ڈاکٹر صفدر محمود کے 2017 کے مضمون کا عنوان بلا اجازت مستعار لینے پر معذرت کے ساتھ، آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ اب بھی 2017 سے شروع ہونے والی انہونیوں کا تسلسل ہی لگتا ہے۔ ایک طرف تو اپوزیشن نے خون کی بو سونگھ کر پوری قوت سے نہ صرف سیاسی بلکہ ہمارے ملک کے “غیر سیاسی” حکمرانوں کو بھی للکارنا شروع کردیا ہے۔
پھر ہمارے وزیر اعظم کو اچانک ہی حضرت عمر فارق رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں خالد بن ولید کی معزولی یاد آنے لگی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے جب بھی تاریخ و جغرافیہ کی بات کی ہے اسکا تیا پانچہ ہی کیا ہے اس لیے انکی “دانشوری” قابل معافی ہے۔
چونکہ محترم دین اور تاریخ اسلامی کے بارے میں کورے ہیں اس لئے درست بات بھی غلط طریقے سے کرنا انکی عادت ، بلکہ عشقان کے صدقے سات خون معاف ۔۔ویسے اسکی بات اتنی غلط نہیں بس کہنے کے سلیقے اور سمجھ کا قصور ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید کو معزول اس لئے کیا تھا کہ مسلمانوں کا اعتقاد فتح اللہ کی طرف سے رہے نہ کہ حضرت خالد بن ولید رض کی قیادت پر۔ دوسری طرف ۔۔ گاہے گاہے مرے دل میں آتا ہے یہ “ نازک “ ساخیال۔۔ ہمارے وزیر اعظم ریاست مدینہ کے دیگر فرائض تو انجام دینے سے قاصر رہے ہیں کیا انکی ذہن کے کسی گوشے میں اس “سُنّت فاروقی” کو ادا کرنے خیال یا کیڑا تو نہیں کلبلانے لگا کہیں؟
یاد رکھیں تاریخ میں ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ کنگ میکر کی گردن پہلی فرصت میں اُڑتی ہے، ہارون رشید کے برامکہ، اکبر اعظم نے بڑا ہوتے ہی بیرم خان سے جان چھڑائی ، نواز شریف کا جنرل جیلانی ۔۔۔ یہ بھی تو بھائی کا جنرل جیلانی ہے؟؟؟
لیکن یہ بچّہ تو ابھی تک گھٹنے کے بل ہی چل رہا ہے، کہیں بیساکھی تبدیل کرنے کاارادہ تو نہیں۔ یا پرویز مشرف کی تاریخ دُہرائی جائے گی؟ لیکن جنرل پرویز مشرف کو گھر بھیجنے کی کوشش کا انجام بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
واضح رہے کہ فوج میں جنرل باجوہ کی توسیع ملازمت کے بعد کچھ بے چینی بڑھی تو ہے۔ اسکے علاوہ عمران خان بھی جنرل باجوہ کی سیاستدانوں سے ملاقاتوں اور رابطوں پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں۔ یعنی دھواں تو نظر آرہا ہے لیکن کیا وہ شعلہ بن سکے گا؟
دوسری طرف نواز شریف کی طرف سے اور اب ایاز صادق بھی شامل ہو گئے فوج پر مسلسل حملے ممکن ہے فوج کو مجبوراً چیف کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کردے۔ کمان کی تبدیلی ہائی رسک ہونے کے باوجود کامیابی کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔
سب سے اہم بات ہے فوج اپنے سربراہ کی توہین برداشت تو نہیں کرتی لیکن توسیع سربراہ کی ہو یا کسی اور افسر کی اوپر سے نیچے تک فوج کی ترقیات کے نظام کو درہم برہم کرتی ہے اور اسے دیگر افسران کی حق تلفی سمجھتے ہوئے ناپسند کیا جاتا ہے۔ اس لئے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اگر وزیراعظم نے کمان تبدیل کرنے کا کوئی فیصلہ کیا تو اس کا وہی ردعمل ہو گا جو 1999 میں جنرل مشرف کی برطرفی پر ہوا تھا۔
لیکن اگر واقعتاً ایسا ہو بھی گیا تو اس ایک پیج کو پھاڑنے کے بعد عمران خان خود کہاں کھڑے ہوں گے؟ ابھی تک تو سوائےمحفل عاشقاں میں شمع محفل بننے کے بھائی میں کچھ کرنے کی عملی صلاحیت صفر سے زیادہ نظر نہیں آرہی۔اس عدم صلاحیت کو مولاجٹ کی طرح سے بڑکیں مارکر توجہ بٹاؤ تحریک کا تسلسل نظر آرہا ہے۔
ضروری نہیں کہ ایسا ہو، لیکن بعض منہ پھٹ افراد کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہی دل کی بات لبوں پر نہ آنے دینا ہوتا ہے، بعض اوقات اندرونی سوچ کا اظہار بظاہر بے اختیاری کے ساتھ منہ سے پھسل آنے والے الفاظ سے ہوتا ہے اور انہیں نظر انداز کرنا مشکل ہوتا ہے۔
دوسری طرف وہ اپنی بہادری کے اظہار کے طور پر واشگاف الفاظ میں کہ بھی چکے ہیں، کہ اگر کوئی مجھ سے استعفی مانگے گا تو میں اس سے استعفی لے لوں گا۔ سب کہنے اور کرنے میں بہت فرق تو ہوتا ہے کیا واقعی اتنی ہمت ہے؟؟ ہارون رشید سے نواز شریف تک سب نے اپنی “سرپرستان” سے جان چھڑانے کے وقت ان کا “کلّہ” مضبوط ہو چکا تھا، لیکن یہ لڑکھڑاتی ہو ئی حکومت اتنی سخت فیصلوں کا رسک لے سکے گی؟
لیکن، لندن سے اُڑتی ہوئی افواہوں کے مطابق ۔”محبوب” نے “رقیبوں “سے دعاء سلامت شروع کردی ہے۔اس دعاء سلامت کا نتیجہ اگر کسی “نئے رشتے” کی صورت میں برامد ہو تب بھی، کوئی بھی “سھاگن” کسی بھی نئی “سوکن” کا وجود برداشت نہیں کرے گی۔
کہیں تاریخ 1993 سے ملتی جلتی کہانی نہ دھرا دے، جب جنرل کاکڑ کے ہاتھوں، مائینس نواز شریف و غلام اسحاق خان ہوئے تھے ، لیکن اس مر تبہ مائینس تین بلکہ چار کے امکانات زیادہ ہیں۔ اب سوال ہےاس مرتبہ جنرل کاکڑ کا کردار کون انجام دے گا؟