موجودہ تبدیلی حکومت کرپشن کے خلاف بلند بانگ دعوں کے ساتھ برسراقتدار آئی ہے، ابھی تک سوائے اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات قائم کرکے عدالتوں اور نیب کی تحویل میں طویل عرصے تک سڑانے کے علاوہ عملی نتائج اہل نظر کی نگاہوں سے مخفی نہیں ہیں۔
ملائشیا کی نئی حکومت پہلے مہاتیر محمد اور اب محی الدین یٰسین کی قیادت ) بھی اس سے ملتے جُلتے نعروں پر برسرا اقتدار آئی ھے، دیگر تیسری دنیا کے ممالک کی طرح ملائشیا بھی کرپشن سے پاک نہیں ہے۔
ویسے تو ملائشیا کی سیاست میں کسی کو بھی کرپشن سے پاک نہیں سمجھا جاتا لیکن سابق حکومت و وزیراعظم نجیب عبدالرزاق جو کہ ملائشیا کے دوسرے وزیراعظم عبدالرزاق کے بیٹے اور تیسرے وزیراعظم حسین عون کے بھانجے ہیں (اس لحاظ سے اس خاندان کے تیسرے وزیراعظم تھے) انکے دور حکومت میں جو کچھ دیکھا گیا وہ شاید سوائے پاکستان کے دنیا میں کہیں بھی ممکن نہ ہو۔
نجیب عبدالرزاق صرف ۲۳ سال کی عمر میں ۱۹۷۶ میں اپنے مرحوم والد عبدالرزاق کی سیٹ سے منتخب ہوئے اسکے بعد مسلسل اسمبلیوں کے ممبر ہی نہیں بلکہ اپنے ریاست (پاکستان کے لحاظ سے صوبہ سمجھا جاسکتا ہے) کے وزیراعلی سے لیکر مرکز میں مختلف اہم وزارتوں (وزیر کھیل و نوجوانان، تعلیم، دفاع اور خزانہ کی وزارتوں میں فرائض انجام دئیے۔
نجیب عبدالرزاق 2004 سے 2009 کے درمیان عبداللہ بداوی کے دور حکومت میں ملائشیا کے نویں نائب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہے۔آخر کار عبداللہ بداوی نے جو کہ ایک شریف لیکن کمزور منتظم سمجھے جاتے تھے نے 2009 میں وزارت عظمی سے دستبرداری کا فیصلہ کیا اور بطور نائب وزیراعظم ہما نجیب کے کاندھوں پر بیٹھ گیا۔اور اگلے 2013 میں ہونے والے انتخابات میں نجیب نے اپنی پارٹئ کو کامیابی کے ساتھ اکثریت دل کر آئندہ پانچ سال کے لئے اپنے زور بازو پر وزیراعظم منتخب ہوہے۔
نجیب کے طاقتور خاندانی سیاسی بیک گراؤنڈ کے باوجود انکی شخصیت کرپشن و”ذاتی” معاملات میں متنازعہ تھی، انکی ذات پر لگنے والا سب سے بڑا سوالیہ نشان 2006 میں ہونے والا منگولیہ سے تعلق رکھنے والی ماڈل کا قتل ہے۔
شنید ہے کہ خاتون نجیب سمیت حکومت کے اعلی ترین عہدیداروں سے تعلقات رکھتی تھیں اور نجیب کے وزارت دفاع کے دور میں کسی بڑے فوجی سودے میں رابطہ کار بھی تھیں، غالبا کمیشن یا رشوت کی رقم میں حصہ مانگے اور نہ ملنے کی صورت میں معاملات طش ازبام کرنے کی دہمکی نے اس انجام تک پہنچایا ہے۔
یہ قتل اس لحاظ سے بھی ظالمانہ تھا کہ اس خاتون کو اغوا کرکے جنگل میں لے جایا گیا اور اسکے جسم پر دھماکہ خیر مواد میں لپیٹ کر اُڑا دیا گیا تاکہ لاش برآمد نہ ہو سکے، لیکن جائے وقوع سے ہڈیوں کے اجزاء کے ڈی این اے کی گواہی نے قتل کا انکشاف کرہی دیا۔
جو چُپ رہی گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستین کا
