فون کی گھنٹی بجی اور آصف فرخی کا نام مانیٹر پر جھلملانے لگا ۔ میں نے جھٹ فون اُٹھا لیا ۔
میں، نوول کورونا وائرس نامی وبا کے ہاتھوں دنیا بھر کے انسانوں کی بے بسی کی خبروں کی زد پرتھا۔ میرا حوصلہ جواب دے رہاتھا۔ ایسے میںاپنے افسانہ نگار دوست کے فون کا آجانا اچھالگاتھا۔ آصف کو یہ اچھا نہ لگا تھا کہ میں ڈپریشن کے آگے ڈھے سا گیا تھا اور پڑھنے لکھنے سے الگ ہو کر ہاتھ باندھے بریکنگ نیوز کی زد پر تھا ۔ کہنے لگا :
”پڑھنا لکھنا نہیں چھوڑنا ۔۔۔ اور لکھنا تو بالکل نہ چھوٹے ۔ دیکھو ،میں بھی توتالا بندی کا روزنامچہ لکھ رہا ہوں ۔ “
میںنے صبح ہی اُس کا لکھا ہوا روزنامچہ پڑھا تھا اور اس کے ایک جملے کو نشان زد کرکے کئی بار دہرایا تھا:
” لکھنا نہ ہوتا تو میں کیا کرتا؟میرے لیے یہی سزا تجویز کی گئی ہے۔“
لکھناسزا ہے یا پناہ گاہ ؟ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا تھا اورکچھ دیر اس سوال سے الجھنے اور کسی نتیجے پر نہ پہنچنے پر ٹیلی وژن کی اسکرین سے دہشت اچھالتی خبریں پڑھتی اس لڑکی کے چہرے کی طرف متوجہ ہوگیا تھا جو ہر بار تصدیق شدہ کرونا وائرس کے مریضوں میں اضافے پر پرجوش ہورہی تھی۔
مجھے یاد ہے جب ہمارے کشمیراور خیبر پختون خواہ میں۸ اکتوبر۵۰۰۲ ءکا شدید زلزلہ آیا تھا اوروہاں بڑے پیمانے پر انسانی المیے نے جنم لیا تھا؛ اتنا کہ آٹھ ملین آبادی متاثر ہوئی، تہتر ہزار سے زائد لوگ موت کا لقمہ بن گئے تھے اور ادھر اسلام آباد کے ایک پلازے کے گرنے سے بھی اموات ہوئی تھیں ،تب بھی مجھے دُکھ کی ایسی ہی شدید باڑھ نے نڈھال کر دیا تھا۔
آصف فرخی نے اس زمانے میں اُس تباہ کاری کا روزنامچہ لکھا تھا، اگر میں بھول نہیں رہا تو اس روزنامچے کا عنوان تھا:”بے تابی سے کیا حاصل“۔ میں کچھ لکھنے کو بے تاب تھا مگرمیرے ہاں ہک دک پڑے تخلیقی عمل نے قدرے بعد میںانگڑائی لی تھی۔ جی تک کہیں جا کر میں نے ایک طویل افسانہ لکھا تھا:”ملبا سانس لیتا ہے۔“ خیر یہ تب کی بات ہے ۔ اب کیا ہوگا؟ میں نہیں جانتا کہ کچھ لکھ بھی پاﺅں گا یا نہیں۔ آصف بہت نفیس افسانہ نگارہے ، افسانہ نہ لکھ رہا ہوتو تراجم کی طرف نکل لیتا ہے ۔ اِدھر نہ دل لگے توکوئی کالم یا مضمون لکھ لیا ۔ کہہ لیجئے یہ اقبال کے ایمان والوں کی طرح‘صورت خورشیداِدھر ڈوبتا ہے تو اُدھر سے نکل پڑتا ہے۔ اپنا ایمان اس معاملے میں اتنا قوی نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ جوں جوں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی خبریں آتی ہیں یا چین کے سنبھلنے کے بعد اس وبا کے دنیا کے ایک سو ننانوے ممالک میں پیش قدمی کا سنتا ہوں اورترقی یافتہ ملکوں میں حکومتوں اور انسانوں کی بے بسی کو دیکھتا ہوں تو اپنے ملک کی بابت سوچنے لگتا ہوں ۔ جی، یہاں ہر دن کے گزرنے پر صورت حال سنگین ترین ہو رہی ہے۔ میری پریشانی اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب یہاں کوئی بھی صورت حال کی نزاکت کو ڈھنگ سے سمجھنے کو تیار نہیں ہوتا۔ حکمران ہوں یا اپوزیشن میں بیٹھے سیاست دان اول تو دونوں بد حواس ہیں یا پھر اتنے کم ظرف اور مکار کہ اپنے سیاسی حسابات چکانے میں لگے ہوئے ہیں ۔
