گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے فضلِ حسین ریڈنگ روم میں زبان و ادب پر سیمینار جاری تھا میں نے ساتھ والی نشست پر بیٹھی شعبہ اُردو کی ایک پی۔ایچ۔ڈی اُستاد سے سرگوشی میں پوچھا، ڈاکٹر صاحبہ فضل حسین صاحب کون تھے جن کے نام سے یہ ریڈنگ روم منسوب ہے بجاۓ اِس کے کہ کوئی جواب دیتیں ، وہ میری ساتھ والی کرسی سے اُٹھ کر وہاں جا بیٹھیں جہاں فوٹو گرافر کی توجہ نسبتاً زیادہ تھی۔ بعد ازاں یہی سوال میں نے قریب بیٹھے دو چار طالب علموں سے بھی کیا مگر کسی سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ سیمینار کی فضا معزز مہمانِ گرامی کے ناموں کی فہرست اور تقریروں کے حوالوں سے بوجھل پن کا احساس لیے ہوۓ تھی کہ اِسی دوران عہد حاضر کے معروف شاعر کو سٹیج پر آنے کی زحمت دی گئ جو تقریر کے دوران کام تو کسر نفسی سے لے رہے تھے، مگر خود ستائشی کے دامن کو چھوڑنے پر کسی طور آمادہ نہ تھے۔ آخر میں اُن سے نظم کی فرمائش بھی کی گئ ابھی وہ نظم کے پس منظر کو سمجھانے کے لئے کسی کمرہ امتحان کا نقشہ کھینچ رہے تھے کہ مجھے سیگرٹ کی طلب میں وہاں سے نکلنے ہی میں عافیت نظر آئی۔ باہر نکلا تو ہر سو بادل چھاۓ ہوۓ تھے سوچا سیرِگل کے بہانے اورینٹل کالج اور گورنمنٹ کالج کی درمیانی سڑک کا ہی پھیرا لگا آؤں ، جہاں نجانے کب سے نسل در نسل پرانی کتابیں بیچنے والے بیٹھے ہیں، شائد کوئی (اچھی چوپڑی) کمیاب کتاب ہی مل جاۓ۔
پرانی کتابیں بیچنے والوں کے پاس برسوں سے مسلسل جانے کی بدولت میرے اب اُن سب سے دوستانہ مراسم ہیں۔ ابھی میں نے دوسرے سیگرٹ کا پہلا کش لگایا ہی تھا کہ بوندا باندی شروع ہو گئ ،ساتھ والے اسٹال سے دوکاندار نے کہا کہ موسم کی مناسبت سے آلو والے پراٹھے کھانے کو جی چاہ رہا ہے، اِس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا میں نے تین سو روپے اُسے تھماتے ہوۓ یہ کتاب اٹھا لی۔ Paris-Calcutta Images in harmony Shyamal Roy 1993 USA LIMITED EDITION
دوستو! درحقیقت اس کتاب کو میں نے بہت دلچسپ پایا۔ اس کتاب میں تحریر کی بجاۓ متن کے طور پر ایک سو دو بلیک اینڈ وائٹ تصاویر شامل ہیں۔ کتاب کے آغاز میں دیباچے کے طور پر کوئی لمبی چوڑی تمہید شامل نہیں ہے، البتہ چند سطور پر مشتمل دیباچے میں مصنف/عکاس شمیل رائے نے اس بات کو ضرور سراہا ہے کہ فرانسیسی صدر متراں ایک بار پیرس سے کلکتہ ستیہ جیت راۓ کو خراج تحسین پیش کرنے آۓ تھے۔ اس کتاب میں تصاویر کے ذریعے دو تہذیبوں کا تقابل کیا گیا ہے۔
مغرب سے برصغیر کا تقابل کرتے وقت ہم انگریز راج کے عہد سے آگے نہیں نکل پاتے۔ کیا برصغیر کی انگریز سرکار سے پہلے کی تہذیب اب ہمارے لیے ایک قصہ پارینہ بن چکی ہے یا خود کو مغرب زدہ کہلانے کے شوق میں ہم جان بوجھ کر اُس تہذیب کو فراموش کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
سرپوش،کمخواب اور اُگالدان ہمارے تہذیبی منظر سے کب اور کیسے غائب ہوۓ کسی کو علم نہیں ہے۔اِسی طرح شکریہ،نوازش اور مہربانی پر کیسے ایک لفظ “تھینک یو” نے قبضہ جمایا یا پھر واقعی،حقیقت میں یا سچ مچ کی جگہ ( oh really ) کو کیسے ملی، ہمیں اس کا بھی کچھ علم نہیں ہے۔ ہم پتلون پہن کر اب پان کی گلوری کھانے سے احتراز کرتے ہیں، اسی لیے برصغیر کا مغرب سے تقابل کرتے ہوئے ہمارا آغاز کلونيل عہد سے ہی ہوتا ہے۔
