پاکستان کی دہائی

بنگلہ دیش بھارتی کا پروجیکٹ تھا ہم نے بنگالیوں سے امتیازی سلوک روا رکھ کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بننے میں معاونت کی یہی رویہ اب بلوچستان کو پرے دھکیل رہاہے

ادھڑی سڑکیں ،آس پاس بے رنگ دیواروں کی عمارتیں ، کہیںکہیں اطراف چھوٹی چھوٹی دکانیں اور چھپڑ ہوٹلوں میں بیٹھے عسرت زدہ جسم جن کے چہروں پر لگی آنکھوں میں اپنے لئے کوئی تاثر تلاش کرنا میرے لئے خاصا مشکل تھا ، سڑک پرٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی اکا دکا ،کاریں اور 125موٹرسائکلیں کبھی ہمیں کراس کرتیں اور کبھی ہم ان سے آگے نکل جاتے ،چٹیل اور دلوں پر ہیبت طاری کردینے والے پہاڑوں کا سلسلہ شرو ع ہوا توجی گھبرانے لگا کہ جانے کب کس موڑ پر بندوق بردار کھڑے مل جائیں ،جس کا امکان کم تھاکہ پہاڑوں پر رہنے والے بندوق برداروں کی اجازت سے ہی یہ سفر جاری تھا، ورنہ شائد ممکن نہ ہوتا ،ہم ڈھلتی شام جب اپنی منزل پر پہنچے تو ادھڑی بدرنگ دیواروں پر ’’سبز بات بلوچستان‘‘ اور پاکستان مخالف نعروں نے ہمارا استقبال کیا، ہم بلوچستان کے دور افتادہ شورش زدہ علاقے آواران پہنچ چکے تھے۔ بلوچستان میں 2013 کے ستمبر میں7.8شدت کے زلزلے نے قیامت ڈھادی تھی، بیچارے بلوچوں کے پاس پہلے تھا ہی کیا جو بھی تھا وہ زلزلے نے چھین لیا ، پہاڑی پتھروں اور گارے سے بنے کچے گھر وں کی زلزلے کے ان جھٹکوں کے سامنے کیا بساط ہونی تھی ،انہوں نے بنا کسی مزاحمت کے اپنے مکینوں کو کھلے آسمان تلے پہنچادیا ،میں زلزلے کے بعد امدادی سرگرمیوں کا احوال لینے آیا تھا، یہاں مجھے اندازہ ہوا کہ غربت افلاس کیا ہوتی ہے ، آواران سے کراچی کا فاصلہ 315 کلومیٹر ہے لیکن ان تین سو کلومیٹروں کو سمیٹنے میں سات گھنٹے لگ جاتے ہیں، ان سا ت گھنٹوں کے بعد آ پ کو یوں لگتا ہے جیسے کسی ٹائم مشین نے آپ کو پچاس سال پیچھے پہنچادیا ہے ، رات ایک جگہ قیام کے بعد میں صبح ٹہلتا ہوا ایک سیکنڈری سرکاری اسکول میں چلا گیا ،اسکول کھلا ہوا تھا بچے بھی پڑھ رہے تھے میں ایک کلاس میں استاد کی اجازت سے اندر آگیا اپنا تعارف کرایا اور بچوں سے کچھ باتیں کرنے کی اجازت مانگی ، اجازت ملنے پر بچوں سے چند ایک سوال کئے میں حیران رہ گیا کہ انہیںپاکستان کے وزیر اعظم کا نام نہیں معلوم تھا لیکن بلوچ باغی علیحدگی پسند ڈاکٹر اللہ نذر کو سب جانتے اور ہیرو مانتے تھے ، ایسا کیوں تھا اس کا جواب سات گھنٹے کے سفرمیں تھا ۔مجھے وہاں ایک بلوچ نوجوان نے کہا کہ ریاست نے ہمیں تسلیم کیا ہے جو آپ ہم سے ریاست کو تسلیم کروا رہے ہو؟ اگر ریاست ہمیں اپنا شہری تسلیم کرتی تو آج ہمارا یہ حال ہوتا ؟ یہاں ڈاکٹر ہیں نہ اسپتال، کوئی ہنر نہ روزی روزگار، کسی کو اپنڈکس کا درد ہو تو کراچی جانا پڑتا ہے وہاں سب کچھ ہے ڈاکٹر اسپتال ، ایمبولینسیں، علاج معالجہ اور یہاںصرف مریض کے لئے موت کا انتظار۔ میں نے وہاں چند دن میں یہ بات جان لی کہ بلوچستان کے ساتھ روا رکھاجانے والا یہ سلوک ہی وہاں کی علیحدگی پسند تحریکوں کے لئے سب بڑا ہتھیار ہے ، ان محرومیوں کی گولیوں کو جب وہ پروپیگنڈے کے میگزین میں ڈال کر نوجوانوں کو ہدف بناتے ہیں تو ان کا نکلنا مشکل ہوجاتا ہے ،اس سے پہلے 2008کے زلزلے کی امدادی سرگرمیوں کی کوریج کے لئے زیارت جانے کا اتفاق ہوا تھا تو وہاں بھی صورت حال کچھ اچھی نہ تھی لیکن یہ سچ ہے کہ پشتون بیلٹ بلوچوں کی پٹی سے نسبتا بہتر اور مالی طور پرآسودگی لئے ہوئے ہے میں تب سے بلوچستان کے لئے آواز اٹھا رہا ہوں کہ بلوچوں کو برابری دیں دیگر مسائل کی شدت ایک دم سے کم ہوجائے گی لیکن کچھ تو بلوچستان کا ظالمانہ سرداری نظام اور کچھ ہمارا اسلام آباد ۔۔۔بلوچستان کو تاحال منایا نہیں جاسکا۔ اسی طرح کے گلے شکوے محرومیوں اور امتیازی سلوک روا رکھے جانے کے احساس نے دہلی کو کھل کھیلنے کا موقع دے رکھا ہے کل بھوشن جادیو بلوچستان میںنیٹ ورک چلاتے ہوئے پکڑا گیا، اس سے بڑا ثبوت اور کیا چاہئے؟ لیکن کیاچانکیہ کے چیلوں نے ایسا پہلی بارکیا ؟ سقوط پاکستان میں انڈیاکا ہی پروجیکٹ تھا جس میں ہم نے ’’معاونت‘‘ کی بنگالیوں کو برابری نہیں دی ، ان کے چھوٹے قد ، ڈھلکے ہوئے شانوں اور گہری رنگت کو کم تر جانا ان کے لائف اسٹائل اور مچھلی چاول کھانے کے اندازسے گھن کھائی نفرتیں بڑھنے اور محبتیں گھٹنے دیں جغرافیائی طو ر پر مشرقی پاکستان کا دفاع واقعتا مشکل تھا لیکن ہم نے دفاع کی نوبت ہی کیوں آنے دی ؟ ہم غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے گئے، ہم سے زیادہ آبادی مشرقی پاکستان کی تھی بنگلہ زبان کا اپنا رسم الخط تھا بنگال کا اپنا کلچر تھا ہم نے اپنا کلچر اوپر رکھنا چاہا اردو کو واحد قومی زبان دے ڈالا۔ بنگالیوں کو بدگمان کیا فاصلہ بڑھنا شروع ہوئے پرواہ نہ کی بھارت نے بھی اپنا لچ تلنا شروع کردیا ، مکتی باہنی کو ٹریننگ دی علیحدگی پسندوں کو وسائل سفارتی مدد دی ، نریندرا مودی 2021ء میں اعتراف کرچکے ہیں کہ انہوںنے بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں حصہ لیا تھا اور وہ گرفتار بھی ہوئے تھے اس سے پہلے سقو ط پاکستان پر اندرا گاندھی یہ کہہ کر گویا اعتراف جرم کرچکی ہیں کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبودیا ۔سولہ دسمبر کا دن آیا اوردستک دے کر بتا کر چلا گیا کہ چانکیہ کے چیلے جو کھیل بنگلہ دیش کی شکل میں کھیل چکے تھے وہی اب بلوچستان اور کے پی کے کی قبائلی علاقوں میں کھیلا جارہا ہے ، بلوچ علیحدگی پسندوں کو دہلی کی مکمل آشیرباد ہے ، افغانستان کی سرزمین بدقسمتی سے پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے ، ٹی ٹی پی نے گوریلا جنگ شروع کررکھی ہے، بھارت سے خیر ہمیں امید بھی کیا ہونی لیکن اس سوال کا جواب کون دے گا؟ ناراض بلوچوں کو منانے اور ان کا احساس محرومی دور کرنے میں ہم کیوں ناکام رہے ہیں بلکہ ہم نے کوشش کب کی ؟کوشش کی ہوتی تو کامیاب ہوتے یا ناکام ٹھہرتے ،اسی بات کا تو دکھ ہے کہ وقت نکلا اور احساس زیاں جاتا جارہا ہے یہ ظلم ہم نے اکہتر میں بھی پاکستان پر کیا اور اب بھی کررہے ہیں افسوس کہ کوئی پاکستان کی دہائی بھی نہیں سن رہا!

ADVERTISEMENT
Next Post

ہمارا فیس بک پیج لائق کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں