31 دسمبر 2019 کو چین کے شہر ووہان کے میونسپل ہیلتھ کمیشن نے نمونیہ کے متعدد کیس سامنے آنے کو رپورٹ کیا۔ اس کے بعد 11 جنوری کو ووہان میں کووڈ-19 سے پہلی موت کی خبر سامنے آئی تو دنیا کا رد عمل ملا جلا تھا۔ خطرے کا ادراک اور اس کا انکار دونوں ہی دیکھے جا رہے تھے۔ بیماری پر حیاتیاتی حادثے یا دہشت گردی کا شبہ بھی ظاہر کیا گیا۔ کئی سازشی نظریات سامنے لائے گئے۔ یہ انتہائی نظریات صرف عوام الناس میں نہیں تھے، با خبر اور با اختیار حکمران بھی ان سے متاثر ہوئے۔ آتی جاتی سانسوں کی راہ میں گھس بیٹھیا بن کر لاکھوں انسانوں کی موت کا سبب بننے والے کورونا وائرس کو امریکی صدر نے ابتدا میں بے نیازی اور حقارت سے “چینی وائرس” قرار دیا۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ آج وبا کے سب سے بدترین اثرات بھی امریکہ میں ہی دیکھے جا رہے ہیں۔
انکار تاہم ابتدائی ہفتوں کی بات ہے۔ اس کے بعد جیسے جیسے وائرس کی تباہ کاریاں سامنے ائیں، دنیا کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ موت کی سرسراہٹ آسیب کی طرح دنیا کے ہر شہر اور کوچے میں سنائی دینے لگی۔ چوبیس گھنٹے جاگنے والے شہر اور بازار سنسان ہو گئے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔ فضا میں گاڑیوں اور صنعتی دھوئیں کی مقدار کم ہوئی تو شہروں سے دور دراز کے مناظر نظر آنے لگے۔ مصنوعی روشنیوں کی چکا چوند ماند پڑی تو جگنو بھی چمکتے نظر آنے لگے۔
معمول کی زندگی میں تاریخ کے اتنے طویل، جامع اور ہمہ گیر تعطل کے جہاں ماحول پر اچھے اثرات مرتب ہوئے، وہاں کاروبار حیات بری طرح متاثر ہوا۔ تجارتی اور پیداواری سرگرمیوں کے رکنے سے غربت میں اضافہ ہوا اور کئی ملین افراد اور خاندان غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔
حیران کن طور پر یہ وبا چند ایسے نتائج کا سبب بنی جو کامن سینس سے متصادم ہیں۔ وبا کے نتیجے میں دنیا بھر میں ہسپتال بند ہو گئے۔ کامن سینس تو کہتا ہے کہ لوگ بھوکے ہوں گے تو کھانے کا کاروبار چلے گا، خود کو ڈھانپنا چاہیں گے تو کپڑا اور لباس زیادہ فروخت ہوں گے۔ اور بیمار ہوں گے تو ہسپتال جائیں گے۔ کورونا میں لیکن سب کچھ الٹ ہوا۔ ابتدا میں وائرس کے حوالے سے ناکافی معلومات اور تیزی سے لوگوں کے متاثر ہونے کی خبروں کی وجہ سے احتیاطاً دنیا بھر میں ہسپتالوں کے بیرونی مریضوں کے شعبے بند کر دیے گئے کہ مبادا بیمار لوگ وہاں اس مرض کا شکار نہ ہو جائیں۔
یہ غیر معمولی صورت حال تھی۔ چیلنج بہت بڑا تھا۔ اور جہاں یہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے تکلیف دہ صورت حال تھی وہاں شعبہ طب سے وابستہ لوگ تو بہت ہی پیچیدہ اور مشکل صورت حال میں گھرے ہوئے تھے۔ ایک طرف نادیدہ دشمن تھا جس کے وار کی پیش گوئی ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور تھی۔ دوسری طرف معمول کے مریض تھے، جن کا باقاعدہ دورانیے کے بعد معائنہ اور دیکھ بھال ان کی صحت اور زندگی کے لیے ضروری تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ تھے جن کو اپنی دیگر طبی کیفیات کی وجہ سے سرجریز تجویز کی جا چکی تھیں۔ اس چلینج در چیلنج کو مشکل ترین بنانے والا کورونا نام کا نادیدہ دشمن تھا جو لوگوں کے نظام تنفس میں خرابی پیدا کرنے سے ذہنوں میں خوف پیدا کرنے تک مصروف کار تھا۔ اور اس کا مقابلہ کرنے کو انسانوں کی طرف سے صف اول میں وہ طبی عملہ تھا جسے دوسروں کی طرح نہ صرف خود کو اور اپنے گھر والوں کو بیماری سے بچانا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بیمار اور دکھی انسانوں کو وہ آرام، مدد اور دوا بھی بہم پہنچانا تھے جس کے لیے وہ ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔
صورت حال غیر معمولی تھی، ریسپانس بھی غیر معمولی چاہیے تھا۔
پھر جیسا کہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ جب انسان کسی مقصد کے حصول کو اپنی منزل بنا لیتے ہیں تو جلد یا بدیر کامیابی ان کا مقدر بن ہی جاتی ہے۔ اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ دنیا بھر کے انسانوں نے دو محاذوں پر دشمن کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔
پہلا ردعمل تو دفاع کے لیے “ہتھیاروں” کی فراہمی کو ممکن بنانا تھا۔ دنیا کے ہر ملک میں ماسکس، سینی ٹائزر اور ضروری ادویات کی فراہمی یقینی بنانے پر کام شروع ہو گیا۔ ہمارے جیسے ملکوں میں جہاں طبی سہولیات اور انفراسٹرکچر عمومی طور پر بہت جدید نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ناکافی بھی ہے، وہاں زندگی بچانے والے آلات مثلاً وینٹی لیٹرز کی دستیابی بھی ترجیحی فہرست میں شامل ہو گئی۔
دوسرا کام دشمن کو حملہ کرنے کے قابل نہ چھوڑنا یعنی “جارحیت بہترین دفاع ہے” کی حکمت عملی کے تحت وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری تھا۔ ظاہر ہے یہ کام ان ترقی یافتہ ملکوں میں ممکن تھا جہاں تحقیق اور پیداوار کا لاجسٹیکل اور انٹلکچوئل انفراسٹرکچر موجود ہو۔ اس پہلو پر بھی دنیا بھر میں غیر معمولی کوششیں ہوئیں۔ جن کا ثمر 8 دسمبر 2020 کو برطانیہ میں ویکسین لگانے کا کام شروع ہونے سے مل گیا۔ برطانیہ میں شہریوں کو دی جانے والی ویکسین امریکی دواساز کمپنی فائزر اور ترک نژاد جرمن سائنسدان جوڑے کی تحقیقاتی کمپنی بایو این ٹیک کی مشترکہ پیداوار ہے۔
اس تباہ کن بیماری کے حوالے سے جو آج 9 دسمبر تک دنیا بھر میں تقریبا سات کروڑ (67,530,912) لوگوں کو متاثر کر چکی اور 15 لاکھ 45 ہزار 140 اموات کا سبب بن چکی، کیا پاکستان میں بھی کوئی نمایاں کامیابی حاصل کی گئی ہے؟
خوش قسمتی سے اس سوال کا جواب ہاں میں ہے۔ اور یہ کامیابی نہ صرف کورونا متاثرین کے لیے امید کی کرن ہے بلکہ یہ باقاعدہ وقفوں سے طبی معائنے اور دیکھ بھال کی ضرورت والے مریضوں کے لیے بہت بڑے اطمینان کا باعث ہے۔ اس کے علاوہ یہ خبر اس ملک کے پوٹینشل کے حوالے سے شکوک و شبہات کا بخوبی تدارک کرتی ہے۔
جب وبا کی وجہ ہسپتال بند ہو گئے تو اس سے ہر طرح کے مریض بالخصوص متعدد بیماریوں میں مبتلا پرانے مریض مشکلات میں مبتلا ہو گئے۔ ہسپتال ایک طرف تو بند تھے اور دوسری طرف کسی جگہ جانا وبا کی وجہ سے خود کو خطرے میں ڈالنے والی بات تھی۔ لیکن جن کے گھر میں مستقل مریض ہوں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتنی پریشان کن صورت حال ہے۔ ایسے میں اسلام آباد کے سب سے بڑے نجی ہسپتال شفا انٹرنیشنل نے “ای شفا” (eShifa) کے پلیٹ فارم سے مریضوں تک پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ ای شفا گزشتہ برس دسمبر میں بنائی گئی ایک کمپنی تھی جس کا مقصد مریضوں کو ٹیلی ہیلتھ کی سہولیات مہیا کرنا تھا۔
