آج اردو کے نامور شاعر قابل اجمیری کی برسی ہے۔ قابل اجمیری کا اصل نام عبدالرحیم تھا اور وہ 27 اگست 1931ءکو چرلی‘ اجمیر شریف کے مقام پر پیدا ہوئے تھے ان کے شعری مجموعوں میں خون رگ جاں اور دیدہ بیدار کے نام شامل تھے۔ ان کی کلیات بھی کلیات قابل کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔3 اکتوبر 1962ءکو قابل اجمیری حیدرآباد میں وفات پاگئے۔ وہ تپ دق کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔
قابل اجمیری نے صرف 31 برس کی عمر پائی مگر اتنی کم عمری میں وفات پانے کے باوجود وہ آج بھی اردو کے صف اول کے شعرا میں شمار ہوتے ہیں اور ان کے متعدد اشعار ضرب المثل کا درجہ رکھتے ہیں۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
راستہ ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا
دل کی دھڑکن کا اعتبار نہیں
ورنہ آواز تو تمہاری ہے
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوب صورت ہے
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
زمانہ دوست ہے کس کس کو یاد رکھوگے
خدا کرے کہ تمہیں مجھ سے دشمنی ہو جائے
زمانہ دوست ہے کس کس کو یاد رکھوگے
خدا کرے کہ تمہیں مجھ سے دشمنی ہو جائے
اب یہ عالم ہے کہ غم کی بھی خبر ہوتی نہیں
اشک بہہ جاتے ہیں لیکن آنکھ تر ہوتی نہیں
تضاد جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تم ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
تم کو بھی شاید ہماری جستجو کرنی پڑے
ہم تمہاری جستجو میں اب یہاں تک آ گئے
ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پہ ہنسی
قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے
غم جہاں کے تقاضے شدید ہیں ورنہ
جنون کوچۂ دلدار ہم بھی رکھتے ہیں