سعودی عرب افغانستان کی تیزی سے بدلتی صورتحال میں سفارتی تنہائی اور لاتعلقی کا شکار ہو رہا ہے۔ اس سال جون میں کابل حکومت کے تعاون سے رابطہ عالم اسلامی نے علمائے کرام کا ایک اجتماع سعودی عرب میں منعقد کیا تھا جس میں پاکستان سے نور الحق قادری اور ڈاکٹر قبلہ ایاز شریک ہوئے تھے۔ یہ سعودی عرب کی ایک آخری کوشش تھی کہ کسی طرح قطر کے مقابلے میں افغان منظر نامے پر اپنے کردار کو اجاگر کیا جائے۔
اس ہفتے کے واقعات نے ثابت کیا کہ سعودی عرب زمینی حقائق سے بہت دور اور لاتعلق کھڑا تھا اور اسے حالات کا صحیح ادراک ہی نہیں ہو سکا۔ بھلا ہو بھی کیسے سکتا تھا کہ تاریخی طور پر افغانستان میں سعودی عرب کی پالیسی کا سب سے بڑا محور پاکستان تھا۔ ماضی میں سعودی عرب نے افغانستان کے معاملات کو ہمیشہ پاکستان کے تعاون اور مدد سے مینج کئے رکھا۔ ادھر کچھ عرصے سے سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات میں پہلے والی گرم جوشی باقی نہیں رہی۔ جہاں پاکستان سعودی عرب کی کشمیر پالیسی اور ہندوستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے سفارتی و تجارتی تعلقات پر خائف ہے وہاں سعودی عرب یمن کے مسئلے پر پاکستان کے عسکری تعاون سے کماحقہ مستفید نہ ہونے پر شکوہ کناں ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے ترکی’ ایران’ انڈونیشیا وغیرہ سے تعلقات استوار کرنے کی خواہش پر بھی ریاض میں بہت سے سوالات پائے جاتے ہیں۔
ان حالات میں کابل میں سعودی عرب کا اثر و رسوخ محدود تر ہوتا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کی یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان افغانستان کے معاملے میں کوئی ایسا کردار سعودی سرپرستی میں ادا کرے جس سے بائیڈن انتظامیہ مطمئن ہو کر ریاض کو اپنی سفارتی ترجیحات میں از سر نو کلیدی کردار سونپ کر ایران اور خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں نمایاں مقام فراہم کرے۔ پاکستان بوجوہ یہ کردار سعودی منشا کے مطابق ادا کرنے پر تیار نہیں ہے اور حالات اس نہج پر آن پہنچے ہیں کہ طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد سعودی عرب نے اپنے سفارتی عملے کا کابل سے نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