات کا اظہار کرتے رہتے ہیں. دھرتی ہمیشہ شاعری میں بات کرتی ہے، اور شاعر کی زبانی اپنی باسیوں کے دل میں اتر جاتی ہے.
جس طرح آسان بات کو مشکل ترین الفاظ میں پیش کرنے کا فن شاعر کے پاس ہوتا ہے اسی طرح مشکل بات کو آسان الفاظ میں پیش کرنے کا طریقہ بھی شاعر کو ہی آتا ہے. پنجاب کی دھرتی نے کئی بہترین شاعروں کو جنم دیا ہے ان میں ایک جناب افضل ساحر بھی ایک ہیں. جو اس دور کے بہتریں شاعر ہیں.
یہ بھی سچ ہے کہ پورے ملک میں جو سنجیدہ لوگ پنجاب، پنجابی اور پنجابیت سے وابستہ ہیں یا اس سے محبت کا دم بھرتے ہیں، اس جدید دور میں پنجابی بولی، ثقافت اور فن کو پروان چڑہانے اہم کردار ادا کرتے ہیں ان میں جناب افضل ساحر بھی ایک ہیں. ساحر کا شمار ان پنجابی شاعروں میں ہوتا ہے جو سندھ میں بھی کافی مقبول ہیں. اس کی ایک وجھ افضل ساحر صاحب شاعر ہونے کے ساتھ کی ان کی اپنی ذاتی شخصیت ہے، ہمیشہ مسکراتے چہرے کے ساتھ سب لوگوں کو دل میں جگھ دینے والا ساحر پاکستان کی تمام اکائیوں کی قومی شناخت کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں مگر ان کو اپنے دل میں وہ جگھ بھی دیتے ہیں. وادی مہران سے ساحر کی انسیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے.
افضل ساحر کی خوبی یہ ہے کہ ساحر دھرتی کا وہ ویر پتر ہے جنہوں نے پنجاب، پنجابی اور پنجابیت کی پرچار میں ساری عمر گذار دی ہے. افضل ساحر ایک ہی وقت میں فنون لطیفہ کے تمام شعبوں میں طبع آزمائی کر رہے ہیں اور سب میں کمال دکھا رہے ہیں. وہ صرف اچھے شاعر ہی نہیں اچھے کہانی نویس، صحافی، اینکر پرسن، ریڈیو ہوسٹ، پروگرام پروڈیوسر، ڈائریکٹر، ڈراما نویس، ڈرامہ پروڈیوسر، اسٹیج انائونسر، مقرر، ڈبیٹر، کالم نگار، ایڈیٹر اور پبلشر بھی ہیں. ہم جب ان کے ریڈیو پروگرامز کے نام ‘موج میلہ’، ‘نال سجن دے رہیے’ اور ‘لوک لہر’ دیکھتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ہمیشہ جوڑنے کی بات کرتے ہیں، وہ دوستیوں، محبتوں اور رشتوں کو باریک سوئی سے سینے میں مہارت رکھتے ہیں. یہ ہی وجھ ہے کہ وسیع النظر افضل ساحر کو مشرقی پنجاب سمیت دنیا بھر میں پھیلے پنجابیوں کے ساتھ ساتھ سندھ اور بلوچستان کے اہل علم و دانش بھی بہت پیار کرتے ہیں.
افضل ساحر کی کتابیں نال سجن دے رہیے (شاہ مکھی 2012 اور گرمکھی 2013) کاغذ تے کینواس (2013)، آج دی لوک داستان (1998)، اور کلام شِو (شو کمار بٹالوی 2017) شایع ہوچکی ہیں. جبکہ ‘پریم کہی’، ‘نانک نام الست ہے’، ‘لالکر پوئٹری’ اور ‘مشرقی پنجاب کے افسانے’ ابھی زیر طبع ہیں.
افضل ساحر دوستی رکھنا اور اس کو نبھانا بھی جانتے ہیں، اس کے مزاج میں ہر وقت جاگنا، چوکنا رہنا اور ہر موقع کو سیلیبریٹ کرنا جانتے ہیں، وہ پورے پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں ادبی اور ثقافتی تقریبات کو زندہ اور خوبصورت بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں. خاص طور پر پنجابی زبان اور ثقافت کی بقا اور ترقی کے لیے افضل ساحر کا کردار نہایت اہم اور شاندار ہے. پورے پنجاب مین کسی بھی تنظیم، ادارے، یونیورسٹی یا فرد کا پنجابی بولی اور ثقافت کے لیے پروگرام ہو افضل ساحر سب سے پہلے اور سب سے آگے نظر آتے ہیں.
