سائبان تَن چکے تھے، وسیع وعریض میدان کو پھول دار قناتوں سے محدود کیا گیا تھا اور اِس مخصوص پِنڈال کو مزید دو حصوں میں تقسیم کر کے لوگوں کے بیٹھنے اور کھانے کی جگہ کا الگ الگ اہتمام کیا گیا تھا۔ساتھ والی حویلی سے مختلف قسم کے کھانوں کی خوشبو آ رہی تھی، جہاں قورمہ، بریانی اور متنجن کی دیگیں پک رہی تھیں۔۔۔۔۔
چوہدری شکیل تمام انتظامات کا خود جائزہ لے رہا تھا کیوں کہ آج اس کے والد چوہدری رحمت اللہ کی رسمِ چہلم کی تقریب تھی۔ علاقے کا نامی گرامی وکیل اور خاندانی زمین دار ہونے کے ناتے وہ اپنی شایانِ شان اس رسم کی انجام دہی چاہتا تھا۔۔۔
قرآن خوانی اور دعا کے لیے بیٹھنے کے واسطے اعلیٰ قالین بچھ چکے تھے، اور ساتھ ساتھ گاؤ تکیے بھی سجا دئیے گئے تھے۔ گرمی کی شدت کے پیشِ نظر، ہوا کے ساتھ پھوار پھینکنے والے جدید پنکھے، پورے پنڈال میں پھیلا دئیے گئے تھے اور ایک اعلیٰ قسم کا ساؤنڈ سسٹم بھی نصب کر دیا گیا تھا جب کہ دوسری جانب کھانے کے لیے میز اور کرسیاں سجا دی گئی تھیں۔۔۔
بڑی بڑی گاڑیوں میں لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہوا، دیکھتے ہی دیکھتے پنڈال کھچا کھچ بھر گیا۔ دور دراز سے بلائے گئے جید عالم دین نے”حقوقِ والدین” پہ نہایت مدلل خطاب فرمایا اور قرآن و حدیث کی رو سے والدین کی عظمت اور بعد از مرگ ان کے لیے ایصالِ ثواب کی افادیت پر روشنی ڈالی اور صالح اولاد کی مثال دیتے ہوئے چوہدری شکیل کا ذکر کیا۔۔۔۔۔
دعا کے بعد، لوگ ٹولیوں کی شکل میں شکیل کے اردگرد آ کر بیٹھتے، مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کرتے اور ایصال ثواب کے اس اہتمام کو نہایت رشک کی نگاہ سے دیکھتے، جس پر چہلم کا کم اور ولیمے کا زیادہ گمان گزرتا۔۔۔۔
لوگ کھانا کھانے کے بعد یہ آرزو دل میں لئے، پنڈال سے نکل رہے تھے کہ اللہ ہر کسی کو چوہدری شکیل جیسا صالح بیٹا دے، جس نے اولاد ہونے کا حق ادا کر دیا۔۔۔۔۔
چوہدری رحمت اللہ نے زندگی بھر اپنے زرعی رقبے کی خود نگرانی کرتے ہوئے زراعت کو خوب ترقی دی تھی اور مرتے دم تک اپنی وراثتی زمین سے چار گنا زیادہ جاگیر کا مالک بن گیا تھا۔۔۔۔اس کے علاؤہ شہر کے وسط میں عالیشان بنگلہ الگ۔۔۔۔ یہ ساری جائیداد، چوہدری رحمت اللہ کے اکلوتے فرزند، شکیل کے حصے میں آئی تھی۔۔۔
اکثر مہمان کھانا کھا کر جا چکے تھے۔۔۔۔ چوہدری شکیل نے کھانے کے پنڈال پہ ایک نظر ڈالی ۔۔۔ وہ رسمِ چہلم کے شان دار انعقاد پر نہایت مطمئن نظر آ رہا تھا۔۔۔
چوہدری رحمت اللہ کا انتقال تقریباً سوا ماہ قبل بنگلے کے انتہائی نکڑ والے کمرے میں ہوا تھا۔۔۔ وہ گزشتہ تین ماہ سے فالج کا شکار ہو کر چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے تھے لیکن ان کی موت، شدید گرمی میں دم گھٹنے سے واقع ہوئی تھی۔ ان کے کمرے میں نصب پنکھا، کیپیسٹر کے خراب ہو جانے کے باوجود چل تو رہا تھا مگر گھومنے کی رفتار اتنی سست تھی کہ ہوا چارپائی تک پہنچنے سے قبل ہی فضا میں تحلیل ہو جاتی۔۔۔۔