اس قتل کے الزام میں تین افراد جن میں میں ایک نجیب کے قریبی ساتھی عبدالرحمن بگندا اور وزیراعظم کے حفاظتی دستے کے دو اہلکار عزیلہ حیدری اور سیرالاظہرعمر شامل ہیں کو گرفتار کرکے فرد جُرم عائد کی گئی
مقتولہ کے وارثین کے وکیل نے عدالت سے نجیب عبدالرزاق کو طلب کرنے کی درخواست دی جو کہ ہائی کورٹ نے یہ کہتے ہوئے مسترد کردی کہ کسی بھی گواہ کو طلب یا پیش کرنے کا اختیار صرف اور صرف استغاثہ و دفاع کے وکلاء کا ہے ورثاء اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتے۔
مقدمے کے اختتام سے پہلے سیر الاظہر عمر نے عدالت کو پولیس کے ریکارڈ سے بعض بیانات کی نقل فراہم کرنے کی درخواست کی جن میں بعض اعلی سیکیورٹی اہلکار شامل تھے لیکن وہ بھی مسترد کردی گئی ۔ فیصلے سے پہلے سیر الاظہر عمر نے عدالت میں درخواست پیش کی کہ وہ بعض بڑے لوگوں کے لئے قربانی کے بکرے بنائے جارہے ہیں اور انہیں سزائے موت نہ سُنائی جائے۔لیکن 2009 میں عدالت نے سیکیورٹی اہلکاروں عزیلہ حیدری اور سیرالاظہرعمر کو سزائے موت اور اسوقت کے وزیراعظم نجیب عبدالرزاق کے مشیر عبدالرحمن بگندا کو بری کردیا۔
سزایافتہ مجرموں نے فطری طور پر سزا کے خلاف اپیل کی لیکن حیرت انگیز طور پر استغاثہ نے عبدالرحمن بگندا کی بریت کے خلاف اپیل نہ کرنے کافیصلہ کیا، 2013 میں اپیل کا فیصلہ مجرموں کے حق میں آیا کہ اس پورے مقدمے میں قتل کی وجوہات پیش نہیں کی گئی اس لئے دونوں کو باعزت طور پر بری کردیا گیا۔
حیرت کی بات ہے کہ استغاثہ نے نائب وزیراعظم کے قریبی عبدالرحمٰن برگندا کی بریت کے خلاف اپیل تو نہ کی لیکن دونوں سیکیورٹئ اہکاروں کے بریت خلاف اپیل دائر کردی 2015 میں ملائشیا کی عدالت عظمٰی نے اپیل قبول کر کے دونوں سی سکیورٹی اہلکاروں عزیلہ حیدری اور سیرالاظہرعمر کی سزاے موت بحال کردی لیکن اس دوران عزیلہ حیدری آسٹریلیا فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا، اس وقت سے اب تک وہ انٹرپول کے ریڈ وارنٹ کی وجہ سے گرفتار ہو کر آسٹریلیا کی جیل میں بند ہے کہ آسٹریلیا قانونا سزائے موت کے قیدی کو پھانسی کے لئے کسی بھی ملک کے حوالے نہیں کرسکتا۔
ابھی تک سیکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں قتل کی وجوہات سر بستہ راز ہیں، آسٹریلیا کی جیل میں قید سیرالاظہرعمر جان بخشی اور بعض دوسری شرائط پر زبان کھولنے کو تیار ہے۔
گذشتہ سال آسٹریلیا کی جیل اس نے ایک حلف نامہ جاری کیا جس کے مطابق اس اسوقت نائب وزیر اعظم نجیب عبدالرزاق کی ہدایت پر یہ قتل کیا گیا ہے جسکے واضع طور پر نجیب نے تردید کی معاملہ مزید تحقیات کا متقاضی ہے۔
لیکن مہاترے کے تختہ اُلٹنے کے بعد ضروری نہیں کہ محی الدین یسین کی موجودہ حکومت اس معاملے کا کھوج لگانے میں دلچسپی رکھتی ہے کہ اسوقت نجیب کی پارٹی اسکی اتحادی ہے اور وہ کوئی بڑا سیاسی بھونچال برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