افضل ساحر کا فعال کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، آپ اس وقت ‘پنجابی پرچار کے لٹریری ونگ’ کے صدر، پنجابی ادبی مرکز کے نائب صدر، ‘پنجابی پڑہائو موومینٹ’ اور ‘پنجابی رائیٹرز ایسوسییشن’ کے مستقل میمبر ہیں. جبکہ پنجاب، پنجابی اور پنجابیت کے لیے کام کرنے والے کسی بھی ادارے کے ساتھ بے لوث ہوکر کام کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے. دلچسپ بات یہ ہے کہ افضل ساحر پنجابی کے ساتھ ساتھ سندھی، بلوچی اور پشتو زبانوں اور ثقافتوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ بھی کھلی دل سے کام کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں. خاص طور پر سندھ اور سندھی زبان سے ان کی انسیت قابل تعریف ہے. لاہور میں سندھ گریجویٹس ایسوسییشن کی جانب سے ہونے والے پروگراموں میں بہت دلچسپی سے شرکت کرتے ہیں اور مفید مشورے بھی دیتے رہتے ہیں. اور لاہور میں ہونے والے پنجابی تقریبات میں سندھیوں کو شامل کرتے ہیں. افضل ساحر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سندھی، پنجابی، پشتو اور بلوچی پاکستان کی علاقائی نہیں بلکہ قومی زبانیں ہیں، اور ان قومیتیوں کے بچوں کو حق ہے کہ ان کو اپنی قومی زبانوں میں بنیادی تعلیم دی جائے. یہ بات وہ ایسے ہی نہیں کرتے افضل ساحر پنجابی شعرا سمیت سندھ کے شاھ عبداللطيف بھٹائی، سچل سرمست، شیخ ایاز، بلوچستان کے مست توکلی اور خیبر پختون خواہ کے رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک کو بھی پڑھ چکے ہیں. شاہ بھٹائی سے اپنی محبت کا اظہار وہ اس طرح سے کرتے ہیں
“کنی کنی پنجاب دی
سندھ ساگر دی لو
آکھے شاہ لطیف نوں
اک مک رہیے ہُو.”
ویسے تو عاشق مزاج افضل ساحر ہر خوبصورت چیز پر فدا ہوجاتے ہیں مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کا پہلا اور آخری عشق پنجاب ہی ہے، پنجاب سے عشق کہ انتہا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ
“ساری عمراں دی ٹوہر ہووے
اگلے جہاں جائیے
شالا اتھے وہ لہور ہووے”
” بند عشق دی تاکی اے
لہور اچ رہنے آں
اجے جمنا باقی اے”
افضل ساحر کا شمار پاکستانی پنجاب کے ان شعراء میں ہوتا ہے جن کو بھارتی مشرقی پنجاب میں بہت زیادہ پڑہا اور سنا جاتا ہے. یہاں تک کہ مشرقی پنجاب کی فلموں میں بھی افضل ساحر کے لکھے نغمے شامل کئے ہیں. ساتھ ساتھ نامور گلوکار راحت فتح علی خان بھی ان کی شاعری گا چکے ہیں. کوک اسٹوڈیو میں گائے گئے ان کے نغمے “مرا پیا مجھ سے ملن آیو، شکر ونڈاں وے” نے تو دھوم مچا رکھی ہے.
افضل ساحر عام زندگی میں بھی بہت کمال کے اور خوش مزاج شخصیت کے مالک ہیں، ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے محفل کشت زعفران بنائے رکھتے ہیں. بنیادی طور پر صوفی اور فقیر مزاج افضل ساحر چیزوں کو محدود اور اپنی دسترس میں رکھنے کے بجائے سب کے ساتھ مل بانٹ کر رکھنا بہتر عمل سمجھتے ہیں، نوجواں شاعروں کی رہنمائی کرنی ہو، نئے گانے والوں کو اسٹیج فراہم کرنا ہو، محفل میں کسی اور کو بات کرنے کا موقعہ دینا وہ سب کی مدد کرتے ہیں. افضل ساحر وہ جوہری ہیں جس نے پنجابی ادب اور بولی کو چن چن کر ہیرے جیسے نوجوان دیے ہیں، جو آگے چل کر اپنی بولی اور ثقافت کو بول بالا کریں گے.
پنجاب نے بھی اپنے اس ویر پتر افضل ساحر کو اپنی وسیع دل سے وہ پیار اور عزت دی ہے جو کم ہی شاعروں کو ملی ہوگی. افضل ساحر اس وقت تک کئی ایوارڈز حاصل کر چکے ہیں. جن میں مسعور کھدرپوش ایوارڈ (2013)، بابا فرید ایوارڈ (2011)، نانک ایوارڈ (2013)، شاہ حسین ایوارڈ (2011)، بولان ایوارڈ (2018)، پنجابی سیوک ایوارڈ (2018)، پنجابی سیوک کا عالمی ایوارڈ – کینیڈا (2012) شامل ہیں.
