Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
سید آل رضا 10 جون 1896 ء کو قصبہ نبوتنی ضلع اناﺅ (یو، پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سید محمد رضا 1928ء میں
اودھ چیف کورٹ کے اولین پانچ ججوں میں شامل تھے ۔
سید آل رضا نے 1916ء میں کنگ کالج لکھنؤ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور 1920ءمیں الٰہ آباد سے ایل ایل بی پاس کرکے لکھنؤ میں وکالت شروع کی۔ 1921ءمیں وہ پرتاب گڑھ چلے گئے جہاں 1927ءتک پریکٹس کرتے رہے۔ 1927ءکے بعد دوبارہ لکھنومیں سکونت اختیار کی۔ تقسیم کے بعد پاکستان تشریف لے آئے اور پھر ساری عمر اسی شہر میں گزاری۔
سید آل رضا کی شاعری کا آغاز پرتاب گڑھ کے قیام کے دوران ہوا۔ 1922ءمیں انھوں نے باقاعدہ غزل گوئی شروع کی اور آرزو لکھنوی سے بذریعہ خط کتابت تلمذ حاصل کیا۔ 1929ءمیں آل رضا کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ”نوائے رضا“ لکھنؤ سے اور 1959ءمیں دوسرا مجموعہ ”غزل معلی“ کراچی سے شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے بہت کم غزلیں کہیں اور تمام ترصلاحیتیں نوحہ و مرثیہ کے لئے وقف کردیں۔
1939ءمیں انہوں نے پہلا مرثیہ کہا جس کا عنوان تھا “شہادت سے پہلے” دوسرا مرثیہ 1942ءمیں جس کا عنوان تھا ”شہادت کے بعد“ یہ دونوں مرثیے 1944ءمیں لکھنؤ سے ایک ساتھ شائع ہوئے۔
قیام پاکستان کے بعد نور باغ کراچی میں سید آل رضا نے اپنا پہلا مرثیہ ”شہادت سے پہلے“ پڑھا اور اس طرح وہ پاکستان کے پہلے مرثیہ گو قرار پائے۔ کراچی کی مجالس مرثیہ خوانی کے قیام میں سید آل رضا کی سعی کو بہت زیادہ دخل ہے۔
یکم مارچ 1978ءکو سید آل رضا وفات پاگئے۔وہ کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں
سید آل رضا 10 جون 1896 ء کو قصبہ نبوتنی ضلع اناﺅ (یو، پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سید محمد رضا 1928ء میں
اودھ چیف کورٹ کے اولین پانچ ججوں میں شامل تھے ۔
سید آل رضا نے 1916ء میں کنگ کالج لکھنؤ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور 1920ءمیں الٰہ آباد سے ایل ایل بی پاس کرکے لکھنؤ میں وکالت شروع کی۔ 1921ءمیں وہ پرتاب گڑھ چلے گئے جہاں 1927ءتک پریکٹس کرتے رہے۔ 1927ءکے بعد دوبارہ لکھنومیں سکونت اختیار کی۔ تقسیم کے بعد پاکستان تشریف لے آئے اور پھر ساری عمر اسی شہر میں گزاری۔
سید آل رضا کی شاعری کا آغاز پرتاب گڑھ کے قیام کے دوران ہوا۔ 1922ءمیں انھوں نے باقاعدہ غزل گوئی شروع کی اور آرزو لکھنوی سے بذریعہ خط کتابت تلمذ حاصل کیا۔ 1929ءمیں آل رضا کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ”نوائے رضا“ لکھنؤ سے اور 1959ءمیں دوسرا مجموعہ ”غزل معلی“ کراچی سے شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے بہت کم غزلیں کہیں اور تمام ترصلاحیتیں نوحہ و مرثیہ کے لئے وقف کردیں۔
1939ءمیں انہوں نے پہلا مرثیہ کہا جس کا عنوان تھا “شہادت سے پہلے” دوسرا مرثیہ 1942ءمیں جس کا عنوان تھا ”شہادت کے بعد“ یہ دونوں مرثیے 1944ءمیں لکھنؤ سے ایک ساتھ شائع ہوئے۔
قیام پاکستان کے بعد نور باغ کراچی میں سید آل رضا نے اپنا پہلا مرثیہ ”شہادت سے پہلے“ پڑھا اور اس طرح وہ پاکستان کے پہلے مرثیہ گو قرار پائے۔ کراچی کی مجالس مرثیہ خوانی کے قیام میں سید آل رضا کی سعی کو بہت زیادہ دخل ہے۔
یکم مارچ 1978ءکو سید آل رضا وفات پاگئے۔وہ کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں
سید آل رضا 10 جون 1896 ء کو قصبہ نبوتنی ضلع اناﺅ (یو، پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سید محمد رضا 1928ء میں
اودھ چیف کورٹ کے اولین پانچ ججوں میں شامل تھے ۔
سید آل رضا نے 1916ء میں کنگ کالج لکھنؤ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور 1920ءمیں الٰہ آباد سے ایل ایل بی پاس کرکے لکھنؤ میں وکالت شروع کی۔ 1921ءمیں وہ پرتاب گڑھ چلے گئے جہاں 1927ءتک پریکٹس کرتے رہے۔ 1927ءکے بعد دوبارہ لکھنومیں سکونت اختیار کی۔ تقسیم کے بعد پاکستان تشریف لے آئے اور پھر ساری عمر اسی شہر میں گزاری۔
سید آل رضا کی شاعری کا آغاز پرتاب گڑھ کے قیام کے دوران ہوا۔ 1922ءمیں انھوں نے باقاعدہ غزل گوئی شروع کی اور آرزو لکھنوی سے بذریعہ خط کتابت تلمذ حاصل کیا۔ 1929ءمیں آل رضا کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ”نوائے رضا“ لکھنؤ سے اور 1959ءمیں دوسرا مجموعہ ”غزل معلی“ کراچی سے شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے بہت کم غزلیں کہیں اور تمام ترصلاحیتیں نوحہ و مرثیہ کے لئے وقف کردیں۔
1939ءمیں انہوں نے پہلا مرثیہ کہا جس کا عنوان تھا “شہادت سے پہلے” دوسرا مرثیہ 1942ءمیں جس کا عنوان تھا ”شہادت کے بعد“ یہ دونوں مرثیے 1944ءمیں لکھنؤ سے ایک ساتھ شائع ہوئے۔
قیام پاکستان کے بعد نور باغ کراچی میں سید آل رضا نے اپنا پہلا مرثیہ ”شہادت سے پہلے“ پڑھا اور اس طرح وہ پاکستان کے پہلے مرثیہ گو قرار پائے۔ کراچی کی مجالس مرثیہ خوانی کے قیام میں سید آل رضا کی سعی کو بہت زیادہ دخل ہے۔
یکم مارچ 1978ءکو سید آل رضا وفات پاگئے۔وہ کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں
سید آل رضا 10 جون 1896 ء کو قصبہ نبوتنی ضلع اناﺅ (یو، پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سید محمد رضا 1928ء میں
اودھ چیف کورٹ کے اولین پانچ ججوں میں شامل تھے ۔
سید آل رضا نے 1916ء میں کنگ کالج لکھنؤ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور 1920ءمیں الٰہ آباد سے ایل ایل بی پاس کرکے لکھنؤ میں وکالت شروع کی۔ 1921ءمیں وہ پرتاب گڑھ چلے گئے جہاں 1927ءتک پریکٹس کرتے رہے۔ 1927ءکے بعد دوبارہ لکھنومیں سکونت اختیار کی۔ تقسیم کے بعد پاکستان تشریف لے آئے اور پھر ساری عمر اسی شہر میں گزاری۔
سید آل رضا کی شاعری کا آغاز پرتاب گڑھ کے قیام کے دوران ہوا۔ 1922ءمیں انھوں نے باقاعدہ غزل گوئی شروع کی اور آرزو لکھنوی سے بذریعہ خط کتابت تلمذ حاصل کیا۔ 1929ءمیں آل رضا کی غزلوں کا پہلا مجموعہ ”نوائے رضا“ لکھنؤ سے اور 1959ءمیں دوسرا مجموعہ ”غزل معلی“ کراچی سے شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے بہت کم غزلیں کہیں اور تمام ترصلاحیتیں نوحہ و مرثیہ کے لئے وقف کردیں۔
1939ءمیں انہوں نے پہلا مرثیہ کہا جس کا عنوان تھا “شہادت سے پہلے” دوسرا مرثیہ 1942ءمیں جس کا عنوان تھا ”شہادت کے بعد“ یہ دونوں مرثیے 1944ءمیں لکھنؤ سے ایک ساتھ شائع ہوئے۔
قیام پاکستان کے بعد نور باغ کراچی میں سید آل رضا نے اپنا پہلا مرثیہ ”شہادت سے پہلے“ پڑھا اور اس طرح وہ پاکستان کے پہلے مرثیہ گو قرار پائے۔ کراچی کی مجالس مرثیہ خوانی کے قیام میں سید آل رضا کی سعی کو بہت زیادہ دخل ہے۔
یکم مارچ 1978ءکو سید آل رضا وفات پاگئے۔وہ کراچی میں علی باغ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں