ملالہ یوسف زئی کے انٹرویو سے آنے والا بھونچال دونوں پرنٹ و شوشل میڈیا کا گرماگرم موضوع بن گیا ہے۔
اس پر مزید بات کرنے سے پہلے اس کے متعلقہ حصے کا ترجمہ پیش کرتا ہوں۔
“کسی سے تعلق بنانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟
کیا وہ کسی (پسندیدہ فرد) سے آکسفورڈ میں ملی؟
اس سوال پر وہ بے ساختہ شرم سے ڈوب گئی، کچھ توقف کی بعد جواب دیا ۔۔
“میں کہوں گی کہ میں شاندار لوگوں سے ملی ہوں، اور توقع کرتی ہوں کہ مجھے کوئی ایسا ملے گا جو مجھے سمجھتا ہو، میری عزت کرتا ہو اور (زندگی بھر ) میرا خیال رکھے”۔
مجھے ایسا لگا کہ میں کسی بلی کے بچّے پر تشدد کررہی ہوں اس لئے موضوع تبدیل کردیا (انٹرویو کرنے والی خاتون)۔
کیا تم کبھی کسی ہیرو یا مشھور شخصیت سے ملاقات کے دوران سے متاثر ہوئی؟ اس پر اس نے جواب دیا کہ اس کی ملاقات بریڈ پٹ دے ہوئی تھی۔
کیاوہ واقعتاً ہینڈسم تھا؟ اس پر ملالہ ہنستے ہوئے اپنا منہ ہاتھوں میں چھپا لیا۔
ملالہ نے بتایا کہ اس کے والدین نے روایتی طریقے سے پسند کی شادی ۔ جس میں انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا پھر والدین نے باقی معاملات طے کیے۔
اس نے کہا مجھے نہیں پتہ کہ وہ کبھی شادی کرے گی یا نہیں۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں؟ اگر آپ کسی کو اپنی زندگی میں لانا چاہتے ہیں تو اس کے لئے شادی کے کاغذات (ہمارے ہاں نکاح نامے کہا جاتا ہے) پر دستخط کرنے کی کیا ضرورت ہے، کیوں نہ یہ صرف ایک شراکت (پارٹنرشپ) ہو؟
ملالہ نے ہنستے ہوہے کہا۔ دیگر تمام ماؤں کی طرح میری والدہ اس بات سے متفق نہیں ہے۔ “کبھی ایسی بات کہنے کی جرات نہیں کرنا ، تمھیں شادی کرنی ہے اور شادی ایک خوبصورت رشتہ ہے”۔
اس کے والد کو اکثر پاکستان سے ای میل ملتے رہتے ہیں میری اتنی زمینیں اور جائدادیں ہیں اور وہ ملالہ سے شادی کے خواہشمند ہیں۔
“ یونیورسٹی کے سال دوم تک میں سوچتی تھی کہ میں کبھی شادی نہیں کروں گی، ماں نہیں بنوں گی۔۔ بس اپنا کام کروں اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہمیشہ خوش رہتے ہوئے زندگی گذاروں گی۔
سوائے دو معاملات کے جس نے پورے انٹرویو کی شکل ہی بدل دی۔ملالہ کے دو جملے ۔۔۔۔صرف دو جملے بم شیل ہیں ۔
?Why do you have to sign a marriage paper, why can’t just be a partnership
آخر آپکو شادی کے معاہدے پر دستخط کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ کیا ہم پارٹنروں کی طرح نہیں رہ سکتے؟
کچھ حدتک بات درست ہے ۔ خطبہ نکاح سُنّت ہے۔ بغیر مولوی و خطبہ نکاح کے دو گواہوں کے سامنے اعلان کرنا کافی ہے۔نکاح نامہ قانونی ضرورت ہو تو ہو لیکن شرعی ضرورت نہیں ہے۔
درحقیقت شادی بذات خود ایک پارنٹر شپ ہی ہے، مسئلہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب ہم شادی کی نفی کرتے ہوئے پارٹنر شپ کو بطور متبادل نظام کی بات کرتے ہیں۔ جو کہ بظاہر ان خاتون نے کیا ہے۔
