ADVERTISEMENT
وہ اپنی سی طرح لہرا کے گزری
ہوائے شام بھی تڑپا کے گزری
ندی سی یاد کی گزری جو دل سے
بڑی لہریں بڑے بل کھا کے گزری
گراں گزری بہت وہ بات ہم کو
مگر کیا کچھ ہمیں سمجھا کے گزری
َ اسی دو چار دن کی زندگی میں
جدائی کی گھڑی بھی آ کے گزری
سواری اک صدا کی اک گلی سے
بہت سی کھڑکیاں کھلوا کے گزری
نگاہ شوق دل کی سادگی کو
کوئی معنی نئے پہنا کے گزری
گزر ہی تو گئی آخر سحر بھی
مگر جو روشنی پھیلا کے گزری
مزے کی بات تو یہ ہے کہ دنیا
ہمارے سامنے سے آ کے گزری
ہوئے ہم پاش پاش اس طرح اجمل
کہ ہم سے زندگی ٹکرا کے گزری