خیر ،آصف فرخی کے مجوزہ نسخے کے مطابق میں اس دِل کے بہلانے کو، اپنا لیپ ٹاپ گود میں لے کر ’ ’روزنامچہ“ لکھنے بیٹھ گیا ہوں تو سوچ رہا ہوں کہ بات کہاں سے شروع کروں ۔ جب سے لاک ڈاﺅں کے حکومتی احکامات آئے ہیں میں باہر نہیں نکلا ۔ آج بھی نہیں نکلوں گا ۔ باہر گیٹ پر پرسوں کا تالا پڑا ہوا ہے ۔ اندر باہر کے سب دروازوں پر جہاں جہاں ہاتھ پڑ سکتے تھے ، سعد بیٹے نے انہیں جراثیم کش محلول سے رگڑرگڑ کر صاف کر دیا ہے اور ساتھ ہی یہ کہہ دیا ہے کہ ہم سب گھر کے اندر رہیں گے۔ اُس نے کسی کا یہ کہا بھی یاد دلایا ہے کہ ”کرونا وائرس بہت انا پرست ہے ، جب تک اسے کوئی لینے باہر نہ جائے یہ گھر میں نہیں آئے گا۔“ پہلے پہل ہم سب اس جملے سے لطف انداوز ہوئے تھے اور سب نے مل کر قہقہہ بھی لگایا تھا۔
ہینڈ سینٹائزر کو مناسب جگہ پر رکھنا ، وٹامن سی کی گولیاں گھول کر پینا یا سارے گھر کو صاف کرنا؛ سب ہوچکا تو میں کتاب لے کر ایک طرف ہو گیا ۔ بہوسمیعہ کینوس پر پینٹنگ بنانے لگی۔سعد کمپیوٹر پر بیٹھ گیا کہ اسے دفتر کاکام گھر سے کرنا تھا۔ میری بیگم یاسمین نے حمرا خلیق سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کی کتابیں ضرور پڑھے گی لہٰذا اُس نے ”مشرق و مغرب کے افسانے“ اُٹھالی ۔ دیکھا دیکھی بیٹی وشانے بھی محسن حامد کا ناول اُٹھا لیا اور پڑھنے لگی تھی ۔
آخر کب تک ۔ لاک ڈاﺅن طویل ہونے لگا تھا اور وقت تھا کہ گزرتا ہی نہ تھا۔ بچے اُکتا کر ٹی وی لاونج میں جمع ہو گئے تولُڈو اُٹھا لی ۔ ہم پانچ تھے اور لڈو چار ہی کھیل سکتے تھے ۔وہ چاروں کھیلتے رہتے ۔پچھلے سارے دنوںمیں، میں ٹی وی پر خبریں سنتا رہا اوروبا کی ساری سنسی اپنے بدن میں اُتارتا رہا ۔ بیگم اوربچے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کا ہنر جان گئے تھے ۔ وہ ایک کھیل سے اکتاتے تو کھیل بدل کر تاش اٹھا لیتے ۔ رمی، رنگ، سویپ۔ میں ان میں تھا مگر وہاں نہیں تھا ۔ وہ کھیلتے ہوئے شور مچاتے ۔ ایک دوسرے سے شکایت بھی کرتے کہ غلط چال چلی گئی یا بے ایمانی ہوئی ۔ میں خبریں سنتا رہتا ۔ایسے میں اس خبر مجھے بہت اور بھی پریشان کردیا کہ یہ وائرس قدرتی آفت نہیں تھا لیبارٹری میں تیار کیا گیاتھا ۔
”بے ایمانی “ وشا نے شاید سمیعہ کی چال پر اعتراض کیا تھا اور اس نے جواباً کہا تھا: ” الزام ہے یہ ، میں نے درست چال چلی ہے۔“
ممکن ہے یہ محض الزام ہو ؛ میں نے سوچتا ، اور یہ وائرس قدرت کے کارخانے سے ہمارے لیے وبا بن کر پھوٹ پڑا ہو ۔ کچھ بھی ممکن تھا تاہم اس وائرس کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ ہوا کے دوش پر سفر کرتا ہماری فضا مسموم کر دیتا ۔ اسے سرحد پار کرنے والے اپنے ساتھ لائے اور اب یہ ایک سے دوسرے اور پھر سیکڑوں ہزاروں میں منتقل ہو رہا تھا ۔