ہماری بچیاں عموماً شرم کے مارے شادی سے انکار ہی کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ ہی رہیں گے (جو اس نے بھی کہا)۔لیکن معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں کی ۹۹ فیصد لڑکیاں یہ جملے نہیں کہ سکتیں کہ وہ کسی کے ساتھ بطور (بغیر شادی کے) پارٹنر زندگی گذارنے کو تیار ہیں۔
ویسے تو شادی ہوتی ہی مرد و عورت کی پارٹنر شپ ۔اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ شادی کے جسمانی تعلق سے انکار نہیں کررہی صرف اس کے شرعی یا رسمی پروسیس پر سوال کررہی ہیں۔
واضح رہے کہ پارٹنرشپ درحقیقت مغربی تصور اس لحاظ سے ہے کہ شادی سے طلاق کی صورت میں عموماً نصف دولت اپنی بیوی کو دینا پڑتی ہے۔ حال ہی میں مائیکروسافٹ کے بل گیٹس کو اپنی بیوی کو دینے والی طلاق کے نتیجے میں اسے تقریباً 65 ارب ڈالر دینے پڑیں گے۔
اسی وجہ سے آجکل یورپ میں شادی سے پہلے pre nuptial agreement (قبل از شادی معاہدے) کا رواج بھی بڑھ رہا ہے تاکہ بعد میں طلاق کی صورت میں ایک دوسرے کو اپنی جائیداد سے ہاتھ نہ دھونے پڑیں۔
جبکہ اسلامی شادیوں کی صورت میں مہر دے کر طلاق ہو جاتی ہے۔ اور یہ سب نہیں ہوتا۔اس میں ہر لحاظ سے آسانی ہے۔
جہاں تک بچوں کی مینٹیننس کامعاملہ ہے وہ تو شادی ہو یا پارٹنر شپ دونوں صورت میں ذمہ داری ہوتی ہے۔یادرہے عمران خان کے خلاف کیلیفورنیا کورٹ کا فیصلہ بچّی کی مینٹیننس کے معاملے میں ہوا تھا جب کہ اس بچّی کی پیدائش میں کسی بھی قانون (شرعی یا سول) کے تحت شادی کا عمل دخل نہیں تھا۔
باقاعدہ شادی سے انکار اور پارٹنرشپ والے الفاظ کو میں اتنا معصومانہ نہیں سمجھتا ، کہ مغرب کے اس معاشرے میں رہنے والی ملالہ اس معاشرے میں رہنے کی وجہ سے باقاعدہ شادی اور یہاں کے معروف معنوں میں پارٹنر شپ کے فرق سے ناواقف نہیں ہوسکتی ۔اور اس کی والدہ کی تنبیہ جس میں اسے باقایدہ شادی کی تلقین کی ہے بھی یہ بات واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ وہ کس طرف سوچ رہی ہے۔
اس انٹرویو کے متعلقہ حصے کو دیکھ کر واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ “مشکل” سوالات پر شرمانا اور گھبرانا عموماً اس کا رویہ ایک عموماً پاکستانی لڑکی ہی کا سا ہی تھا ۔لیکن شادی کے معاملے پر اتنا بولڈ بیان؟؟؟
اس تضاد کی وجہ کیا ہے؟؟ اداکاری یا اس کے اندر بھی ایک پُرانی روایتی مسلمان لڑکی اور مغرب کے چکا چوند سے متاثر موڈرن لڑکی کے درمیان جنگ جاری ہے۔
سچّی بات یہ ہے کہ اس عمر کے نوجوان بعض اوقات کئی قسم کے “انقلابی” خیالات رکھتے ہی ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ان پر عمل بھی کرپائیں۔ فرق اتنا ہے کہ عموماً بچّے یہ باتیں اپنے دوستوں کے گروپ میں ہی کر پاتے ہیں اور بات آئی گئی ہوجاتی ہے۔ یہاں پر اسے بڑا بھونپو مل گیا اور وہ ملک کیا دنیا بھر کا موضوع بن گیا۔
یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ان کی والدہ کو اپنی بچّی کی سوچوں کی سمت کا اندازہ بھی ہے اور یقیناً تشویش بھی اور اس کی اصلاح کی اپنی بساط بھر کوشش بھی کررہی ہیں۔
کل کیا ہو گا کسی کو خبر نہیں لیکن یہ واضح ہورہا ہے کہ اس کا نسبتا کچّا ذہن مغربی طرز زندگی کے اثرات قبول کرنے لگا ہے۔ یہ ایک تشویشناک امر ہے۔