آج معروف شاعر مصطفیٰ زیدی کی برسی ہے۔ سید مصطفیٰ حسین زیدی کی پیدائش 10 اکتوبر 1930ء کو ایک متمول خاندان میں ہوئی تھی ان کے والد سید لخت حسنین زیدی سی آئی ڈی کے ایک اعلی افسر تھے۔ مصطفیٰ زیدی بے حد ذہین طالب علم تھے۔ الہ آباد یونیو رسٹی سے انہوں نے گریجویشن کیا تھا اور صرف 19سال کی عمر میں ان کا شعری مجموعہ ”زنجیریں“ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس کا دیباچہ فراق گورکھپوری نے لکھا تھا اور فراق صاحب نے ان کی شکل میں ایک بڑے شاعر کی پیش گوئی کی تھی۔ کسی حد تک تو یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی لیکن بے وقت موت نے ان کا شعری سفر اچانک ختم کر دیا۔ چالیس سال کی زندگی میں ان کے چھ مجموعے شائع ہوئے۔ ان کے مرنے کے بعد ان کا آخری مجموعہ کوہ ندا کے نام سے شائع ہوا۔
وہ جب سول سروس میں تھے اسی وقت جنرل یحییٰ خاں کے عتاب کا بھی شکار ہوئے اور یحییٰ خاں نے جن 303 افسران کو جبرا” ریٹائر کیا تھا ان نیں ان کا نام بھی شامل تھا.اس کے بعد وہ کسی بڑی سازش کا شکا ر ہو گئے اور اس کا سبب بنی ایک قتالہ عالم شہناز گل، جس کے باعث مصطفیٰ زیدی کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔ ان کی لاش بارہ اکتوبر 1970ء کو کراچی کے ان کے دوست کے بنگلے سے ملی تھی۔ جس پر بعد میں تحقیقاتی کمیشن بھی بنا تھا اور مقدمہ بھی عدالت میں گیا تھا۔ یہ مقدمہ اخبارات نے اس قدر اچھالا کہ مہینوں تک اس پر دھواں دھار بحث ہوتی رہی۔ عدالت نے طویل ردوکد کے بعد فیصلہ دیا کہ یہ قتل نہیں بلکہ خودکشی تھی اور شہناز گل کو بری کر دیا۔