بچے شور مچاتے رہتے ہیں اور میں خبروں کی طرف سے دھیان ہٹا کر کتاب اُٹھا لیتا ہوں۔میری نظر کتاب پر پڑتے ہی مجھے لگتا ہے جیسے سارے لفظ کسی محلول کی طرح بہہ کرادھر ادھر ہونے لگے ہیں اس محلول میں بالکل اسی شکل کے چھوٹے چھوٹے رنگین نقطے تیرنے لگتے ہیں جس شکل کا کرونا وائرس ٹی وی اسکرین پر مسلسل دکھایا جارہا تھا۔ میں اپنا نظر یں وہاں سے زور زبردستی الگ کرکے میچ لیتا ہوں ۔ اب آنکھوں میں اندھیرا ہے جسے کمرے کے قمقمے سے بہہ کر آتی روشنی کھرچ رہی ہے ، یہاں تک کہ چربی چڑھا نہ نظر آنے والا بہت چھوٹا پروٹین مالیکیول وہاں جگہ بنا لیتا ہے ۔ یکایک ساری دنیا چھوٹی ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ جی وہی دنیا جو وہیں کہیں روشنی میں تھی۔ روشنی میں یا اندھیرے میں ،میں ڈھنگ سے اندازہ نہ کرپایا تھا تاہم صاف دیکھ سکتا تھا کہ یہ دنیا اتنی چھوٹی ہو گئی تھی کہ اس منے سے مالیکیول نے اس پر اپنے پنجے گاڑلیے تھے ۔میرا بدن لرزنے لگتا ہے ۔ جسم کے خلیے خلیے سے پسینہ پھوٹ بہتا ہے ۔ گلا خشک ہو جاتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ اسی دنیا میں، میں بھی کہیں تھا ۔ ایک نقطے سا ۔ نہیں شاید میں کہیں نہیں تھا ۔ میں چونک کر آنکھیں کھول دیتا ہوں اور اپنا بدن ٹٹولنے لگتا ہوں جیسے وہاں اپنے آپ کو اپنے ہونے کا یقین دلا رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔
ٹیلی وژن کی خوب صورت لڑکی اپنے سپاٹ چہرے کے ساتھ کورونا وائرس سے ہونے والی اجتماعی اموات کی خبرپڑھ رہی ہے۔ اسکرین پر ایران کے شہر قم کے بہشت معصومہ قبرستان کی تصویر چل رہی ہے جس میں تاحد نظر کھدی ہوئی قبریں نظر آرہی ہیں ۔میں جلدی سے چینل بدل دیتا ہوں ۔ یہاں بھی کورونا وائرس کی ملک ملک کی خبریں ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ اس وبا میں مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔اچانک باہر گیٹ پر کوئی پش بٹن پر انگلی رکھ دیتا ۔ میں ادبدا کر باہر کی سمت لپکتا ہوں ، اس خیال سے کہ شاید بیٹیاں ملنے آگئی ہوں گی ۔
نہیں بیٹیاں وہاں نہیں ہیں ۔ گیٹ پر تو ایک بوڑھا شخص کھڑا ہے۔بوڑھے نے اپنا منہ لپیٹ رکھا ہے۔ یقینا اس کے پاس ماسک نہیں ہوگا؛ میں نے سوچا۔ ماسک اور دوسری ضرورت کی چیزیں ذخیرہ اندوزوں نے مال بنانے کے لیے دبا رکھی ہیں ۔ مجھے گیٹ پر کھڑے شخص کو پہچاننے میں بس ایک لمحہ لگتا ہے حالاں کہ اس نے اپنا چہرہ کپڑے میں یوں لپیٹ رکھا ہے کہ اس میں سے بس اس کی آنکھیں، آدھی پیشانی اور چند پراگندہ سفید بال ہی نظر آرہے ہیں ۔مجھے یاد آجاتا ہے کہ اس بوڑھے شخص کو میں نے لاک ڈاﺅن کے اعلان سے پہلے اسی گلی کے آخر میں تعمیر ہونے والے مکان پر مزدوری کرتے دیکھا تھا ۔ تب بھی اس نے اسی طرح منہ سر ڈھانپ رکھا تھا۔ میں اندازہ کر سکتا تھا کہ تب اس نے اینٹوں سے جھڑتی پکی ہوئی مٹی سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے منڈاسا مارا ہوگا۔ جب میں نے اسے دیکھا تھا تو وہ کسی نوجوان کی طرح اینٹیں چھت کے کنارے پر بیٹھے اپنے اس ساتھی کی سمت اچھال رہا تھا کہ وہ انہیں اوپر کی منزل کی تعمیر کے لیے وہاں ڈھیر کرتا جائے ۔ وہ بوڑھا شخص جب جب اینٹ چھت کی سمت پھینکتا تھا تو اپنے ساتھی کو ہوشیار کرنے کے لیے”ایہہ لے“ کا نعرہ لگاتا تھا۔ وہ منظر ایسا پر لطف تھا کہ میں وہ اسے کچھ دیر کے لیے دیکھتا رہ گیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔
بوڑھے کی آنکھیں آنسووں سے بھری ہوئی تھیں ۔ میں چپ چاپ اسے گیٹ کے اوپر سے دیکھتا رہا ۔ اس کے ہاتھ اٹھے اور ایک کپکپاہٹ میری سمت اچھال کر نیچے گر گئے ۔ میں جو اس کا ساتھی نہیں تھا ۔ اچانک وہ نیچے زمین پر بیٹھ گیا۔ اب میں اسے نہیں دیکھ سکتا تھا تاہم اس کی لرزتی آواز سن سکتا تھا جس میں اس نے اپنے بچوں کے تین دن سے بھوکے ہونے کا بتایا تھا اور کچھ اور کہنے سے پہلے یوں چپ ہو گیا تھا جیسے اوپر اچھالی جانے والی اینٹ واپس آکر اس کی کنپٹی پر لگی اور اسے خاموش کر گئی تھی ۔
جب وہ چلا گیا ۔ میں صابن سے کئی بار مل مل کر ہاتھ دھوئے اور ٹیلی وژن کے سامنے آکر بیٹھ گیا تھا۔اب وہاں اٹلی کے شہر میلان میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی اجتماعی تدفین کا منظر چل رہا تھا۔ یہ کیسی تدفین تھی کہ اس میں کسی کا کوئی پیارا شریک نہیں تھا ۔ بس لاشوں کو ایک گڑھے میں دھکیلا جا رہا تھا۔فوراً ہی بعد ایک شخص اسکرین پر نمودار ہوا۔ اس شخص کا نام اینڈریا کیریٹو لکھا ہوا نمایاں ہورہا تھا۔ اس نے کہا :”اس وبا سے مرنے والے لوگ دو مرتبہ مرتے ہیں ۔“ اس جملے کا مفہوم سمجھنے کے لیے میں نے پوری توجہ وہاں مرتکز کر دی ۔ اس نے اضافہ کیا تھا:”پہلے کورونا وائرس کی یہ وبا زندگی ہی میں مرنے والے کومارتی اور اپنے پیاروں سے دور کر دیتی ہے ۔ اور دوسری بار ایسی موت کہ اس کے پیاروں کو لاش پر رونا تو درکنار دیکھنے بھی نہیں دیتی۔ “
میں نے ریموٹ اُٹھایا اور ٹیلی وژن آف کر دیا ۔ اب وہاں محض سیاہ چوکھٹاتھا ۔ قبر جیسا چوکٹھا۔ میرا دھیان سمیعہ کی پینٹنگ کی طرف چلا جاتا ہے جو نہ جانے کب اس نے مکمل کرکے وہاں دیوار کے ساتھ رکھ چھوڑی ہے۔ اس بچی کے پاس کمال کا ہنر ہے ۔ رنگوں اور برش سے کینوس پر ایک کہانی لکھ کر رکھ دیتی ہے۔ اس بار اس نے ایک دروازہ بنایا ہے ۔ایک سنسان گلی میں پوری طرح بھڑا ہوا دروازہ ۔
میں نیچے اسٹڈی میں اتر جاتا ہوں اور آصف کے کہے کے مطابق لاک ڈاﺅن کا روزنامچہ لکھنے کے لیے اپنا لیپ ٹاپ گود میں رکھ لیتا ہوں ۔ میں سوچتا ہوں اور دھیان میں وہ دروازہ آجاتا ہے جس کے کواڑ بند ہیں اور وہ گلی بھی جو دور تک سنسان پڑی ہے۔
۔۔۔۔۔