فٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے قانون منظور کر کے پاکستان نے ایک سنگ میل عبور کر لیا لیکن اس کے ساتھ ہی قومی اتفاق رائے میں منزل سے تھوڑا اور دور ہو گیا جسے کم سے کم الفاظ میں بدقسمتی ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔
فٹیف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے انسادا منی لانڈرنگ بل کی منظوری قومی مقاصد کی طرف پیش رفت کے تعلق سے ایک تاریخی واقعہ ہے جس کی منظوری حکومت کی ذمہ داری تو تھی ہی لیکن اس کا تعلق حزب اختلاف سے بھی تھا اور آنے والے دنوں میں یہ واقعہ ضرور تاریخ کا حصہ بنے گا کہ اس مقصد کے لیے حزب اختلاف نے حکومت کی پالیسیوں اور اس کے بارے میں اپنے تحفظات کے باوجود اپنا پارلیمانی کردار ادا کر کے اس بل کی منظوری کاراستہ ہموار کیا جس کی آنے والے دنوں میں یقیناً تحسین کی جائے گی۔
ان بلوں کی منظوری کے موقع پر حزب اختلاف کے راہنماؤں، خصوصاً میاں محمد شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کو اپنا مؤقف پیش نہ کرنے دینے پر اسپیکر کو بھی ہدف تنقید بنایا ہے اور کہاگیا ہے کہ انھوں نے ریڈ لائن عبور کر لی ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ اہم ہیں لیکن اس موقع پر عمران خان کا خطاب خاص طور پر قابل اعتراض ہے جنھوں نے حزب اختلاف کو کھلے الفاظ میں ملک دشمن قرار دینے کے بعد شریف خاندان اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بزرگوں کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کی۔ کسی کے باپ کو سائیکلوں کی دکان کا طعنہ دینا یا کسی کو گوالمنڈی والاقرار دے کر نشانہ تضحیک بنانا خوبی نہیں بلکہ عیب ہے جو پاکستانی معاشرے کی اس اعتبار سے بدنامی کا باعث بن رہا ہے کہ اس ملک کی قیادت بات کرنے کے سلیقے سے ہی محروم ہے۔
اس کا ایک پہلو تو یہ ہے، دوسرا پہلو یہ ہے کہ جیسے آج سابقہ حکمران آزمائش کا شکار ہیں، اسی طرح یہ عین ممکن ہے کہ کل کلاں موجودہ حکمران بھی کسی آزمائش کا شکار ہو جائیں۔ ایسی صورت میں جن کے بزرگوں کے بارے میں آج نازیبا زبان استعمال کی جا رہی ہے، وہ کل آج کے حکمرانوں کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ یہ بالکل ویسی ہی صورت حال ہوگی جس ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو پر گزری۔ اس لیے “آوازہ” کا حکمرانوں اور حزب اختلاف، دونوں کو یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ ملک کو بد دیانتی سے پاک کرنے کے لیے ضرور اپنا کردار ادا کریں جو مجرم ثابت ہو جائے، اس سے کسی قسم کی رعایت بھی نہ کی جائے لیکن مخالفین کے بزرگوں، اہل خانہ اور خاص طور پر خواتین کے بارے اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ یہ طرز عمل معاشرے کو اخلاقی طور پرمضبوط بنائے گا اور قومی اتفاق رائے کا راستہ ہموار کر کے اقوام عالم میں پاکستان کا وقار بلند کرے گا۔