Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
شاہراہ ریشم یا شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم ہی سے ایک اہم شاہراہ کی اہمیت رکھتی تھی جس کی وجہ سے چین کی بہت سی اجناس دنیا کے دوسرے خطوں تک پہنچتی تھیں چونکہ ان اجناس میں خاص جنس ریشم ہی تھی اس لئے اس شاہراہ کا نام ہی شاہراہ ریشم پڑگیا تھا۔
جب چین کی اجناس تجارت بحری راستے سے خلیج فارس تک پہنچنے لگیں تو یہ شاہراہ رفتہ رفتہ بند ہوگئی۔ قیام پاکستان کے بعد جب عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان میں دوستی کے اٹوٹ رشتے استوار ہوئے تو اس شاہراہ کی ازسرنو تعمیر کا سوال بھی سامنے آئے۔ 3 مئی 1962ء کو دونوں دوست ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کی رو سے 1969ء میں شاہراہ ریشم کا وہ حصہ بحال ہوگیا جو پاکستان کی شمالی سرحد تک آتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس قدیم شاہراہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز بھی ہوا اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے 62 میل کے فاصلے پر حویلیاں کا مقام اس شاہراہ کا نقطہ آغاز ٹہرا۔ کوئی 500 میل طویل یہ عظیم شاہراہ، جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے، 1978ء میں مکمل ہوئی۔ اس شاہراہ کی تعمیر میں پاکستانی فوج کے انجینئرز اور چینی ماہرین نے ایک دوسرے کے دوش بدوش کام کیا۔ یہ شاہراہ گلگت اور ہنزہ کے علاقوں کو درہ خنجراب کے راستے میں چین کے صوبہ سنکیانگ سے ملاتی ہے۔ یہ سطح سمندر سے 15,100 فٹ بلند ہے۔ اس عظیم شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو کا آغاز 16فروری 1971ء کو ہوا تھا اورتعمیر مکمل ہونے کے بعد 18جون 1978ء کو افتتاح ہوا
شاہراہ ریشم یا شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم ہی سے ایک اہم شاہراہ کی اہمیت رکھتی تھی جس کی وجہ سے چین کی بہت سی اجناس دنیا کے دوسرے خطوں تک پہنچتی تھیں چونکہ ان اجناس میں خاص جنس ریشم ہی تھی اس لئے اس شاہراہ کا نام ہی شاہراہ ریشم پڑگیا تھا۔
جب چین کی اجناس تجارت بحری راستے سے خلیج فارس تک پہنچنے لگیں تو یہ شاہراہ رفتہ رفتہ بند ہوگئی۔ قیام پاکستان کے بعد جب عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان میں دوستی کے اٹوٹ رشتے استوار ہوئے تو اس شاہراہ کی ازسرنو تعمیر کا سوال بھی سامنے آئے۔ 3 مئی 1962ء کو دونوں دوست ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کی رو سے 1969ء میں شاہراہ ریشم کا وہ حصہ بحال ہوگیا جو پاکستان کی شمالی سرحد تک آتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس قدیم شاہراہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز بھی ہوا اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے 62 میل کے فاصلے پر حویلیاں کا مقام اس شاہراہ کا نقطہ آغاز ٹہرا۔ کوئی 500 میل طویل یہ عظیم شاہراہ، جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے، 1978ء میں مکمل ہوئی۔ اس شاہراہ کی تعمیر میں پاکستانی فوج کے انجینئرز اور چینی ماہرین نے ایک دوسرے کے دوش بدوش کام کیا۔ یہ شاہراہ گلگت اور ہنزہ کے علاقوں کو درہ خنجراب کے راستے میں چین کے صوبہ سنکیانگ سے ملاتی ہے۔ یہ سطح سمندر سے 15,100 فٹ بلند ہے۔ اس عظیم شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو کا آغاز 16فروری 1971ء کو ہوا تھا اورتعمیر مکمل ہونے کے بعد 18جون 1978ء کو افتتاح ہوا
شاہراہ ریشم یا شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم ہی سے ایک اہم شاہراہ کی اہمیت رکھتی تھی جس کی وجہ سے چین کی بہت سی اجناس دنیا کے دوسرے خطوں تک پہنچتی تھیں چونکہ ان اجناس میں خاص جنس ریشم ہی تھی اس لئے اس شاہراہ کا نام ہی شاہراہ ریشم پڑگیا تھا۔
جب چین کی اجناس تجارت بحری راستے سے خلیج فارس تک پہنچنے لگیں تو یہ شاہراہ رفتہ رفتہ بند ہوگئی۔ قیام پاکستان کے بعد جب عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان میں دوستی کے اٹوٹ رشتے استوار ہوئے تو اس شاہراہ کی ازسرنو تعمیر کا سوال بھی سامنے آئے۔ 3 مئی 1962ء کو دونوں دوست ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کی رو سے 1969ء میں شاہراہ ریشم کا وہ حصہ بحال ہوگیا جو پاکستان کی شمالی سرحد تک آتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس قدیم شاہراہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز بھی ہوا اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے 62 میل کے فاصلے پر حویلیاں کا مقام اس شاہراہ کا نقطہ آغاز ٹہرا۔ کوئی 500 میل طویل یہ عظیم شاہراہ، جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے، 1978ء میں مکمل ہوئی۔ اس شاہراہ کی تعمیر میں پاکستانی فوج کے انجینئرز اور چینی ماہرین نے ایک دوسرے کے دوش بدوش کام کیا۔ یہ شاہراہ گلگت اور ہنزہ کے علاقوں کو درہ خنجراب کے راستے میں چین کے صوبہ سنکیانگ سے ملاتی ہے۔ یہ سطح سمندر سے 15,100 فٹ بلند ہے۔ اس عظیم شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو کا آغاز 16فروری 1971ء کو ہوا تھا اورتعمیر مکمل ہونے کے بعد 18جون 1978ء کو افتتاح ہوا
شاہراہ ریشم یا شاہراہ قراقرم زمانہ قدیم ہی سے ایک اہم شاہراہ کی اہمیت رکھتی تھی جس کی وجہ سے چین کی بہت سی اجناس دنیا کے دوسرے خطوں تک پہنچتی تھیں چونکہ ان اجناس میں خاص جنس ریشم ہی تھی اس لئے اس شاہراہ کا نام ہی شاہراہ ریشم پڑگیا تھا۔
جب چین کی اجناس تجارت بحری راستے سے خلیج فارس تک پہنچنے لگیں تو یہ شاہراہ رفتہ رفتہ بند ہوگئی۔ قیام پاکستان کے بعد جب عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان میں دوستی کے اٹوٹ رشتے استوار ہوئے تو اس شاہراہ کی ازسرنو تعمیر کا سوال بھی سامنے آئے۔ 3 مئی 1962ء کو دونوں دوست ممالک نے ایک معاہدے پر دستخط کئے جس کی رو سے 1969ء میں شاہراہ ریشم کا وہ حصہ بحال ہوگیا جو پاکستان کی شمالی سرحد تک آتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس قدیم شاہراہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز بھی ہوا اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے 62 میل کے فاصلے پر حویلیاں کا مقام اس شاہراہ کا نقطہ آغاز ٹہرا۔ کوئی 500 میل طویل یہ عظیم شاہراہ، جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے، 1978ء میں مکمل ہوئی۔ اس شاہراہ کی تعمیر میں پاکستانی فوج کے انجینئرز اور چینی ماہرین نے ایک دوسرے کے دوش بدوش کام کیا۔ یہ شاہراہ گلگت اور ہنزہ کے علاقوں کو درہ خنجراب کے راستے میں چین کے صوبہ سنکیانگ سے ملاتی ہے۔ یہ سطح سمندر سے 15,100 فٹ بلند ہے۔ اس عظیم شاہراہ قراقرم کی تعمیر نو کا آغاز 16فروری 1971ء کو ہوا تھا اورتعمیر مکمل ہونے کے بعد 18جون 1978ء کو افتتاح ہوا