Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
بنائے کعبتہ اللہ کے وقت جدالانبیآء سیدنا ابراھیم خلیل اللہ وسیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیھما السلام نے بارگاہِ ربِّ جلیل میں کئی ایک دعائیں مانگیں جنھیں قرآن مجید نے تفصیلاً بیان فرمایا جن میں تین مخصوص دعائیں انتہائی قابل ذکر ہیں
1-پہلی دعا!اے ہمارے رب!ہمارے اس عملِ خیر کو درجۂِ قبولیت عطا فرما بیشک تو ہی ہے ہر پکار کو سننے والا اور ہر ایک کی حالت کو جاننے والا،
2-دوسری دعا!اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنا سچّا فرمانبردار اور مطیع بنادے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت ایسی ضرور پیدا فرمانا جو صرف اور صرف تیری ہی فرمانبردار ہو اور ہمیں سکھا حج(بیت اللہ مشرفہ) کے طریقے(عبادت کے قاعدے) اور ہم کو معاف فرما،بیشک تو ہی توبہ قبول کرنیوالا اور رحم فرمانے والا ہے۔
3-تیسری دعا!جو باپ بیٹے نے مانگی،یہی مقصودی دعا ہے اے ہمارے رب!ان میں ان ہی میں سے ایک رسول ﷺ بھیج کہ ان میں تیری آیتیں پڑھے اور انہیں سکھا دے کتاب اور دانائی کی باتیں اور انہیں پاک کرے،بیشک تو ہی بہت زبردست بڑی حکمت والا ہے۔
بعثتِ رحمتہ اللعالمین ﷺ آیت مبارکہ کی روشنی میں۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!
۱-(یتلوا علیھم اٰیٰتک) کی روشنی میں رحمتہ اللعالمین ﷺکا سب سے پہلا کام اپنی امت کے سامنے(قرآن کریم) کی آیات کی تلاوت ہے یعنی اللہ تعالی کا کلام پہنچانا(پڑھنا اور پڑھانا)۔گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی حیثیت مبلغِ اعظم کی ہے۔
ب۔(یعلمھم الکتب) انہیں کتاب سکھا دے- حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کام صرف تبلیغ اور پیغام رسائی پر ختم نہیں ہو جاتا بلکہ آپ کا کام کتاب الٰہی کی تبلیغ کے بعد اسکی تعلیم کا بھی ہے۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کی دوسری حیثیت معلّمِ اعظم کی ہے۔
ج۔(الحکمتہ) دانائی کی باتیں- حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تیسرا کام حکمت و دانائی سکھانا،قرآنی احکام ومسائل سمجھانا،دین کے قاعدے اور آداب سکھانا اور زندگی کے گوناگوں اور پیچیدہ مسائل کا اسی کی روشنی میں بہترین حل بتانا ہے۔گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تیسری حیثیت مرشدِ اعظم کی ہے۔
د- (یزکیھم) انہیں پاک کر دے- تزکیہ سے مراد دل کی صفائی ہے،شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم کا چوتھا کام اپنی صحبت وتربیت سے اخلاق کی پاکیزگی اور نیتوں کا اخلاص پیدا کرنا ہے ۔یعنی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی چوتھی حیثیت مصلحِ اعظم کی ہے۔
چنانچہ حضرت سیدنا ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دیگر دعاؤں کی طرح یہ دعا بھی اللہ تعالی نے منظور و مقبول فرمائی چنانچہ سورت آل عمران میں ارشاد ربانی ہوتا ہیکہ ترجمہ ! حقیقت یہ ہیکہ اللہ تعالی نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان اُنہی میں سے ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم) بھیجا جو ان کے سامنے اللہ (سبحانہُ وتعالی ) کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کی کتاب و حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناً کھلی گمراہی میں مبتلا تھے،،
رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ بن کر ماہ ربیع الاوّل میں حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کے گھر پیدا ہوئے ،سیدہ آمنہ کی گود میں آئے،مکہ مکرمہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مولد ہونے کا شرف حاصل ہوا،مکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی برکت سے مکرمہ و مشرفہ بن گیا اور مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کی برکت سے طیبہ،منورہ بن گیا۔سیدہ حلیمہ سعدیہ کو دودہ پلانے کا شرف حاصل ہوا،سیدہ شیمہ کو لوری دینے کا اعزاز نصیب ہوا اور بنی ہاشم کو سیدالاولین والآخرین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قبیلہ ہونے کی سعادت ملی۔
مسند احمد اور معجم طبرانی میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہیکہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپکی نبوت کی ابتدا کس سے ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اپنے باپ سیدنا ابراھیم(خلیل اللہ علیہ السلام) کی دعا کا مصداق ہوں،سب سے پہلے سیدنا ابراھیم (خلیل اللہ علیہ السلام ) نے میری بعثت کی دعا فرمائی اور پھر میں اپنے بھائی (حضرت سیدنا ) عیسٰی ابن مریم ( علیھما السلام ) کی بشارت ہوں اور پھر میں اپنی ماں سیدہ طیبہ طاہرہ آمنہ کا خواب ہوں کہ انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا کہ ان سے ایک نور نکلا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔۔۔۔
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل عہ و نوید مسیحا عہ
اور حضرت سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں ہیکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ تعالی کے یہاں لوح محفوظ میں خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھا ہوا تھا اور بیشک (اس وقت) حضرت سیدنا آدم (صفی اللہ علیہ السلام) اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔(مسند احمد رحہ ) اور میری نبوت کی ابتدآء حضرت سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی دعا ہے۔
ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دینِ اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے،دینِ اسلام کی حقانیت،کاملیت اور ابدیت کا دعوی صرف عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیساتھ ممکن ہے۔ قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیات کریمہ،رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریباً دو سو سے زائد احادیث متواترہ سے یہ مسئلہ ثابت ہے، اللہ رب العزت نے نبوت کی ابتدآء حضرت سیدنا آدم صفی اللہ علیہ السلام سے فرما انتہا حضور خاتم النبیین،خاتم المعصومین سیدالاولین ولآخرین نبی الرحمہ شافعی محشر امام الرسل سیدنا ومولانا وقائدنا ومرشدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس پر ہوئی۔
بخاری شریف میں سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے جسکا مفہوم کچھ یوں ہیکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے کے انبیآء کرام علیھم السلام کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے ایک گھر بنایا اور اس میں ہر طرح کی خوبصورتی و زینت پیدا کی لیکن ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹ گئی ۔اب تمام لوگ آتے ہیں اور مکان کو چاروں طرف سے دیکھتے ہیں اور تعجب میں پڑھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہاں پر ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ تو میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہوں۔ اسی طرح بخاری ومسلم میں ایک اور روایت حضرت سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ہی مروی ہیکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے دیگر انبیآء کرام علیھم السلام پر چھ چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے۔ 1- مجھے جامع کلمات عطا کیے گئے ہیں۔ 2- دشمنوں پر رعب و دبدبے کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے۔ 3- میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کر دیئے گئے ہیں۔ 4-زمین میرے لئے پاک کرنے کا ذریعۂ اور مسجد قرار دی گئی ہے۔5- مجھے تمام مخلوق کیطرف رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بنا کر بھیجا گیا ہے۔6- میرے ذریعے نبوت کو مکمل کر کے انبیآء کرام کا سلسلہ ختم کر دیا گیا۔
عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین سے لیکر آج تک ہر دور میں مسلمانوں نے کی ہے اور آج یہ اہم ذمہ داری بطور مسلمان ہم تک پہنچی ہے کیونکہ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ فتنوں میں اضافہ ہوا ہے۔باطل نے مختلف طریقوں سے عقائد اسلام میں نقب لگانے کی ناپاک جسارت کی ہے اور یہ سلسلہ آج بھی زور و شور سے جاری ہے، بطور مسلمان کچھ انفرادی اور کچھ اجتماعی ذمہ داریاں ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کر سکتے ہیں۔
انفرادی ذمہ داریاں ۔۔۔۔۔!!!!!
1- پہلی ذمہ داری۔۔۔۔۔( محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جائے۔ چنانچہ حدیث مبارکہ میں وارد ہیکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے والدین،اولاد اور باقی لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت نہ کرتا ہو،
2- دوسری ذمہ داری۔۔۔ (اطاعت واتباع ) یہ ہیکہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر من و عن عمل کریں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہیکہ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ تعالی ہی کی اطاعت کی۔ اسی طرح حدیث مبارکہ میں حضرت سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنھما سے روایت ہیکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں ہو گا مومن تم میں سے کوئی ایک یہاں تک کہ ہو جائے اس کی خواہش تابع اُس چیز کے جسکو میں لایا ہوں۔(مشکوہ شریف) یعنی انسان کامل درجہ میں اطاعت واتباع کا اہتمام کرے۔۔۔
3-حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احترام و تعظیم کی جائے۔
4- حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود وسلام بکثرت پڑھا جائے۔۔
5-بدعات ورسومات سے اجتناب کیا جائے۔
اسی طرح کچھ اجتماعی ذمہ داریاں ہیں۔
1-دلائل و براہین کیساتھ عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں بیان کیا جائے اور اس فتنہ ( منکرین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حساسیت سے مسلمانوں کو آگاہی فراہم کی جائے۔
2-عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس عقیدۂ کو تفصیلاً تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔
3-عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان پر ملکی اور عالمی سطی پر سیمینار و کنونشنز کا انعقاد کیا جائے اور آئمہ کرام و خطباء عظام اپنے خطابت کے ذریعے سے عوام الناس کو اس عقیدہ کے متعلق آگاہی فراہم کریں۔
4-عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میڈیا کے ذریعے منظم انداز سے لوگوں تک پہنچایا جائے مگر بغیر تحقیق سنی سنائی خبر کو نہ پھیلایا جائے اور اس مقدس ومطہر عقیدہ کی آڑ میں منفی پروپیگنڈہ اور دین دشمن قوتوں کا آلہ کار نہ بنا جائے۔
5-آئینی اور قومی ذمہ داری کا خیال کرتے ہوئے عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسئلہ پر اپنا کردار ادا کیا جائے۔توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسئلہ میں واضح اور شفاف قانون سازی کریں تاکہ اس مسئلہ کا بھی سدباب کیا جا سکے۔ اور مرتکب توہین رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جا سکے۔
ہر مسلمان کی طرح پاکستانی دستور ساز ادارے اور عدالتیں بھی عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافظ ہیں اس کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل اس ضمن میں بین الاقوامی اداروں اور مختلف فورم کی مدد سے اس عقیدہ کے تقدس وتحفظ کیلئے عملی جدوجہد کرے۔
یہی وہ عقیدہ ہے جس کے تحفظ وناموس ہم انفرادی و اجتماعی سطح پر بھر پور کردار ادا کر کے دنیوی و اُخروی زندگی میں کامیاب وکامران ہو سکتے ہیں اور حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوض سے آبِ کوثر سے سیراب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعتِ کبریٰ کے مستحق بن سکتے ہیں ۔