بابا فرید، نانک، شاہ حسین اور مسعود کدھرپوش ایوارڈز اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ افضل ساحر پنجاب کی صوفی ازم والی روایتوں کی امیں اور اس دھرتی میں گہری جڑیں رکھتے ہیں. پنجاب اور صوفی ازم سے عشق نے افضل ساحر کو مست الست کئے رکھا ہے، یہ ہی وجھ ہے کہ پنجابی زبان کی سب سے بڑی رائیٹر امرتا پریتم نے کہا تھا کہ “پنجاب کی آواز اور سلطان باہو کی ‘ہُو’ افضل ساحر ہی ہیں.” ایک عظیم شخصیت کے یہ الفاظ افضل ساحر کے لیے بذات خود ایک بہت بڑا ایوارڈ ہیں. ساتھ میں یہ بات بھی کیا کم ہے کہ وہ افضل بھی ہیں اور ساحر بھی. افضل ساحر صاحب پنجابی بولی، پنجابی ثقافت اور فن کے ایسے سفیر ہیں جو ایک ہی وقت میں کئی پلیٹ فارمز پر کام نہایت سلیقے سے سرانجام دے رہے ہیں.
پنجاب کے اندر پنجابی بولی کی ترویج، ترقی، اسے ذریعہ تعلیم بنانے اور ذرائع معاش کو پنجابی زبان سے منسلک کرنے کے لئے جو بھی کام ہو رہا ہے ان میں افضل ساحر سب سے آگے ہوتے ہیں، لاہور میں ہونے والے تمام مظاہروں، ریلیوں، سیمینارز اور دیگر تقریبات میں افضل ساحر ہم کو ہر اول دستے میں ملتے ہیں. ساتھ ساتھ پنجاب کے دیہی علاقوں میں دیہی ثقافت کو ترقی سینے کے لئے بھی ان کا کام قابل تعریف ہے. لاہور میں ادہی عمر گذارنے کے بعد بھی افضل کے اندر کا پینڈوپن ابھی جوان ہے، وہ سارا دن ساری رات کام کرتے نہین تھکتا، افضل کا کہنا ہوتا ہے “پنجاب اور پنجابی کے لیے کام کرنا میرا کام نہیں جنون ہے.”
افضل ساحر موجودہ دور میں پنجاب کے لیے با سعادت اور بانصیب بیٹے کی صورت آگے آرہے ہیں، ان کی شاعری میں ملتان کی مٹی کی خوشبوء محسوس ہوتی ہے، ان کی شگفتہ باتیں وادی سون جیسی سندر ہوتی ہیں اور چونسے جیسی میٹھی ہوتی ہیں.
افضل ساحر کی پوری زندگی مسلسل محنت سے عبارت ہے، ایک چھوٹے سے گائوں سے پنجاب سے سب سے بڑے شہر لاہور آنا اور لاہور میں اپنی فیلڈ کے ہزاروں لوگوں میں اپنی جگھ بنانا اور اس جگھ کو مستقل طور پر بنائے رکھنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ ساحر صاحب کی زَندگی ک سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سینئرز کی ہمیشہ عزت کی اور اپنے سے جونیئرز کو ہمیشہ موقعہ اور اسپیس دیا. ہر ادبی یا سماجی پروگرام میں افضل ساحر ہمیشہ نوجوانوں کو آگے لانے کی کوشش کرتے ہیں. اس وقت سینکڑوں نوجواں افضل ساحر کی رہنمائی کی وجھ سے پنجاب، پنجابی بولی اور ثقافت کی ترقی کے لئے آگے آکر کام کر رہے ہیں.
مجھے اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ “جب ایک سندھی حیدرآباد سے لاہور آیا اور خود کو یہاں تنہائی کا شکار محسوس کیا اور پنجابی ادب اور ثقافت سے منسلک لوگوں میں اپنے لیے جگھ ڈھونڈنے کی کوشش کی تو افضل ساحر ان پہلے لوگوں میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی دلوں میں جگھ دی مگر ہر پروگرام پر ہر تقریب میں سب سے آگے بٹھا کر عزت اور تکریم بخشی، یہ جو ہماری دلوں میں پنجاب اور پنجابی سے محبت ہے وہ دراصل جناب افضل ساحر اور ان جیسے دوسرے مہربانوں کے مرہون منت ہے. اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر سرکار جناب افضل ساحر جیسے لوگوں کو موقعہ فراہم کرے تو ان جیسے لوگ
نہ صرف ملک کے اندر ملکی ترقی کے ساتھ ساتھ قومی ایکے اور یگانگت کے لیے موثر کردار ادا کرسکتے ہیں مگر عالمی سطح پر بھی ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں.