اماں کیمل پور چلو اٹک کی تحصیل پنڈی گھیپ کے گاوں ھجڑی کی تھیں ابا لکی مروت کے تھے اب خدا جانے دونوں کی پہلے اکھیاں ملیں یا دل مگر شادی ہوگئی دادا تو فقیر آدمی تھے لکی مروت کے پرانے بازار کے ساتھ قدیمی قبرستان کی نکڑ پہ کہیں گھر تھا دادا نے اولاد بھی تو الحمد للہ درجن سے ایک کم پیدا کی یعنی دو لڑکیاں اور نو لڑکے بیٹیاں تو اپنی زندگی میں بیاہ دیں البتہ نو بیٹوں کو اپنا گھر بسانے کیلئے خود ہی ہاتھ پاوں مارنے پڑے مگر کامیاب بس تین ہی ہوے باقی سارے بن بیاہے ہی چلے گیے۔
ان کامیاب ہوئے والوں میں تایا ابا مہرداد چھٹے نمبر پر ابا خالق داد آٹھویں پر چاچا خدا بخش داد سب کے نام کے ساتھ داد کو شاعروں کے کلام پر اچھل اچھل کے دی جانے والی داد نہ سمجھا جائے یہ داد کا اضافہ پختون کلچر یا وہاں کا کوئی اچھا برا لقب سمجھا جائے لیکن انگریزوں کی طرف سے ملنے والا خطاب تو بالکل نہ سمجھا جائے کیونکہ ہمارے خاندان میں ہمیں وہ طور طریقے کبھی نظر نہ آئے جن سے اندازہ لگایا جاسکتا کہ یہ لوگ زمانہ شناسی میں کچھ عقل رکھتے تھے۔ اگر عقل رکھتے تو آج ہمارا خاندان یقینی طور انگریز کا ساتھ دینے والے غداروں اور لمحہ موجود کی اشرافیہ میں ہوتا .. پوہ دیاں جھڑیاں.. یعنی دسمبر کی سرد راتوں میں اماں مکھڈی حلوہ بناتیں یہ مکھڈ شریف اماں کے گاوں سے تقریباً دس میل کے فاصلے پر ہے ہم جب کندیاں سے ریلوے ٹرین کے ذریعے ننھیالی گاوں جاتے تو. جھمٹ ریلوے اسٹیشن پر اتر کے تین میل پیدل سفر کرکے ھجڑی جانا پڑتا تھا جھمٹ سے پہلے مکھڈ شریف ریلوے اسٹیشن آتا تھا ٹرین جونہی ایک منٹ کیلئے رکتی اماں جھٹ سے ریلوے اسٹیشن کی طرف منہ کر کے کانپتے ہاتھوں اور بھیگی آنکھوں سے ہمارے لیے دعا مانگا کرتیں تھیں ہم یہ سمجھتے تھے کہ یہ ریلوے اسٹیشن بھی کوئی پیر فقیر ہے اس لیے دل ہی دل میں اس کا نام.. پیر اسٹیشن. رکھ چھوڑا سو جب بھی ٹرین .. سواں. اسٹیشن سے آگے بڑھتی ہم اماں سے کہتے…….
اماں پیر ٹیشن اونڑں الا…….
اماں دھیرے سے مسکراتیں اور پھر واقعی سنبھل کے بیٹھ جاتیں کبھی کبھی تو سواں سے ہی ہاتھ اٹھا کے دعا شروع کر دیتیں البتہ ابا اکڑ کے بیٹھے بیٹھے اپنے بٹیرے کو کبھی اس ہاتھ میں تو کبھی اس ہاتھ میں قلابازیاں دیتے رہتے مگر اماں ہمارے نام لے لے کے نجانے کیا کیا اللہ سے پیر کے واسطے دے دے کے مانگتیں رہتیں البتہ ہمیں بہت بعد میں معلوم ہوا کہ جس ریلوے اسٹیشن کو ہم پیر ٹیشن سمجھتے ہیں ایسا ہر گز نہیں ہے یہ ریلوے اسٹیشن تو بس ریلوے اسٹیشن ہے البتہ اس کے عقب میں پیر مکھڈ شریف کا دربار ہے جسے تصور میں لا کے اماں دعائیں مانگا کرتی تھیں۔
مکھڈی حلوہ بنانا تو خیر اماں پہ ختم تھا خاصی محنت سے بنتا تھا اور اماں جب حلوہ بناتی تو.. شوپیتا.. گھماتے گھماتے ان کا پسینہ نکل آتا حلوے کی خوشبو سونگھتے سونگھتے نوری بھی دبے پاؤں آدھمکتی ہمیں وٹ تو بہت چرھتا مگر نجانے کیوں خوشی بھی ہوتی تھی……….
بڑی سے چھوٹی بیٹی مکھڈی حلوہ اچھا بناتی ہے مگر اماں کا حلوہ تو اماں کا حلوہ تھا نا
رات ہم نے بڑی بیٹی کے گھر حلوہ بنایا اور ہم نے ہمنا حمزہ وانیہ پری اور تحریم کو یہ قصہ سنایا تو حمزہ نے ضد پکڑ لی کہ بڑے پاپا نوری کی کہانی بھی تو سناو. ہم نے کہا چپ کرو کم بخت کیوں مجھے بڑی اماں سے جھاڑو پڑوانے ہیں.