یہ درست ہے کہ عالم انسانیت کی فلاح کے لۓ بہترین ایجادات اہل مغرب نے کی ہیں مگر تہذیبی سطح پر مغرب سے اس قدر متاثر ہونا مجھے تو کافی نا قابلِ فہم لگتا ہے۔ غالب کلکتہ گۓ تو وہاں اپنے کم و بیش تین سالہ قیام کے دوران ایجاداتِ فرنگ سے ہی متاثر نہ ہوئے بلکہ شام سلونے بنگالی پری وش چہروں کو بھی فراموش نہ کر سکے، جب بھی وہ نازنیں یاد آتیں تو وہ ہاۓ ہاۓ پکار اٹھتے تھے۔
اس کتاب میں چہرہ و ناموں کی بجائے کہیں وکٹورین طرز کے سٹریٹ لیمپ ہیں، تو کہیں درختوں کی شاخوں سے جھانکتی ہوئی عمارتیں. اسی طرح دریاۓ سین اور دریاۓ جمنا کے کناروں کی دلفریب تصویریں بھی دل کو کھینچتی ہیں۔ کیسے کیسے مناظر ہیں جنھیں شمیل رائے نے کیمرے سے مقید کر کے پیرس اور کلکتہ کے مشترکہ ورثے کو آنے والی نسلوں کے لۓ محفوظ کر لیا ہے۔
ہمارے خطے کے لوگوں کو تاریخ محفوظ کرنے سے زیادہ سروکار نہیں ، سو وہ وقت زیادہ دُور نہیں جب کلکتہ کی تاریخ بھی اوراقِ گمشدہ کی طرح کہیں کھو جاۓ گی اور پھر ایسی کتابیں ہی اس شہر کی عظمت رفتہ کی گواہی دیں گی۔ اس کتاب میں پیرس کی ایک قد آدم دیوار کے ساتھ دو تھرکتے ہوۓ ساۓ بوس و کنار میں یوں مگن ہیں کہ جیسے وہ خود کو بھول چکے ہوں جبکہ کلکتہ کے ایک پارک میں بھی ایسا ہی ایک منظر ہے جو دو مرد و زن کے اضطراب کی عکاسی کر رہا ہے، یعنی تھوڑی سی قربت کے لیے بھی ہم خوف سے باہر نکل نہیں سکتے۔
شمیل راۓ نے کتاب کی اشاعت کے دوران ایک بھید بھرا التزام یہ رکھا ہے کہ ہر بائیں صفحے پر شہر پیرس کا کوئی منظر ہے اور اس کے مقابل دائیں صفحے پر کلکتہ شہر کا۔ آمنے سامنے کے دونوں مناظر میں حیران کن حد تک مماثلت ہے میں نے کتاب سے چار تصاویر کا انتخاب کیا ہے دو کی تفصیل پہلے بیان کر چکا ہوں، دوسری دو تصاویر مشرق و مغرب کے ان شہروں کے دو پارکس میں ایستادہ شیر کے مجسموں کی ہیں۔
برسبیل ِ تذکرہ یاد آیا کہ پچھلے دنوں میں نے دارجلنگ کی چاۓ کے بارے میں نے ایک انتہائی دلچسپ کتاب پڑھی، جس میں ذکر تھا کہ دارجلنگ چاۓ کی ترسیل، گزشتہ سو سالوں سے “جے تھامس اینڈ کو کلکتہ” کے ذریعے سے ساری دنیا میں ہورہی ہے ، جبکہ دنیا میں چاۓ کا سب سے قدیم اور مہنگا ترین سٹور ( mariage feres ) پیرس میں واقع ہے۔ اسی طرح کچھ عرصہ قبل پیرس کے بارے میں درج ذیل دو عمدہ کتب بھی زیرِ مطالعہ رہیں: Anges poirier – Left bank – 2018 ۔ London Hemingway – Moveable feast – 1994 -uk Jeff Koehler- Darjeeling(A history of world’s greatest tea) – 2016 – UK اگر آپ دوستوں کو کبھی فرصت ملے تو یہ کتب بھی ضرور پڑھیے گا۔
شمیل راۓ کے تصویری مرقع کے پہلے ہی صفحے پر
قلم سے لکھا ہے کہ یہ کتاب کسی ٹیڈ نامی آدمی کو پیش کی گئ ہے اور
نیچے تاریخ کے ساتھ دستخط ثبت ہیں۔ مجھے گمان ہے کہ یہ دستخط صاحبِ کتاب، عکاس شمیل راۓ کے ہی ہیں آپ دوستوں سے بھی اس سلسلے میں تعاون کی ضرورت ہے۔