Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25

ہمارے ہاں نہ جانے کیوں محبت کی داستانوں کو سرگوشیوں میں بیان کرنے کی روایت ہے مگر امرتا پریتم نے احوال دل و عشق کو رسیدی ٹکٹ میں لکھ کر ایک عالم کو اپنا واقف حال کر دیا میں نے جب کالج کے زمانے میں رسیدی ٹکٹ پڑھی تو امرتا اور ساحر کا عشق اس قد فسوں خیز سا لگا کہ امرتا پریتم سا محبوب مجھے میری سوچوں کی وسعت سے بہت آگے نکلتا ہوا نظر آنے لگا امرتا اور ساحر کی محبت کی دلفریب داستان پریوں کی کہانی معلوم ہوتی تھی قرب کی تمنا میں روح کے ساتھ دونوں کے بدن بھی سلگتے تھے مگر وصال کا تصور ایسے ہی تھا جیسے دوکناروں کا ملنا رسیدی ٹکٹ میں امرتا لکھتی ہیں۔
“دل کی تہوں میں سب سے پہلا درد جس کے چہرے کی تابانی میں دیکھا وہ اس مذہب کا تھا جس مذہب کے لوگوں کے لیے گھر کے برتن بھی اچھوت قرار دے دئے جاتے ہیں ۔1957ء میں جب اکادمی کا ایوارڈ ملا فون پر خبر سنتے ہی سر سے پاؤں تک میں تاپ میں جھلسی گئی خدایا یہ سنیہڑے میں نے کسی انعام کے لیے تو نہ لکھے تھے جس کے لیے لکھے تھے اس نے نہ پڑھے اب کل عالم بھی پڑھے تو مجھ کو کیا”
امرتا جی جس کے لیےآپ نے یہ سنیہڑے لکھے اس نے پڑھے ہوں یا نہ پڑھے ہوں مگر کئی نسلوں نے یہ داستان عشق پڑھ کر اپنے دل کے نہِاں خانوں کو محبت کے چراغ کی دلگداز روشنی سے منور کیا۔
یہ 1999 کی بات ہے افضل ساحر ہندوستان میں کچھ دن گزار کر واپس آیا تھا پاک ٹی ہاؤس میں زاھد ڈار کی میز پر وہ امرتا پریتم سے اپنی ملاقات کا احوال جب بیان کر چکا تو میں نے افضل سے امرتا جی کا فون نمبر لیا اور زاھد ڈار کو خدا حافظ کہے بغیر ہی ایک پی۔سی۔او پر جا کر دم لیا فون ملانے پر دوسری طرف سے آپ نے کہا تھا۔
امرتا بولدی آں۔
میں نے فون پر گرتے ہوۓ یونٹوں کو دیکھتے ہوۓ اردو میں اپنا مختصر سا تعارف کروایا۔
امرتا جی نے نرم مدھم لہجے میں کہا پنجابی وچ دسو تُسی کون ہو؟۔
اور میں نے مزید یونٹ گرنے کے خوف سے فون چونگے پر دے مارا تھا۔
کچھ دنوں بعد میں نے سرگودھا سے آپ کو خط لکھا تھا جس کے جواب میں مجھے آپ کا یہ مختصر سا خط خورشید ڈاکیۓ نے نومبر کی ایک سنہری دوپہر کو دیتے ہوۓ کہا تھا عاصم اج تے پڑوسی ملکُوں وی چھٹی آئی اے۔
اس خط کے ساتھ آپ نے ایک دستخط شدہ تصویر بھی بھیجی تھی جو میں نے عزیز دوست فرخ حامد کو دے دی تھی کہ فرخ نے اُن دنوں میں میری مدد کی تھی جب زندگی کے سب راستے مجھ پر بند ہونے لگے تھے فرخ تم جہاں بھی رہو خوش رہو۔
اُوشو ایک روحانی شخصیت تھے جن کے بے شمار عقیدت مند تھے اور اُن کا بنیادی فلسفہ امن،محبت اور بھائی چارے کا پرچار تھا امرتا جی نے اپنے خط میں اُوشو کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ہمارے ہاں نہ جانے کیوں محبت کی داستانوں کو سرگوشیوں میں بیان کرنے کی روایت ہے مگر امرتا پریتم نے احوال دل و عشق کو رسیدی ٹکٹ میں لکھ کر ایک عالم کو اپنا واقف حال کر دیا میں نے جب کالج کے زمانے میں رسیدی ٹکٹ پڑھی تو امرتا اور ساحر کا عشق اس قد فسوں خیز سا لگا کہ امرتا پریتم سا محبوب مجھے میری سوچوں کی وسعت سے بہت آگے نکلتا ہوا نظر آنے لگا امرتا اور ساحر کی محبت کی دلفریب داستان پریوں کی کہانی معلوم ہوتی تھی قرب کی تمنا میں روح کے ساتھ دونوں کے بدن بھی سلگتے تھے مگر وصال کا تصور ایسے ہی تھا جیسے دوکناروں کا ملنا رسیدی ٹکٹ میں امرتا لکھتی ہیں۔
“دل کی تہوں میں سب سے پہلا درد جس کے چہرے کی تابانی میں دیکھا وہ اس مذہب کا تھا جس مذہب کے لوگوں کے لیے گھر کے برتن بھی اچھوت قرار دے دئے جاتے ہیں ۔1957ء میں جب اکادمی کا ایوارڈ ملا فون پر خبر سنتے ہی سر سے پاؤں تک میں تاپ میں جھلسی گئی خدایا یہ سنیہڑے میں نے کسی انعام کے لیے تو نہ لکھے تھے جس کے لیے لکھے تھے اس نے نہ پڑھے اب کل عالم بھی پڑھے تو مجھ کو کیا”
امرتا جی جس کے لیےآپ نے یہ سنیہڑے لکھے اس نے پڑھے ہوں یا نہ پڑھے ہوں مگر کئی نسلوں نے یہ داستان عشق پڑھ کر اپنے دل کے نہِاں خانوں کو محبت کے چراغ کی دلگداز روشنی سے منور کیا۔
یہ 1999 کی بات ہے افضل ساحر ہندوستان میں کچھ دن گزار کر واپس آیا تھا پاک ٹی ہاؤس میں زاھد ڈار کی میز پر وہ امرتا پریتم سے اپنی ملاقات کا احوال جب بیان کر چکا تو میں نے افضل سے امرتا جی کا فون نمبر لیا اور زاھد ڈار کو خدا حافظ کہے بغیر ہی ایک پی۔سی۔او پر جا کر دم لیا فون ملانے پر دوسری طرف سے آپ نے کہا تھا۔
امرتا بولدی آں۔
میں نے فون پر گرتے ہوۓ یونٹوں کو دیکھتے ہوۓ اردو میں اپنا مختصر سا تعارف کروایا۔
امرتا جی نے نرم مدھم لہجے میں کہا پنجابی وچ دسو تُسی کون ہو؟۔
اور میں نے مزید یونٹ گرنے کے خوف سے فون چونگے پر دے مارا تھا۔
کچھ دنوں بعد میں نے سرگودھا سے آپ کو خط لکھا تھا جس کے جواب میں مجھے آپ کا یہ مختصر سا خط خورشید ڈاکیۓ نے نومبر کی ایک سنہری دوپہر کو دیتے ہوۓ کہا تھا عاصم اج تے پڑوسی ملکُوں وی چھٹی آئی اے۔
اس خط کے ساتھ آپ نے ایک دستخط شدہ تصویر بھی بھیجی تھی جو میں نے عزیز دوست فرخ حامد کو دے دی تھی کہ فرخ نے اُن دنوں میں میری مدد کی تھی جب زندگی کے سب راستے مجھ پر بند ہونے لگے تھے فرخ تم جہاں بھی رہو خوش رہو۔