ای ہیلتھ سے اگر ایسا لگے کہ یہ فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے مریض کی کیفیت جان کر دوا تجویز کرنے کا عمل ہے تو یہ سراسر غلط فہمی ہو گی۔ ای شفا نے جس ای ہیلتھ کو متعارف کروایا وہ ایک لحاظ سے مکمل ورچوئل ہسپتال ہے۔ بس اس میں اور روایتی ہسپتال میں فرق صرف یہ ہے کہ ورچوئل ہسپتال میں مریض اپنے گھر کے ماحول میں رہتا ہے۔ لیکن متعدد آلات (پہنے جانے والے سمارٹ گیجٹس wearable smart gadgets) کے ذریعے ڈاکٹر مریض کی کیفیت سے آگاہ رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ باقاعدہ وقفوں سے مکمل حفاظتی انتظامات کے ساتھ فزیشن، نرسیں، ٹیکنالوجسٹ اور فزیو تھراپسٹ وغیرہ مریض کو وزٹ کرتے ہیں۔
یہ تصور بہت ہی جدید ہے اور دنیا میں اس پر بہت سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔ اس کے فوائد گوناگوں ہیں۔ جن میں کم قیمت میں طبی سہولیات کا حصول، سفر کر کے ہسپتال پہنچنے کی زحمت اور مالی اخراجات سے تحفظ، طبی عملے کی کمی کا تدارک، طبی خدمات کی دستیابی کے دائرہ کار میں اضافہ اور دور دراز علاقوں میں بھی جدید شہروں والی سہولیات کی دستیابی جیسے کئی پہلو شامل ہیں۔
لیکن وبا کے دنوں میں ای شفا کو ہنگامی بنیادوں پر متحرک کرنے اور ہسپتالوں کی بندش سے پریشان ان گنت مریضوں کو معیاری طبی خدمات کی فراہمی ہی اصل کارنامہ نہیں۔ مریضوں اور عملے کی حفاظت اور معیار کو ہر چیز سے زیادہ مقدم رکھنے کو یقینی بنانے کے لیے ای شفا کی قیادت نے رضاکارانہ طور پر ایک اور مشکل ترین چینلج کا انتخاب کیا۔ دنیا بھر میں طبی اداروں کے لیے جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل کی تصدیق (accreditation) ایک انتہائی مشکل معیار ہے اور اسی وجہ سے اسے معیار کی سنہری مہر یعنی گولڈ سیل قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا حصول اگر ایک طرف مشکل ہے تو دوسری طرف اس بات کی ضمانت بھی ہے کہ مذکورہ ادارہ صارفین اور عملے کے تحفظ اور خدمات میں معیار کو ہر صورت میں مقدم رکھتا ہے۔
ای شفا نے اس مشکل امتحان میں اترنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس حیران کن ٹیم نے ایک طرف جہاں ای ہیلتھ کی خدمات کی فراہمی جاری رکھی وہاں خود کو جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل کے سروے کے لیے تیار کیا۔ یہ انتہائی تفصیلی سروے ہوتا ہے جس میں جے سی آئی کے آزاد بین الاقوامی ماہرین پالیسیوں سے دستاویزات تک اور عملی خدمات کے انداز اور معیار تک ہر پہلو کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کرتے ہیں۔
یہ بات نہ صرف ای شفا کی قیادت کے لیے نہیں بلکہ ہر پاکستانی کے لیے باعث فخر ہے کہ 13 نومبر 2020 کو “ای شفا” کو جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل نے ایکریڈیٹیشن دے دی۔ جوائنٹ کمیشن کے اعلان کے ساتھ ای شفا وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کی پہلی جے سی آئی سرٹیفائیڈ ہوم ہیلتھ کمپنی بن گئی ہے۔
یہ اعزاز اس ادارے سے وابستہ لوگوں کے ساتھ ساتھ ایک قوم کے طور پر اہل پاکستان کا بھی ہے کہ ہم تعلیم اور خدمت انسانیت کے میدان میں کسی سے کم نہیں۔ ضرورت صرف کامیابی اور امید کی خبروں کو شیئر کرنے کی ہے۔ ای شفا وبا کی اس صورت حال میں سرنگ کے سرے پر نظر آنے والی روشنی ہے