اُوشو ایک روحانی شخصیت تھے جن کے بے شمار عقیدت مند تھے اور اُن کا بنیادی فلسفہ امن،محبت اور بھائی چارے کا پرچار تھا امرتا جی نے اپنے خط میں اُوشو کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ہمارے ہاں نہ جانے کیوں محبت کی داستانوں کو سرگوشیوں میں بیان کرنے کی روایت ہے مگر امرتا پریتم نے احوال دل و عشق کو رسیدی ٹکٹ میں لکھ کر ایک عالم کو اپنا واقف حال کر دیا میں نے جب کالج کے زمانے میں رسیدی ٹکٹ پڑھی تو امرتا اور ساحر کا عشق اس قد فسوں خیز سا لگا کہ امرتا پریتم سا محبوب مجھے میری سوچوں کی وسعت سے بہت آگے نکلتا ہوا نظر آنے لگا امرتا اور ساحر کی محبت کی دلفریب داستان پریوں کی کہانی معلوم ہوتی تھی قرب کی تمنا میں روح کے ساتھ دونوں کے بدن بھی سلگتے تھے مگر وصال کا تصور ایسے ہی تھا جیسے دوکناروں کا ملنا رسیدی ٹکٹ میں امرتا لکھتی ہیں۔
“دل کی تہوں میں سب سے پہلا درد جس کے چہرے کی تابانی میں دیکھا وہ اس مذہب کا تھا جس مذہب کے لوگوں کے لیے گھر کے برتن بھی اچھوت قرار دے دئے جاتے ہیں ۔1957ء میں جب اکادمی کا ایوارڈ ملا فون پر خبر سنتے ہی سر سے پاؤں تک میں تاپ میں جھلسی گئی خدایا یہ سنیہڑے میں نے کسی انعام کے لیے تو نہ لکھے تھے جس کے لیے لکھے تھے اس نے نہ پڑھے اب کل عالم بھی پڑھے تو مجھ کو کیا”
امرتا جی جس کے لیےآپ نے یہ سنیہڑے لکھے اس نے پڑھے ہوں یا نہ پڑھے ہوں مگر کئی نسلوں نے یہ داستان عشق پڑھ کر اپنے دل کے نہِاں خانوں کو محبت کے چراغ کی دلگداز روشنی سے منور کیا۔
یہ 1999 کی بات ہے افضل ساحر ہندوستان میں کچھ دن گزار کر واپس آیا تھا پاک ٹی ہاؤس میں زاھد ڈار کی میز پر وہ امرتا پریتم سے اپنی ملاقات کا احوال جب بیان کر چکا تو میں نے افضل سے امرتا جی کا فون نمبر لیا اور زاھد ڈار کو خدا حافظ کہے بغیر ہی ایک پی۔سی۔او پر جا کر دم لیا فون ملانے پر دوسری طرف سے آپ نے کہا تھا۔
امرتا بولدی آں۔
میں نے فون پر گرتے ہوۓ یونٹوں کو دیکھتے ہوۓ اردو میں اپنا مختصر سا تعارف کروایا۔
امرتا جی نے نرم مدھم لہجے میں کہا پنجابی وچ دسو تُسی کون ہو؟۔
اور میں نے مزید یونٹ گرنے کے خوف سے فون چونگے پر دے مارا تھا۔
کچھ دنوں بعد میں نے سرگودھا سے آپ کو خط لکھا تھا جس کے جواب میں مجھے آپ کا یہ مختصر سا خط خورشید ڈاکیۓ نے نومبر کی ایک سنہری دوپہر کو دیتے ہوۓ کہا تھا عاصم اج تے پڑوسی ملکُوں وی چھٹی آئی اے۔
اس خط کے ساتھ آپ نے ایک دستخط شدہ تصویر بھی بھیجی تھی جو میں نے عزیز دوست فرخ حامد کو دے دی تھی کہ فرخ نے اُن دنوں میں میری مدد کی تھی جب زندگی کے سب راستے مجھ پر بند ہونے لگے تھے فرخ تم جہاں بھی رہو خوش رہو۔
اُوشو ایک روحانی شخصیت تھے جن کے بے شمار عقیدت مند تھے اور اُن کا بنیادی فلسفہ امن،محبت اور بھائی چارے کا پرچار تھا امرتا جی نے اپنے خط میں اُوشو کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ہمارے ہاں نہ جانے کیوں محبت کی داستانوں کو سرگوشیوں میں بیان کرنے کی روایت ہے مگر امرتا پریتم نے احوال دل و عشق کو رسیدی ٹکٹ میں لکھ کر ایک عالم کو اپنا واقف حال کر دیا میں نے جب کالج کے زمانے میں رسیدی ٹکٹ پڑھی تو امرتا اور ساحر کا عشق اس قد فسوں خیز سا لگا کہ امرتا پریتم سا محبوب مجھے میری سوچوں کی وسعت سے بہت آگے نکلتا ہوا نظر آنے لگا امرتا اور ساحر کی محبت کی دلفریب داستان پریوں کی کہانی معلوم ہوتی تھی قرب کی تمنا میں روح کے ساتھ دونوں کے بدن بھی سلگتے تھے مگر وصال کا تصور ایسے ہی تھا جیسے دوکناروں کا ملنا رسیدی ٹکٹ میں امرتا لکھتی ہیں۔
“دل کی تہوں میں سب سے پہلا درد جس کے چہرے کی تابانی میں دیکھا وہ اس مذہب کا تھا جس مذہب کے لوگوں کے لیے گھر کے برتن بھی اچھوت قرار دے دئے جاتے ہیں ۔1957ء میں جب اکادمی کا ایوارڈ ملا فون پر خبر سنتے ہی سر سے پاؤں تک میں تاپ میں جھلسی گئی خدایا یہ سنیہڑے میں نے کسی انعام کے لیے تو نہ لکھے تھے جس کے لیے لکھے تھے اس نے نہ پڑھے اب کل عالم بھی پڑھے تو مجھ کو کیا”
امرتا جی جس کے لیےآپ نے یہ سنیہڑے لکھے اس نے پڑھے ہوں یا نہ پڑھے ہوں مگر کئی نسلوں نے یہ داستان عشق پڑھ کر اپنے دل کے نہِاں خانوں کو محبت کے چراغ کی دلگداز روشنی سے منور کیا۔
یہ 1999 کی بات ہے افضل ساحر ہندوستان میں کچھ دن گزار کر واپس آیا تھا پاک ٹی ہاؤس میں زاھد ڈار کی میز پر وہ امرتا پریتم سے اپنی ملاقات کا احوال جب بیان کر چکا تو میں نے افضل سے امرتا جی کا فون نمبر لیا اور زاھد ڈار کو خدا حافظ کہے بغیر ہی ایک پی۔سی۔او پر جا کر دم لیا فون ملانے پر دوسری طرف سے آپ نے کہا تھا۔
امرتا بولدی آں۔
میں نے فون پر گرتے ہوۓ یونٹوں کو دیکھتے ہوۓ اردو میں اپنا مختصر سا تعارف کروایا۔
امرتا جی نے نرم مدھم لہجے میں کہا پنجابی وچ دسو تُسی کون ہو؟۔
اور میں نے مزید یونٹ گرنے کے خوف سے فون چونگے پر دے مارا تھا۔
کچھ دنوں بعد میں نے سرگودھا سے آپ کو خط لکھا تھا جس کے جواب میں مجھے آپ کا یہ مختصر سا خط خورشید ڈاکیۓ نے نومبر کی ایک سنہری دوپہر کو دیتے ہوۓ کہا تھا عاصم اج تے پڑوسی ملکُوں وی چھٹی آئی اے۔
اس خط کے ساتھ آپ نے ایک دستخط شدہ تصویر بھی بھیجی تھی جو میں نے عزیز دوست فرخ حامد کو دے دی تھی کہ فرخ نے اُن دنوں میں میری مدد کی تھی جب زندگی کے سب راستے مجھ پر بند ہونے لگے تھے فرخ تم جہاں بھی رہو خوش رہو۔
اُوشو ایک روحانی شخصیت تھے جن کے بے شمار عقیدت مند تھے اور اُن کا بنیادی فلسفہ امن،محبت اور بھائی چارے کا پرچار تھا امرتا جی نے اپنے خط میں اُوشو کی طرف اشارہ کیا ہے۔